سورۃ القصص: آیت 5 - ونريد أن نمن على الذين... - اردو

آیت 5 کی تفسیر, سورۃ القصص

وَنُرِيدُ أَن نَّمُنَّ عَلَى ٱلَّذِينَ ٱسْتُضْعِفُوا۟ فِى ٱلْأَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ ٱلْوَٰرِثِينَ

اردو ترجمہ

اور ہم یہ ارادہ رکھتے تھے کہ مہربانی کریں ان لوگوں پر جو زمین میں ذلیل کر کے رکھے گئے تھے اور انہیں پیشوا بنا دیں اور انہی کو وارث بنائیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wanureedu an namunna AAala allatheena istudAAifoo fee alardi wanajAAalahum aimmatan wanajAAalahumu alwaritheena

آیت 5 کی تفسیر

ونرید ان نمن علی الذین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ما کانوا یحذرون (28: 5 – 6) ”

“۔ یہ کمزور لوگ جن کو اس سرکش نے پوری طرح غلام بنا رکھا تھا ، ان کے حالات میں اپنی مرضی سے تصرف کرتا تھ ، ان کو سخت سے سخت سزائیں دیتا تھا ، ان کے لڑکوں کو ذبح کرتا تھا۔ اور لڑکیوں کو زندہ چھوڑتا تھا۔ اس تشدد اور ظلم و ستم کے باوجود وہ اپنی ذات اور اپنے اقتدار کے بارے میں ان عوام سے سخت خائف تھا۔ چناچہ اس نے ان کے خلاف خفیہ پولیس قائم کر رکھی تھی اور ان کے ہاں جو بچہ بھی پیدا ہوتا اسے رپورٹ مل جاتی اور وہ اسے مذبح خانے کو بھیج دیتا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک قصاب تھا۔ یہ مفلوک الحال مستضعفین تھے جن پر اللہ نے پناہ فضل و کرم کرنے والا تھا۔ ان کو اللہ وقت کا امام بنانا چاہتا تھا۔ دنیا کی قیادت ان کے حوالے کرنے والا تھا۔ ان کو غلامی اور اطاعت کے درجے سے نکال کر قائدانہ رول دینا چاہتا تھا کہ وہ زمین پر اقتدار کے مالک بن جائیں ۔ (بعد میں جب وہ اس کے مستحق بنے تو ایسا ہی ہوا لیکن یہ استحقاق ایمان و صلاح کی بنیاد پر تھا) وہ ثابت قدم اور قوت و شوکت کے مالک بن جائیں اور ان کے ہاتھوں وہ خطرات واقعات بن جائیں جو ان سے فرعون و ہامان اور ان کے لشکروں کا لاحق تھے اور جن کے خلاف وہ ممکن حد تک احتیاطی تدابیر اختیار کیے ہوئے تھے لیکن ان کو یہ شعور نہ تھا کہ دست قدرت سے کیا ظاہر ہونے والا ہے۔

غرض واقعات قصہ کے بیان سے بھی پہلے یہاں مقاصد قصہ بیان کر دئیے جاتے ہیں۔ موجودہ صورت حالات کو بھی قارئین کے سامنے رکھا جاتا ہے اور جو ہونے والا ہے اس کی جھلکی بھی دکھائی جاتی ہے تاکہ دونوں قوتیں باہم بالمقابل ہوں۔ ایک طرف فرعون کا ظاہری کروفر ہے جس کے بارے میں لوگوں کا خیال ہے کہ وہ جو کچھ چاہے ، کرسکتا ہے اور دوسری طرف اللہ کی وہ عظیم حقیقی قوت ہے جس کے مقابلے میں انسانی قوتوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اس کی قوت کے سامنے سب قوتیں ضعیف ، لاغر اور نیست و نابود ہونے والی ہیں۔

اس قصے کے بارے میں یہ اعلان اس سے قبل ہوجاتا ہے کہ اس کے مناظر کا آغاز کیا جائے جبکہ لوگ واقعات قصہ کے منتظر بیٹھے ہیں۔ ان کو انتظار ہے کہ اس کا انجام کیا ہوگا۔ اور جس طرح اعلان کیا گیا ہے یہ مستضعفین کس طرح اس عظیم قوت کو پاش پاش کرکے اقتدار اعلیٰ پر قابض ہوجائیں گے ۔

یوں یہ قصہ زندگی سے بھرپور ہے۔ یوں نظر آتا ہے کہ شاید اسے قرآن کریم میں سورة قصص میں پہلی بار لایا گیا اور یوں نظر آتا ہے کہ اس کے مناظر اب پیش ہو رہے ہیں۔ یہ کوئی تاریخی واقعہ نہیں ہے جو پہلے گزر چکا ہے۔ گویا واقعات اب پیش ہو رہے ہیں۔ یہ قرآن کریم کا منفرد انداز بیان ہے کہ وہ تاریخی نہیں بلکہ تمثیلی انداز میں قصص کو بیان کرتا ہے۔

اس قصے کا آغاز ہوتا ہے ، اس چیلنج کے بعد دست قدرت کے تصریحات کھلے کھلے اسکرین پر نظر آتے ہیں۔ حضرت موسیٰ کی ولادت ہوتی ہے اور جن حالات میں ہوتی ہے وہ بیان کر دئیے گئے ہیں۔ ولادت کے ساتھ ہی یہ خطرہ لاحق ہے کہ ان کی ولادت کی رپورٹ ہوجائے اور وہ فوراً موت کے منہ میں چلے جائیں ، ان کی گردن پر چھری چل پڑے اور ان کا سر زمین پر جاگرے۔

ان کی والدہ سخت پریشان ہے۔ اسے ان کی جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ ہر آن یہ خطرہ ہے کہ ان جلادوں کو اطلاع ہوجائے۔ وہ جب سوچتی ہے کہ اس معصوم کی گردن پر چھری چل رہی ہے تو وہ کانپ اٹھتی ہے ، یہ دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ اس بچے کو اٹھائے ہوئے ہے۔ اس کے پاس اس کے بجانے کی کوئی قوت نہیں ہے۔ وہ اسے چھپا بھی نہیں سکتی۔ وہ اس کی فطری آواز ، رونے کی آواز کو بھی نہیں دبا سکتی۔ کوئی حیلہ اور وسیلہ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے۔ وہ اکیلی ہے ، عاجز ہے اور مسکین ہے۔ اس نازک موقعہ پر دست قدرت حرکت میں آتا ہے ۔ اس حیران و پریشان ماں کا رابطہ عظیم قوت کے ساتھ ہوجاتا ہے۔ اسے اس حالت خوف میں ہدایت مل جاتی ہے کہ وہ کیا کرے۔ اسے یوں حکم دیا جاتا ہے۔

آیت 5 وَنُرِیْدُ اَنْ نَّمُنَّ عَلَی الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِی الْاَرْضِ ”یعنی ہم نے بنی اسرائیل کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا جنہیں مصر میں مسلسل ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جا رہا تھا۔

آیت 5 - سورۃ القصص: (ونريد أن نمن على الذين استضعفوا في الأرض ونجعلهم أئمة ونجعلهم الوارثين...) - اردو