سورۃ القصص: آیت 4 - إن فرعون علا في الأرض... - اردو

آیت 4 کی تفسیر, سورۃ القصص

إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِى ٱلْأَرْضِ وَجَعَلَ أَهْلَهَا شِيَعًا يَسْتَضْعِفُ طَآئِفَةً مِّنْهُمْ يُذَبِّحُ أَبْنَآءَهُمْ وَيَسْتَحْىِۦ نِسَآءَهُمْ ۚ إِنَّهُۥ كَانَ مِنَ ٱلْمُفْسِدِينَ

اردو ترجمہ

واقعہ یہ ہے کہ فرعون نے زمین میں سرکشی کی اور اس کے باشندوں کو گروہوں میں تقسیم کر دیا ان میں سے ایک گروہ کو وہ ذلیل کرتا تھا، اس کے لڑکوں کو قتل کرتا اور اس کی لڑکیوں کو جیتا رہنے دیتا تھا فی الواقع وہ مفسد لوگوں میں سے تھا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna firAAawna AAala fee alardi wajaAAala ahlaha shiyaAAan yastadAAifu taifatan minhum yuthabbihu abnaahum wayastahyee nisaahum innahu kana mina almufsideena

آیت 4 کی تفسیر

ونری فرعون ۔۔۔۔۔ کانوا یحذرون (28: 6) ”“۔ جس طرح پورے قرآن میں قرآن کریم کا انداز بیان قصص ہوتا ہے ۔ قصہ فرعون و کلیم کو بھی یہاں مناظر کی شکل میں لایا گیا ہے۔ ان مناظر کے درمیان ان کڑیوں کو حذف کردیا گیا ہے۔ جن کو انسان کی قوت متحیلہ خود بخود نظروں کے سامنے لے آتی ہے ، لہٰذا دو مناظر کے درمیان جو کڑیاں ترک کردی جاتی ہیں۔ ان کے بارے میں انسان لاعلم نہیں رہتا ، بلکہ انسان کی قوت متحیلہ پر دہ خیال پر ان واقعات کو لے آتی ہے۔ یوں ظاہری اسکرین کے ساتھ ساتھ پردہ خیال پر بھی مناظر آتے اور جاتے رہتے ہیں۔

اس قصے کا پہلا حصہ پانچ مناظر ، دوسرا نو مناظر ، تیسرا حصہ چار مناظر پر مشتمل ہے۔ اور ان مناظر اور ٹکڑوں کے درمیان ایک خلا ہے ، کہیں یہ گیپ بڑا ہے اور کہیں چھوٹا ہے۔ جس طرح پردہ گرتا ہے اور منظر آنکھوں سے غائب ہوجاتا ہے اور خیال کی اسکرین پر مناظر آنا شروع ہوجاتے ہیں۔

قصہ کے آغاز سے بھی پہلے اس فضا کی تصویر کشی کی جاتی ہے جس کے اندر واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ وہ حالات جن میں یہ قصہ واقع ہوا اور وہ مقاصد جن کے لیے دست قدرت نے یہ واقعات رونما کئے اور پھر وہ مقاصد جن کے لئے یہاں اس قصے کو دہرایا جا رہا ہے۔ یہ بھی قرآن کا ایک اسلوب ہے جو وہ قصہ پیش کرتے وقت اختیار کرتا ہے۔

ان فرعون علا فی الارض ۔۔۔۔۔۔۔ ما کانوا یحذرون (4 – 6)

واقعہ یہ ہے کہ فرعون نے زمین میں سرکشی کی اور اس کے باشندوں کو گروہوں میں تقسیم کردیا۔ ان میں سے ایک گروہ کو وہ ذلیل کرتا تھا ، اس کے لڑکوں کو قتل کرتا اور اس کی لڑکیوں کو جیتا رہنے دیتا تھا۔ فی الواقع وہ مفسد لوگوں میں سے تھا۔ اور ہم یہ ارادہ رکھتے تھے کہ مہربانی کریں ان لوگوں پر جو زمین میں ذلیل کرکے رکھے گئے تھے اور انہیں پیشوا بنا دیں اور انہیں کو وارث بنائیں اور زمین میں ان کو اقتدار بخشیں اور ان سے فرعون و ہامان اور ان کے لشکروں کو وہی کچھ دکھلا دیں جس کا انہیں ڈر تھا “۔

یہ ہے وہ اسٹیج جس پر یہ واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ اس ماحول کو وہ ذات بیان کر رہی ہے جو ان واقعات کو رونما کرا رہی ہے اور ساتھ ساتھ یہ بھی بتا دیتی ہے کہ ہم نے کیوں ایسا کیا اور یہ بھی صراحت کی کہ یہ ہم ہیں جو ایسا کر رہے ہیں۔ اور اس لیے کر رہے ہیں۔ ” واقعات۔ قصہ “ کے آغاز ہی میں صاف صاف بنا دیا جاتا ہے ہم ایسا کیوں کر رہے ہیں۔ قصے کا ہدف واضح طور پر ہمارے سامنے رکھ دیا جاتا ہے۔ چناچہ اس عجیب انداز میں یہاں اس قصے کا آغاز ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ انداز اس کتاب کے عجائبات میں سے ہے۔

یہاں فراعنہ مصر میں سے اس فرعون کا نام نہیں لیا جاتا جس کے عہد میں یہ واقعات رونما ہوئے کیونکہ واقعات کا خالص تاریخی پہلو متعین کرنا مقاصد قرآن میں سے نہیں ہے۔ نہ اس سے اس علم و حکمت میں کوئی اضافہ ہوتا ہے جو قرآن کریم اہل ایمان کو سکھانا چاہتا ہے۔ یہ کافی ہے کہ حضرت یوسف کے زمانہ مصر کے بعد یہ واقعات رونما ہوئے کیونکہ حضرت یوسف کے والدین اور بھائیوں کی مصر منتقلی کے ساتھ بنی اسرائیل کی مصر منتقلی شروع ہوئی اور یہاں وہ پھلے پھولے۔ حضرت یوسف کے دور کے بعد سرکش فرعون نے مصر کا اقتدار اعلیٰ حاصل کیا۔ یہ بڑا جبار وقہار تھا۔ اس نے مصر میں طبقاتی نظام جاری کردیا تھا۔ ہر طبقے کے فرائض متعین کر دئیے تھے اور بنی اسرائیل پر اس دور میں بےحد مظالم ہو رہے تھے ۔ کیونکہ بنی اسرائیل کے عقائد و نظریات مصریوں کے عقائد و نظریات سے بالکل جدا تھے۔ بنی اسرائیل اپنے دادا حضرت ابراہیم کے دین پر تھے۔ اگرچہ ان کے عقائد میں تغیر و انحراف واقع ہوگیا تھا لیکن دین کا بنیادی ڈھانچہ وہی تھا۔ وہ عقیدہ توحید کے قائل تھے۔ فرعون کی الوہیت کے منکر تھے۔ اس طرح فراعنہ جن بتوں کی پرستش کرتے تھے۔ بنی اسرائیل ان کے قائل نہ تھے۔

فرعون کو یہ خوف لاحق تھا کہ بنی اسرائیل مصر میں ، اپنے خیالات کی وجہ سے اس کے تاج و تخت کے لیے خطرہ ہیں۔ وہ مصر سے ان کو یکلخت نکال بھی نہ سکتا تھا۔ کیونکہ وہ لاکھوں کی تعداد میں تھے نیز اس صورت میں فرعون کو یہ خطرہ لاحق تھا کہ اگر اس قدر عظیم آبادی کو یکبارگی مصر سے نکال دیا جائے تو وہ دشمن مجاور اقوام سے مل کر مصر پر حملہ آر ہوجائیں گے ۔ اس لیے اس نے اس قوم کو نیست و نابود کرنے کے لیے نہایت ہی وحشیانہ طریقہ نکالا کہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔ یہ لوگ نہ فرعون کو مانتے ہیں اور نہ اس کی خدائی کے قائل ہیں ، اس لیے اس نے اس قوم کو سخت ترین مشقت کے سپرد کردیا ، ان کو ہر طرح ذلیل کرکے رکھا ، اور ان پر قسم قسم کے مصائب ڈھانے لگا۔ آخر کار اس نے یہ انتہائی فیصلہ کیا کہ ان کے تمام پیدا ہونے والے لڑکوں کو ذبح کردیا جائے اور لڑکیوں کو زندہ رکھا جائے تاکہ ان کی آبادی میں اضافہ بالکل ختم ہوجائے۔ مرد زیادہ نہ ہوں اس طرح کی عورتوں کی کثرت اور مردوں کی کمی کی وجہ سے ان کی قوت ٹوٹ جائے گی اور یہ لوگ اس سخت عذاب اور ظلم کی وجہ سے دبا کر بھی رکھے جاسکیں گے۔

روایات میں آتا ہے کہ اس نے تمام حاملہ عورتوں کے لیے دائیاں مقرر کر رکھی تھیں جو ہر پیدا ہونے والے بچے کے بارے میں فوراً رپورٹ کرتی تھیں اور اور بچے کو فوراً ٹھکانے لگا دیا جاتا تھا۔ اور اس سنگدلانہ منصوبے پر عمل کرنے میں کوئی رو رعایت نہ برتی جاتی تھی۔ فرعون کا یہ اس قدر ظالمانہ منصوبہ تھا کہ بےگناہ بچوں کو یوں ذبح کرنے کے تصور ہی سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ان حالات میں حضرت موسیٰ کا قصہ یوں ان کی ولادت سے شروع ہوتا ہے۔ جیسا کہ قرآن میں ہے :

ان فرعون علا ۔۔۔۔۔۔ من المفسدین (28: 4) ” واقعہ یہ ہے کہ فرعون نے زمین میں سرکشی کی اور اس کے باشندوں کو گروہوں میں تقسیم کردیا۔ ان میں سے ایک گروہ کو وہ ذلیل کرتا تھا ۔ اس کے لڑکوں کو قتل کرتا اور اس کی لڑکیوں کو جیتا رہنے دیتا۔ فی الواقع وہ مفسد لوگوں میں سے تھا “۔

لیکن اللہ کا ارادہ اور منصوبہ فرعون کے منصوبے سے مختلف تھا۔ اللہ کا فیصلہ سرکش فرعون کے فیصلے سے جدا تھا۔ ہمیشہ یوں ہوتا ہے کہ ظالم اور سرکش اپنی قوت اور تدابیر پر مست ہوتے ہیں ، وہ اللہ کے فیصلوں اور قدرتوں کو بھلا دیتے ہیں۔ وہ یوں سوچتے ہیں کہ یہ لوگ جو سوچیں گے نتائج ویسے ہی ہوں گے۔ یہ لوگ اپنے دشمنوں کے لیے ان کا انجام خود متعین کرتے ہیں اور یہ گمان کرتے ہیں کہ حالات کے نتائج ان کے اندازوں کے مطابق ہی ہوں گے۔ اللہ یہاں اپنے ارادے کا اعلان کرتا ہے کہ ہم یہ چاہتے ہیں ہماری تقدیر یہ ہے۔ یہاں فرعون ، ہامان اور ان کے لشکروں کو متنبہ کردیا جاتا ہے کہ تم جو تدابیر اختیار کر رہے ہو وہ تمہارے لیے مفید مطلب نہ ہوں گی۔

وَجَعَلَ اَہْلَہَا شِیَعًا ”فرعون نے مصر کے عوام کو دو طبقوں میں تقسیم کر رکھا تھا۔ ایک طبقہ حاکم تھا اور دوسرا محکوم۔ یعنی قبطی قوم حاکم تھی جبکہ بنی اسرائیل ان کے محکوم تھے۔یَّسْتَضْعِفُ طَآءِفَۃً مِّنْہُمْ ”بنی اسرائیل کو اس نے محکومی اور غلامی کے شکنجے میں جکڑ رکھا تھا اور ان پر وہ بہت سختی کا برتاؤ کرتا تھا۔

آیت 4 - سورۃ القصص: (إن فرعون علا في الأرض وجعل أهلها شيعا يستضعف طائفة منهم يذبح أبناءهم ويستحيي نساءهم ۚ إنه كان من المفسدين...) - اردو