سورۃ المرسلات: آیت 1 - والمرسلات عرفا... - اردو

آیت 1 کی تفسیر, سورۃ المرسلات

وَٱلْمُرْسَلَٰتِ عُرْفًا

اردو ترجمہ

قسم ہے اُن (ہواؤں) کی جو پے در پے بھیجی جاتی ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waalmursalati AAurfan

آیت 1 کی تفسیر

والمرسلت ........................................ لواقع

مسئلہ دراصل وقوع قیامت کا ہے۔ مشرکین مکہ کے لئے اس کا سمجھنا مشکل ہورہا تھا کہ آیا یہ کس طرح واقع ہوگی۔ قرآن کریم نے اس مسئلہ کو مختلف اسالیب میں ، مختلف دلائل و شواہد کے ساتھ بیان فرمایا۔ یہ مسئلہ ان لوگوں کے ذہن میں اٹھانا بہت ہی ضروری تھا ، اس لئے کہ اس کے سوا اسلامی نظریہ حیات ان کے ذہن میں بیٹھ ہی نہ سکتا تھا۔ اور نہ ان کی زندگی کی قدریں صحیح طرح متعین ہوسکتی تھیں۔ اور نہ زندگی کے اصول اور فروغ وضع ہوسکتے تھے۔ تمام آسمانی کتب اور عقائد میں وقوع قیامت کا عقیدہ پہلا زینہ رہا ہے۔ دراصل انسانی زندگی کی اصلاح اور صحیح تعمیر اس کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔ انسان کی زندگی اور اس کے اعمال کا دارومدار اسی عقیدے پر ہے۔ انسانی زندگی کے مختلف پہلوﺅں کو صرف اس عقیدے کے ذریعہ ہی درست کیا جاسکتا ہے۔ اور انسان کے لئے صحیح قیامت کی جوابدہی کے تصور ہی سے کی جاسکتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے اس عقیدے کو عربوں کے ذہن میں بٹھانے کے لئے اس قدر طویل جدوجہد کی تاکہ وہ اس پر اچھی طرح یقین پیدا کرلیں۔

سورت کے آغاز میں اللہ کی قسم اٹھاتا ہے کہ آخرت کا وعدہ پورا ہونے والا ہے۔ اور قسم کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ جن امور پر اللہ نے قسم اٹھائی ہے وہ بھی غیبی حقائق ہیں۔ ایسی قوتیں ہی پوشیدہ ہیں اور اس کائنات کے نظام میں وہ بہت ہی موثر ہیں جس طرح انسانی زندگی کے اندر بھی موثر ہیں۔ سلف صالحین نے ان کے مفہوم کے تعین میں اختلاف کیا ہے۔ بعض نے یہ کہا ہے کہ ان تمام الفاظ سے مراد ہوائیں ہیں ، بعض نے کہا کہ ان سے مراد ملائکہ ہیں۔ بعض نے کہا کہ بعض الفاظ سے مراد ہوائیں ہیں اور بعض سے مراد ملائکہ ہیں۔ ان تعبیرات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا مفہوم اور مدلول بہرحال مجمل اور پوشیدہ ہے۔ اور یہاجمال ، غموض اور عدم وضاحت اس حقیقت کے زیادہ مناسب ہے۔ جس پر قسم اٹھائی جارہی ہے کیونکہ وہ بھی غیبی حقیقت ہے اور جس طرح وہ چیزیں جن کی قسم اٹھائی جارہی ہے ، خواہ فرشتے ہوں یا ہوائیں ہوں ، انسانی زندگی میں موثر ہیں۔ اسی طرح قیامت بھی انسانی زندگی میں موثر ہوگی۔

والمرسلت عرفا (1:77) ” قسم ہے ان کی جو پے درپے بھیجے جاتے ہیں “۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ان سے مراد ملائکہ ہیں۔ مسروق ، ابوالضحیٰ ، مجاہد سے ایک روایت کے مطابق : سدی ، ربیع ابن انس ابو صالح (ایک روایت کے مطابق) سے بھی ایسی ہی روایت ہے۔ اس صورت میں معنی یہ ہوگا کہ قسم ہے ان فرشتوں کی جن کو احکامات الٰہیہ کے ساتھ پے درپے بھیجا جاتا ہے۔ جس طرح گھوڑے کی گردن کے بال (ایال) لمبے اور مسلسل ہوتے ہیں۔ ایک لائن میں اسی طرح یہ فرشتے پے درپے آتے ہیں۔ یہی بات انہوں نے عاصفات ، ناشرات ، فارقات اور ملقلیت کے بارے میں کہی ہے کہ ان سے مراد فرشتے ہیں۔

اور حضرت ابن سعود سے روایت ہے کہ المرسلات عرفا سے مراد ہوئیں ہیں ، اس صورت میں معنی یہ ہوگا کہ وہ مسلسل اور پے درپے چلتی ہیں جس طرح گھوڑے کے ایال چلتے ہیں۔ یہی رائے انکی عاصفات اور ناشرات کے بارے میں ہے۔ حضرت ابن عباس ، مجاہد ، قتادہ اور ابوصالح نے (ایک روایت کے مطابق) بھی اس کی تائید کی۔

ابن جریر نے المرسلات کے بارے میں توقف کیا ہے کہ اس سے مراد ملائکہ ہیں یا ہوائیں اللہ ہی جانتا ہے۔ لیکن عاصفات سے انہوں نے قطعاً مراد ہوائیں لی ہیں۔ یہی بات انہوں نے ناشرات کے بارے میں کہی کہ یہ ہوائیں ہیں جو بادلوں کو بکھیرتی ہیں۔

اور حضرت ابن مسعود سے روایت ہے (الفارقات فرقا ، الملقیات ذکرا ، عذرا ونذرا) سے مراد فرشتے ہیں۔ یہی رائے حضرت ابن عباس ، مسروق ، مجاہد ، قتادہ ربیع ابن انس ، سدی اور ثوری سے منقول ہے۔ اور اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ یہ فرشتے اللہ کے احکام لے کر رسولوں پر آتے ہیں اور حق و باطل کے درمیان فرق کرتے ہیں۔ رسولوں پر وحی کا القا کرتے ہیں ، جس کے اندر لوگوں کے لئے ذرا اوالورا تمام حجت ہے۔

میری رائے یہ ہے کہ ان الفاظ یا ان کے اس مفہوم کو ارادتاً مجہول رکھا گیا ہے جس کی قسم اٹھائی گئی ہے مثلاً (الذاریات ذروا) اور (النازغات غرقا) کے مفہوم کو ارادتاً مجمل رکھا گیا ہے۔ نیز متقدمین نے ان کے مفہوم میں جو اختلاف کیا ہے یہ بھی دلیل ہے اس امرپر کہ ان الفاظ کے مفہوم مقسم بہ کو مہم رکھا گیا ہے اور ان مقامات پر ابہام اصل مقصود تھا۔ لہٰذا اشاراتی انداز ہی اس مقام پر زیادہ موزوں ہے۔ یہ الفاظ اور ان کی مبہم اشارات اور ان کا تسلسل اور ترنم اور ان کی پدا کردہ فضا انسانی شعور کے اندر ایک ارتعاش پیدا کرتی ہے۔ اور یہ ارتعاش اور کام ابھارنا اس سورت کے موضوع اور سورت کے رخ کے ساتھ زیادہ ہم آہنگ ہیں۔ اس سورت کا ہر مقطع دراصل انسان کو ایک شدید جھٹکا دیتا اور جھنجھوڑتا ہے کہ باز آجاﺅ ان بداعمالیوں سے اور اللہ کی ظاہر اور باہر اور حقیقی آیات ونشانات کا انکار نہ کرو۔ اور اگر تم باز نہیں آتے تو پھر تکذیب پر اصرار کرنے والوں کے متعین انجام کے لئے تیار ہوجاﺅ۔

ویل ............................ للمکذبین ” اس دن انکار کرنے والوں کے لئے ہلاکت ہے “۔

اس کے بعد انسانی فکر ونظر اور شعور کو ایک شدید جھٹکا دیا جاتا ہے کہ جب وہ دن آئے گا جس کا تمام رسولوں کے ساتھ وعدہ کیا گیا ہے۔ جس دن تمام رسول اپنی کارکردگی پیش کریں گے اور جس دن لوگوں کی اعمال کے فیصلے ہوں گے تو وہ کیسا دن ہوگا۔

آیت 1{ وَالْمُرْسَلٰتِ عُرْفًا۔ } ”قسم ہے ان ہوائوں کی جو چلائی جاتی ہیں بڑی آہستگی سے۔“ اللہ تعالیٰ ان ہوائوں کو خاص مقاصد کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت چلاتا ہے۔

فرشتوں اور ہواؤں کی اقسام بعض بزرگ صحابہ تابعین وغیرہ سے تو مروی ہے کہ مذکورہ بالا قسمیں ان اوصاف والے فرشتوں کی کھائی ہیں، بعض کہتے ہیں پہلے کی چار قسمیں تو ہواؤں کی ہیں اور پانچویں قسم فرشتوں کی ہے، بعض نے توقف کیا ہے کہ والمرسلات سے مراد یا تو فرشتے ہیں یا ہوائیں ہیں، ہاں (والعاصفات) میں کہا ہے کہ اس سے مراد تو ہوائیں ہی ہیں، بعض عاصفات میں یہ فرماتے ہیں اور (ناشرات) میں کوئی فیصلہ نہیں کرتے، یہ بھی مروی ہے کہ ناشرات سے مراد بارش ہے، بہ ظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ مرسلات سے مراد ہوائیں ہے، جیسے اور جگہ فرمان باری (وَاَرْسَلْنَا الرِّيٰحَ لَوَاقِحَ فَاَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَاَسْقَيْنٰكُمُوْهُ ۚ وَمَآ اَنْتُمْ لَهٗ بِخٰزِنِيْنَ 22؀) 15۔ الحجر :22) ، یعنی ہم نے ہوائیں چلائیں جو ابر کو بوجھل کرنے والی ہیں اور جگہ ہے (وَمِنْ اٰيٰتِهٖٓ اَنْ يُّرْسِلَ الرِّيَاحَ مُبَشِّرٰتٍ وَّلِيُذِيْقَكُمْ مِّنْ رَّحْمَتِهٖ وَلِتَجْرِيَ الْفُلْكُ بِاَمْرِهٖ وَلِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ 46؀) 30۔ الروم :46) الخ، اپنی رحمت سے پیشتر اس کی خوشخبری دنیے والی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں وہ چلاتا ہے، (عاصفات) سے بھی مراد ہوائیں ہیں، وہ نرم ہلکی اور بھینی بھینی ہوائیں تھیں یہ ذرا تیز جھونکوں والی اور آواز والی ہوائیں ہیں ناشرات سے مراد بھی ہوائیں ہیں جو بادلوں کو آسمان میں ہر چار سو پھیلا دیتی ہیں اور جدھر اللہ کا حکم ہوتا ہے انہیں لے جاتی ہیں (فارقات) اور (ملقیت) سے مراد البتہ فرشتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے حکم سے رسولوں پر وحی لے کر آتے ہیں جس سے حق و باطل حلال و حرام میں ضالت و ہدایت میں امتیاز اور فرق ہوجاتا ہے تاکہ ہے جس دن تم سب کے سب اول آخر والے اپنی اپنی قبروں سے دوبارہ زندہ کئے جاؤ گے اور اپنے کرتوت کا پھل پاؤ گے نیکی کی جزا اور بدی کی سزا پاؤ گے، صور پھونک دیا جائے گا اور ایک چٹیل میدان میں تم سب جمع کر دئے جاؤ گے یہ وعدہ یقیناً حق ہے اور ہو کر رہنے والا اور لازمی طور پر آنے والا ہے، اس دن ستارے بےنور ہو کر گرجائیں گے اور آسمان پھٹ جائے گا ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے گا اور یہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر اڑ جائیں گے یہاں تک کہ نام نشان بھی باقی نہ رہے گا جیسے اور جگہ ہے آیت (وَيَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْجِبَالِ فَقُلْ يَنْسِفُهَا رَبِّيْ نَسْفًا01005ۙ) 20۔ طه :105) ، اور فرمایا آیت (وَيَوْمَ نُسَيِّرُ الْجِبَالَ وَتَرَى الْاَرْضَ بَارِزَةً ۙ وَّحَشَرْنٰهُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنْهُمْ اَحَدًا 47؀ۚ) 18۔ الكهف :47) ، یعنی پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر اڑ جائیں گے اور اس دن وہ چلنے لگیں گے بالکل نام و نشان مٹ جائے گا اور زمین ہموار بغیر اونچ نیچے کی رہ جائے گی اور رسولوں کو جمع کیا جائے گا اس وقت مقررہ پر انہیں لایا جائے گا، جیسے اور جگہ ہے آیت (يَوْمَ يَجْمَعُ اللّٰهُ الرُّسُلَ فَيَقُوْلُ مَاذَآ اُجِبْتُمْ01009) 5۔ المآئدہ :109) ، اس دن اللہ تعالیٰ رسولوں کو جمع کرے گا اور ان سے شہادتیں لے گا جیسے اور جگہ ہے آیت (وَاَشْرَقَتِ الْاَرْضُ بِنُوْرِ رَبِّهَا وَوُضِعَ الْكِتٰبُ وَجِايْۗءَ بالنَّـبِيّٖنَ وَالشُّهَدَاۗءِ وَقُضِيَ بَيْنَهُمْ بالْحَــقِّ وَهُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ 69؀) 39۔ الزمر :69) ، زمین اپنے رب کے نور سے چمک اٹھے گی نامہ اعمال دے دیئے جائیں گے نبیوں کو اور گواہوں کو لایا جائے گا اور حق و انصاف کے ساتھ فیصلے کئے جائیں گے اور کسی پر ظلم نہ ہوگا، پھر فرماتا ہے کہ ان رسولوں کو ٹھہرایا گیا تھا اس لئے کہ قیامت کے دن فیصلے ہوں گے، جیسے فرمایا آیت (فَلَا تَحْسَبَنَّ اللّٰهَ مُخْلِفَ وَعْدِهٖ رُسُلَهٗ ۭاِنَّ اللّٰهَ عَزِيْزٌ ذو انْتِقَامٍ 47؀ۭ) 14۔ ابراھیم :47) ، یہ خیال نہ کر کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں سے وعدہ خلافی کرے گا نہیں نہیں اللہ تعالیٰ بڑے غلبہ والا اور انتقام والا ہے، جس دن یہ زمین بدل دی جائے گی اور آسمان بھی اور سب کے سب اللہ واحد وقہار کے سامنے پیش ہوجائیں گے، اسی کو یہاں فیصلے کا دن کہا گیا، پھر اس دن کی عظمت ظاہر کرنے کے لئے فرمایا میرے معلوم کرائے بغیر اے نبی ﷺ تم بھی اس دن کی حقیقت سے باخبر نہیں ہوسکتے، اس دن ان جھٹلانے والوں کے لئے سخت خرابی ہے، ایک غیر صحیح حدیث میں یہ بھی گذر چکا ہے کہ ویل جہنم کی ایک وادی کا نام ہے۔

آیت 1 - سورۃ المرسلات: (والمرسلات عرفا...) - اردو