سورۃ القلم: آیت 10 - ولا تطع كل حلاف مهين... - اردو

آیت 10 کی تفسیر, سورۃ القلم

وَلَا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَّهِينٍ

اردو ترجمہ

ہرگز نہ دبو کسی ایسے شخص سے جو بہت قسمیں کھانے والا بے وقعت آدمی ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wala tutiAA kulla hallafin maheenin

آیت 10 کی تفسیر

اب رسول اللہ ﷺ کو یہ حکم دیا جاتا ہے کہ ان میں سے ایک متعین شخص بڑاچرب زبان ہے ، اس کی کسی بات کو تسلیم نہ کریں۔ یہاں قرآن کریم نے اپنے مخصوص انداز میں اس کا نام نہیں لیا ، لیکن اس کی تمام گھٹیا صفات کو گنوادیا گیا ، جو اس شخص کے اندر پائی جاتی تھیں۔ اس شخص کو نہایت ذلت اور حقارت کے ساتھ دھمکی دی جاتی ہے :

ولا تطع .................... الخرطوم (61) (86 : 01 تا 61) ” ہرگز نہ دبو کسی ایسے شخص سے جو بہت قسمیں کھانے والا بےوقعت آدمی ہے ، طعنے دیتا ہے ، چغلیاں کھاتا پھرتا ہے ، بھلائی سے روکتا ہے ، ظلم و زیادتی میں حد سے گزر جانے والا ہے ، سخت بداعمال ہے ، جفاکار ہے اور ان سب عیوب کے ساتھ بداصل ہے ، اس بنا پر کہ وہ بہت مال اور اولاد رکھتا ہے۔ جب ہماری آیات اس کو سنائی جاتی ہیں تو کہتا ہے یہ تو اگلے وقتوں کے افسانے ہیں۔ عنقریب ہم اس کی سونڈ پر داغ لگائیں گے “۔

بعض روایات میں آتا ہے کہ یہ ولید ابن مغیرہ ہے ، اور اسی کے بارے میں سورة مدثر کی یہ آیات بھی نازل ہوئیں :

ذرنی ................................ ساصلیہ سقر (62) (47 : 11 تا 62) ” چھوڑ دو مجھے اور اس شخص کو جسے میں نے اکیلا پیدا کیا ، بہت سا مال اس کو دیا ، اس کے ساتھ حاضر رہنے والے بیٹے اس کو دیئے ، اور اس کے لئے ریاست کی راہ ہموار کی ، پھر وہ طمع رکھتا ہے کہ میں اسے اور زیادہ دوں۔ ہرگز نہیں ، وہ ہماری آیات سے عناد رکھتا ہے۔ میں تو اسے عنقریب ایک کٹھن چڑھائی چڑھواﺅں گا۔ اس نے سوچا اور کچھ بات بنانے کی کوشش کی تو خدا کی مار اس پر ، کیسی بات بنانے کی کوشش کی ۔ ہاں ، خدا کی مار اس پر ، کیسی بات بتانے کی کوشش کی۔ پھر لوگوں کی طرف دیکھا۔ پھر پیشانی سکیڑی اور منہ بنایا۔ پھر پلٹا اور تکبر میں پڑگیا۔ آخر کار بولا یہ کچھ نہیں ، مگر ایک جادو ، جو پہلے سے چلا آرہا ہے۔ یہ تو ایک انسانی کالم ہے۔ عنقریب میں اسے دوزخ میں جھونک دوں گا “۔

اس شخص کے بارے میں بہت سی روایات میں آتا ہے کہ یہ رسول اللہ ﷺ کے خلاف ہر وقت سازشوں میں لگا رہتا تھا۔ آپ کے ساتھیوں کو ڈراتا تھا۔ دعوت اسلامی کی راہ روکتا تھا۔ اور رات دن لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکتا تھا۔ نیز بعض روایات میں یہ بھی آتا ہے کہ سورة القلم کی آیات انفنس ابن شریق اور ولید بن مغیرہ کے بارے میں ہیں۔ یہ دونوں رسول اللہ ﷺ کے سخت مخالف تھے۔ یہ ہر وقت آپ سے برسرپیکار رہتے تھے۔ اور لوگوں کو آپ کے خلاف اکساتے تھے۔

یہ سخت تہدیدی جملہ اس سورت میں اور دوسری سورتوں میں جو اس دور میں نازل ہوئیں ، اس بات کا ثبوت ہے کہ اس دور میں حالات بہت شدید تھے اور یہ شخص جو مسلمانوں اور تحریک اسلامی کے خلاف سرگرم تھا ، خواہ ولید تھا یا انس تھا (پہلا قول راجح ہے) تحریک اسلامی کی راہ روکنے میں اس کا بہت بڑا دخل تھا۔ نیز ان تنقیدی آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ شخص بہت بدفطرت شخص تھا اور اس کے نفس میں بھلائی کی کوئی رمق نہ تھی۔

یہ کس قسم کا آدمی تھا ، قرآن نے اس کی 9 صفات بیان کی ہیں اور سب کی سب مذموم صفات ہیں :

1۔ حلاف (86 : 01) (بہت قسمیں کھانے والا) زیادہ قسمیں وہی اٹھاتا ہے جو سچا نہیں ہوتا ، اس کے شعور میں یہ بات ہوتی ہے کہ لوگ اس پر اعتماد نہیں کرتے اور اسے جھوٹا سمجھتے ہیں۔ یہ شخص قسمیں اٹھاتا ہے اور بہت زیادہ قسمیں اٹھا کر اپنے جھوٹ کو چھپاتا ہے اور اس طرح لوگوں کا اعتماد حاصل کرتا ہے۔

2۔ مھین (86 : 01) (بےوقعت) اپنی نظروں میں خود ہلکا ، لوگوں کی نظروں میں ناقابل اعتبار۔ زیادہ قسمیں اٹھانے کی ضرورت ہی اسے اس لئے پیش آتی ہے کہ وہ ہلکا ہے۔ خود اسے اپنے اوپر اعتماد نہیں۔ نہ لوگوں کو ہے۔ اگرچہ بظاہر وہ دولتمند ہے ، جتھے دار ہے۔ لہٰذا ایک بادشاہ ، ایک مالدار اور ایک قوی اور جبار شخص بھی ہلکا ہوسکتا ہے۔ اس لئے کہ اہانت اور عزت دونوں نفسیاتی صفات ہیں۔ یہ کبھی انسانی شخصیت سے دور نہیں ہوتیں۔ ایک شریف انسان باوزن ہوتا ہے۔ اگرچہ دنیا کے دوسرے پہلوﺅں سے وہ کوئی بڑا آدمی نہ ہو۔

3۔ ھماز (86 : 11) (طعنے دینے والا) یہ شخص اقوال واشارات سے لوگوں کے عیب بیان کرتا ہے ، ان کے سامنے بھی اور ان کے پس پشت بھی۔ ایسے شخص کو اسلام بہت برا خیال کرتا ہے جو لوگوں کے عیب نکالتا ہے۔ یہ بات مروت کے خلاف ہے۔ اعلیٰ آداب کے بھی خلاف ہے ، نیز لوگوں کے ساتھ برتاﺅ لوگوں کے اکرام کے خلاف ہے ، خواہ بڑے ہوں یا چھوٹے ہوں۔ اس صفت کو قرآن کریم نے متعدد مقامات میں لیا ہے۔ اور اس کی سخت ممانعت کی ہے۔

ایک جگہ کہا گیا۔ ویل ................ لمزة (401 : 1) ” تباہی ہے ہر اس شخص کے لئے جو لوگوں پر طعن کرے اور برائیاں کرنے کا خوگر ہو “۔ اور دوسری جگہ ہے۔

یایھا الذین ............................ الایمان (94 : 11) ” اے لوگو جو ایمان لائے ہو نہ مرددوسرے مردوں کا مذاق اڑائیں ، ہوسکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں۔ اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں ، ہوسکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں۔ آپس میں ایک دوسرے پر طعن نہ کرو اور نہ ایک دوسرے کو برے القاب سے یاد کرو ، ایمان لانے کے بعد فسق میں نام پیدا کرنا بہت بری بات ہے “۔ یہ سب بدخونی اور چغل خوری کی اقسام ہیں۔

4۔ مشاء بنمیم (86 : 11) (چغلیاں کھاتا پھرتا ہے) وہ لوگوں کے درمیان ایسی باتیں پھیلاتا ہے جن سے ان کے دل میلے ہوں ، تعلقات ختم ہوں ، محبت ختم ہو ، یہ ایک ذلیل حرکت ہے اور ہلکے لوگ ایسا کام کیا کرتے ہیں۔ کوئی خوددار شخص اس قسم کی حرکت کا ارتکاب نہیں کیا کرتا جو یہ توقع کرتا ہو کہ لوگ اسے اچھی نظروں سے دیکھیں۔ یہاں تک کہ جو لوگ اس قسم کے شخص کی باتیں سنتے ہیں وہ بھی اسے اچھا نہیں سمجھتے۔ دل سے یہ لوگ بھی اسے برا سمجھتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ کاش یہ شخص یہ بری بات انہیں نہ بتاتا۔

حضور اکرم ﷺ اس بات کو پسند نہ فرماتے تھے کہ آپ کو ایسی بات بتائی جائے جس سے آپ کا دل اپنے کسی صحابی سے خفا ہو۔ آپ فرماتے : ” کوئی شخص مجھے میرے ساتھی کی ایسی بات نہ بتائے کیونکہ میں پسند کرتا ہوں کہ میں تمہارے پاس نکلوں اور میرا دل تمہارے بارے میں صاف ہو “۔ (ابوداﺅ وغیرہ) صحیحین میں ہے : ” رسول اللہ ﷺ دو قبروں کے پاس سے گزرے اور فرمایا یہ دونوں عذاب میں مبتلا ہیں اور یہ کسی بڑے جرم میں سزاوار نہیں ہیں۔ ایک تو اس لئے کہ یہ پیشاب سے اپنے آپ کو بچاتا نہ تھا اور دوسرا چغل خور تھا “۔

امام احمد نے حضرت حذیفہ کی یہ حدیث نقل کی ہے ” جنت میں چغلی کھانے والا داخل نہ ہوگا “۔ (ابن ماجہ)

امام احمد نے بریدہ ابن الحکم کی روایت نقل کی ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا بتاﺅں میں کہ تم میں سے اچھا کون ہے ؟ صحابہ ؓ نے عرض کیا جی ہاں یارسول اللہ ! ” وہ لوگ جب ان کو دیکھا جائے تو خدا یاد آجائے “۔ پھر فرمایا کہ بتاﺅں کہ برے لوگ کون ہیں ؟ “۔ وہ جو چغلی کھاتے ہیں ، جو دوستوں کے درمیان دشمنی پیدا کرتے ہیں جو پاک دامن لوگوں میں ، عیب تلاش کرتے ہیں “۔

اسلام کے لئے اس قسم کی بری خصلت کی مذمت بہت ضروری تھی ، کیونکہ یہ خصلت مذموم ، گری ہوئی اور سوسائٹی میں فساد ڈالنے والی ہے ، جس طرح دوستوں میں فساد پیدا کرتی ہے اور اس قسم کے شخص کو ننگا کرنا ضروری تھا ، قبل اس کے کہ وہ اسلامی سوسائٹی کے اندر فساد پیدا کردے ، لوگوں کے دلوں کو ایک دوسرے سے بھر دے ، اور قبل اس سے کہ وہ سوسائٹی کی سلامتی کو نقصان پہنچائے۔ ایسے لوگ اکثر اوقات بےگناہ لوگوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔

5۔ مناع للخیر (86 : 21) (بھلائی سے روکنے والا) یعنی وہ بھلائی سے اپنے آپ کو بھی محروم کرتا ہے اور دوسروں کو بھی۔ یہ شخص لوگوں کو ایمان روکتا تھا ، حالانکہ ایمان بھلائی کا سرچشمہ ہوتا ہے۔ اس شخص کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ شخص اپنی اولاد اور اہل خاندان سے کہا کرتا تھا : ” اگر تم میں سے کسی نے دین محمد کو قبول کیا تو میں اسے کبھی بھی نفع نہ پہنچاﺅں گا “۔ جس کے بارے میں اسے شک ہوتا کہ وہ دین اسلام کی طرف مائل ہے۔ یوں ان کو وہ اس طرح دھمکی دے کر ڈراتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے اس کی اس حرکت کو بھی ریکارڈ کردیا کہ وہ بھلائی سے روکنے والا ہے۔

6۔ معتد (86 : 21) (ظلم و زیادتی میں حد سے گزرنے والا ہے) حق اور عدل سے آگے بڑھ جاتا ہے۔ نبی ﷺ پر یہ شخص تعدی کرتا ، مسلمانوں پر ظلم کرتا ، اپنے خاندان والوں پر ظلم کرتا ، اور ان کو ہدایت اور دین حق سے روکتا۔ کسی پر ظلم کرنا بہت ہی بری حرکت ہے اور قرآن وسنت میں اس کی شخت ممانعت کی گئی ہے۔ اسلام ظلم کی ہر صورت کی بیخ کنی چاہتا ہے۔ یہاں تک کہ کھانے اور پینے میں بھی۔

کلوا ................ تطغوا ” جو رزق ہم نے تم کو دیا ہے اس میں سے پاکیزہ چیزیں کھاﺅ اور حد سے نہ گزرو “۔ عدل اور اعتدال اسلام کا بنیادی اصول اور اسلام کی نشانی ہے۔

7۔ اثیم (86 : 21) (بداعمال ہے) وہ برے اعمال کا ارتکاب کرتا ہے گویا اثم کی صفت اس کے ساتھ لازم ہوگئی ہے۔ پس یہ گنہگار ہے ، اور ہر قسم کے معاصی کا ارتکاب کرتا ہے۔ یہ صفت اس کے ساتھ لازم ہے۔ گویا اس کا مزاج ہی ایسا ہے کہ ہر برائی کا ارتکاب کرے۔

8۔ عتل (86 : 31) (جفاکار) یہ ایک لفظ ہے جو اپنے تلفظ اور مفہوم کی رنگارنگی کی وجہ سے کئی معانی دیتا ہے ، یہ ایک ایسا جامع مفہوم دیتا ہے کہ کئی الفاظ اس کو ادا نہیں کرسکتے۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ عتل کے معنی شخت اور خشک کے ہیں ، یعنی ظالم۔ اس کے یہ معنی بھی ہیں کہ بہت کھانے اور پینے والا ہے۔ اور سخت وحشی اور روکنے والا ہے ، اپنی مذموم طبیعت میں بیگانہ ہے۔ معاملات میں برا ہے۔

حضرت ابوالدرداء سے روایت ہے : ” عتل ، بڑے پیٹ والا ، کج خلق ، بہت کھانے والا ، بہت پینے والا ، دولت جمع کرنے والا ، اور بخیل وکنجوس ہوتا ہے “۔ لیکن لفظ عتل میں یہ سب مفہوم اس کی کرخت آواز ہی سے ظاہر ہوتے ہیں۔ یعنی وہ شخص جو مکارم اخلاق کے ہر پہلو سے کریمہ المنظر ہو۔

9۔ زنیم (86 : 31) ” بےاصل “ یہ اخلاق ذمیمہ کا خاتمہ ہے۔ یہ اسلام کے دشمنوں میں سے ایک دشمن کی صفات ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کے دشمن ایسے ہی مکروہ لوگ ہوسکتے ہیں۔ زنیم اس شخص کو کہتے ہیں جو کسی قوم کے ساتھ لاحق ہوگیا ہو اور وہ دراصل ان میں سے نہ ہو ، یا یہ کہ ان میں اس کی نسب مشکوک ہو اور اس کے مفاہم میں یہ بھی ہے کہ جو شخص لوگوں میں خباثت ، ذلت اور شرارتوں میں بہت ہی مشہور ہو ، اسے بھی زنیم کہا جاتا ہے۔ دوسرا مفہوم زیادہ قریب ہے اور ولید ابن مغیرہ زیادہ فٹ آتا ہے۔ اگرچہ اس لفظ کا اطلاق اس پر ایسی صفت چسپاں کرتا ہے کہ قوم میں وہ ہلکا ہو جبکہ وہ زیادہ فخر کرنے والا اور اپنے آپ کو بڑا سمجھنے والا ہو۔

آیت 10{ وَلَا تُطِعْ کُلَّ حَلَّافٍ مَّہِیْنٍ۔ } ”اور آپ ﷺ مت مانیے کسی ایسے شخص کی بات جو بہت قسمیں کھانے والا انتہائی گھٹیا ہے۔“ ان دونوں خصوصیات کا آپس میں فطری تعلق ہے۔ اپنی شخصیت کے ہلکے پن کی تلافی کرنے کے لیے بات بات پر قسمیں کھانا ہر گھٹیا آدمی کی ضرورت ہوتی ہے۔ لفظ ”مَہِیْن“ ذلیل و حقیر اور گھٹیا آدمی کے لیے بولا جاتا ہے۔

آیت 10 - سورۃ القلم: (ولا تطع كل حلاف مهين...) - اردو