سورۃ القمر: آیت 3 - وكذبوا واتبعوا أهواءهم ۚ وكل... - اردو

آیت 3 کی تفسیر, سورۃ القمر

وَكَذَّبُوا۟ وَٱتَّبَعُوٓا۟ أَهْوَآءَهُمْ ۚ وَكُلُّ أَمْرٍ مُّسْتَقِرٌّ

اردو ترجمہ

اِنہوں نے (اس کو بھی) جھٹلا دیا اور اپنی خواہشات نفس ہی کی پیروی کی ہر معاملہ کو آخر کار ایک انجام پر پہنچ کر رہنا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wakaththaboo waittabaAAoo ahwaahum wakullu amrin mustaqirrun

آیت 3 کی تفسیر

وکل امر مستقر (54: 3) ” ہر معاملہ کو آخر کار ایک انجام پر پہنچ کر رہنا ہے “ اس عظیم کائنات میں ہر چیز اپنے مقام پر رکھی ہوتی ہے اور وہ اپنی جگہ پر پختہ ہے۔ نہ ہلتی ہے اور نہ اس کے اندر اضطراب ہے۔ اس کائنات کا ہر معاملہ ثبات وقرار پر مبنی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ بدلتی ہوئی خواہشات کے مطابق اصول بھی بدلتے ہیں اور بادشاہوں کی ھنازک مزاجیوں کی طرح اصول اور قوانین بھی بدل جاتے ہیں۔ یوں بھی نہیں ہے کہ یہاں معاملات بخت واتفاق کے مطابق طے ہوتے ہیں۔ ہر چیز اپنی جگہ اور اپنے زمان اور وقت پر رونما ہوتی ہے۔ انسان کو دیکھنا چاہئے کہ اس کے ماحول میں زمان ومکان میں ، واقعات وحادثات میں ایک ترتیب ہے اور یہ ترتیب اور اصول ہر چیز میں نظر آتا ہے۔ آسمانوں کی گردش میں ، زندگی کے طریقوں میں ، حیوانات اور نباتات کے بڑھنے میں ، تمام اشیاء اور مواد میں بلکہ خود ان کے جسم کے وظائف وفرائض میں ان کے اعضا کی کارکردگی میں ایک ترتیب ہے اور ان کو ان چیزوں پر کوئی کنٹرول حاصل نہیں ہے۔ یہ قیامت وقرار ان کو گھیرے ہوئے ہے اور ان کے گرد تمام اشیاء کو بھی اپنے لپیٹ میں لئے ہوئے ہے اور ان کے آگے اور پیچھے ہر طرف نظر آتا ہے ، صرف یہ انسان ہیں کہ یہ مضطرب ہیں اور اپنی خواہشات کے مطابق کبھی ادھر جاتے ہیں اور کبھی ادھر۔

آیت 3 { وَکَذَّبُوْا وَاتَّبَعُوْٓا اَہْوَآئَ ہُمْ } ”اور انہوں نے تکذیب کی اور اپنی خواہشات کی پیروی کی“ { وَکُلُّ اَمْرٍ مُّسْتَقِرٌّ۔ } ”اور اللہ کا ہر امر ایک وقت ِمعین کے لیے قرار پا چکا ہے۔“ اللہ تعالیٰ کی منصوبہ بندی میں ہر کام کے لیے ایک وقت مقرر ہے۔ کوئی کام اللہ کے طے شدہ وقت سے نہ تو پہلے انجام پاسکتا ہے اور نہ ہی اس سے موخر ہوسکتا ہے۔ انسان کا کام ہے کہ وہ کوشش کرتا رہے اور نتائج اللہ پر چھوڑ دے۔ جیسے یہ طے شدہ امر ہے کہ اللہ کے دین کا غلبہ دنیا میں ہو کر رہے گا ‘ مگر اللہ کی مشیت میں اس کے لیے کون سا وقت مقرر ہے ہم اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ چناچہ ہمیں چاہیے کہ ہم اقامت دین کی جدوجہد کو فرضِ عین اور اپنی اخروی نجات کا ذریعہ سمجھتے ہوئے اس میں اپنا تن من دھن لگانے کے لیے ہر وقت کمربستہ رہیں۔ سیرت ِنبوی ﷺ سے اس جدوجہد کے منہج کو سمجھیں ‘ اس کے آداب سیکھیں ‘ اس کی شرائط معلوم کریں اور پورے خلوص نیت کے ساتھ اس کے لیے محنت کریں۔ اس محنت اور جدوجہد کے دوران ہمیں نتائج کی فکر نہیں کرنی چاہیے۔ ہمیں تو یہ محنت اللہ کی رضا کے لیے کرنی ہے۔ اگر ہماری اس محنت کے نتائج ہماری زندگیوں میں ظاہر نہیں ہوتے تو کوئی پروا نہیں ‘ ہم دین کو غالب کرنے کے مکلف نہیں ‘ ہم تو صرف اس کے لیے جدوجہد کرنے کے مکلف ہیں۔ اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانا اللہ کے ذمے ہے۔ اگر ہم نے اپنی اپنی استطاعت کے مطابق خلوص نیت سے اس راستے میں محنت کی تو اللہ تعالیٰ کے ہاں ہم ضرور سرخرو ہوں گے۔ اس فلسفے کو اچھی طرح سے نہ سمجھنے کی وجہ سے اقامت دین کی جدوجہد میں لوگ غلطیاں کرتے ہیں۔ جب ان کی جدوجہد کے خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آتے تو وہ عجلت اور بےصبری کا مظاہرہ کرتے ہیں اور مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لیے الٹے سیدھے طریقے اپناتے ہیں۔ ایسی ہی غلطیوں سے تحریکیں غلط راستوں پر چل پڑتی ہیں اور اس وجہ سے دین الٹا بدنام ہوتا ہے۔ اس حوالے سے ایک بہت اہم نکتہ یہ بھی لائق توجہ ہے کہ اقامت ِ دین کی جدوجہد کے دوران غور و فکر کا دروازہ ہمیشہ کھلا رکھنا چاہیے۔ حضور ﷺ کے بعد اب نہ تو کوئی شخصیت معصوم عن الخطا ہے اور نہ ہی کسی کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے براہ راست راہنمائی مل سکتی ہے۔ ظاہر ہے اب یہ کام اجتہاد اور غور و فکر سے ہی چلنا ہے اور اجتہاد میں غلطی کا ہر وقت امکان رہتا ہے۔ چناچہ انفرادی و اجتماعی سطح پر انسانوں سے غلطیاں سرزد ہونے کے امکان کے پیش نظر فیصلوں پر نظر ثانی کی گنجائش بھی رکھنی چاہیے اور اس کے لیے ذہنی طور پر ہر وقت تیار بھی رہنا چاہیے۔

آیت 3 - سورۃ القمر: (وكذبوا واتبعوا أهواءهم ۚ وكل أمر مستقر...) - اردو