سورۃ القلم: آیت 4 - وإنك لعلى خلق عظيم... - اردو

آیت 4 کی تفسیر, سورۃ القلم

وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ

اردو ترجمہ

اور بیشک تم اخلاق کے بڑے مرتبے پر ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wainnaka laAAala khuluqin AAatheemin

آیت 4 کی تفسیر

اس کے بعد ایک عظیم شہادت آپ کے حق میں آتی ہے۔ یہ ایک بہت بڑا اعزاز ہے۔

وانک ................ عظیم (86 : 4) ” اور بیشک تم اخلاق کے بڑے مرتبے پر ہو “۔ نبی کریم ﷺ پر اس تعریف وثنا میں پوری کائنات شریک ہوجاتی ہے اور اس پوری کائنات کی روح کے اندر یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ آپ خلق عظیم کے مالک تھے۔

کسی قلم میں یہ قوت نہیں ہے کہ وہ آپ کے مناقب بیان کرسکے ، کسی شخص میں یہ قوت نہیں ہے کہ وہ آپ کے اخلاق کا تصور کرسکے۔ اور اس عظیم سرٹیفکیٹ کی تشریح کرسکے۔ یہ عظیم کلمات رب عظیم کی طرف سے ہیں۔ اور رب تعالیٰ اپنی اس عظیم شہادت کی تشریح کرسکتا ہے۔ اللہ کے ہاں عظمت کے کیا پیمانے ہیں ، اس کا بندہ کس قدر عظیم ہے ، یہ وہی جانتا ہے ۔ جس نے کہا :

وانک لعلی ................ عظیم (86 : 4) ” اور بیشک تم اخلاق کے بڑے مرتبے پر ہو “۔ یہ خلق عظیم وہ ہے جس کا تصور کسی انسان کے لئے ممکن نہیں ہے کہ وہ اپنی محدود عقل وادراک سے اس کا تصور کرسکے۔ لیکن مختلف پہلوﺅں سے آپ کے اخلاق ” عظیم “ تھے۔

سب سے پہلا پہلو تو یہ ہے کہ یہ بات اللہ تعالیٰ کی طرف سے آرہی ہے۔ رب تعالیٰ آپ کو خلق عظیم کا لقب عطا فرمارہا ہے۔ اس میں اللہ کی مخلوق اور اس کی ناپیداکنار کائنات بھی شامل ہے۔ اور ملاء اعلیٰ کی تمام مخلوقات جو رب تعالیٰ کی کائنات کے کارندے ہیں ، سب اس میں شامل ہیں۔

آپ کے خلق عظیم کا ایک پہلو یہ ہے کہ آپ نے یہ ربانی شہادت حاصل کی۔ اپنے رب کی طرف سے حاصل کی۔ یہ جانتے ہوئے کہ اس عظیم کائنات کا عظیم باری تعالیٰ یہ کہہ رہا ہے ” یہ ایک بہت اعزاز ہے “۔ ان کلمات کا ایک عظیم مفہوم ہے ، ان کی ایک وسعت ہے ، ان کی ایک بلند گونج ہے۔ آپ جانتے تھے کہ کس عظیم ذات کی ہے یہ شہادت اور یہ شہادت کیس قدر عظیم ہے۔

یہ محمد ﷺ ہی کا ظرف تھا جو اس عظیم شہادت کو قبول کرنے کی طاقت رکھتا تھا۔ صرف آپ ہی کا حوصلہ تھا کہ اس عظیم مصدر سے یہ شہادت پائے اور سنجیدگی کے ساتھ اپنی جگہ اور مقام پر قائم رہے۔ اور اس عظیم شہادت کے دباﺅ اور اثر کو برداشت کرسکے۔ یہ ایک تعریف تھی لیکن آپ کی ذات کے اندر کوئی حرکت ، کوئی اضطراب پیدا نہ ہوا۔ نہایت اطمینان ، نہایت توازن اور سنجیدگی کے ساتھ آپ نے یہ اعزاز لیا۔ اور آپ کی عظمت کی بڑی دلیل یہ ہے کہ آپ نے اس عظیم خطاب کے بوجھ کو اٹھا لیا۔

آپ کے خلق عظیم کی روایات سے سیرت کی کتب بھری ہیں۔ آپ کے صحابی اس مضمون پر رطب اللسان ہیں اور خودآپ کا برتاﺅ ہی ایک بڑی شہادت ہے ، اس بات کی۔ لیکن رب تعالیٰ کی طرف سے یہ عظیم اعزاز عظیم تر ہے۔ یہ علی کبیر اور رب متعال کی طرف سے ہے۔ اور پھر اس سے بھی عظیم تر یہ بات ہے کہ خالق کائنات کی طرف سے یہ عظیم شہادت پاکر آپ سنجیدہ ، مطمئن ، مضبوط اور اپنے مقام پر جمے رہے۔ آپ نے انسانوں پر اپنی برتری نہیں جتائی ، آپ نے علو اختیار نہیں کیا ، بڑائی اختیار نہیں کی اور آپ نے اسے ہضم کرلیا اور آپ کا انکسار وہی رہا۔ حالانکہ یہ بہت ہی عظیم اعزاز تھا۔

اللہ جانتا ہے کہ وہ کس کو رسول بنارہا ہے۔ حضرت محمد ﷺ اپنی اس عظمت کے باوجود .... رسول تھے اور اپنی اس کائناتی عظمت کے باوجود رسالت کی ذمہ داریاں اٹھا رہے تھے اور لوگوں کے سامنے ایک انسان کی طرح عظمت اخلاق کا نمونہ پیش فرماتے تھے۔

یہ آخری رسالت جس قدر کامل اور جمیل ہے ، جس پدر عظیم اور جامع ہے ، جس قدر حق اور سچی ہے ، اس کا حامل وہی شخص ہوسکتا تھا ، جس کو خالق کائنات یہ لقب دے کہ تم خلق عظیم پر ہو۔ اور پھر آپ کی شخصیت کو بھی یہ قوت دی گئی کہ وہ اس عظمت کو وصول کرسکے۔ اور متوازن اور سنجیدہ رہے۔ ایک عظیم انسان کی طرح مطمئن رہے۔ ایک عظیم شخص ہی اس عظمت کو اٹھاسکتا ہے جو ان الفاظ میں دی گئی ہے۔ اس عظیم ثنا اور تعریف کے بعد قرآن میں بعض اوقات آپ پر عتاب بھی آیا ہے ، لیکن آپ نے اسے بھی نہایت ہی عظمت کے ساتھ سنا ہے۔ نہایت توازن اور اطمینان کے ساتھ۔ جس طرح آپ کو اس عظمت کا اعلان ہوا۔ اسی طرح آپ کو تنبیہ کرنے والی آیات کو بھی اس لازوال کتاب میں جگہ دی گئی ہے۔ اللہ نے کوئی بات چھپا کر نہیں رکھی۔ اور دونوں حالات میں نبی آخرالزمان عظیم رہے۔ آپ نے دونوں باتوں کو عظمت کے ساتھ لیا۔

نفس محمدی کی حقیقت دراصل رسالت محمدی کے اندر پوشیدہ ہے ، اور عظمت محمد ﷺ کا پیمانہ رسالت محمدیہ کی عظمت ہے۔ اور حقیقت محمدیہ یہ حقیقت دین اسلام کی طریح انسان کے ادراک سے اور انسان کے مشاہدے سے اس طرح دور ہے جس طرح اس کائنات میں کوئی کہکشاں دور ہے۔ ایک شخص رصدگاہ میں بیٹھ کر دور سے اس کی طرف اشارہ تو کرسکتا ہے لیکن کسی کے لئے حقیقت محمدیہ کا احاطہ کرنا ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ یہ حقیقت انسان کے مشاہدے اور ادراک سے بہت دور ہے۔ انسان ایک کہکشاں کی طرح دور سے اس کی طرف اشارہ تو کرسکتا ہے لیکن وہ اس کے بارے میں پوری بات نہیں کرسکتا۔

میں ایک بار پھر یہ نکتہ اٹھاتا ہوں اور اس سوچ میں پڑا ہوں کہ حقیقت محمدیہ نے کس قدر عظیم اعزاز پایا اور اسے اپنایا اور آپ کی شخصیت متوازن ، ثابت قدم اور مطمئن رہی۔ آپ بہرحال انسان تو تھے۔ کبھی جب آپ اپنے کسی رفیق کی تعریف فرماتے تو آپ کا وہ رفیق اور اس کے دوست یار خوشی کے مارے پھولے نہ سماتے۔ اس کا ان پر اس قدر اثر ہوتا کہ قریب تھا کہ ان کی شادی مرگ سے دو چار ہونا پڑے۔ باوجود اسکے کہ آپ بشر تھے۔ آپ کے ساتھی جانتے تھے کہ آپ بشر ہیں۔ اور آپ نبی ہیں اور نبوت کا ایک معلوم دائرہ ہوتا ہے۔ نبی بشر ہوتا ہے لیکن حضور اکرم ﷺ کا معاملہ اور ہے۔ آپ کے حق میں تو شہادت رب کائنات دے رہا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ رب کائنات کس قدر عظیم ہے۔ اور اگر کوئی نہیں جانتا تو حقیقت محمدیہ تو رب کائنات کی عظمت کو خوب جانتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود آپ اس عظیم شہادت کو نہایت سنجیدگی سے ہی لیتے ہیں اور اپنی روش میں کوئی فرق آنے نہیں دیتے۔ یہ ہے اصل عظمت اور یہ ہے وہ بات ، جوہر اندازے سے بلند ہے۔

حضرت محمد ﷺ وحدہ اس مقام تک پہنچے ہیں ، اس عظمت کے مقام تک۔ یہ عظمت و کمال کی بلند چوٹی ہے جس کو آپ نے صرف آپ نے سر کیا ہے۔ اس مقام تک کوئی اور انسان نہیں پہنچ سکا اور یہ حقیقت محمدیہ تھی جو اس رسالت کے اٹھانے کے اہل ہوئی جو کائناتی رسالت ہے ، ابدی رسالت ہے ، اور عالمی انسانی رسالت ہے۔ یہ رسالت آپ کی شخصیت میں مشخص ہوئی اور عملی شکل میں انسانیت کو ملی۔ یہ آخری رسالت اسی طرح آئی کہ مکہ اور مدینہ میں انسانی شکل میں پھرتی رہی۔ یہ تھے محمد ﷺ۔ اس مقام کے اہل اور اللہ ہی جانتا تھا کہ اس مقام کا اہل اس کی مخلوق میں سے کون ہے ؟ اس لئے اس نے اعلان فرمایا کہ

وانک ................ عظیم (86 : 4) ” اللہ نے بذات خود یہ اعلان کیا اور اعلان فرمایا کہ اللہ خود حضرت محمد ﷺ پر صلوٰة وسلام بھیجتا ہے۔ اور یہ اللہ ہی کی بخشش ہے جو کسی انسان کو عطا کرتا ہے۔ یہ رتبہ بلند ہے جس کو مل گیا۔

پھر اس شہادت کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے ، اور وہ یہ ہے کہ اسلامی نقطہ نظر سے انسانی نظام کے اندر اخلاق کی اہمیت کیا ہے۔ اسلامی نظام حیات میں حسن اخلاق ہر معاملے میں ایک بنیادی عنصر ہے۔

اسلامی نظریہ حیات کا مطالعہ کریں یا نبی آخرالزمان کی سیرت کا مطالعہ کریں ، نظر آئے گا کہ ان میں بنیادی عنصر اسلامی اخلاق کا ہے۔ اسی اخلاقی عنصر پر اسلام کا تہذیبی اور قانونی نظام قائم ہے۔ اس نظام میں طہارت ، نظافت ، امانت ، سچائی ، عدل ، رحم دلی ، نیکی ، وعدہ وفائی ، قول وفعل کے درمیان مطابقت ، نیت اور ضمیر کے درمیان مطابقت ، ظلم اور زیادتی کی مخالفت ، ظلم اور دھوکہ بازی کی ممانعت ، لوگوں کا مال باطل طریقے سے کھانے کی ممانعت ، لوگوں کی عزت پر حملے کی ممانعت ، فحاشی کے ارتکاب اور فحاشی کی اشاعت کی ممانعت ، خواہ وہ جس شکل میں بھی ہو۔ اور اس نظام میں جس قدر قانون سازی بھی کی گئی ہے وہ ان اخلاقیات میں سے کسی نہ کسی اخلاق کی حفاظت کے لئے کی گئی ہے اور اس قانون سازی کے ذریعہ لوگوں کے سلوک ، ان کے شعور اور طرز عمل میں اخلاقی قدریں پیدا کرنے کی سعی کی گئی ہے۔ اور یہ اخلاقیات بیک وقت انفرادی ، اجتماعی اور بین الاقوامی طرز عمل میں ملحوظ رکھے گئے ہیں۔

رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے : ” مجھے اس لئے بھیجا گیا کہ میں مکارم اخلاق کی تکمیل کردوں “۔ آپ نے اپنی بعثت کا مقصد اخلاقی تطہیر کے اندر محدود کردیا۔ اور احادیث کا ایک زمزمہ بہہ رہا ہے کہ خلق حسن اختیار کرو ، کریمانہ انداز اپناﺅ، آپ کی سیرت طیبہ اس کی ایک مثال ہے اور ایک صاف صفحہ ہے۔ اور ایک اعلیٰ تصویر ہے مکارم اخلاق کی۔ اور فی الواقعہ آپ اس بات کے مستحق تھے کہ خالق کائنات یہ شہادت دے کہ وانک ................ عظیم (86 : 4) جس طرح حضور اکرم ﷺ خلق عظیم کے اعلیٰ درجے پر ہیں اسی طرح آپ کا پیش کردہ اسلامی نظام حیات بھی اعلیٰ اخلاقی قدروں کا حامل ہے۔ اس اخلاق کے ذریعہ زمین کی بستیوں کو آسمانوں سے ملا دیا گیا اور لوگوں کے دلوں کو خدا سے جوڑ دیا گیا اور یہ بتادیا گیا کہ اللہ کن کن باتوں پر راضی ہوتا ہے۔

یہ پہلو اسلام کے اخلاقی نظام میں ایک ممتاز پہلو ہے۔ کیونکہ اسلامی اخلاقیات کسی سوسائٹی کی پیداوار نہیں ہیں ، یہ زمینی اور مادی اصولوں سے ماخوذ نہیں ہیں ، نہ یہ کسی رسم و رواج ، عزت ، مصلحت اور باہمی روابط وتعلقات سے ماخوذ ہیں۔ ان اخلاقیات کا دارومدار رضائے الٰہی پر ہے۔ اس دعوت پر ہے کہ لوگو ، اللہ کی طرف بلند ہوجاﺅ، اللہ کی صفات حمیدہ کو اپنے اندر پیدا کرو ، تاکہ تمہاری انسانیت کے آفاق آسمانوں سے مل جائیں ، تاکہ تم اخروی زندگی کو بہتر کرنے کی صلاحیت اپنے اندر پاﺅ۔ اور تم اللہ کے ہاں۔

فی مقعد .................... مقتدر (45 : 55) ” ایک مقتدر بادشاہ کے ہاں سچی مجلس میں “ بیٹھنے کے قابل ہوجاﺅ۔ اس لئے اسلامی اخلاقیات کسی مادی تصور کے اندر محدود نہیں ہیں۔ یہ لامحدود اخلاقیات ہیں۔ اور یہ ان انتہائی بلندیوں پر ہیں جہاں تک کوئی انسان پہنچنے کا تصور نہیں کرسکتا ہے۔ کیونکہ یہ اخلاقیات اللہ کی صفات کی پیروی پر مبنی ہیں ، گرے ہوئے مادی اصولوں سے ماخوذ نہیں ہیں۔

پھر اسلامی اخلاقیات ، مفرد اخلاقیات نہیں ہیں۔ صدق ، امانت ، عدل ، رحم ، نیکی ، یہ سب ایسی اخلاقیات ہیں ، جن میں ایک سے زیادہ انسانوں کا بہم تعلق پیش نظر ہوتا ہے۔ یہ ایک نظام کے ساتھ متعلق اخلاقیات ہیں۔ باہم تعاون ، باہم معاملہ ، تقسیم کار اور تقسیم حقوق اور اجتماعی تنظیم سے متعلق امور ہیں۔ ان کا تعلق زندگی کے ایک تصور سے ہے اور ان کا ماخذ ذات باری ہے۔ اس لئے یہ ربیانیت یا ذاتی اذن پر مبنی بھی نہیں ہیں اور مادی مفادات اور زمین کے اعتبارات ان کا ماخذ نہیں ہے بلکہ اللہ کی رضا ان کا اصل ماخذ ہے۔

یہ اخلاقیات اپنے کمال ، جمال ، توازن ، سیدھے پن ، تسلسل اور ثبات کے پہلو سے حضرت محمد ﷺ میں مکمل طور پر منفکس ہوئیں اور اس وجہ سے حضور ﷺ سے کہا گیا۔

وانک ................ عظیم (86 : 4) ” اور بیشک تم اخلاق کے بڑے مرتبے پر ہو “۔ اس تعریف عظیم کے بعد فرمایا جاتا ہے کہ آپ کا مستقبل نہایت تابناک ہے۔ مشرکین سے کہہ دیں کہ تم اپنے برے انجام کا انتظار کرو ، تم خلق عظیم کے مالک پر ایسے الزامات عائد کرتے ہو تنبیہ کی جاتی ہے کہ تمہارے دعوﺅں کی حقیقت تم پر جلد ہی کھل جائے گی کہ مجنون کون ہے ؟

آیت 4{ وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ۔ } ”اور آپ ﷺ یقینا اخلاق کے بلند ترین مرتبے پر فائز ہیں۔“ آپ ﷺ اپنے اخلاق اور کردار کے بلند ترین معیار کے باعث پہلے سے ہی معراجِ انسانیت کے مقام پر فائز تھے ‘ جبکہ اب آپ ﷺ معراجِ نبوت و رسالت کے سفر کا آغاز کر رہے ہیں۔

آیت 4 - سورۃ القلم: (وإنك لعلى خلق عظيم...) - اردو