سورۃ القلم: آیت 8 - فلا تطع المكذبين... - اردو

آیت 8 کی تفسیر, سورۃ القلم

فَلَا تُطِعِ ٱلْمُكَذِّبِينَ

اردو ترجمہ

لہٰذا تم اِن جھٹلانے والوں کے دباؤ میں ہرگز نہ آؤ

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fala tutiAAi almukaththibeena

آیت 8 کی تفسیر

فلا تطع .................... فیدھنون (86 : 9) ” تم جھٹلانے والوں کے دباﺅ میں ہرگز نہ آﺅ۔ یہ تو چاہتے ہیں کہ کچھ تم مداہنت کرو تو یہ بھی مداہنت کریں “۔ دراصل اندر سے یہ لوگ سودا بازی کے لئے تیار ہیں۔ چاہتے ہیں کہ نصف نصف سودا طے ہوجائے جس طرح تاجر لوگ مول تول کرلیتے ہیں۔ لیکن ان کو معلوم ہے کہ نظریات اور تجارت میں فرق ہوتا ہے۔ ایک نظریاتی شخص اپنے عقائد اور نظریات میں کبھی سودا بازی کے لئے تیار نہیں ہوا کرتا۔ کیونکہ نظریات میں چھوٹی بات بھی بڑی بات کی طرح قیمتی ہوتی ہے بلکہ نظریات میں چھوٹی اور بڑی بات ہوتی ہی نہیں ہے۔ نظریہ ایک مکمل اکائی ہوتا ہے۔ اس میں کوئی کسی کی نہ اطاعت کرتا ہے اور نہ اپنے نظریات کے کسی حصے سے دستبردار ہوتا ہے۔

اس بارے میں بیشمار روایات وارد ہیں کہ وہ کیا معاملات تھے جن پر مشرکین مکہ نبی ﷺ کے ساتھ سودا بازی کے لئے تیار تھے کہ آپ نرمی کریں تو وہ بھی کریں یہ کہہ حضور ﷺ ان کے الہوں کو برا بھلا کہنا ترک کردیں اور یہ بھی نہ کہیں کہ ان بتوں کی عبادت کرنا ایک احمقانہ فعل ہے۔ یا یہ کہ حضور اکرم کچھ باتیں ان کے دین کی مان لیں اور کچھ باتیں وہ مان لیں گے۔ یوں جمہور عرب کے سامنے ان کی لاج رہ جائے گی۔ جس طرح ہمیشہ مصالحت کرنے والوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ نصف نصف پر فیصلہ کرلیتے ہیں۔ لیکن رسول اللہ ﷺ کا رویہ تودو ٹوک تھا۔ آپ اس میں نہ مداہنت کرتے تھے اور نہ نرمی فرماتے تھے لیکن دین اسلام کے اصولوں کے علاوہ آپ تمام معاملات میں ، نہایت ہی نرم رویہ اختیار فرماتے تھے۔ معاملات میں نہایت ہی اچھے تھے ، معاشرت میں نہایت ہی خوش اخلاق تھے اور لوگوں کے ساتھ نہایت ہی اچھا رویہ رکھتے تھے۔ رہا دین کا معاملہ تو وہ خدا سے متعلق تھا۔ اور خدا کی ہدایت یہ تھی۔

فلا تطع المکذبین (86 : 8) ” لہٰذا تم ان جھٹلانے والوں کی کوئی بات نہ مانو “۔ چناچہ حضور اکرم ﷺ نے مکہ میں ایسے حالات میں بھی دین کے معاملے میں کوئی سودا بازی نہیں کی جئ کہ آپ نہایت ہی مشکل حالات میں تھے۔ آپ کی تحریک محاصرے میں تھی۔ آپ کے چند ساتھی تھے۔ ہر طرف سے ان پر مظالم ہورہے تھے۔ اچک لئے جاتے تھے۔ شدید ترین اذیتیں دی جاتی تھیں لیکن وہ صبر کرتے تھے۔ البتہ وہ بڑے سے بڑے جبار کے سامنے کلمہ توحید پڑھنے سے کبھی باز نہ آتے تھے۔ نہ وہ ان کے تالیف قلب کے لئے اور نہ ان کی اذیت سے جان چھڑانے کے لئے۔ نہ وہ کسی ایسی حقیقت کی وضاحت سے چوکتے تھے جس کا ان کے ایمان سے کوئی دور کا بھی تعلق ہوتا تھا۔

ابن ہشام نے اپنی سیرت میں ابن اسحاق سے روایت کی ہے : ” رسول اللہ ﷺ نے اپنی قوم کے سامنے اسلام کا اظہار اور علانیہ دعوت شروع کردی تو انہوں نے آپ کے دین کا کوئی رد یا جواب نہ دیا۔ یہاں تک کہ آپ نے ان کے الہوں کا ذکر شروع کردیا اور ان کی عبادت کو احمقانہ فعل بنایا۔ جب حضور ﷺ نے یہ کہا تو انہوں نے اسے ایک عظیم جرم سمجھا اور اس پر بہت برا منایا۔ یہ لوگ آپ کے خلاف جمع ہوگئے اور دشمنی شروع کردی۔ ماسوائے ان لوگوں کے جن کو اللہ اسلام میں لے آیا تھا۔ لیکن یہ بہت ہی قلیل اور کمزور تھے۔ رسول اللہ ﷺ کے چچا ابو طالب نے آپ کی حمایت کی اور آپ کا دفاع کیا ، اور آپ کے محافظ کے طور پر آپ کے سامنے کھڑے ہوگئے اور رسول اللہ اپنا کام کرتے رہے۔ خوب اظہار خیال کرتے رہے اور کوئی آپ کو اپنی باتوں سے روک نہ سکتا تھا۔

جب قریش کو معلوم ہوگیا کہ رسول اللہ ﷺ ان باتوں سے باز نہیں آتے جن کو وہ برا سمجھتے ہیں اور یہ کہ ان کی صفوں میں تفرقہ پڑگیا اور وہ بدستور ان کے الہوں پر تنقید کرتے ہیں۔ پھر انہوں نے یہ بھی دیکھ لیا کہ ان کے چچا ان کی حمایت پر تلے ہوئے ہیں اور وہ ان کو قریش کے سپرد نہیں کرتے۔ تو قریش کے اشراف کا ایک وفد ابوطالب کے پاس گیا۔ ان میں عتبہ اور شیبہ پسران ربیعہ ، ابوسفیان ابن حرب ابن امیہ ، ابوالیحتری العاص ابن ہشام ، اسود ابن مطلب ابن اسد ، ابوجہل (اس کا نام ابوالحکم عمر ابن ہشام تھا) ، ولید ابن مغیرہ ، نبیہ اور منبہ پسران حجاج ابن عامر اور دوسرے لوگ جو ان کے ساتھ گئے تھے۔ انہوں نے کہا ابوطالب ” یہ کہ تمہارے بھتیجے نے ہمارے الہوں کو گالیاں دیں اور ہمارے دین میں عیب نکالے اور ہمارے خیالات کو احمقانہ کہا۔ ہمارے آباﺅ اجداد کو گمراہ کہا ، اب تمہارے سامنے دوراستے ہیں یا تو اسے ان باتوں سے روک دو یا ہمارے اور اس کے درمیان سے ہٹ جاﺅ، کیونکہ جس طرح ہم اس کے دین کو نہیں مانتے تم بھی نہیں مانتے۔ ہم اس کا علاج کردیں گے “۔ ابوطالب نے ان کے ساتھ نہایت ہی نرم باتیں کیں اور انہیں اچھے طریقے سے رخصت کردیا۔ یہ لوگ واپس ہوگئے۔

رسول اللہ ﷺ نے اپنا کار جاری رکھا۔ آپ اپنے دین کا اظہار فرماتے اور لوگوں کو اس کی طرف بلاتے۔ لیکن اس کے بعد آپ کے اور قریش کے درمیان اختلافات شدید ہوگئے۔ دشمنی میں دور تک چلے گئے اور لوگوں کی آتش عناد تیز ہوگئی اور جگہ جگہ آپ کے خلاف باتیں ہونے لگیں۔ اور لوگ آپ کے خلاف ایک دوسرے کو اکسانے لگے۔ انہوں نے کہا کہ اٹھو ، اس شخص کے خلاف۔ یہ لوگ دوبارہ ابوطالب کے پاس گئے اور کہا ابو طالب تم ہم میں سب بےمعمر ہو ، عزت دار ہو ، اور شریف ہو۔ ہم نے تم سے درخواست کی تھی کہ اپنے بھتیجے کو اس کام سے روکو مگر تم نے اسے نہ روکا۔ خدا کی قسم ! ہم اس صورت حال کو برداشت نہیں کرسکتے کہ وہ ہمارے آباﺅاجداد کو گالیاں دے ، ہمارے عقائد کو احمقانہ بتلائے اور ہمارے الہوں کی عیب جوئی کرے۔ یا تو آپ اسے روکیں یا پھر اس کی حمایت سے ہاتھ اٹھالیں ورنہ ہمارے اور تمہارے درمیان جنگ ہوگی جو فریق بھی ہلاک ہوگیا۔ یا اس طرح کی سخت باتیں انہوں نے کہیں اور چلے گئے۔ ابوطالب پر قوم کے درمیان یہ جھگڑا ذرا گراں گزرا۔ اور انہوں نے پوری قوم کی عداوت کو بھاری سمجھا۔ اور یہ بھی وہ نہ چاہتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ کو ان کے حوالے کردیں اور شرمندگی اٹھائیں۔ ابن اسحاق کہتے ہیں کہ مجھے یعقوب ابن عتبہ ابن مغیرہ ابن اخنس نے بتایا کہ جب قریش نے ابوطالب سے یہ باتیں کیں تو انہوں نے حضرت نبی ﷺ کو بلایا۔ ان سے کہا بھتیجے ! تمہاری قوم میرے پاس آئی اور انہوں نے یہ کہا اور یہ کہا۔ اس لئے تم مجھ پر اور اپنے آپ پر ذرا رحم کرو اور مجھ پر اس قدر بوجھ نہ ڈالو جس کے اٹھانے کی مجھے طاقت نہ ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ سمجھا کہ شاید ابوطالب کی رائے اس معاملے میں بدل گئی ہے۔ اور یہ کہ آپ بھی اب ساتھ چھوڑنے والے ہیں اور مجھے قریش کے حوالے کرنے والے ہیں اور یہ کہ ابو طالب بھی اب حمایت اور نصرت سے دسکش ہورہے ہیں۔ تو حضور ﷺ نے فرمایا : ” چچا ! خدا کی قسم اگر یہ لوگ میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند بھی لاکر رکھ دیں اور یہ مطالبہ کریں کہ یہ کام چھوڑ دو تو یہ نہیں ہوسکتا ، میں یہ کام کرتارہوں گا جب تک یہ دین غالب نہیں ہوجاتا یا میں ہلاک نہیں ہوجاتا۔ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی آواز روندھ گئی اور آپ روپڑے اور اٹھ کر چلے گئے۔ جب آپ چلے گئے تو ابو طالب نے آواز دی : بھتیجے ! ادھر آﺅ، رسول اللہ ﷺ واپس ہوئے تو انہوں نے کہا ” جاﺅ جو چاہو کرو ، خدا کی قسم میں تمہیں کسی قیمت پر ان کے حوالے نہ کروں گا “۔

یہ ہے تصویر حضور اکرم ﷺ کی کہ آپ اس وقت بھی اپنی دعوت پر جمے ہوئے تھے جبکہ آپ کے چچا محترم بھی دستکش ہونے کے بارے میں سوچ رہے تھے۔ جو آپ کے حامی اور محافظ تھے اور یہ آخری قلعہ تھے ، جس میں آپ اس کرہارض پر اپنے دشمنوں کے مقابلے میں پناہ لے سکتے تھے۔

یہ تو تھی ایک نہایت ہی روشن اور قوی تصویر۔ یہ اپنی نوعیت اور حقیقت کے اعتبار سے بالکل ایک انوکھی تصویر تھی۔ اس کا رنگ اور پر تو سب ہی انوکھے تھے۔ اس کی عبارت اور مکالمات بھی اپنی نوعیت کے تھے۔ نہایت نئے اور سنجیدہ موقف کی ایک تصویر اس طرح روشن ، جس طرح یہ عقیدہ روشن ہے۔ اور اس میں سرٹیفکیٹ اور شہادت کا مصادق اور مفہوم موجود۔

وانک .................... عظیم (86 : 4) ” اور بیشک آپ عظیم اخلاق کے نہایت ہی بلند مرتبے پر ہیں “۔ اور ان اخلاق عالیہ کی ایک دوسری تصویر بھی خود ابن اسحاق نے نقل کی ہے۔ کہتے ہیں روایت بیان کی یزید ابن اسحاق نے ، محمد ابن کعب قرظی سے ، انہوں نے کہا مجھے یہ بتایا گیا کہ عتبہ ابن ربیعہ ایک سردار تھا۔ یہ ایک دن قریش کی ایک محفل میں بیٹھا ہوا تھا ، اس نے تجویز پیش کی ، جبکہ حضور اکرم ﷺ مسجد حرام میں اکیلے بیٹھے ہوئے تھے ، کیا مناسب نہیں ہے کہ میں محمد ﷺ سے بات کروں اور ان کے سامنے کچھ باتیں رکھوں شاید وہ اسے قبول کرلیں۔ اس طرح کہ ان کے جو مطالبات ہوں ہم انہیں دے دیں اور وہ ہمارے خداﺅں سے باز آجائیں۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب حضرت حمزہ اسلام قبول کرچکے تھے اور قریش نے دیکھ لیا تھا کہ حضور ﷺ کے حامیوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ انہوں نے کہا : ابو الولید جاﺅ اور ان سے بات کرو ، عتبہ اٹھا اور آیا اور رسول اللہ ﷺ کے سامنے بیٹھ گیا۔ اس نے کہا بھتیجے ! ہمارے اندر تمہاری جو حیثیت ہے ، وہ تم جانتے ہو۔ تمہارا بہت اونچا درجہ ہے اور تمہارا نسب بھی بہت اونچا ہے اور تم نے اپنی قوم کو ایک بڑی مصیبت میں ڈال دیا ہے۔ جماعت کے اندر تفریق پیدا ہوگئی ہے۔ تم نے ہمارے نظریات کا مذاق اڑایا ہے ، ہمارے دین اور الہوں پر تنقید کی ہے اور تم نے ہمارے آباﺅ اجداد کو کافر کہا۔ تم میری بات سنو ۔ میں تمہارے سامنے کچھ تجاویز پیش کرتا ہوں۔ امید ہے کہ تم ان پر غور کرو گے۔ شاید ان میں سے بعض کو تم منظور کرلو۔ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” ابوالولید کہو۔ میں سنتا ہوں “ اس نے کہا : ” بھتیجے ! تم جو دین پیش کرتے ہو اگر اس سے تمہارا مقصد بہت زیادہ مال جمع کرنا ہے ، تو ہم تمہارے لئے اس قدر مال جمع کرتے ہیں کہ تم ہم میں سب سے زیادہ مالدار ہوجاﺅ گے۔ اور اگر تم اونچا مقام چاہتے ہو تو ہم تم کو اپنا سردار بناتے ہیں ، ہم تمہارے بغیر کوئی فیصلہ نہ کریں گے۔ اگر تم بادشاہت چاہتے ہو تو ہم تم کو اپنا بادشاہ تسلیم کرتے ہیں۔ اور اگر تم پر کوئی دورہ پڑتا ہے جس کا دفعیہ تم نہیں کرسکتے تو ہم تمہارے علاج کا انتظام کرتے ہیں۔ اس پر ہم سے جو ہوسکا ، خرچ کریں گے یہاں تک کہ تم تندرست ہوجاﺅ۔ بعض اوقات یوں ہوتا ہے کہ انسان کے ساتھ کوئی چیز لگ جاتی ہے اور اس کو اس کا علاج کرنا پڑتا ہے “۔ یہ اور ایسی اور باتیں جو اس نے کیں۔ عتبہ ان باتوں سے فارغ ہوا اور رسول اللہ یہ باتیں سنتے رہے۔ اس کے بعد حضور ﷺ نے فرمایا : ابو الولید تم کہہ چکے ؟ اس نے کہا : ” ہاں “۔ اس پر حضور ﷺ نے فرمایا اب میری بات سنو۔ اس نے کہا : ہاں ” کہو “۔ اس پر حضور ﷺ نے پڑھنا شروع کیا :

حٰم ................................ ویل للمشرکین (6) (14 : 1 تا 6) ” ح م۔ یہ خدائے رحمن ورحیم کی طرف سے نازل کردہ چیز ہے ، ایک ایسی کتاب جس کی آیات خوب کھول کر بیان کی گئی ہیں۔ عربی زبان کا قرآن ، ان لوگوں کے لئے جو علم رکھتے ہیں ، بشارت دینے والا اور ڈرانے والا مگر ان لوگوں میں سے اکثر نے اس سے روگردانی کی اور وہ سن کر نہیں دیتے۔ کہتے ہیں ” جس چیز کی طرف تو ہمیں بلارہا ہے اس کے لئے ہمارے دلوں پر غلاف چڑھے ہوئے ہیں ، ہمارے کان بہرے ہوگئے ہیں اور ہمارے اور تیرے درمیان ایک حجاب حائل ہوگیا ہے تو اپنا کام کر ہم اپنا کام کیے جائیں گے “۔ اے نبی ان سے کہو ، میں تو ایک بشر ہوں تم جیسا۔ مجھے وحی کے ذریعہ بتایا جاتا ہے کہ تمہارا خدا بس ایک ہی خدا ہے ، لہٰذا تم سیدھے اسی کا رخ اختیار کرو۔ اور اس سے معافی چاہو۔ تباہی ہے مشرکوں کے لئے ....“

حضور ﷺ اس کے بعد بھی سورة حم سجدہ پڑھتے رہے۔ جب عتبہ نے اسے سنا تو خاموش ہوگیا اور اپنے ہاتھ پشت کے پیچھے زمین پر لگا کر ٹیک لی اور سنتا رہا۔ اب رسول اللہ ﷺ سجدہ تک پہنچ گئے اور آپ نے سجدہ کیا۔ اس کے بعد حضور ﷺ نے فرمایا ابو الولید تم نے سنا جو سنا بس یہ ہے جواب تم جانو اور تمہارا کام “۔ عتبہ اپنے ساتھیوں کے پاس گیا ۔ انہوں نے ایک دوسرے سے کہا : ” ہم خدا کی قسم اٹھا کر کہتے ہیں کہ یہ شخص جو چہرہ لے کر گیا تھا اس کے ساتھ واپس نہیں آیا۔ جب یہ جاکر ان کی محفل میں بیٹھا تو انہوں نے پوچھا ابوالولید کیا خبر لائے ہو ؟ تو اس نے کہا خبر یہ ہے کہ میں نے ایک ایسا کلام سنا ہے خدا کی قسم میں نے ایسا کوئی کلام کبھی نہیں سنا۔ یہ نہ تو شعر ہے نہ جادو ہے ، نہ کہانت ہے۔ اے اہل قریش میری بات مانوں اور میں اس کا ذمہ دار ہوں ، یہ شخص جو کچھ کرنا چاہتا ہے اسے کرنے دو اور اس کی راہ نہ روکو۔ اس کو الگ چھوڑ دو ، خدا کی قسم اس کی جو بات میں نے سنی ہے اس کی شہ سرخی لگنے والی ہے۔ اگر اس کو عربوں نے ختم کردیا تو تمہارا کام وہ کردیں گے اور تمہیں اسے مارنے کی ضرورت نہ ہوگی اور اگر یہ عربوں پر غالب آگیا تو اس کی حکومت تمہاری حکومت ہوگی اور اس کی عزت تمہاری عزت ہوگی۔ اور تم اس کی وجہ سے نہایت ہی نیک بخت ہوگئے ، انہوں نے کہا ابوالولید خدا کی قسم اس نے اپنی زبان سے تمہیں مسحور کردیا۔ اس نے کہا : اس کے بارے میں یہ میری حقیقی رائے ہے۔ اب تمہاری مرضی ہے جو چاہو کرتے رہو۔

دوسری روایات میں آتا ہے کہ حضور اکرم ﷺ کو کلام الٰہی سناتے ہوئے جب اس آیت پر پہنچے۔

فان ........................ وثمود (14 : 31) ” اگر یہ لوگ منہ موڑتے ہیں تو ان سے کہہ دو کہ میں تم کو اس طرح کے ایک اچانک ٹوٹ پڑنے والے عذاب سے ڈراتا ہوں جیسا کہ عاد وثمود پر نازل ہوا تھا “ تو ابوالولید خوفزدہ ہکر اٹھا اور آپ کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور کہنے لگا : ” محمد (ﷺ ) میں تمہیں خدا کا اور رحم کا واسطہ دیتا ہوں “۔ یہ اس ڈر کی وجہ سے کہ کہیں فی الواقع یہ عذاب نازل نہ ہوجائے۔ اس کے بعد وہ قوم کے پاس گیا اور ان سے وہ بات کہی جس کا اوپرتذکرہ ہوا۔

بہرحال یہ قریش کی طرف سے سودے بازی کی دوسری کوشش تھی۔ یہ بھی حضور اکرم ﷺ کی خلق عظیم کی ایک تصویر ہے۔ اس سے آپ کے آداب اچھی طرح معلوم ہوتے ہیں کہ آپ عتبہ کی بات نہایت تحمل سے سنتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ فارغ ہوجاتا ہے حالانکہ اس کی باتیں نہایت بےمعنی ہیں۔ ان باتوں کا تعلق صرف اس زمین سے ہے۔ لیکن آپ کے اخلاق کریمانہ تھے کہ آپ نہ اس کی بات کاٹتے ہیں نہ جلدی کرتے ہیں اور نہ غصے میں آتے ہیں اور اس کو جھڑکتے ہیں۔ یہاں تک کہ یہ شخص اپنی بیہودہ باتوں سے فارغ ہوجاتا ہے اور آپ پوری توجہ سے سنتے ہیں۔ اس کے بعد آپ نہایت نرمی سے پوچھتے ہیں۔ ابوالولید آپ کی بات ختم ہوئی ، اور یہ تاکید مزید کے لئے کہ وہ یہ نہ کہے کہ میری بات رہتی ہے۔ یہ ہے سچا اطمینان ، اور حقیقی ادب کہ آپ پوری پوری بات سنتے ہیں۔ یہ بھی آپ کے خلق عظیم کا ایک پہلو ہے۔ بیہودہ باتیں بھی تحمل سے سنتے ہیں۔

اور ایک تیسری سودا بازی بھی مروی ہے۔ ابن اسحاق روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ خانہ کعبہ کا طواف کررہے تھے کہ اسود ابن المطلب ابن اسد ابن عبدالعزی ، ولید ابن مغیرہ ، امیہ ابن خلف اور عاص ابن وائل سہمی نے آپ کو روکا اور یہ لوگ اپنے قبائل میں نہایت معتبر لوگ تھے۔ انہوں نے کہا : ” محمد ﷺ ہم اس کی عبادت کرتے ہیں جس کو تم کرتے ہو ، اور تم ان الہوں کی عبادت کرو جن کی ہم کرتے ہیں۔ ہم اور تم شریک ہوجائیں گے۔ اگر جس خدا کی تم عبادت کرتے ہو وہ اچھا ہوا تو ہمارا بھی اس میں حصہ ہوگا اور ہم جن کی عبادت کرتے ہیں اگر وہ اچھے ہوئے تو تم نے بھی اپنا حصہ اس بھلائی سے لیا ہوگا۔ ان کے بارے میں اللہ نے یہ سورت نازل کی۔

قل یایھا الکفرون ................ تعبدون (901 : 2) ” اے کافرو ! میں ان کی عبادت نہیں کرتا جن کی تم کرتے ہو “۔ اس سودا بازی کو دو ٹوک انداز میں ختم کردیا گیا۔ اور رسول اللہ ﷺ نے ان کو یہ سورت سنا دی جس طرح اللہ کا حکم تھا۔

زیادہ قسمیں کھانے والے زیادہ جھوٹ بولتے ہیں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ اے نبی ﷺ جو نعمتیں ہم نے تجھے دیں جو صراط مستقیم اور خلق عظیم ہم نے تجھے عطا فرمایا اب تجھے چاہئے کہ ہماری نہ ماننے والوں کی تو نہ مان، ان کی تو عین خوشی ہے کہ آپ ذرا بھی نرم پڑیں تو یہ کھل کھیلیں اور یہ بھی مطلب ہے کہ یہ چاہتے ہیں کہ آپ ان کے معبودان باطل کی طرف کچھ تو رخ کریں حق سے ذرا سا تو ادھر ادھر ہوجائیں، پھر فرماتا ہے کہ زیادہ قسمیں کھانے والے کمینے شخص کی بھی نہ مان چونکہ جھوٹے شخص کو اپنی ذلت اور کذب بیانی کے ظاہر ہوجانے کا ڈر رہتا ہے، اس لئے وہ قسمیں کھا کھا کر دوسرے کو اپنا یقین دلانا چاہتا ہے لگاتار قسموں پر قسمیں کھائے چلا جاتا ہے اور اللہ کے ناموں کو بےموقعہ استعمال کرتا پھرتا ہے۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں (مھین) سے مراد کاذب ہے۔ مجاہد کہتے ہیں ضعیف دل والا۔ حسن کہتے ہیں (حلاف) مکابرہ کرنے والا اور (مہین) ضعیف، (ھماز) غیب کرنے والا، چغل خور جو ادھر کی ادھر لگائے اور ادھر کی ادھر تاکہ فساد ہوجائے۔ طبیعتوں میں نفرت اور دل میں دشمنی آجائے، رسول اللہ ﷺ کے راستے میں دو قبریں آگئیں آپ نے فرمایا ان دونوں کو عذاب ہو رہا اور کسی بڑے امر پر نہیں ایک تو پیشاب کرنے میں پردے کا خیال نہ رکھتا تھا۔ دوسرا چغل خور تھا (بخاری و مسلم) فرماتے ہیں چغل خور جنت میں نہ جائے گا (مسند) دوسری روایت میں ہے کہ حضرت حذیفہ نے یہ حدیث اس وقت سنائی تھی جب آپ سے کہا گیا کہ یہ شخص خفیہ پولیس کا آدمی ہے، مسند احمد کی حدیث میں ہے حضور ﷺ نے فرمایا کیا میں تمہیں نہ بتاؤں کہ تم میں سب سے بھلا شخص کون ہے ؟ لوگوں نے کہا ضرور ارشاد فرمایئے، فرمایا وہ کہ جب انہیں دیکھا جائے اللہ یاد آجائے اور سن لو سب سے بدتر شخص وہ ہے جو چغل خور ہو دوستوں میں فساد ڈلوانے والا ہو پاک صاف لوگوں کو تہمت لگانے والا ہو، ترمذی میں بھی یہ روایت ہے، پھر ان بدلوگوں کے ناپاک خصائل بیان ہو رہے ہیں کہ بھلائیوں سے باز رہنے والا اور باز رکھنے والا ہے، حلال چیزوں اور حلال کاموں سے ہٹ کر حرام خوری اور حرام کاری کرتا ہے، گنہگار، بدکردار، محرمات کو استعمال کرنے والا، بدخو، بدگو جمع کرنے والا اور نہ دینے والا ہے۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے حضور ﷺ نے فرمایا جنتی لوگ گرے پڑے عاجز و ضعیف ہیں جو اللہ کے ہاں اس بلند مرتبہ پر ہیں کہ اگر وہ قسم کھا بیٹھیں تو اللہ پوری کر دے اور جہنمی لوگ سرکش متکبر اور خودبین ہوتے ہیں اور حدیث میں ہے جمع کرنے والے اور نہ دینے والے بدگو اور سخت خلق، ایک روایت میں ہے کہ حضور ﷺ سے پوچھا گیا آیت (عتل زنیم) کون ہے ؟ فرمایا بد خلق خوب کھانے پینے والا لوگوں پر ظلم کرنے والا پیٹو آدمی، لیکن اس روایت کو اکثر راویوں نے مرسل بیان کیا ہے، ایک اور حدیث میں ہے اس نالائق شخص پر آسمان روتا ہے جسے اللہ نے تندرستی دی پیٹ بھر کھانے کو دیا مال و جاہ بھی عطا فرمائی پھر بھی لوگوں پر ظلم و ستم کر رہا ہے، یہ حدیث بھی دو مرسل طریقوں سے مروی ہے، غرض (عتل) کہتے ہیں جس کا بدن صحیح ہو طاقتور ہو اور خوب کھانے پینے والا زور دار شخص ہو۔ (زنیم) سے مراد بدنام ہے جو برائی میں مشہور ہو، لغت عرب میں (زنیم) اسے کہتے ہیں جو کسی قوم میں سمجھا جاتا ہو لیکن دراصل اس کا نہ ہو، عرب شاعروں نے اسے اسی معنی میں باندھا ہے یعنی جس کا نسب صحیح نہ ہو، کہا گیا ہے کہ مراد اس سے اخنس بن شریق ثقفی ہے جو بنو زہرہ کا حلیف تھا اور بعض کہتے ہیں یہ اسود بن عبد یغوث زہری ہے، عکرمہ فرماتے ہیں ولد الزنا مراد ہے، یہ بھی بیان ہوا ہے کہ جس طرح ایک بکری جو تمام بکریوں میں سے الگ تھلگ اپنا چرا ہوا کان اپنی گردن پر لٹکائے ہوئے ہو تو یہ یک نگاہ پہچان لی جاتی ہے اسی طرح کافر مومنوں میں پہچان لیا جاتا ہے، اسی طرح کے اور بھی بہت سے اقوال ہیں لیکن خلاصہ سب کا صرف اسی قدر ہے کہ زنیم وہ شخص ہے جو برائی سے مشہور ہو اور عموماً ایسے لوگ ادھر ادھر سے ملے ہوئے ہوتے ہیں جن کے صحیح نسب کا اور حقیقی باپ کا پتہ نہیں ہوتا ایسوں پر شیطان کا غلبہ بہت زیادہ رہا کرتا ہے، جیسے حدیث میں ہے زنا کی اولاد جنت میں نہیں جائے گی، اور روایت میں ہے کہ زنا کی اولاد تین برے لوگوں کی برائی کا مجموعہ ہے، اگر وہ بھی اپنے ماں باپ کے سے کام کرے۔ پھر فرمایا اس کی ان شرارتوں کی وجہ یہ ہے کہ یہ مالدار اور بیٹوں کا باپ بن گیا ہے ہماری اس نعمت کا گن گانا تو کہاں ہماری آیتوں کو جھٹلاتا ہے اور توہین کر کے کہتا پھرتا ہے کہ یہ تو پرانے افسانے ہیں اور جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے آیت (ذَرْنِيْ وَمَنْ خَلَقْتُ وَحِيْدًا 11 ۙ) 74۔ المدثر :11) مجھے چھوڑ دے اور اسے جسے میں نے یکتا پیدا کیا ہے اور بہت سا مال دیا ہے اور حاضر باش لڑکے دیئے ہیں اور بھی بہت کشادگی دے رکھی ہے پھر بھی اس کی طمع ہے کہ میں اسے اور دوں ہرگز ایسا نہیں ہوسکتا یہ تو میری آیتوں کا مخالف ہے میں اسے عنقریب بدترین مصیبت میں ڈالوں گا اس نے غور و فکر کے اندازہ لگایا یہ تباہ ہو۔ کتنی بری تجویز اس نے سوچی میں پھر کہتا ہوں، یہ برباد ہو اس نے کیسی بری تجویز کی اس نے پھر نظر ڈالی اور ترش رو ہو کہ منہ بنا لیا، پھر منہ پھیر کر اینٹھنے لگا اور کہ دیا کہ یہ کلام اللہ تو پرانا نقل کیا ہوا جادو ہے، صاف ظاہر ہے کہ یہ انسانی کلام ہے، اس کی اس بات پر میں بھی اسے (سقر) میں ڈالوں گا تجھے کیا معلوم کہ (سقر) کیا ہے نہ وہ باقی رکھے نہ چھوڑے بدن پر لپیٹ جاتی ہے اس پر انتیس فرشتے متعین ہیں، اسی طرح یہاں بھی فرمایا کہ اس کی ناک پر ہم داغ لگائیں گے یعنی اسے ہم اس قدر رسوا کریں گے کہ اس کی برائی کسی پر پوشیدہ نہ رہے ہر ایک اسے جان پہچان لے جیسے نشاندار ناک والے کو بیک نگاہ ہزاروں میں لوگ پہچان لیتے ہیں اور جو داغ چھپائے نہ چھپ سکے، یہ بھی کہا گیا ہے کہ بدر والے دن اس کی ناک پر تلوار لگے گی اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ قیامت والے دن جہنم کی مہر لگے گی یعنی منہ کالا کردیا جائے گا تو ناک سے مراد پورا چہرہ ہوا۔ امام ابو جعفر ابن جریر نے ان تمام اقوال کو وارد کر کے فرمایا ہے کہ ان سب میں تطبیق اس طرح ہوجاتی ہے کہ یہ کل امور اس میں جمع ہوجائیں یہ بھی ہو وہ بھی ہو، دنیا میں رسوا ہو سچ مچ ناک پر نشان لگے آخرت میں بھی نشاندار مجرم بنے فی الواقع یہ بہت درست ہے، ابن ابی حاتم میں فرمان رسول ﷺ ہے کہ بندہ ہزارہا برس تک اللہ کے ہاں مومن لکھا رہتا ہے لیکن مرتا اس حالت میں ہے کہ اللہ اس پر ناراض ہوتا ہے اور بندہ اللہ کے ہاں کافر ہزارہا سال تک لکھا رہتا ہے پھر مرتے وقت اللہ اس سے خوش ہوجاتا ہے جو شخص عیب گوئی اور چغل خوری کی حالت میں مرے جو لوگوں کو بدنام کرنے والا ہو قیامت کے دن اس کی ناک پر دونوں ہونٹوں کی طرف سے نشان لگا دیا جائے جو اس مجرم کی علامت بن جائے گا۔

آیت 8 - سورۃ القلم: (فلا تطع المكذبين...) - اردو