سورۃ المطففین: آیت 1 - ويل للمطففين... - اردو

آیت 1 کی تفسیر, سورۃ المطففین

وَيْلٌ لِّلْمُطَفِّفِينَ

اردو ترجمہ

تباہی ہے ڈنڈی مارنے والوں کے لیے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waylun lilmutaffifeena

آیت 1 کی تفسیر

سورت کا آغاز ناپ تول میں ڈنڈی مارنے والوں پر تنقیدی حملے سے ہوتا ہے کہ ان ڈنڈی مارنے والوں (مطففین) کے لئے تباہی اور ہلاکت ہے۔ یہاں بطور فیصلہ یہ بات بتائی جارہی ہے کہ ان کی ہلاکت کا فیصلہ ہوچکا ہو یا یہ ان کے حق میں بددعا ہو ، مطلب دونوں کا ایک ہی ہے کیونکہ اللہ کی جانب سے بددعا بھی ایک فیصلہ ہوتا ہے۔

آیت 1{ وَیْلٌ لِّلْمُطَفِّفِیْنَ۔ } ”ہلاکت ہے کمی کرنے والوں کے لیے۔“ وَیْل کے معنی تباہی ‘ بربادی اور ہلاکت کے بھی ہیں اور یہ جہنم کی ایک وادی کا نام بھی ہے۔ ’ طف ‘ لغوی اعتبار سے حقیر سی چیز کو کہا جاتا ہے۔ اسی معنی میں یہ لفظ کم تولنے یا کم ماپنے کے مفہوم میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ مُطَفِّف وہ ہے جو حق دار کو اس کا پورا حق نہیں دیتا بلکہ اس میں کمی کردیتا ہے۔ ظاہر ہے جو شخص ماپ تول میں کمی کرتا ہے وہ اپنے اس عمل کے ذریعے متعلقہ چیز کی بہت تھوڑی سی مقدار ہی ناحق بچا پاتا ہے۔ اس کے باوجود اسے یہ احساس نہیں ہوتا کہ وہ اتنی حقیر سی چیز کے لیے اپنا ایمان فروخت کر رہا ہے۔ بہرحال اس آیت میں کم تولنے یا کم ماپنے والوں کو آخرت میں بربادی اور جہنم کی نوید سنائی گئی ہے۔

ناپ تول میں کمی کے تنائج نسائی اور ابن ماجہ میں ہے حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ جب نبی ﷺ مدینہ میں تشریف لائے اس وقت اہل مدینہ ناپ تول کے اعتبار سے بہت برے تھے۔ جب یہ آیت اتری پھر انہوں نے ناپ تول بہت درست کرلیا ابن ابی حاتم میں ہے کہ حضرت ہلال بن طلق نے ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے کہا کہ مکہ مدینے والے بہت ہی عمدہ ناپ تول رکھتے ہیں۔ آپ نے فرمایا وہ کیوں نہ رکھتے جب کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے آیت (وَيْلٌ لِّـلْمُطَفِّفِيْنَ ۙ) 83۔ المطففین :1) ہے۔ پس تطفیف سے مراد ناپ تول کی کمی ہے خواہ اس صورت میں کہ اوروں سے لیتے وقت زیادہ لے لیا اور دیتے وقت کم دیا۔ اسی لیے انہیں دھمکایا کہ یہ نقصان اٹھانے والے ہیں کہ جب اپنا حق لیں تو پورا لیں بلکہ زیادہ لے لیں اور دوسروں کو دینے بیٹھیں تو کم دیں۔ ٹھیک یہ ہے کہ کالو اور وزنو کو متعدی مانیں اور ھُم کو محلا منصوب کہیں گو بعض نے اسے ضمیر موکد مانا ہے۔ جو کالو اور وزنو کی پوشیدہ ضمیر کی تاکید کے لیے ہے اور مفعول محذوف مانا ہے جس پر دلالت کلام موجود ہے دونوں طرح مطلب قریب قریب ایک ہی ہے۔ قرآن کریم نے ناپ تول درست کرنے کا حکم اس آیت میں بھی دیا ہے۔ آیت (وَاَوْفُوا الْكَيْلَ اِذَا كِلْتُمْ وَزِنُوْا بالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَــقِيْمِ ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا 35؀) 17۔ الإسراء :35) یعنی جب ناپو تو ناپ پورا کرو اور وزن سیدھے ترازو سے تول کردیا کرو۔ اور جگہ حکم ہے۔ آیت (وَاَوْفُوا الْكَيْلَ وَالْمِيْزَان بالْقِسْطِ ۚ لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا01502ۙ) 6۔ الانعام :152) ناپ تول انصاف کے ساتھ برابر کردیا کرو، ہم کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے اور جگہ فرمایا آیت (وَاَقِيْمُوا الْوَزْنَ بالْقِسْطِ وَلَا تُخْسِرُوا الْمِيْزَانَ ؀) 55۔ الرحمن :9) یعنی تول کو قائم رکھو اور میزان کو گھٹاؤ نہیں۔ حضرت شعیب ؑ کی قوم کو اسی بدعادت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے غارت و برباد کردیا یہاں بھی اللہ تعالیٰ ڈرا رہا ہے۔ کہ لوگوں کے حق مارنے والے کیا قیامت کے دن سے نہیں ڈرتے جس دن یہ اس ذات پاک کے سامنے کھڑے ہوجائیں گے۔ جس پر نہ کوئی پوشیدہ بات پوشیدہ ہے نہ ظاہر، وہ دن بھی نہایت ہولناک و خطرناک ہوگا۔ بڑی گھبراہٹ اور پریشانی والا دن ہوگا، اس دن یہ نقصان رساں لوگ جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل ہوں گے وہ جگہ بھی نہایت تنگ و تاریک ہوگی اور میدان آفات و بلیات سے پر ہوگا اور وہ مصائب نازل ہو رہے ہوں گے کہ دل پریشان ہوں گے حواس بگڑے ہوئے ہوں گے ہوش جاتا رہے گا صحیح حدیث میں ہے کہ آدھے آدھے کانوں تک پسینہ پہنچ گیا ہوگا۔ (موطا مالک) مسند احمد کی حدیث میں ہے اس دن رحمان عز و جل کی عظمت کے سامنے سب کھڑے کپکپا رہے ہوں گے اور حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن بندوں سے سورج اس قدر قریب ہوجائے گا کہ ایک یا دو نیزے کے برابر اونچا ہوگا اور سخت تیز ہوگا ہر شخص اپنے اپنے اعمال کے مطابق اپنے پسینے میں غرق ہوگا بعض کی ایڑیوں تک پسینہ ہوگا بعض کے گھٹنوں تک بعض کی کمر تک بعض کو تو ان کا پسینہ لگام بنا ہوا ہوگا اور حدیث میں ہے دھوپ اس قدر تیز ہوگی کہ کھوپڑی بھنا اٹھے گی اور اس طرح اس میں جوش اٹھنے لگے گا جس طرح ہنڈیا میں ابال آتا ہے اور روایت میں ہے کہ حضور ﷺ نے اپنے منہ پر اپنی انگلیاں رکھ کر بتایا کہ اس طرح پسینہ کی لگام چڑھی ہوئی ہوگی پھر آپ نے ہاتھ سے اشارہ کر کے بتایا کہ بعض بالکل ڈوبے ہوئے ہوں گے اور حدیث میں ہے ستر سال تک بغیر بولے چالے کھڑے رہیں گے یہ بھی کہا گیا ہے کہ تین سو سال تک کھڑے رہیں گے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ چالیس ہزارسال تک کھڑے رہیں گے اور دس ہزار سال میں فیصلہ کیا جائے گا صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے مرفوعاً مروی ہے کہ اس دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہوگی ابن ابی حاتم کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بشیر غفاری ؓ سے فرمایا تو کیا کرے گا جس دن لوگ اللہ رب العالمین کے سامنے تین سو سال تک کھڑے رہیں گے نہ تو کوئی خبر آسمان سے آئیگی نہ کوئی حکم کیا جائیگا حضرت بشیر کہنے لگے اللہ ہی مددگار ہے آپ نے فرمایا سنو جب بستر پر جاؤ تو اللہ تعالیٰ سے قیامت کے دن کی تکلیفوں اور حساب کی برائی سے پناہ مانگ لیا کرو۔ سنن ابو داؤد میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ قیامت کے دن کے کھڑے ہونے کی جگہ کی تنگی سے پناہ مانگا کرتے تھے۔ حضرت ابن مسعود سے روایت ہے کہ چالیس سال تک لوگ اونچا سر کیے کھڑے رہیں گے کوئی بولے گا نہیں نیک و بد کو پسینے کی لگام میں چڑھی ہوئی ہوں گی۔ ابن عمر فرماتے ہیں سو سال تک کھڑے رہیں گے (ابن جریر) ابو داؤد، نسائی ابن ماجہ میں ہے کہ حضور ﷺ جب رات کو اٹھ کر تہجد کی نماز شروع کرتے تو دس مرتبہ اللہ اکبر کہتے، دس مرتبہ الحمد اللہ کہتے، دس مرتبہ سبحان اللہ کہتے، دس مرتبہ استغفر اللہ کہتے۔ پھر کہتے دعا (اللھم اغفرلی واھدنی وارزقنی وعافنی) اے اللہ مجھے بخش مجھے ہدایت دے مجھے روزیاں دے اور عافیت عنایت فرما پھر اللہ تعالیٰ سے قیامت کے دن کے مقام کی تنگی سے پناہ مانگتے۔

آیت 1 - سورۃ المطففین: (ويل للمطففين...) - اردو