سورۃ المنافقون: آیت 6 - سواء عليهم أستغفرت لهم أم... - اردو

آیت 6 کی تفسیر, سورۃ المنافقون

سَوَآءٌ عَلَيْهِمْ أَسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ أَمْ لَمْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ لَن يَغْفِرَ ٱللَّهُ لَهُمْ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ لَا يَهْدِى ٱلْقَوْمَ ٱلْفَٰسِقِينَ

اردو ترجمہ

اے نبیؐ، تم چاہے ان کے لیے مغفرت کی دعا کرو یا نہ کرو، ان کے لیے یکساں ہے، اللہ ہرگز انہیں معاف نہ کرے گا، اللہ فاسق لوگوں کو ہرگز ہدایت نہیں دیتا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Sawaon AAalayhim astaghfarta lahum am lam tastaghfir lahum lan yaghfira Allahu lahum inna Allaha la yahdee alqawma alfasiqeena

آیت 6 کی تفسیر

سواء علیھم .................... الفسقین (36 : 6) ” اے نبی ! تم چاہے ان کے لئے مغفرت کی دعا کرو یا نہ کرو ، ان کے لئے یکساں ہے ، اللہ ہرگز انہیں معاف نہ کرے گا ، اللہ فاسق لوگوں کو ہرگز ہدایت نہیں دیتا “۔

ان کے فسق وفجور کی ایک جھلک ملاحظہ ہو ، جس کی وجہ سے اللہ نے ان کے بارے میں فیصلہ کردیا ہے کہ انہیں ہدایت نصیب نہ ہوگی۔

آیت 6{ سَوَآئٌ عَلَیْہِمْ اَسْتَغْفَرْتَ لَہُمْ اَمْ لَمْ تَسْتَغْفِرْ لَہُمْ } ”اے نبی ﷺ ! ان کے لیے برابر ہے کہ آپ ان کے لیے استغفار کریں یا ان کے لیے استغفار نہ کریں۔“ { لَنْ یَّغْفِرَ اللّٰہُ لَہُمْ } ”اللہ ان کو ہرگز معاف نہیں کرے گا۔“ یہی مضمون اس سے زیادہ سخت الفاظ میں سورة التوبہ میں بھی آچکا ہے۔ وہاں ان لوگوں کے بارے میں فرمایا گیا : { اِسْتَغْفِرْ لَہُمْ اَوْلاَ تَسْتَغْفِرْ لَہُمْط اِنْ تَسْتَغْفِرْ لَہُمْ سَبْعِیْنَ مَرَّۃً فَلَنْ یَّغْفِرَ اللّٰہُ لَہُمْط } آیت 80 ”اے نبی ﷺ ! آپ خواہ ان کے لیے استغفار کریں یا ان کے لیے استغفار نہ کریں۔ اگر آپ ستر ّمرتبہ بھی ان کے لیے استغفار کریں گے تب بھی اللہ انہیں ہرگز معاف نہیں فرمائے گا“۔ لیکن حضور ﷺ کی نرم دلی اور مروّت کی اپنی شان ہے۔ آپ ﷺ نے اس آیت کے نزول کے بعد ایک موقع پر مسکراتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا : لَـوْ اَعْلَمُ اَنِّی اِنْ زِدْتُ عَلَی السَّبْعِیْنَ غُفِرَ لَـہٗ لَزِدْتُ عَلَیْھَا 1 ”اگر مجھے معلوم ہو تاکہ ستر سے زیادہ مرتبہ استغفار کرنے سے اس کی معافی ہوسکتی ہے تو میں اس پر اضافہ کرلیتا“۔ واضح رہے کہ یہاں ستر کا عدد محاورے کے طور پر آیا ہے۔ مراد اس سے یہ ہے کہ اب ان کے لیے آپ ﷺ کا استغفار کرنا انہیں کچھ بھی فائدہ نہیں دے سکتا۔ ان کے دلوں میں آپ ﷺ کی عداوت اب اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ ان کی بخشش ممکن ہی نہیں۔ اب آئندہ آیات میں ایک واقعہ کے حوالے سے اہل ایمان کے ساتھ منافقین کی عداوت کا نقشہ دکھایا جارہا ہے۔ یہ واقعہ غزوئہ بنی مصطلق سے واپسی کے سفر میں پیش آیا تھا۔ مریسیع کے کنویں کے قریب جہاں لشکر کا پڑائو تھا ‘ دو مسلمانوں کا پانی بھرنے پر آپس میں جھگڑا ہوگیا۔ ان میں سے ایک انصار کا حلیف تھا جبکہ دوسرا حضرت عمر رض کا خادم تھا ‘ جس نے جذبات میں آکر اس کو ایک لات رسید کردی۔ اس پر منافقین نے اس کو بڑھا چڑھا کر مہاجرین اور انصار کے مابین جھگڑے کا رنگ دے دیا۔ عبداللہ بن ابی نے ‘ جو اس طرح کے مواقع کی ہمیشہ گھات میں رہتا ‘ موقع سے فائدہ اٹھا کر مہاجرین کے خلاف انصار کے جذبات بھڑکانے کے لیے نہایت زہر آلود فقرے کہے۔ اس نے انصار کو مخاطب کر کے کہا کہ مدینہ والو ! یہ ہمارے گھر میں پناہ پا کر اب ہمیں پر ّغرانے لگے ہیں۔ سچ کہا ہے جس نے کہا ہے کہ سَمِّنْ کَلْبَکَ یَاْکُلْکَکہ تم اپنے کتے کو کھلا پلا کر خوب موٹا کرو تاکہ وہ تم ہی کو کاٹے۔ تم نے ان بےگھر لوگوں کو سر چھپانے کی جگہ دی ‘ ان کی مدد کی ‘ انہیں کھلایا پلایا اور اپنے مال میں ان کو حصہ دار بنایا۔ یہ تمہاری اپنی غلطی کا خمیازہ ہے جو تمہیں بھگتنا پڑ رہا ہے۔ اگر تم ان کی امداد سے ہاتھ کھینچ لیتے تو یہ کب کے یہاں سے بھاگ کھڑے ہوتے۔۔۔ خدا کی قسم ! اب ہم پلٹے تو جو باعزت ہیں وہ رذیلوں کو مدینہ سے نکال باہر کریں گے۔ عبداللہ بن ابی کی یہ بکواس وہاں موقع پر موجود ایک نوجوان صحابی حضرت زید بن ارقم رض سن رہے تھے۔ انہوں نے حضور ﷺ کی خدمت میں پیش ہو کر سارا واقعہ بیان کردیا۔ حضور ﷺ نے عبداللہ بن ابی کو بلا کر دریافت فرمایا تو وہ صاف مکر گیا ‘ بلکہ اس نے الٹا احتجاج کیا کہ کیا آپ ﷺ میرے معاملے میں اس چھوکرے حضرت زید بن ارقم رض کی بات پر یقین کریں گے ؟ اس طرح حضرت زید رض کی پوزیشن بڑی خراب ہوگئی۔ ان آیات کے نزول کے بعد جب واقعہ کی تصدیق ہوگئی تو حضور ﷺ نے حضرت زید بن ارقم رض کی خصوصی طور پر دلجوئی فرمائی اور شفقت سے ان کا کان مروڑتے ہوئے فرمایا کہ لڑکے کے کان نے غلط نہیں سنا تھا۔ اس واقعہ کے حوالے سے یہ نکتہ بہت اہم ہے کہ عبداللہ بن ابی کا جرم ثابت ہوجانے کے بعد بھی حضور ﷺ نے اس کے خلاف کوئی اقدام نہیں کیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت تک عملاً اسلامی ریاست قائم نہیں ہوئی تھی۔ اس بارے میں عام طور پر تو یہی سمجھا جاتا ہے کہ حضور ﷺ کے مدینہ تشریف لے جانے کے فوراً بعد ہی وہاں باقاعدہ اسلامی ریاست وجود میں آگئی تھی اور حضور ﷺ کو باقاعدہ ایک سربراہِ ریاست اور سربراہِ حکومت کی حیثیت حاصل ہوگئی تھی ‘ لیکن اس دور کے معروضی حقائق اور واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ خیال درست نہیں ہے۔ مثلاً ہم دیکھتے ہیں کہ غزوئہ اُحد کے موقع پر اسلامی لشکر کو چھوڑ کر جانے والے تین سو افراد سے کسی قسم کا کوئی تعرض نہیں کیا گیا۔ اسی طرح یہ بھی حقیقت ہے کہ منافقین مدینہ اپنے فیصلے حضور ﷺ کے بجائے یہودیوں سے کرواتے تھے۔ ظاہر ہے کسی ریاست میں تو ایسا نہیں ہوتا کہ اس کی ایک تہائی فوج دشمن کے مقابلے سے بھاگ جائے اور ان میں سے کسی ایک فرد سے بھی اس بارے میں کوئی باز پرس نہ ہو ‘ اور نہ ہی کسی ریاست کی عملداری میں یہ ممکن ہے کہ اس کا کوئی شہری ریاست کی عدالت کو چھوڑ کر اپنا مقدمہ کہیں اور لے جائے۔ بہرحال اس حوالے سے اصل صورت حال یہ تھی کہ علاقے کی واحد منظم اور طاقتور جماعت کے سربراہ کی حیثیت سے حضور ﷺ کو مدینہ میں معاشرتی و سیاسی لحاظ سے ایک خصوصی اور ممتاز مقام تو ہجرت کے فوراً بعد ہی حاصل ہوگیا تھا۔ البتہ آپ ﷺ کے تحت ایک باقاعدہ ریاست فتح مکہ کے بعد قائم ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ 9 ہجری میں غزوئہ تبوک سے رہ جانے والے لوگوں کا سخت مواخذہ ہوا۔ بہرحال عبداللہ بن ابی کے معاملے میں حضور ﷺ نے بہت درگزر سے کام لیا۔ واقعہ افک میں اس کے کردار سے حضور ﷺ بہت آزردہ ہوئے تھے۔ اس دوران تو ایک موقع پر آپ ﷺ نے یہاں تک فرما دیا تھا کہ کیا کوئی ایسا شخص نہیں ہے جو اس شخص کی ایذا سے مجھے بچا سکے ؟ لیکن آپ ﷺ کا یہ فرمان بھی محض آپ ﷺ کے جذبات کا اظہار تھا ‘ جبکہ آپ ﷺ نے اس کے خلاف کسی عملی اقدام کا حکم اس وقت بھی نہیں دیا۔ البتہ اس موقع پر اوس کے سردار حضرت سعد بن معاذ رض نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ حضور ! آپ ﷺ مجھے حکم دیں ‘ میں اس شخص کا کام تمام کرتا ہوں۔ اس پر خزرج کے سردار حضرت سعد بن عبادہ رض نے حضرت سعد رض بن معاذ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے عبداللہ بن ابی کے قتل کی بات اس لیے کی ہے کہ اس کا تعلق قبیلہ خزرج سے ہے ! اور پھر حضرت سعد بن عبادہ رض ہی نے حضور ﷺ کو مشورہ دیا تھا کہ حضور ! آپ اس شخص کے معاملے میں نرمی سے کام لیں۔ اس کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم اسے اپنا بادشاہ بنانے کا فیصلہ کرچکے تھے اور اس کے لیے ہم نے سونے کا تاج بھی تیار کرلیا تھا کہ اسی اثنا میں آپ ﷺ مدینہ تشریف لے آئے۔ اس طرح اس کے سارے خواب بکھر گئے۔ ہمارے قبیلے پر ابھی تک اس کا اثر و رسوخ موجود ہے ‘ اس لیے حکمت اور مصلحت کا تقاضا یہی ہے کہ اس کے خلاف سختی نہ کی جائے۔ بہرحال اس ساری تفصیل کا خلاصہ یہ ہے کہ اس وقت تک باقاعدہ اسلامی ریاست اور حکومت بھی وجود میں نہیں آئی تھی اور ابھی قبائلی عصبیتیں بھی کسی نہ کسی حد تک موجود تھیں۔ یعنی مجموعی طور پر حالات ایسے نہیں تھے کہ حضور ﷺ ان پہلوئوں کو نظرانداز کر کے عبداللہ بن ابی کے خلاف کوئی سخت اقدام کرنے کا حکم دیتے۔ اس لیے آپ ﷺ نے اس کا یہ جرم بھی نظر انداز کردیا۔ { اِنَّ اللّٰہَ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۔ } ”یقینا اللہ ایسے فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا۔“

آیت 6 - سورۃ المنافقون: (سواء عليهم أستغفرت لهم أم لم تستغفر لهم لن يغفر الله لهم ۚ إن الله لا يهدي القوم الفاسقين...) - اردو