سورۃ القمر: آیت 1 - اقتربت الساعة وانشق القمر... - اردو

آیت 1 کی تفسیر, سورۃ القمر

ٱقْتَرَبَتِ ٱلسَّاعَةُ وَٱنشَقَّ ٱلْقَمَرُ

اردو ترجمہ

قیامت کی گھڑی قریب آ گئی اور چاند پھٹ گیا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Iqtarabati alssaAAatu wainshaqqa alqamaru

آیت 1 کی تفسیر

یہ ایک خوبصورت اور آنکھیں چندھیا دینے والا منظر ہے جس میں ایک عظیم کائناتی حادثہ دکھایا گیا ہے اور یہ اس سے بھی عظیم تر حادثہ کی تمہید ہے۔

اقتربت…………القمر (54: 1) ” قیامت کی گھڑی قریب آگئی اور چاند ٹکڑے ہوگیا “ امام بخاری نے روایت کی عبداللہ ابن عبدالوہاب سے انہوں نے بشر ابن مفضل سعید ابن ابوعروہ سے انہوں نے قتادہ سے انہوں نے انس ابن مالک سے وہ کہتے ہیں ” اہل مکہ نے رسول ﷺ سے مطالبہ کیا کہ آپ کوئی معجزہ دکھائیں۔ تو آپ نے ان کو دکھایا کہ چاند دو ٹکڑے ہوگیا اور دونوں کے درمیان حرا تھا۔ “ اس روایت کو بخاری اور مسلم نے دوسری اسناد سے بھی قتادہ اور حضرت انس ؓ سے روایت کی ہے حضرت جبیر بن مطعم کی روایت امام احمد نے محمد ابن کثیر سے کی ہے۔ انہوں نے سلیمان ابن کثیر سے انہوں نے حصین ابن عبدالرحمن سے ، انہوں نے محمد ابن جیرابن مطعم سے ، انہوں نے اپنے والد حضرت جبیر بن مطعم سے۔ وہ کہتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں چاند دو ٹکڑے ہوگیا۔ ایک ٹکڑا ایک پہاڑ پر نظر آتا تھا اور دوسرا اس پہاڑ پر تو کفار نے کہا محمد ﷺ نے ہم پر جادو کردیا ہے۔ اگر اس نے ہم پر جادو کیا ہے تو یہ دنیا کے سب انسانوں پر تو جادو نہیں کرسکتا۔ یہ روایت اس طریقے سے صرف امام احمد ہی نے کی ہے۔ امام بیہقی نے اپنی کتاب الدلائل میں بواسطہ محمد ابن کثیر ، اس کے بھائی سلیمان ابن کثیر سے ، اور انہوں نے حصین ابن عبدالرحمان سے روایت کی ہے اور ابن جریر اور بیہقی نے دوسرے طریقوں اور سندوں کے ساتھ حضرت جبیر بن مطعم ؓ سے نقل کی ہے۔

حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ کی روایت امام بخاری نے روایت کی۔ یحییٰ ابن کثیر سے انہوں نے بکر سے ، انہوں نے جعفر سے ، انہوں نے عراک ابن مالک سے ، انہوں نے عبید اللہ ابن عبداللہ ابن عتبہ سے ، انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے وہ کہتے ہیں حضور اکرم کے زمانے میں چاند کے دو ٹکڑے ہونے کا واقعہ پیش آیا۔ “ امام بخاری نے اور امام مسلم نے ایک سابقہ سند کے ذریعہ بواسطہ عراک ابن عباس سے روایت کی اور امام ابن جریر نے ایک دوسری سند سے بواسطہ علی ابن ابو طلحہ ، حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کی۔ یہ اس طرح ہوا کہ ہجرت سے قبل چاند پھٹ گیا یہاں تک کہ لوگوں نے دیکھا کہ وہ دو ٹکڑے ہے۔ عوفی نے بھی حضرت ابن عباس ؓ سے اسی طرح نقل کیا۔ طبرانی نے ایک دوسری سند سے بواسطہ مکرمہ ، حضرت ابن عباس ؓ روایت کی۔ انہوں نے فرمایا رسول اللہ کے زمانے میں چاند تاریک ہوگیا تھا۔ “ تو اہل مکہ نے کہا…. محمد ﷺ نے چاند پر بھی جادو کردیا ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

اقتربت…………مستمر (54: 2) حضرت عبداللہ بن عمر کی روایت۔ حافظ ابوبکر بیہقی کہتے ہیں ابوعبداللہ الحافظ اور احمد ابن الحسن قاضی نے جروی سے روایت کی دونوں نے ، ابو العباس اصم سے ، انہوں نے عباس ابن محمد دوری سے ، انہوں نے وھب ابن جریرے انہوں نے شعبہ سے ، انہوں نے اعمش سے ، انہوں نے مجاہد سے ، اور انہوں نے عبداللہ ابن عمر ؓ سے ، اس آیت کی تفسیر میں۔

اقتربت…………القمر (54: 1) کہتے ہیں کہ یہ رسول اللہ کے زمانے میں ہوا تھا۔ یہ دو ٹکڑے ہوا تھا ایک پہاڑ سے پیچھے تھا اور ایک آگے تھا۔ “ اس پر نبی ﷺ نے فرمایا۔

اللھم اشھد (اے اللہ…. گواہ رہنا) اس طرح اس روایت کو مسلم اور ترمذی نے شعبہ سے انہوں نے اعمش سے اور انہوں نے مجاہد سے نقل کیا ہے ۔

عبداللہ ابن مسعود ؓ کی روایت امام احمد فرماتے ہیں۔ روایت کی سفیان ابن ابونحبیح نے ، مجاہد سے ، انہوں نے ابو معمر سے ، انہوں نے حضرت ابن مسعود ؓ سے وہ فرماتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں چاند دو ٹکڑے ہوگیا۔ کفار نے اچھی طرح اسے دیکھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اشہدوا (گواہ رہو) امام بخاری اور امام مسلم نے سفیان ابن عینیہ سے یہی روایت کی ہے اور انہوں نے اعمش سے انہوں نے ابراہیم سے ، انہوں نے ابو معمر عبداللہ ابن سخیرہ سے ، انہوں نے حضرت ابن مسعود ؓ سے ، امام بخاری کہتے ہیں کہ امام ابو داؤد طیالسی نے یہ روایت کی ، ابوعوانہ سے انہوں نے مغیرہ سے انہوں نے ابو الضحی سے ، انہوں نے مسروق سے ، انہوں نے حضرت عبداللہ ابن مسعود ؓ سے انہوں نے فرمایا رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں چاند دو ٹکڑے ہوگیا۔ قریش نے کہا یہ ابن ابو کبثہ کا جادو ہے۔ کہتے ہیں کہ لوگوں نے کہا دیکھو جو لوگ سفر پر ہیں وہ آجائیں کیونکہ محمد ﷺ پوری دنیا کے لوگوں پر تو جادو نہیں کرسکتا چناچہ اس کے بعد جو سفر پر تھے وہ آئے اور انہوں نے بھی اس کی تصدیق کی۔ امام بیہقی نے دوسرے طریقوں سے بھی اسے روایت کیا ہے مسروق سے ، انہوں نے عبداللہ ابن مسعود سے ، مفہوم اسی سے ملتا جلتا ہے۔

یہ ہیں متواتر روایات مختلف اسناد اور طریق سے کہ یہ واقعہ ہوا اور مکہ میں اس کی جگہ بھی بتادی گئی۔ ماسوائے ایک روایت کے جس میں منبی کا ذکر ہے باقی روایات مکہ کے بارے میں ہیں۔ حضور کے زمانے میں یہ واقعہ پیش آیا اور ہجرت سے قبل پیش آیا۔ اکثر روایات میں آتا ہے کہ یہ دو ٹکڑے ہوگیا اور یہ ایک روایت میں آتا ہے کہ یہ چاند گرہن ہوگیا تھا۔ بہرحال واقعہ جو بھی ہو روایات سے ثابت ہے اور روایات زمان ومکان کی تحدید بھی کرتی ہیں اور شق قمر کی ہیئت کا تعین بھی کرتی ہیں۔

یہ ایسا واقعہ تھا کہ قرآن کریم نے اسے بطور دلیل قیامت مشرکین کے سامنے پیش کیا۔ کوئی ایسی روایت مشرکین سے منقول نہیں ہے کہ انہوں نے نفس واقعہ کا انکار کیا ہو۔ لہٰذا یہ واعقہ اسی طرح ہوا ہوگا اور اس قدر لوگوں نے دیکھا ہوگا کہ ان کے لئے نفس واقعہ کو جھٹلانا ممکن نہ رہا ہوگا۔ اگرچہ بطور کبر اور غرور ہو۔ اگر ان کے لئے اس کی تکذیب کی کوئی بھی صورت ہوتی تو وہ ضرور کرتے۔ کفار سے جو روایات اور تبصرے منقول ہیں وہ یہ ہیں کہ محمد ﷺ نے جادو کردیا ہے لیکن خود ان میں سے دانشمند لوگوں نے کہا۔ ذرا تحقیق کرو اور مسافروں سے تحقیق کرنے کے بعد ان کو معلوم ہوگیا کہ یہ جھوٹ نہیں ہے کیونکہ اگر اہل مکہ کو محمد ﷺ مسحور کرسکتے تو وہ پوری دنیا کو تو مسحور نہیں کرسکتے اور جب انہوں نے مسافروں سے پوچھا جو مکہ کے باہر سے آئے تھے تو انہوں نے بھی تصدیق کی۔

اب بات یہ رہ گئی کہ آیا مشرکین نے رسول اللہ ﷺ سے کسی نشانی کا مطالبہ کیا تھا۔ اس کے جواب میں شق قمر کا معجزہ رونما ہوگیا۔ یہ روایت دراصل قرآن کی نص صریح سے متصادم ہے۔ مدلول یہ ہے کہ نبی ﷺ کو ویسے معجزات نہیں دیئے گئے جس طرح انبیائے سابق کو دیئے گئے تھے اور اس کا ایک متعین اور خاص سبب تھا۔

وما …………الاولون ” اور ہم کو نشانیاں بھیجنے سے نہیں روکا مگر اس بات نے کہ ان سے پہلے کے لوگ انہیں جھٹلا چکے ہیں “ مطلب یہ ہے کہ اللہ کا یہ فیصلہ ہے کہ حضور کو وہ معجزات نہیں دیئے گئے جن کا مطالبہ ہوا تھا۔

کفار نے جب بھی حضور ﷺ سے معجزات کا مطالبہ کیا ہے تو جواب یہی دیا گیا کہ معجزات پیش کرنا آپ کے فرائض میں شامل نہیں ہے اور یہ کہ محمد ﷺ تو ایک بشر اور رسول ہیں اور ہر جگہ صرف قرآن کریم ہی کو آپ کے لئے معجزہ قرار دیا گیا اور اسی جیسی کوئی سورت یا کتاب لانے کا چیلنج دیا گیا۔

قل لئن……………. رسولا (39) (71 : 88 تا 39) ” کہہ دو کہ اگر انسان اور جن سب کے سب مل کر اس قرآن جیسی کوئی چیز لانے کی کوشش کریں تو نہ لاسکیں گے چاہے وہ سب ایک دوسرے کے مددگار ہی کیوں نہ ہوں۔ ہم نے اس قرآن میں لوگوں کو طرح طرح سے سمجھایا مگر اکثر لوگ انکار ہی پر جمے رہے اور انہوں نے کہا ” ہم تیری بات نہ مانیں گے جب تک تو ہمارے لئے زمین کو پھاڑ کر ایک چشمہ نہ جاری کردے یا تیرے لئے کھجوروں اور انگوروں کا قاغ پیدا ہو اور تو اس میں نہریں رواں کردے یا تو آسمان کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے ہمارے اوپر گرادے جیسا کہ تیرا دعویٰ ہے یا خدا اور فرشتوں کو رودررو ہمارے سامنے لے آئے یا تیرے لئے سونے کا ایک گھر بن جائے یا تو آسمان پر چڑھ جائے اور تیرے جڑھنے کا بھی ہم یقین نہ کریں گے جب تک تو ہمارے اوپر ایک ایسی تحریر نہ اتار لائے جسے ہم پڑھیں۔ “ اے نبی ان سے کہو ” پاک ہے میرا پروردگار کیا میں ایک پیغام لانے والے انسان کے سوا اور بھی کچھ ہوں “ لہٰذا یہ کہنا کہ شق قمر کا معجزہ کفار کے مطالبہ کے جواب میں آیا تھا ، قرآن مجید کی متعدد نصوص کے بھی خلاف ہے اور اس رجحان کے بھی خلاف ہے کہ اس دنیا میں آخری رسالت انسانیت کے سامنے صرف قرآن پیش کرے اور یہ کہ قرآن کا اعجاز ہی اس کا معجزہ ہو اور قرآن کے ذریعہ انسان کے دل و دماغ کو ان آیات ومعجزات کی طرف متوجہ کیا جائے جو انفس میں موجود ہیں جو آفاق میں بکثرت موجود ہیں اور جو انسانی تاریخ میں بکثرت ہیں اور سخت عبرت آموز بھی ہیں۔ باقی نبی ﷺ کے ہاتھ پر جو معجزات صادر ہوئے اور جن کی تصدیق صحیح روایات نے کی ہے تو وہ بطور اعزاز نبی ﷺ کو دیئے گئے بطور دلائل نبوت نہیں دیئے گئے تھے۔

یہی وجہ ہے کہ معجزہ شق قمر صادر ہوا۔ نص قرآنی نے اس کی تصدیق کی ہے۔ روایات متواترہ میں اس کی تصدیق ہوئی اور جس جگہ اور جس زمانے میں صادر ہوا اس کا بھی تعین ہوگیا اور جس انداز میں ہوا اس کی تفصیلات بھی موجود ہیں لیکن جن روایات میں اس کی علت بیان کی گئی ہے اس کے بارے میں ہم خاموشی اختیار کرتے ہیں۔ بس یہی کہتے ہیں کہ شق قمر دلالت کرتا ہے قرب قیامت پر اور اسی میں ہمارے لئے عبرت ہے کہ ہم چوکنے ہوجائیں۔ جاگیں اور اس کی تیاری کریں اس عظیم گھڑی کی۔ لہٰذا شق قمر ایک کائناتی معجزہ تھا اور قرآن نے انسانوں کو اس کی طرف متوجہ کیا ہے جس طرح قرآن مجید دوسرے تکوینی معجزات کی طرف متوجہ کرتا ہے اور جس طرح دوسرے معجزات کے مقابلے میں ان کا رویہ قابل تعجب ہے۔ اسی طرح اس معجزے سے بھی انہوں نے کوئی فائدہ نہ اٹھایا۔

خارق عادت معجزات ، انسانیت کے ابتدائی دور ہیں۔ بیشک انسانوں کو متاثر کرتے تھے جس دور میں انسانیت نے اس قدر علمی ترقی نہ کی تھی کہ وہ اس کائنات میں قائم اور بکھرے ہوئے معجزات کو سمجھ سکیں اور ان سے متاثر ہوں۔ گزرے ہوئے نبیوں کے ہاتھوں جن معجزات کا صدور ہوا اور انسانیت ان سے متاثر ہوئی تو یہ اس دور کی بات ہے جب انسانیت عقلی بلوغ کے درجے کہ نہ پہنچی تھی لیکن آج اس کائنات میں ایسے ایسے معجزات انسانیت کو معلوم ہوچکے ہیں جو ان معجزات سے بڑے معجزات ہیں۔ اگر چہان لوگوں کو وہ متاثر نہیں کرتے جو وہی ابلدائی احساسات رکھتے ہیں اور جو عقلی بلوغ کے درجے تک نہیں پہنچے۔

فرض کیجئے کہ چاند کا دو ٹکڑے ہونا معجزہ تھا تو چاند بذات خود بھی تو ایک معجزہ ہے۔ یہ سیارہ اپنے اس حجم ، موجودہ وضع ، شکل ، طبیعت ، گردش کی منازل ، دورے ، اس کے آثار ، زمین کی زندگی پر اس کے اثرات اور فضا میں اس کا اس طرح تیرنا بغیر کسی سہارے کے کیا یہ ایک عظیم معجزہ نہیں ہے جو ہر وقت قائم اور دائم اور ہمارے مشاہدے میں ہے اور ہم اس کے بارے میں ہر وقت سوچ سکتے ہیں۔ اس سے اثر لیتے ہیں۔ کیا قدرت الٰہیہ پر اس سے بڑی اور کوئی دلیل چاہئے۔ کون ہے جو نفس چاند کے معجزے سے انکار کرسکتا ہے۔ ماسوائے اس شخص کے جو ہٹ دھرم اور ضدی ہو۔

قرآن نے تو انسان کو اس کائنات کے سامنے کھڑا کردیا اور یہ مشاہدہ کرایا کہ اس کائنات کے اندر عظیم معجزات ہر وقت قائم اور دائم ہیں۔ قرآن انسان کو ان معجزات کے ساتھ دائما جوڑنا چاہتا ہے۔ یہ نہیں کہ شق قمر کی طرح کوئی چیز ہزارہا سال میں ایک بار دکھا دی جائے اور اس کو بھی ایک ہی زمانے کے لوگ دیکھ لیں۔ قرآن کہتا ہے کہ دیکھو اس کائنات کو اگر دیدہ عبرت نگاہ رکھتے ہو۔

یہ پوری کائنات معجزات کا ایک منظر نامہ ہے۔ جو آنکھوں کے سامنے رہتا ہے غائب نہیں ہوتا اور یہ سب معجزے دیکھو اور دیکھتے چلے جاؤ۔ اس میں چھوٹے معجزات بھی ہیں اور بڑے بھی اور یہ معجزات شہادت دے رہے ہیں۔ ان کی شہادت سنو۔ یہ عجیب شہادت ہے اسے ریکارڈ کرو۔ یہ نہایت ہی خوبصورت شہادت ہے اس میں جمال بھی ہے اور کمال بھی ہے اور یہ تو انسان کو نہ صرف یہ کہ فیصلے پر پہنچاتی ہے بلکہ دہشت زدہ اور ششدر کردیتی ہے اور اس کے نتیجے میں بہت ہی پختہ ایمان پیدا ہوتا ہے۔ نہایت گہرا اور سنجیدہ۔

اس سورت کے آغاز میں یہ اشارہ آتا ہے کہ قیامت قریب آگئی ہے اور چاند دو ٹکڑے ہوگیا ہے جس سے انسان پر گہرا اثر پڑتا ہے کیونکہ قیام قیامت اور چاند کا ٹکڑے ہونا بہت ہی بڑے واقعات ہیں۔ قرآن بتاتا ہے کہ تم نے یہ ایک عظیم حادثہ تو دیکھ ہی لیا ہے اسی طرح قیام قیامت بھی ہوگا۔

شق قمر کے بعد صرف قیامت کے بارے میں امام احمد نے روایت کی ہے حسین سے ، انہوں نے محمد ابن مطوف سے ، انہوں نے ابو حازم سے ، اور انہوں نے حضرت سہیل ابن سعد سے وہ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ” میں اور قیامت اس طرح ساتھ ساتھ بھیجے گئے ہیں۔ “ آپ نے درمیان انگلی اور سبابہ کو جوڑ کر اشاہ کیا (متفق علیہ)

باوجود اس حقیقت کہ قیامت کی گھڑی قریب آلگی ہے اور نہایت ہی اثر انگیز واقعہ بھی انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے اور مختلف شکلوں میں انہوں نے اللہ کی نشانیاں بھی دیکھ لی ہیں لیکن ان لوگوں کے دلوں میں عناد کوٹ کوٹ بھرا ہوا تھا۔ وہ گمراہی کی راہ پر اصرار کررہے تھے۔ وہ ڈراوے سے متاثر ہوتے تھے اور نہ اس کائنات میں بکھری ہوئی نشانیوں سے متاثر ہوتے تھے جو نصیحت کے لئے کافی ہیں اور انسان کو جھٹلانے سے روک سکتی ہیں لیکن ان لوگوں نے ان سے کوئی فائدہ نہ اٹھایا۔

آیت 1 { اِقْتَرَبَتِ السَّاعَۃُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ۔ } ”قیامت کی گھڑی قریب آچکی اور چاند شق ہوگیا۔“ جیسا کہ قبل ازیں بھی کئی بار ذکر ہوچکا ہے کہ قیامت کی نشانیوں میں سب سے قطعی اور یقینی نشانی حضور ﷺ کی بعثت ہے۔ اس حوالے سے حضور ﷺ کا فرمان ہے : بُعِثْتُ اَنَا وَالسَّاعَۃُ کَھَاتَـیْنِ 1 ”مجھے اور قیامت کو ان دو انگلیوں کی طرح جڑا ہوا بھیجا گیا ہے“۔ اس لحاظ سے اِقْتَرَبَتِ السَّاعَۃُ کا مفہوم یہ ہے کہ اب جبکہ آخری رسول ﷺ بھی دنیا میں آ چکے ہیں تو سمجھ لو کہ قیامت کا وقت بہت قریب آ لگا ہے۔ سورة السجدۃ کی آیت 5 میں ہم پڑھ چکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ایک دن ہمارے ہزار برس کے برابر ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو حضور ﷺ کے وصال کو ابھی صرف ڈیڑھ دن ہی ہوا ہے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ کے علم کے مطابق حضور ﷺ کی بعثت کے بعد اب قیامت بالکل سامنے ہے۔ حضرت اسرافیل علیہ السلام اپنے منہ کے ساتھ صور لگائے بالکل تیار کھڑے ہیں۔ بس اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک اشارے کی دیر ہے۔ جونہی اشارہ ہوگا وہ صور میں پھونک مار دیں گے۔ قربِ قیامت کے اس مفہوم کو سورة المعارج میں یوں بیان کیا گیا ہے : { اِنَّہُمْ یَرَوْنَہٗ بَعِیْدًا۔ وَّنَرٰٹہُ قَرِیْبًا۔ } ”یہ لوگ تو قیامت کو بہت دور سمجھ رہے ہیں ‘ جبکہ ہم اسے بہت قریب دیکھ رہے ہیں۔“ آیت میں چاند کے پھٹنے کا ذکر ایک خرق عادت واقعہ کے طور پر ہوا ہے۔ روایات کے مطابق اس وقت حضور ﷺ منیٰ میں تشریف فرما تھے۔ چاند کی چودھویں رات تھی۔ آپ ﷺ کے ارد گرد ہر طرح کے لوگ تھے۔ کسی نے کہا کہ آپ ﷺ کی طرف سے کوئی نشانی ہونی چاہیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : چاند کی طرف دیکھو۔ لوگوں کو متوجہ کر کے آپ ﷺ نے انگلی کا اشارہ کیا اور چاند پھٹ کر دو ٹکڑے ہوگیا۔ ایک ٹکڑا سامنے کی پہاڑی کے ایک طرف اور دوسرا دوسری طرف چلا گیا اور پھر اگلے ہی لمحے دونوں ٹکڑے قریب آکر دوبارہ جڑ گئے۔ آپ ﷺ نے لوگوں سے فرمایا : دیکھو اور گواہ رہو ! کفار نے کہا کہ محمد ﷺ نے ہم پر جادو کردیا تھا ‘ اس لیے ہماری آنکھوں نے دھوکہ کھایا۔ بعد میں باہر سے آنے والے لوگوں نے بھی اس کی شہادت دی۔ میرے نزدیک یہ معجزہ نہیں تھا بلکہ ایک ”خرقِ عادت“ واقعہ تھا۔ اس نکتے کی وضاحت اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ کی جا چکی ہے کہ ہر رسول کو ایک معجزہ دیا گیا جو باقاعدہ دعوے کے ساتھ دکھایا گیا۔ اس لحاظ سے حضور ﷺ کا معجزہ قرآن ہے۔ البتہ خرق عادت واقعات حضور ﷺ سے بیشمار نقل ہوئے ہیں۔ ظاہر ہے اگر اولیاء اللہ سے کرامات کا ظہور ہوتا ہے تو حضور ﷺ کی کرامات تو ہزار گنا بڑی ہوں گی۔ اس واقعہ پر بہت سے اعتراضات بھی ہوئے ہیں۔ اس بنیاد پر بھی کہ اس سے متعلق دنیا میں کوئی تاریخی ثبوت موجود نہیں۔ اسی لیے سرسید احمد خان مرحوم اور ان کے مکتبہ فکر کے لوگوں نے آیت کے متعلقہ الفاظ کی مختلف تاویلات کی ہیں۔ بہرحال جہاں تک تاریخی ثبوت نہ ہونے کا تعلق ہے اس بارے میں یہ حقیقت بھی مدنظر رہنی چاہیے کہ یہ واقعہ رونما ہونے کے وقت آدھی دنیا میں تو دن کی روشنی ہوگی۔ لیکن جن علاقوں میں چاند دیکھا جاسکتا تھا ان علاقوں کے لوگ بھی تو ظاہر ہے اس وقت ٹکٹکی باندھے چاند کو نہیں دیکھ رہے تھے کہ ان میں سے اکثر اس واقعے کے عینی شاہد بن جاتے۔ پھر یہ منظر بھی صرف لمحے بھر کا تھا اور اس دوران چاند کی روشنی میں بھی کوئی فرق نہیں آیا تھا کہ لوگ چونک کر دیکھتے۔ البتہ ایک تاریخی روایت کے مطابق برصغیر میں مالابار کے ساحلی علاقے کے ایک ہندو راجہ نے یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ بعد میں جب عرب تاجروں کے ذریعے اس تک اسلام کی دعوت اور قرآنی تعلیمات پہنچیں تو اس نے نہ صرف ایک چشم دید گواہ کے طور پر اس واقعہ کی تصدیق کی بلکہ وہ ایمان بھی لے آیا۔ واللہ اعلم !

اللہ تعالیٰ قیامت کے قرب کی اور دنیا کے خاتمہ کی اطلاع دیتا ہے جیسے اور آیت میں ہے آیت (اَتٰٓى اَمْرُ اللّٰهِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْهُ ۭ سُبْحٰنَهٗ وَتَعٰلٰى عَمَّا يُشْرِكُوْنَ) 16۔ النحل :1) اللہ کا امر آچکا اب تو اس کی طلب کی جلدی چھوڑ دو اور فرمایا آیت (اقترب للناس حسابھم) الخ، لوگوں کے حساب کے وقت ان کے سروں پر آپہنچا اور وہ اب تک غفلت میں ہیں۔ اس مضمون کی حدیثیں بھی بہت سی ہیں بزار میں ہے حضرت انس فرماتے ہیں سورج کے ڈوبنے کے وقت جبکہ وہ تھوڑا سا ہی باقی رہ گیا تھا رسول اللہ ﷺ نے اپنے اصحاب کو خطبہ دیا جس میں فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں مری جان ہے دنیا کے گذرے ہوئے حصے میں اور باقی ماندہ حصے میں وہی نسبت ہے جو اس دن کے گذرے ہوئے اور باقی بچے ہوئے حصے میں ہے۔ اس حدیث کے راویوں میں حضرت خلف بن موسیٰ کو امام ابن حبان ثقہ راویوں میں گنتے تو ہیں لیکن فرماتے ہیں کبھی کبھی خطا بھی کر جاتے تھے، دوسری روایت جو اس کی تقویت بلکہ تفسیر بھی کرتی ہے وہ مسند احمد میں حضرت عبداللہ بن عمر کی روایت سے ہے کہ عصر کے بعد جب کہ سورج بالکل غروب کے قریب ہوچکا تھا رسول کریم ﷺ نے فرمایا تمہاری عمریں گزشتہ لوگوں کی عمروں کے مقابلہ میں اتنی ہی ہیں جتنا یہ باقی کا دن گذرے ہوئے دن کے مقابلہ میں ہے۔ مسند کی اور حدیث میں ہے حضور ﷺ نے اپنی کلمہ کی اور درمیانی انگلی سے اشارہ کر کے فرمایا کہ میں اور قیامت اس طرح مبعوث کئے گئے ہیں اور روایت میں اتنی زیادتی ہے کہ قریب تھا وہ مجھ سے آگے بڑھ جائے ولید بن عبدالملک کے پاس جب حضرت ابوہریرہ پہنچے تو اس نے قیامت کے بارے میں حدیث کا سوال کیا جس پر آپ ﷺ نے فرمایا میں نے حضور ﷺ سے سنا ہے کہ تم اور قیامت قربت میں ان دونوں انگلیوں کی طرح ہو۔ اس کی شہادت اس حدیث سے ہوسکتی ہے جس میں آپ ﷺ کے مبارک ناموں میں سے ایک نام (حاشر) آیا ہے اور (حاشر) وہ ہے جس کے قدموں پر لوگوں کا حشر ہو حضرت بہز کی روایت سے مروی ہے کہ حضرت عتبہ بن غزوان نے اپنے خطبہ میں فرمایا اور کبھی کہتے رسول اللہ ﷺ نے ہمیں خطبہ سناتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا دنیا کے خاتمہ کا اعلان ہوچکا یہ پیٹھ پھیرے بھاگے جا رہی ہے اور جس طرح برتن کا کھانا کھالیا جائے اور کناروں میں کچھ باقی لگا لپٹا رہ جائے اسی طرح دنیا کی عمر کا کل حصہ نکل چکا صرف برائے نام باقی رہ گیا ہے تم یہاں سے ایسے جہان کی طرف جانے والے ہو جسے فنا نہیں پس تم سے جو ہو سکے بھلائیاں اپنے ساتھ لے کر جاؤ سنو ہم سے ذکر کیا گیا ہے کہ جہنم کے کنارے سے ایک پتھر پھینکا جائے گا جو برابر ستر سال تک نیچے کی طرف جاتا رہے گا لیکن تلے تک نہ پہنچے گا اللہ کی قسم جہنم کا یہ گہرا گڑھا انسانوں سے پر ہونے والا ہے تم اس پر تعجب نہ کرو ہم نے یہ بھی ذکر سنا ہے کہ جنت کی چوکھٹ کی دو لکڑیوں کے درمیان چالیس سال کا راستہ ہے اور وہ بھی ایک دن اس حالت پر ہوگی کہ بھیڑ بھاڑ نظر آئے گی (مسلم) ابو عبدالرحمن سلمی فرماتے ہیں کہ میں اپنے والد کے ہمراہ مدائن گیا اور بستی سے تین میل کے فاصلے پر ہم ٹھہرے۔ جمعہ کے لئے میں بھی اپنے والد کے ہمراہ گیا حضرت حذیفہ خطیب تھے آپ نے اپنے خطبے میں فرمایا لوگوں سنو اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ قیامت قریب آگئی اور چاند دو ٹکرے ہوگیا۔ بیشک قیامت قریب آچکی ہے بیشک چاند پھٹ گیا ہے بیشک دنیا جدائی کا الارم بجا چکی ہے آج کا دن کوشش اور تیاری کا ہے کل تو دوڑ بھاگ کر کے آگے بڑھ جانے کا دن ہوگا میں نے اپنے باپ سے دریافت کیا کہ کیا کل دوڑ ہوگی ؟ جس میں آگے نکلنا ہوگا ؟ میرے باپ نے مجھ سے فرمایا تم نادان ہو یہاں مراد نیک اعمال میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانا ہے۔ دوسرے جمعہ کو جب ہم آئے تو بھی حضرت حذیفہ کو اسی کے قریب فرماتے ہوئے سنا اس کے آخر میں یہ بھی فرمایا کہ غایت آگ ہے اور سابق وہ ہے جو جنت میں پہلے پہنچ گیا۔ چاند کا دو ٹکڑے ہوجانا یہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ کا ذکر ہے جیسے کہ متواتر احادیث میں صحت کے ساتھ مروی ہے، حضرت ابن مسعود فرماتے ہیں کہ یہ پانچوں چیزیں ردم، دھواں، لزام، بطشہ اور چاند کا پھٹنا یہ سب گذر چکا ہے اس بارے کی حدیثیں سنئے۔ مسند احمد میں ہے کہ اہل مکہ نے نبی کریم ﷺ سے معجزہ طلب کیا جس پر دو مرتبہ چاند شق ہوگیا جس کا ذکر ان دونوں آیتوں میں ہے۔ بخاری میں ہے کہ انہیں چاند کے دو ٹکڑے دکھا دئیے ایک حراء کے اس طرف ایک اس طرف مسند میں ہے ایک ٹکڑا ایک پہاڑ پر دوسرا دوسرے پہاڑ پر۔ اسے دیکھ کر بھی جن کی قسمت میں ایمان نہ تھا بول پڑے کہ محمد ﷺ نے ہماری آنکھوں پر جادو کردیا ہے۔ لیکن سمجھداروں نے کہا کہ اگر مان لیا جائے کہ ہم پر جادو کردیا ہے تو تمام دنیا کے لوگوں پر تو نہیں کرسکتا اور روایت میں ہے کہ یہ واقعہ ہجرت سے پہلے کا ہے اور روایتیں بھی بہت سی ہیں ابن عباس سے یہ بھی مروی ہے کہ حضور ﷺ کے زمانہ میں چاند گرہن ہوا کافر کہنے لگے چاند پر جادو ہوا ہے اس پر یہ آیتیں مستمر تک اتریں، ابن عمر فرماتے ہیں جب چاند پھٹا اور اس کے دو ٹکڑے ہوئے ایک پہاڑ کے پیچھے اور ایک آگے اس وقت حضور ﷺ نے فرمایا اے اللہ تو گواہ رہ، مسلم اور ترمذی وغیرہ میں یہ حدیث موجود ہے ابن مسعود فرماتے ہیں سب لوگوں نے اسے بخوبی دیکھا اور آپ ﷺ نے فرمایا دیکھو یاد رکھنا اور گواہ رہنا آپ ﷺ فرماتے ہیں اس وقت حضور ﷺ اور ہم سب منیٰ میں تھے اور روایت میں ہے کہ مکہ میں تھے ابو داؤد طیالسی میں ہے کہ کفار نے یہ دیکھ کر کہا یہ ابن ابی کبشہ (یعنی رسول اللہ ﷺ کا جادو ہے لیکن ان کے سمجھداروں نے کہا مان لو ہم پر جادو کیا ہے لیکن ساری دنیا پر تو نہیں کرسکتا، اب جو لوگ سفر سے آئیں ان سے دریافت کرنا کہ کیا انہوں نے بھی اس رات کو چاند کو دو ٹکڑے دیکھا تھا چناچہ وہ آئے ان سے پوچھا انہوں نے بھی تصدیق کی کہ ہاں فلاں شب ہم نے چاند کو دو ٹکڑے ہوتے دیکھا ہے کفار کے مجمع نے یہ طے کیا تھا کہ اگر باہر کے لوگ آکر یہی کہیں تو حضور ﷺ کی سچائی میں کوئی شک نہیں، اب جو باہر سے آیا جب کبھی آیا جس طرف سے آیا ہر ایک نے اس کی شہادت دی کہ ہاں ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اسی کا بیان اسی آیت میں ہے۔ حضرت عبداللہ فرماتے ہیں پہاڑ چاند کے دو ٹکڑوں کے درمیان دکھائی دیتا تھا اور روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے خصوصاً حضرت صدیق سے فرمایا کہ اے ابوبکر تم گواہ رہنا اور مشرکین نے اس زبردست معجزے کو بھی جادو کہہ کر ٹال دیا، اسی کا ذکر اس آیت میں ہے کہ جب یہ دلیل حجت اور برہان دیکھتے ہیں سہل انکاری سے کہہ دیتے ہیں کہ یہ تو چلتا ہوا جادو ہے اور مانتے ہیں بلکہ حق کو جھٹلا کر احکام نبوی کے خلاف اپنی خواہشات نفسانی کے پیچھے پڑے رہتے ہیں اپنی جہالت اور کم عقلی سے باز نہیں آتے۔ ہر امر مستقر ہے یعنی خیر خیر والوں کے ساتھ اور شر شر والوں کے ساتھ۔ اور یہ بھی معنی ہیں کہ قیامت کے دن ہر امر واقع ہونے والا ہے اگلے لوگوں کے وہ واقعات جو دل کو ہلا دینے والے اور اپنے اندر کامل عبرت رکھنے والے ہیں ان کے پاس آچکے ہیں ان کی تکذیب کے سلسلہ میں ان پر جو بلائیں اتریں اور ان کے جو قصے ان تک پہنچے وہ سراسر عبرت و نصیحت کے خزانے ہیں اور وعظ و ہدایت سے پر ہیں، اللہ تعالیٰ جسے ہدایت کرے اور جسے گمراہ کرے اس میں بھی اس کی حکمت بالغہ موجود ہے ان پر شقاوت لکھی جا چکی ہے جن کے دلوں پر مہر لگ چکی ہے انہیں کوئی ہدایت پر نہیں لاسکتا جیسے فرمایا آیت (قُلْ فَلِلّٰهِ الْحُجَّةُ الْبَالِغَةُ ۚ فَلَوْ شَاۗءَ لَهَدٰىكُمْ اَجْمَعِيْنَ01409) 6۔ الانعام :149) ، اللہ تعالیٰ کی دلیلیں ہر طرح کامل ہیں اگر وہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت پر لا کھڑا کرتا اور جگہ ہے آیت (وَمَا تُغْنِي الْاٰيٰتُ وَالنُّذُرُ عَنْ قَوْمٍ لَّا يُؤْمِنُوْنَ01001) 10۔ یونس :101) بےایمانوں کو کسی معجزے نے اور کسی ڈرنے اور ڈر سنانے والے نے کوئی نفع نہ پہنچایا۔

آیت 1 - سورۃ القمر: (اقتربت الساعة وانشق القمر...) - اردو