سورۃ القلم: آیت 2 - ما أنت بنعمة ربك بمجنون... - اردو

آیت 2 کی تفسیر, سورۃ القلم

مَآ أَنتَ بِنِعْمَةِ رَبِّكَ بِمَجْنُونٍ

اردو ترجمہ

تم اپنے رب کے فضل سے مجنوں نہیں ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ma anta biniAAmati rabbika bimajnoonin

آیت 2 کی تفسیر

دوسرے اس بات کی تردید کے لئے جو کفار الزام لگاتے تھے کہ حضور اکرم مجنون ہیں تو اللہ تعالیٰ یہاں تردید کرتا ہے کہ رب کے فضل وکرم سے آپ مجنون نہیں ہیں۔

ماانت ............ بمجنون (86 : 2) ” تم اپنے رب کے فضل سے مجنون نہیں ہو “۔ ایک مختصر سی آیت میں ایک بات کو ثابت کیا جاتا ہے اور ایک کی نفی کردی جاتی ہے۔ ثابت یہ کیا جاتا ہے کہ آپ پر اللہ کا فضل وکرم ہے۔ اور نفی اس بات کی جاتی ہے کہ آپ مجنون نہیں ہیں۔ اور اثبات رحمت نہایت ہی اپنائیت کے ساتھ ہے۔

ربک یعنی تمہارے رب کے فضل وکرم سے۔

جب انسان قبل نبوت کی سیرت کے واقعات پڑھتا ہے تو وہ متعجب ہوتا ہے کہ اس شخص پر یہ لوگ ایسا الزام لگاتے ہیں جس کے بارے میں وہ جانتے تھے کہ وہ بہت بڑا دانا شخص ہے۔ نبوت سے کئی سال پہلے جب ان کے درمیان حجر اسود کے نصب کرنے پر اختلاف ہوگیا تو آپ نے بڑی عقلمندی سے مسئلہ کو حل کردیا۔ پھر انہوں نے آپ کو امین کا لقب دیا۔ اور آپ کے پاس وہ اپنی امانتیں رکھتے تھے۔ یہاں تک کہ ہجرت کے وقت تک امانتیں آپ کے پاس رکھی جاتی تھیں۔ سخت دشمنی کی حالت میں بھی ان کا اعتماد تھا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہجرت کے بعد ایک زمانہ تک مکہ میں رہے تاکہ لوگوں کی امانتیں ان کے حوالے کردیں جو آپ کے پاس رکھی ہوئی تھیں۔ پھر یہی وہ لوگ تھے جنہوں نے حضور اکرم ﷺ کی زبان مبارک سے کبھی جھوٹ نہ سنا تھا۔ جب ہر قل نے ابوسفیان سے پوچھا کیا نبوت سے پہلے تم نے کبھی اس پر جھوٹ بولنے کا الزام لگایا ؟ ابوسفیان ارچہ آپ کا سخت دشمن تھا مگر اس نے کہا ” نہیں “۔ تو اس پر ہرقل نے کہا جو شخص تم میں سے کسی پر جھوٹ نہیں باندھتا وہ خدا پر کس طرح جھوٹ باندھ سکتا ہے کہ لوگوں سے سچ کرے اور خدا سے جھوٹ۔

انسان حیران رہ جاتا ہے کہ مکہ کے لوگوں نے حضور اکرم ﷺ کے بارے میں یہ اور اس قسم کی دوسری باتیں کرنے کی جرات کی۔ حالانکہ آپ بہت بلند اخلاق ، مہربان ، سچے اور ان کے درمیان نہایت ہی عقلمند مشہور تھے۔ لیکن محبت ونفرت انسان کو اندھا اور بہرہ کردیتی ہیں۔ اور انسان اپنے مقاصد کے لئے جھوٹ بولنے پر بھی آمادہ ہوجاتا ہے۔ اور ہر شخص جانتا ہے کہ کہنے والا کذاب ہے۔

ماانت ................ بمجنون (86 : 2) ” تم اپنے رب کے فضل سے مجنون نہیں ہو “۔ یوں نہایت محبت اور ہمدردی کے ساتھ آپ پر سے اس الزام کی نفی کی جاتی ہے۔ اور آپ کو اس سے باعزت طور پر بری قرار دیا جاتا ہے۔ اور ان کے کافرانہ عناد اور مذموم الزام کو رد کردیا جاتا ہے۔

آیت 2 { مَـآ اَنْتَ بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ بِمَجْنُوْنٍ۔ } ”آپ اپنے رب کے فضل و کرم سے مجنون نہیں ہیں۔“ اے نبی ﷺ ! جو لوگ آپ کو مجنون کہہ رہے ہیں وہ خود احمق ہیں جو یہ تک نہیں جانتے کہ مجنون کیسے ہوتے ہیں۔ کیا ان لوگوں کو آپ ﷺ کی پاکیزہ اور اعلیٰ اخلاق کی حامل سیرت نظر نہیں آتی ؟ کیا یہ لوگ واقعتا سمجھتے ہیں کہ مجنون لوگوں کی زندگی کا نقشہ بھی ایسا ہی ہوتا ہے ؟ تو اے نبی ﷺ ! آپ ان لوگوں کی فضول اور لایعنی باتوں سے رنجیدہ نہ ہوں۔

آیت 2 - سورۃ القلم: (ما أنت بنعمة ربك بمجنون...) - اردو