سورۃ المنافقون: آیت 5 - وإذا قيل لهم تعالوا يستغفر... - اردو

آیت 5 کی تفسیر, سورۃ المنافقون

وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا۟ يَسْتَغْفِرْ لَكُمْ رَسُولُ ٱللَّهِ لَوَّوْا۟ رُءُوسَهُمْ وَرَأَيْتَهُمْ يَصُدُّونَ وَهُم مُّسْتَكْبِرُونَ

اردو ترجمہ

اور جب اِن سے کہا جاتا ہے کہ آؤ تاکہ اللہ کا رسول تمہارے لیے مغفرت کی دعا کرے، تو سر جھٹکتے ہیں اور تم دیکھتے ہو کہ وہ بڑے گھمنڈ کے ساتھ آنے سے رکتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waitha qeela lahum taAAalaw yastaghfir lakum rasoolu Allahi lawwaw ruoosahum waraaytahum yasuddoona wahum mustakbiroona

آیت 5 کی تفسیر

سلف صالحین میں بیشمار لوگوں کی رائے یہ ہے کہ یہ آیات عبدالہل ابن ابی ابن سلول کے بارے میں ہیں۔ علامہ ابن اسحاق نے غزوہ بنی الصطلق کے ذیل میں اس کی تفصیلات دی ہیں۔ یہ کو اقعہ بنی المصطلق کے پانی کے چشمے المریسیع پر سن 6 ہجری میں ہوا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس پانی پر نزول فرمایا تھا ، غزوہ کے واقعات کے بعد واقعہ یوں ہوا کہ لوگ پانی بھرنے کے لئے اس پانی پر جمع ہوگئے۔ حضرت عمر ؓ کے ساتھ ایک شخص ملازم تھا جو بنی غفار قبیلے کا تھا اور اس کا نام جبجا ابن مسعود تھا۔ یہ آپ کے گھوڑے کو چلاتا تھا۔ یہ جبجا اور ایک دوسرے شخص سنان ابن وبر الجہنی بنی عون ابن الخزرج کا حلیف ایک دوسرے سے آگے ہونے کی وجہ سے پانی پر لڑ پڑے۔ جہنی نے آواز دی ” اے قوم انصار “۔ اور جبجاہ نے آواز دی ” اے مہاجرین “۔ اس پر عبداللہ ابن ابی ابن سلول سخت غصے میں آگیا۔ اس وقت اس کی قوم کے کچھ لوگ اس کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ ان میں حضرت زید بن رقم ایک نوجوان لڑکے بھی تھے۔ عبداللہ ابن ابی ابن سلول نے کہا اچھا ، یہاں تک بات پہنچ گئی ، اب یہ لوگ ہمارے علاقے میں زیادہ ہوکر ہمیں یہاں سے نکالنا چاہتے ہیں۔ خدا کی قسم قریش کے ان گرے پڑے لوگوں اور ہماری مثال ایسی ہے جیسے کسی نے کہا : کتے کو پالو کہ وہ تمہیں کاٹے ، خدا کی قسم اگر ہم مدینہ گئے تو ہم میں سے جو زیادہ عزت دار ہوگا وہ ذلیل کو نکال دے گا۔ اس کے بعد اس نے حاضرین مجلس سے خطاب کرکے کہا۔ یہ تو کام تو تم نے اپنے ساتھ خود کیا ہے ۔ تم نے ان کو اپنے علاقے میں آنے دیا۔ تم نے ان کے ساتھ اپنے مال تقسیم کیے۔ خدا کی قسم اگر تم نے ان سے اپنے ہاتھ کھینچ لئے ہوتے تو وہ دوسرے علاقوں کا رخ کرتے۔ یہ باتیں زید ابن ارقم نے سن لیں۔ وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس گئے اور یہ پوری باتیں آپ کو سنائیں۔ یہ اس وقت کی بات ہے کہ رسول اللہ اپنے دشمنوں سے فارغ ہوگئے تھے۔ جب حضور کے سامنے یہ بات کی گئی تو حضرت عمر ؓ موجود تھے۔ تو حضرت عمر ؓ نے کہا حضور عبادا بن بشر کو حکم دیں کہ اسے قتل کردے۔ اس پر حضور نے فرمایا : ” عمر اس پر تو لوگ یہ کہیں گے کہ محمد اپنے ساتھیوں کو قتل کرنے لگا ہے۔ یہ تو نہیں ہوسکتا البتہ فوراً کوچ کا اعلان کردو “۔ یہ ایسا وقت تھا کہ اس میں رسول اللہ کبھی سفر نہ فرماتے تھے۔ لوگ نکل پڑے۔ عبداللہ ابن ابی ابن سلول حضور اکرم کے پاس گیا۔ یہ اس وقت جب اسے معلوم ہوگیا کہ زید ابن ارقم نے پوری بات حضور اکرم ﷺ تک پہنچا دی ہے۔ اس نے قسم اٹھائی کہ نہ میں نے یہ بات کی ہے اور نہ اس بارے میں کوئی لفظ کہا ہے۔ یہ عبداللہ ابن ابی اپنی قوم میں بڑا معزز اور ذی مرتبہ تھا۔ اس کے ساتھ جو صحابہ کرام انصار سے آئے تھے۔ انہوں نے کہا رسول خدا ممکن ہے یہ لڑکا بات کو پوری طرح نہ سمجھا ہو ، یا وہم سے اس نے ایک بات سے کچھ اور سمجھا ہو۔ اور بات اسے پوری طرح یاد نہ رہی ہو۔ یہ لوگ عبداللہ ابن ابی ابن سلول پہ مہربان تھے اور اس کے طرفدار تھے۔

ابن اسحاق کہتے ہیں کہ جب حضور نے کوچ کیا اور چل پڑے تو اسید ابن حضیر آئے اور رسول اللہ ﷺ کو نبوت کا سلام کیا ، اور پھر کہا اللہ کے نبی آپ تو ایک ایسے وقت میں کوچ کررہے ہیں جو ایک نیاوقت ہے۔ ایسے اوقات میں آپ نے کبھی کوچ کا حکم نہیں دیا۔ رسول اللہ نے فرمایا کیا تم نے سنا نہیں کہ تمہارے ساتھی نے کیا کہا۔ تو انہوں نے کہا ” حضور وہ کون ساتھی ہے تو آپ نے فرمایا (عبداللہ ابن ابی) ۔ تو انہوں نے کہا اس نے کیا کہا ہے ؟ تو حضور نے فرمایا کہ ” اس کا خیال ہے کہ جب ہم مدینہ پہنچیں گے تو ہم میں سے عزت دار آدمی ذلیل لوگوں کو نکال دے “۔ تو انہوں نے کہا رسول اللہ تو پھر آپ اسے مدینہ سے نکال دیں گے۔ اگر آپ چاہیں گے۔ خدا کی قسم وہ ذلیل ہے اور آپ معزز ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے کہا کہ رسول اللہ اس کے ساتھ نرمی فرمائیں ، خدا کی قسم اللہ نے آپ کو ہمارے پاس بھیجا ہے اور اس کی قوم اس کے لئے موتی تلاش کررہی تھی کہ ان سے تاج بنا کر اسے پہنا دے۔ اس کا خیال یہ ہے کہ آپ نے اس سے ایک مملکت چھین لی ہے۔

اس کے بعد حضور اس دن پورا دن لوگوں کو لے کر چلے ، شام ہوگئی ، پھر ساری رات چلے کہ صبح ہوگئی ، اور دوسرے دن بھی سورج نکل آیا اور وہ ان کو اذیت دینے لگا۔ اس کے بعد حضور نے حکم دیا کہ پڑاﺅ کرو ۔ جونہی لوگ اتر کر زمین پر پڑے سوگئے اور حضور نے یہ کام اس لئے کیا کہ لوگوں کو کل کی بات پر کوئی چہ میگوئی کرنے کا موقعہ ہی نہ ملے۔

ابن اسحاق کہتے ہیں اس وقت سورة منافقون نازل ہوئی۔ یہ ابن ابی کے بارے میں نازل ہوئی اور ان لوگوں کے بارے میں جو اس جیسے تھے۔ جب یہ سورت نازل ہوئی تو حضور نے زید ابن ارقم کو کان سے پکڑا۔” یہ شخص ہے جس نے اللہ کے لئے اپنے کانوں سے کام کیا “۔ اور عبداللہ ابن عبداللہ ابن ابی ابن سلول کو پتہ چل گیا کہ اس کے والد نے کیا کیا ہے۔

ابن اسحاق کہتے ہیں کہ مجھے عاصم ابن عمر ابن قتادہ نے بتایا کہ یہ عبداللہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے ۔ اور کہا کہ یارسول اللہ ﷺ ........ مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ میرے والد عبداللہ ابن ابی کو قتل کرنا چاہتے ہیں ؟ اگر آپ لازماً یہ کرنا چاہتے ہیں تو آپ مجھے حکم دیں میں اس کا سر لاکر حاضر کردوں گا۔ کیونکہ خزرج کو معلوم ہے کہ اپنے والد کے ساتھ اچھا برتاﺅ کرنے والا میرے مقابلے میں کوئی نہیں ہے۔ مجھے یہ خطرہ ہے کہ آپ کسی اور کو حکم دیں گے وہ میرے والد کو قتل کردے۔ میرا نفس مجھے اجازت نہ دے گا کہ عبداللہ ابن ابی کا قاتل مدینہ میں لوگوں کے اندر پھرے اور میں مجبور ہوجاﺅں کہ ایک کافر کے بدلے مومن کو قتل کردوں اور ہمیشہ کے لئے جہنمی ہوجاﺅں۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” نہیں ہم اس کے ساتھ نرمی کریں گے اور اس کی ملاقات بھی اچھے طریقے سے کریں گے جب تک وہ ہمارے اندر زندہ ہے “۔

اس کا اثر یہ ہوا کہ اس کے بعد جب بھی وہ کوئی ایسی حرکت کرتا ، اس کی قوم اس پر اس کی سخت گرفت کرتی۔ اسے پکڑتے اور اس کے ساتھ لوگ سختی کرتے۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے حضرت عمر ؓ سے کہا۔ حضور ﷺ کو معلوم ہوا کہ اس کی قوم اس سے نفرت کرنے لگی ہے۔ ” عمر ؓ تمہاری اب کیا رائے ہے ؟ کہ جس دن تم نے مجھے مشورہ دیا تھا کہ میں اسے قتل کردوں ، اگر میں اسے اس دن قتل کردیتا تو اس کی وجہ سے شورش پیدا ہوجاتی اور آج اگر میں خود اس کے قبیلے کو حکم دوں تو وہ اسے قتل کردیں “۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا : خدا کی قسم مجھے اب معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کی رائے میری رائے سے بہت زیادہ برکت والی ہے۔

عکرمہ اور ابن زید وغیرہ نے ذکر فرمایا ہے کہ لوگ جب واپس مدینہ پہنچے تو حضرت عبداللہ ابن عبداللہ ابن ابی ابن السلول ؓ مدینہ کے دروازے پر کھڑے ہوگئے۔ انہوں نے تلوار نکال لی ، لوگ اس کے پاس سے گزرتے رہے ، جب اس کے والد رئیس المنافقین آئے تو انہوں نے باپ سے کہا : ” پیچھے کھڑے ہوجاﺅ“۔ خدا کی قسم ، تم اس جگہ سے ادھر نہیں آسکتے۔ جب تک رسول اللہ ﷺ اجازت نہ دے دیں۔ اس میں شک نہیں کہ رسول اللہ ﷺ معزز ہیں۔ اور تم ذلیل ہو ، جب رسول اللہ ﷺ تشریف لائے تو آپ اس وقت قافلے کے ” ساقہ “ کے طور پر آرہے تھے (ساقہ قافلے کے پیچھے چلنے والا افسر جو دیکھے کہ کسی نے راہ گم کردیا ہو یا کوئی ضرورت مند ہوگیا ہو) تو رئیس المنافقین عبداللہ ابن ابی ابن سلول نے حضور ﷺ سے اپنے بیٹے کی شکایت کی تو عبداللہ ؓ نے کہا حضور یہ اس وقت تک شہر کے اندر نہیں جاسکتا جب تک آپ اجازت نہ دیں۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کو اجازت دی۔ اور بیٹے سے کہا : اب جبکہ رسول اللہ ﷺ نے اجازت دے دی ہے تو آپ جاسکتے ہیں “۔

یہاں آکر ہم کبھی ان واقعات کو دیکھتے ہیں ، کبھی صحابہ کرام کو دیکھتے ہیں اور کبھی نصوص قرآنی کو دیکھتے ہیں ، یوں ہم نبی ﷺ کی سیرت ، اللہ تعالیٰ کے نظام تربیت اور اللہ کے دست قدرت اور نظام قضا وقدر کو دیکھتے ہیں۔ تو حیران رہ جاتے ہیں .... مسلمانوں کی صفوں کے اندر منافقین نہایت دور تک گھسے ہوئے ہیں۔ یہ منایق تقریباً دس سال سے یہاں رہ رہے ہیں اور رسول اللہ ﷺ ان کو چن کر اپنی صفوں سے نکالتے نہیں ہیں اور ان منافقین کے ناموں اور اشخاص کے بارے میں بھی اللہ تعالیٰ نبی ﷺ کو صرف اپنی وفات سے چندایام قبل ہی اطلاع دیتا ہے۔ اگرچہ حضور ﷺ ان کی چاپلوسی ، چالاکی اور عیاری کی وجہ سے انہیں خوب جانتے تھے۔ اسی طرح دوسری علامات کی وجہ سے بھی کہ جب کوئی بات ہوتی ان کے چہرے کا رنگ بدل جاتا تھا۔ اور اللہ نے یہ حکم اس لئے دیا کہ اللہ کسی شخص کے دل کو کسی دوسرے کے اختیار میں نہیں دیتا۔ دلوں کا مالک صرف اللہ ہے۔ یہ اللہ ہی ہے جو دلوں کے بھیدوں پر محاسبہ کرسکتا ہے۔ لوگوں کا تعلق لوگوں کے ساتھ ظاہری اقرار اور حالات پر ہوگا۔ اور محض شک کی بنا پر کسی کو پکڑا نہ جائے گا بلکہ شک کی بنا پر چھوڑا جائے گا۔ محض عقل کی بنیاد پر کسی کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا۔ یہاں تک کہ جب اللہ نے رسول کو اطلاع دے دی کہ آخر تک بعض لوگ نفاق پر قائم ہیں اور نام بھی بتادیئے تب بھی حضور ﷺ نے ان کو جماعت سے نہ نکالا۔ جب تک کہ وہ اسلام کا اقرار کرتے اور اسلامی فرائض وواجبات ادا کرتے رہے اور حضور ﷺ نے صرف حذیفہ ابن الیمان ؓ کو اطلاع دی تھی اور انہوں نے مسلمانوں کے اندر اس راز کو نہیں پھیلایا۔ یہاں تک کہ حضرت ابن عمر ؓ حضرت عذیفہ کے پاس آتے تھے اور اپنے بارے میں ان سے اطمینان حاصل کرتے کہ بتاﺅ رسول اللہ ﷺ نے مجھے تو منافقین میں شمار نہیں کیا۔ تو حضرت حذیفہ فرماتے ، عمر ؓ تم ان میں سے نہیں ہو اور اس سے زیادہ کچھ نہ کہتے اور رسول اللہ کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ ان میں سے اگر کوئی مرجائے تو اس کا نماز جنازہ نہ پڑھائیں۔ جب ان میں سے کوئی مرجاتا تو رسول اللہ ﷺ اس کی نماز جنازہ نہ پڑھاتے۔ یوں معلوم ہوجاتا کہ یہ منافق ہے۔ جب رسول اللہ ﷺ فوت ہوگئے تو حضرت حذیفہ ؓ ان لوگوں کی نماز جنازہ میں شریک نہ ہوتے تھے۔ اور حضرت عمر ؓ کسی نماز جنازہ میں نہ جاتے تھے ، جن میں حضرت حذیفہ نہ گئے ہوں۔ جب وہ دیکھتے کہ حضرت حذیفہ موجود ہیں تو معلوم کرلیتے کہ منافقین میں سے نہیں ہے۔ اور اگر حذیفہ نہ ہوتے تو حضرت عمر ؓ نماز نہ پڑھتے لیکن منہ سے کچھ نہ کہتے۔

اس طرح یہ واقعات آگے بڑھتے رہے ، اللہ کی تقدیر اور حکمت کے مطابق۔ اللہ کی مقرر کردہ حکمتوں اور مقاصد کے حصول کے لئے تربیت ، عبرت اور اخلاقی اور تنظیمی تربیت کی خاطر .... یہ واقعہ جس کے بارے میں یہ آیات نازل ہوئیں ، اس کے اندر کس قدر عبرتیں ہیں ؟

ذرا عبداللہ ابن ابی ابن سلول کو دیکھیں۔ یہ مسلمانوں کے اندر رہ رہا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے قریب رہتا ہے ۔ اس دین کی حقانیت کے واقعات و احادیث اور نشانات و علامات اس کے ماحول میں ، اس کے سامنے پے درپے ظاہرہو رہے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ اسے توفیق ایمان نہیں دے رہا ہے۔ کیونکہ اللہ کے نظام قضا وقدر میں اس طرح لکھا ہی نہ گیا تھا۔ اثر آفرینی اور ضوپاشی کا یہ سیلاب اس تک پہنچنے میں کامیاب نہ ہوا ، اس لئے کہ اس کے دل میں اس دین کی دشمنی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ یوں کہ وہ اوس اور خزرج کا بادشاہ نہ بن سکا۔ اس نے یہ کھیل تیار کرلیا تھا ، مگر اسلام اور حضور اکرم ﷺ جب مدینہ میں داخل ہوئے تو یہ کھیل خراب ہوگیا۔ یہی وجہ تھی کہ اس نے ہدایت قبول نہ کی۔ حالانکہ ہدایت کے دلائل ہر طرف سے آرہے تھے۔ اور اسلام میں ہر طرف وسعت ہورہی تھی۔

لیکن دوسری طرف ان کے بیٹے ہیں ، ان کا نام بھی حضرت عبداللہ ؓ ہے۔ یہ ایک مسلم اور مخلص مسلم کا بلندترین نمونہ ہیں۔ یہ باپ ان کے لئے مصیبت ہے ، یہ باپ کے کارناموں سے تنگ آچکے ہیں۔ باپ جو موقف اختیار کرتا ہے ، وہ ان کے لئے شرمندگی کا سبب ہے۔ لیکن باپ جو بھی کرے وہ اس کے ساتھ حسن سلوک کرنے والے سعادت مند بیٹے ہیں۔ یہ سنتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ تو شاید اس شخص کو اب قتل ہی کرادیں۔ ان کے دل میں جذبات اور رد عمل کا واضح طوفان اٹھتا ہے۔ اور ورہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے ان کا اظہار صاف صاف کردیتے ہیں۔ وہ اسلام سے محبت کرتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کے مطیع فرمان بھی ہیں۔ وہ صاف کہتے ہیں کہ اگر رسول اللہ ﷺ مجھے اپنے باپ ہی کے خلاف حکم دیں تو میں تعمیل کروں گا۔ لیکن وہ اس بات کو برداشت نہیں کرتے کہ کوئی اور آگے بڑھے اور ان کے باپ کی گردن اڑادے۔ وہ زمین کے اوپر زندہ پھرے اور لوگ انہیں دیکھیں۔ وہ اس بات سے ڈرتے ہیں کہ شاید میرا نفس اس منظر کو برداشت نہ کرسکے۔ شیطان مجھے بدلہ لینے پر مجبور کردے۔ تو وہ حضور ﷺ کے سامنے اپنے یہ خلجانات پیش کرکے مسئلے کے حل کی درخواست کرتے ہیں۔ اور خود ہی تجویز پیش کرتے ہیں کہ اگر آپ نے لازماً یہ کام کرنا ہی ہے تو مجھے حکم دیں۔ میں اس کا سر آپ کے سامنے پیش کردوں گا تاکہ کوئی غیر اس کام کو نہ کرے اور میں اپنے کافر والد کے بدلے ایک مسلمان کو قتل کردوں اور جہنم رسید ہوجاﺅں۔

انسانی فکر و خیال کو جس میدان میں بھی جو لانی دی جائے ، اور جس پہلو سے بھی اس واقعہ پر نظر دوڑائی جائے اس میں حسن و جمال ہی نظر آتا ہے۔ ایک مومن کے دل میں ایمان کس قدر خوبصورت نظر آتا ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے یہ تجویز رکھتا ہے کہ دنیا کا مشکل ترین کام یعنی خوداپنے باپ کے قتل کا حکم مجھے دیجئے۔ اور یہ ڈیوٹی وہ صداقت سے لے رہا ہے۔ اور نور ایمان اور حکمت ایمانی کا جمال دیکھئے کہ اس پیشکش کے ذریعہ وہ اپنے آپ کو کسی حکمت سے اس سے بھی بڑی مصیبت سے بچاتا ہے۔ یہ کہ وہ انسانی جذبات سے مغلوب ہوکر ایک کافر باپ کے بدلے مومن کو قتل کردے اور وہ مومن کو جنت میں پائے اور اپنے آپ کو دوزخ میں۔ اور اسی مومن کی صداقت اور سچائی دیکھئے کہ وہ اپنی کمزوری کا بھی صاف صاف اظہار کرتا ہے اور وہ کہتا ہے ” خدا کی قسم خزرج کو معلوم ہے کہ میرے مقابلے میں والد کے بارے میں احسان کرنے والا جوان نہیں ہے “۔ چناچہ وہ حضور اکرم ﷺ سے درخواست کرتے ہیں کہ انہیں اس مشکل سے نکالا جائے۔ یہ مومن اپنے کیس کو اس طرح پیش کرتا ہے کہ نہ حکم عدولی ہوتی ہے اور نہ آپ کی دل شکنی ہوتی ہے۔ کیونکہ حکم رسول کو ماننے کے لئے وہ تیار ہیں۔ اشارے کی ضرورت ہے۔ بشرطیکہ حضور حکم دیں اور وہ والد کا سر پیش کردیں۔

رسول اللہ ﷺ معلوم کرلیتے ہیں کہ یہ سچا مومن کس قدر مشکل صورت حال میں پھنس گیا ہے حضور ﷺ نہایت ہی شریفانہ انداز میں ان کی ہر مشکل دور فرمادیتے ہیں۔ بلکہ حضور ﷺ فرماتے ہیں ” ہم اس کے ساتھ نرمی کریں گے اور اس کے ساتھ محفل میں اچھا سلوک کریں گے جب تک کہ وہ زندہ ہے “۔ اور اس سے قبل جب حضرت عمر ؓ نے اس کے قتل کی تجویز پیش کی تو آپ نے ان کی تجویز یہ کہہ کر رد کردی کہ لوگ کہیں گے کہ محمد ﷺ اپنے ساتھیوں کو قتل کرتے ہیں۔

پھر اس واقعہ میں حضرت نبی ﷺ کے جو تصرفات واقدامات ہیں وہ بھی قابل ملاحظہ اور قابل تقلید ہیں۔ آپ ایک ایسے قائد کی طرح کام کرتے نظر آتے جو الہام کی روشنی میں کام کرتا ہے۔ آپ نے لشکر کو حکم دیا کہ کوچ کرو ، حالانکہ آپ کی ایسے اوقات میں کوچ کرنے کی عادت نہتھی۔ اور آپ نے اس سفر کو اس قدر طویل وقت کے لئے جاری رکھا کہ لوگ تھک کر چور ہوگئے تاکہ لوگوں کے اندر عصبیت جاہلیہ کے جذبات پھیلائے جانے کا کوئی موقعہ ہی کسی کو نہ ملے۔ کیونکہ دو افراد نے اپنی جنگ میں عصبیت کا سہارا لیا تھا۔ ایک نے کہا اے انصاریو ! ، دوسرے نے کہا اے مہاجرو ! اور پھر اس موقعہ پر رئیس المنافقین عبداللہ ابن ابی ابن سلول جو فتنہ انگیزی کرنا چاہتا تھا اسے بھی حضور ﷺ نے دبا دیا۔ اس کی اسکیم یہ تھی کہ مہاجرین اور انصار کے درمیان جو اخوت اور محبت ہے ، اس کو جلا کر رکھ دے۔ حالانکہ یہ اخوت و محبت کا وہ نادر نمونہ تھا جس کی مثال انسان کی ہزاروں سالوں کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ اس کے بعد اسید ابن حضیر کے ساتھ حضور کی گفتگو اور اس کے اندر پائی جانے والی روحانی تیاری ، جو اس فتنے کے مقابلے میں حضور فرما رہے تھے اور پھر اس فتنے کے سرغنے کو پکڑنے کا جوش جبکہ وہ اپنی قوم میں اب تک بھی بااثر ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ سب سے آخر میں رجل مومن عبداللہ ابن عبداللہ کا کردار نہایت ہی روشن اور خوبصورت ہے کہ وہ مدینہ کے باہر تلوار لے کر کھڑے ہوجاتے ہیں اور وہ اپنے باپ کو شہر کے اندر داخل نہیں ہونے دیتے ، جب تک حضور اکرم ﷺ اجازت نہ دیں۔ اور یہ ہے مظاہرہو اس بات کا کہ۔

لیخرجن ................ الاذل (36 : 8) ” اس معزز شخص ذلیل شخص کو نکال باہر کرے گا “۔ اور اس پر بھی رجل مومن نے یہ کام اس لئے کیا کہ لوگ جان لیں کہ رسول اللہ ﷺ کی عزت دار ہیں اور ان کا باپ ذلیل ہے۔ آخر کار رسول اللہ ﷺ تشریف لاتے ہیں اور اس ذلیل شخص کو داخلے کی اجازت ہوتی ہے۔ اور سائنسی تجربہ بتا دیتا ہے کہ عزیز کون ہے اور ذلیل کون ؟ اسی واقعہ میں اور اسی وقت میں۔

حقیقت یہ ہے کہ یہ بلند ترین چوٹی ہے جہاں تک یہ مومنین پہنچ چکے تھے۔ ایمان نے ان کو ان مقامات بلند اور مراتب بلند تک پہنچا دیا تھا لیکن وہ تھے انسان۔ ان میں بشری کمزوریاں تھیں ، ان میں جذبات تھے ، ان کے دلوں میں خلجانات آتے تھے ، یہ ہے اس دین کا نہایت ہی نمایاں وصف ، بشرطیکہ لوگ اسے اس کی حقیقت کے مطابق سمجھیں۔ اور لوگ ان لوگوں کو ایک انسان کی طرح رکھ کر سمجھیں۔ کہ یہ لوگ مکہ اور مدینہ کی سرزمین پر بطور انسان رہے ، کھانا کھاتا رہے اور بازاروں میں پھرتے رہے اور پھر بھی اس مقام تک پہنچ گئے۔

اب وہ آیات جو ان واقعات کے بارے میں نازل ہوئیں ، مناسب ہے کہ قدرے ان کے ساتھ بھی رہیں :

واذا قیل ........................ مستکبرون (36 : 5) ” اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آگو تاکہ اللہ کا رسول تمہارے لئے مغفرت کی دعا کرے تو سر جھٹکتے ہیں اور تم دیکھتے ہو کہ وہ بڑے گھمنڈ کے ساتھ آنے سے رکتے ہیں “۔ یہ لوگ یہ فعل کرتے ہیں ، اور اس قسم کی باتیں منہ سے نکالتے ہیں ، جب ان کو معلوم ہوگیا کہ رسول اللہ ﷺ تک یہ باتیں پہنچ گئی ہیں تو پھر یہ فوراً ڈر جاتے ہیں۔ ذلیل ہوکر جھوٹی قسمیں اٹھاتے ہیں اور ان جھوٹی قسموں کے سہارے زندہ رہ رہا ہے اور اگر وہ امن کی حالت میں ہوں ، کوئی ان سے کہے کہ آﺅ رسول اللہ سے درخواست کرو کہ تمہاری بخشش کے لئے رسول اللہ دعا کریں تو سرجھٹکتے ہیں اور نہایت ہی تکبر میں حضور کے پاس آنے سے رک جاتے ہیں۔ یہ منافقین کی دونوں باہم متضاد صفات ہیں۔ اگرچہ یہ اپنی قوم میں ، باعزت اور بامقام لوگ ہوں۔ یہ دل میں اپنے اندر سے اس قدر کھوکھلے اور ڈرپوک ہوتے ہیں کہ یہ تکبر کرتے ہیں ، اللہ کے راستے سے روکتے ہیں۔ سر جھٹک کر پھیر دیتے ہیں ، جب ان کو خوف نہ ہو ، لیکن جب یہ خوف ہو کہ رسول اللہ کے سامنے جانا ہے تو پھر قسمیں اٹھاتے ہیں۔

چناچہ رسول اللہ ﷺ کو حکم دیا جاتا ہے کہ اللہ نے ان کے بارے میں فیصلہ کردیا ہے ، لہٰذا اب آپ ان کے بارے میں استغفار کریں یا نہ کریں ، استغفار کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔

آیت 5 { وَاِذَا قِیْلَ لَہُمْ تَعَالَوْا یَسْتَغْفِرْ لَــکُمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ } ”اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آئو اپنی غلطی مان لو تاکہ اللہ کے رسول ﷺ تمہارے لیے استغفار کریں“ ظاہر ہے ان کے دلوں میں تو نبی اکرم ﷺ کے خلاف بغض اور عناد پیدا ہوچکا تھا تو ان حالات میں وہ کیسے آتے اور کیونکر اپنی غلطی تسلیم کرتے ؟ { لَوَّوْا رُئُ وْسَہُمْ } ”تو وہ اپنے سروں کو مٹکاتے ہیں“ کہ ہاں ہاں ! ٹھیک ہے ہم آئیں گے ‘ ضرور آئیں گے۔ { وَرَاَیْتَہُمْ یَصُدُّوْنَ وَہُمْ مُّسْتَکْبِرُوْنَ۔ } ”اور آپ انہیں دیکھتے ہیں کہ وہ رک جاتے ہیں تکبر کرتے ہوئے۔“ ان کے دلوں میں چونکہ تکبر ہے ‘ اس لیے وہ آپ ﷺ کے پاس آکر معافی مانگنے کو اپنی ہتک سمجھتے ہیں کہ دیکھیں جی آخر ہماری بھی کوئی عزت ہے ‘ اب کون روز روز وہاں جا کر مجرموں کی طرح اقبالِ جرم کرے اور ڈانٹ سنے !

منافقوں کی محرومی سعادت کے اسباب ملعون منافقوں کا ذکر ہو رہا ہے کہ ان کے گناہوں پر جب ان سے سچے مسلمان کہتے ہیں کہ آؤ رسول کریم ﷺ تمہارے لئے استغفار کریں گے تو اللہ تعالیٰ تمہاے گناہ معاف فرما دے گا تو یہ تکبر کے ساتھ سر ہلانے لگتے ہیں اور اعراض کرتے ہیں اور رک جاتے ہیں اور اس بات کو حقارت کے ساتھ رد کردیتے ہیں، اس کا بدلہ یہی ہے کہ اب ان کے لئے بخشش کے دروازے بند ہیں نبی کا استغفار بھی انہیں کچھ نفع نہ دے گا، بھلا ان فاسقوں کی قسمت میں ہدیات کہاں ؟ سورة براۃ میں بھی اسی مضمون کی آیت گذر چکی ہے اور وہیں اس کی تفسیر اور ساتھ ہی اس کے متعلق کی حدیثیں بھی باین کردی گئی ہیں، ابن ابی حاتم میں ہے کہ سفیان راوی نے اپنا منہ دائیں جانب پھیرلیا تھا اور غضب وتکبر کے ساتھ ترچھی آنکھ سے گھور کر دکھایا تھا اسی کا ذکر اس آیت میں ہے اور سلف میں سے اکثر حضرات کا فرمان ہے کہ یہ سب کا سب بیان عبداللہ بن ابی بن سلول کا ہے جیسے کہ عنقریب آ رہا ہے انشاء اللہ تعالیٰ سیرت محمد بن اسحاق میں ہے کہ عبداللہ بن ابی بن سلول اپنی قوم کا بڑا اور شریف شخص تھا جب نبی ﷺ جمعہ کے دن خطبہ کے لئے منبر پر بیٹھتے تھے تو یہ کھڑا ہوجاتا تھا اور کہتا تھا لوگو یہ ہیں اللہ کے رسول ﷺ جو تم میں موجود ہیں جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے تمہارا کرام کیا اور تمہیں عزت دی اب تم پر فرض ہے کہ تم آپ کی مدد کرو اور آپ کی عزت و تکریم کرو آپ کا فرمان سنو اور جو فرمائیں بجا لاؤ یہ کہہ کر بیٹھ جایا کرتا تھا، احد کے میدان میں اس کا نفاق کھل گیا اور یہ وہاں سے حضور ﷺ کی کھلی نافرمانی کر کے تہائی لشکر کو لے کر مدینہ کو واپس لوٹ آیا جب رسول اللہ ﷺ غزوہ احد سے فارغ ہوئے اور مدینہ میں مع لاخیر تشریف لائے جمعہ کا دن آیا اور آپ منبر پر چڑھے تو حسب عادت یہ آج بھی کھڑا ہوا اور کہنا چاہتا ہی تھا کہ بعض صحابہ ادھر ادھر سے کھڑے ہوگئے اور اس کے کپڑے پکڑ کر کہنے لگے دشمن اللہ بیٹھ جا تو اب یہ کہنے کا منہ نہیں رکھتا تو نے جو کچھ کیا وہ کسی سے مخفی نہیں اب تو اس کا اہل نہیں کہ زبان سے جو جی میں آئے بک دے، یہ ناراض ہو کر لوگوں کی گردنیں پھلانگتا ہوا باہر نکل گیا اور کہتا جاتا تھا کہ گویا میں کسی بدیات کے کہنے کے لئے کھڑا ہوا تھا میں تو اس کا کام اور مضبوط کرنے کے لئے کھڑا ہوا تھا جو چند اصحاب مجھ پر اچھل کر آگئے مجھے گھسیٹنے لگے اور ڈانٹ ڈپٹ کرنے لگے گویا کہ میں کسی بڑی بات کے کہنے کے لئے کھڑا ہوا تھا حالانکہ میری نیت یہ تھی کہ میں آپ کی باتوں کی تائید کروں انہوں نے کہا خیر اب تم واپس چلو ہم رسول اللہ ﷺ سے عرض کریں گے آپ تمہارے لئے اللہ سے بخشش چاہیں گے اس نے کہا مجھے کوئی ضرورت نہیں، حضرت فتادہ اور حضرت سدی فرماتے ہیں یہ آیت عبداللہ بن ابی کے بارے میں اتری ہے واقعہ یہ تھا کہ اسی کی قوم کے ایک نوجوان مسلمان نے اس کی ایسی ہی چند بری باتیں رسول اللہ ﷺ تک پہنائی تھیں حضور ﷺ نے بلوایا تو یہ صاف انکار کر گیا اور قسمیں کھا گیا، انصاریوں نے صحابی کو ملامت اور ڈانٹ ڈپٹ کی اور اسے جھوٹا سمجھا اس پر یہ آیتیں اتریں اور اس منافق کی جھوٹی قسموں اور اس نوجوان صحابی کی سچائی کا اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا اب اس سے کہا گیا کہ تو چل اور رسول اللہ ﷺ سے استغفار کرا تو اس نے انکار کے لہجے میں سر ہلا دیا اور نہ گیا، ابن ابی حاتم میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی عادت مبارک تھی کہ جس منزل میں اترتے وہاں سے کوچ نہ کرتے جب تک نماز نہ پڑھ لیں، غزوہ تبوک میں حضور ﷺ کو خبر پہنچی کہ عبداللہ بن ابی کہہ رہا ہے کہ ہم عزت والے ان ذلت والوں کو مدینہ پہنچ کر نکال دیں گے پس آپ نے آخری دن میں اترنے سے پہلے ہی کوچ کردیا اسے کہا گیا کہ حضور ﷺ کے پاس جا کر اپنی خطا کی معافی اللہ سے طلب کر اس کا بیان اس آیت میں ہے، اس کی اسناد سعید بن جبیر تک صحیح ہے لیکن یہ کہنا کہ یہ واقعہ غزوہ تبوک کا ہے اس میں نظر ہے بلکہ یہ ٹھیک نہیں ہے اس لئے کہ عبداللہ بن ابی بن سلول تو اس غزوہ میں تھا ہی نہیں بلکہ لشکر کی ایک جماعت کو لے کر یہ تو لوٹ گیا تھا، کتب سیرو مغازی کے مصنفین میں تو یہ مشہور ہے کہ یہ واقعہ غزوہ مریسیع یعنی غزوہ بنو المصطلق کا ہے چناچہ اس قصہ میں حضرت ممد بن حییٰ بن حبان اور حضرت عبداللہ بن ابوبکر اور حضرت عاصم بن عمر بن قتادہ سے مروی ہے کہ اس لڑائی کے موقعہ پر حضور ﷺ کا ایک جگہ قیام تھا، وہاں حضرت جھجاہ بن سعید غفاری اور حضرت سنان بن یزید کا پانی کے ازدہام پر کچھ جھگڑا ہوگیا جھجاہ حضرت عمر کے کارندے تھے، جھگڑے نے طول پکڑا سنان نے انصاریوں کو اپنی مدد کے لئے آواز دی اور جھجاہ نے مہاجرین کو اس وقت حضرت زید بن ارقم وغیرہ انصاری کی ایک جماعت عبداللہ بن ابی کے پاس بیٹھی ہوئی تھی، اس نے جب یہ فریاد سنی تو کہنے لگا لو ہمارے ہی شہروں میں ان لوگوں نے ہم پر حملے شروع کردیئے اللہ کی قسم ہماری اور ان قریشویں کی مثال وہی ہے جو کسی نے کہا ہے کہ اپنے کتے کو مٹا تازہ کرتا کہ تجھے ہی کاٹے اللہ کی قسم اگر ہم لوٹ کر مدینہ گئے تو ہم ذی مقدور لوگ ان بےمقدروں کو وہاں سے نکال دیں گے پھر اس کی قوم کے جو لوگ اس کے پاس بیٹھے تھے ان سے کہنے لگا یہ سب آفت تم نے خود اپنے ہاتھوں اپنے اوپر لی ہے تم نے انہیں اپنے شہر میں بسایا تم نے انہیں اپنے مال آدھوں آدھ حصہ دیا اب بھی اگر تم ان کی مالی امداد نہ کرو تو یہ خود تنگ آ کر مدینہ سے نکل بھاگیں گے حضرت زید بن ارقم ؓ نے یہ تمام باتیں سنیں آپ اس وقت بہت کم عمر تھے سیدھے سرکار نبوت میں حاضر ہوئے اور کل واقعہ بیان فرمایا اس وقت آپ کے پاسح ضرت عمر بن خطاب ؓ بھی بیٹیھ ہوئے تھے غضبناک ہو کر فرمانے لگے یا رسول اللہ ﷺ عباد بن بشیر کو حکم فرمایئے کہ اس کی گردن الگ کر دے حضور ﷺ نے فرمایا پھر تو لوگوں میں یہ مشہور ہوجائے گا کہ محمد ﷺ اپنے ساتھیوں کی گردنیں مارتے ہیں یہ ٹھیک نہیں جاؤ لوگوں میں کوچ کی منادی کردو، عبداللہ بن ابی کو جب یہ معلوم ہوا کہ اس کی گفتگو کا علم آنحضرت ﷺ کو ہوگیا تو بہت سٹ پٹایا اور حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عذر معذرت اور حیلے حوالے تاویل اور تحریف کرنے لگا اور قسمیں کھا گیا کہ میں نے ایسا ہرگز نہیں کہا، چونکہ یہ شخص اپنی قوم میں ذی عزت اور باوقعت تھا اور لوگ بھی کہنے لگے حضور ﷺ شاید اس بچے نے ہی غلطی کیہ و اسے وہم ہوگیا ہو واقعہ ثابت تو ہوتا نہیں، حضور ﷺ یہاں سے جلدی ہی کوچ کے وقت سے پہلے ہی تشریف لے چلے راستے میں حضرت اسید بن نضیر ؓ ملے اور آپ کی شان نبوت کے قابل با ادب سلام کیا پھر عرض کی کہ حضور ﷺ آج کیا بات ہے کہ وقت سے پہلے ہی جناب نے کوچ کیا حضور ﷺ نے فرمایا کیا تمہیں ملوم نہیں کہ تمہارے ساتھی ابن ابی نے کیا کہا وہ کہتا ہے کہ مدینہ جا کر ہم عزیز ان ذلیلوں کو نکال دیں گے حضرت اسید نے کہا یا رسول اللہ ﷺ عزت والے آپ ہیں اور ذلیل وہ ہے یا رسول اللہ ﷺ آپ اس کی ان باتوں کا خیال بھی نہ فرمایئے دراصل یہ بہت جلا ہوا ہے سنئے اہل مدینہ نے اسے سردار بنانے پر اتفاق کرلیا تھا تاج تیار ہو رہا تھا کہ اللہ رب اعلزت آپ کو لایا اس کے ہاتھ سے ملک نکل گیا پس یہ چراغ پا ہو رہا ہے، حضور ﷺ چلتے رہے، دوپہر کو ہی چل دیئے تھے شام ہوئی رات ہوئی صبح ہوئی یہاں تک کہ دھوپ میں تیزی آگئی تب آپ نے پڑاؤ کیا تاکہ لوگ اس بات میں پھر نہ الجھ جائیں، چونکہ تمام لوگ تھکے ہارے اور رات کے جاگے ہوئے تھے اترتے ہی سب سو گئے ادھر یہ سورت نازل ہوئی (سیرۃ ابن اسحاق) بیہقی میں ہے کہ ہم ایک غزوے میں حضور ﷺ کے ساتھ تھے ایک مہاجر نے ایک انصار کو پتھر مار دیا اس پر بات بڑھ گئی اور دونوں نے اپنی اپنی جماعت سے فریاد کی اور انہیں پکارا حضور ﷺ سخت ناراض ہوئے اور فرمانے لگے یہ کیا جاہلیت کی ہانک لگانے لگے اس فضول خراب عادت کو چھوڑو، عبداللہ بن ابی بن سلول کہنے لگا اب مہاجر یہ کرنے لگ گئے اللہ کی قسم مدینہ پہنچتے ہی ہم ذی عزت ان ذلیلوں کو وہاں سے نکال باہر کریں گے، اس وقت مدینہ شریف میں انصار کی تعداد مہاجرین سے بہت زیادہ تھی گو بعد میں مہاجرین بہت زیادہ ہوگئے تھے، حضرت عمر کو جب ابن ابی کے اس قول کا علم ہوا تو حضور ﷺ سے اس کے قتل کرنے کی اجازت چاہی مگر آپ نے روک دیا، مسند احمد میں حضرت زید بن ارقم سے مروی ہے کہ غزوہ تبوک میں میں نے جب اس منافق کا یہ قول حضور ﷺ کے سامنے بیان کیا اور اس نے آ کر انکار کیا اور قسمیں کھا گیا اس وقت میری قوم نے مجھے بہت کچھ برا کہا اور ہر طرح ملامت کی کہ میں نے ایسا کیوں کیا ؟ میں نہایت غمگین دل ہو کر وہاں سے چل دیا اور سخت رنج و غم میں تھا کہ حضور ﷺ نے مجھے یاد فرمایا اور فرمایا اللہ تعالیٰ نے تیرا عذر نازل فرمایا ہے اور تیری سچائی ظاہر کی ہے اور یہ آیت اتری ھم الذین الخ یہ حدیث اور بھی بہت سی کتابوں میں ہے، مسند احمد میں ہے حضرت زید بن ارقم کا یہ بیان اس طرح ہے کہ میں اسے چچا کے ساتھ ایک غزوے میں تھا اور میں نے عبداللہ بن ابی کی یہ دونوں باتیں سنیں میں نے اپنے چچا سے بیان کیں اور میرے چچا نے حضور سے عرض کیں جب آپ نے اسے بلایا اس نے انکار کیا اور قسمیں کھا گیا۔ حضور ﷺ نے اسے سچا اور مجھے جھوٹا جانا میرے چچا نے بھی مجھے برا بھلا کہا مجھے اس قدر غم اور ندامت ہوئی کہ میں نے گھر سے باہر نکلنا چھوڑ دیا یہاں تک کہ یہ سورت اتری اور آپ نے میری تصدیق کی اور مجھے یہ پڑھ سنائی۔ مسند کی اور روایت میں ہے کہ ایک سفر کے موقعہ پر جب صحابہ کو تنگی پہنچی تو اس نے انہیں کچھ دینے کی ممانعت کردی۔ رسول اللہ ﷺ نے جب انہیں اس لئے بلوایا کہ آپ ان کے لئے استغفار کریں تو انہوں نے اس سے بھی منہ پھیرلیا، قرآن ریم نے انہیں ٹیک لگائی ہوئی لکڑیاں اس لئے کہا ہے کہ یہ لوگ اچھے جمیل جسم والے تھے، ترمذی وغیرہ میں حضرت زید بن ارقم ؓ سے روایت ہے کہ ہم ایک غزوے میں حضور ﷺ کے ساتھ نکلے ہمارے ساتھ کچھ اعراب لوگ بھی تھے پانی کی جگہ وہ پہلے پہنچنا چاہتے تھے اسی طرح ہم بھی اسی کی کوشش میں رہتے تھے ایک مرتبہ ایک اعرابی نے جا کر پانی پر بضہ کر کے حوض پر کرلیا اور اس کے اردگرد پتھر رکھ دیئے اور اوپر سے چمڑا پھیلا دیا ایک انصاری نے آ کر اس حوض میں سے اپنے اونٹ کو پانی پلانا چاہا اس نے روکا انصاری نے پلانے پر زور دیا اس نے ایک لکڑی اٹھا کر انصاری کے سر پر ماری جس سے اس کا سر زخمی ہوگیا۔ یہ چونکہ عبداللہ بن ابی کا ساتھی تھا سیدھا اس کے پاس آیا اور تمام ماجرا کہہ سنایا عبداللہ بہت بگڑا اور کہنے لگا ان اعرابیوں کو کچھ نہ دو یہ خود بھوکے مرتے بھاگ جائیں گے، یہ اعربای کھانے کے قوت رسول اللہ ﷺ کے پاس آجاتے تھے اور کھالیا کرتے تھے تو عبداللہ بن ابی نے کہا تم حضور ﷺ کا کھانا لے کر ایسے وقت جاؤ جب یہ لوگ نہ ہوں آپ اپنے ساتھیوں کے ساتھ کھالیں گے یہ رہ جائیں گے یونہی بھوکوں مرتے بھاگ جائیں گے اور اب ہم مدینہ جا کر ان کمینوں کو نکال باہر کریں گے، میں اس وقت رسول اللہ ﷺ کا ردیف تھا اور میں نے یہ سب سنا اپنے چچا سے ذکر کیا چچا نے حضور ﷺ سے ذکر کیا آپ نے اسے بلوایا یہ انکار کر گیا اور حلف اٹھا لیا حضور ﷺ نے اسے سچا سمجھا اور مجھے جھوٹا قرار دیا میرے چچا میرے پاس آئے اور کہا تم نے یہ کیا حرکت کی ؟ حضور ﷺ تجھ پر ناراض ہوگئے اور تجھے جھوٹا جانا اور دیگر مسلمانوں نے بھی تجھے جھوٹا سمجھا مجھ پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا سخت غم واندوہ کی حالت میں سر جھکائے میں حضور ﷺ کے ساتھ جا رہا تھا تھوڑی ہی دیر گذری ہوگی کہ آپ میرے پاس آئے، میرا کان پکڑا، جب میں نے سر اٹھا کر آپ کی طرف دیکھا تو آپ مسکرائے اور چل دیئے، اللہ کی قسم مجھے اس قدر خوشی ہوئی کہ بیان سے باہر ہے اگر دنیا کی ابدی زندگی مجھے مل جاتی جب بھی میں اتنا خوش نہ ہوسکتا تھا پھر حضرت صدیق اکبر ؓ میرے پاس آئے اور پوچھا کہ آنحضرت ﷺ نے تم سے کیا کہا ؟ میں نے کہا ؟ فرمایا تو کچھ بھی نہیں مسکراتے ہوئے تشریف لے گئے، آپ نے فرمایا بس پھر خوش ہو، آپ کے بعد ہی حضرت عمر فاروق ؓ تشریف لائے ہی سوال مجھ سے کیا اور میں نے یہی جواب دیا صبح کو سورة منافقون نازل ہوئی۔ دوسری روایت میں اس سورت کا منھا الذل تک پڑھنا بھی مروی ہے، عبداللہ بن لہیعہ اور موسیٰ بن عقبہ نے بھی اسی حدیث کو مغازی میں بیان کیا ہے لیکن ان دونوں کی روایت میں خبر پہنچانے والے کا نام اوس بن اقرم ہے جو قبیلہ بنو حارث بن خزرج میں سے تھے، ممن ہے کہ حضرت زید بن ارقم نے بھی خبر پہنچائی ہو اور حضرت اوس نے بھی اور یہ بھی ممکن ہے کہ راوی سے نام میں غلطیہو گئی ہو واللہ اعلم، ابنابی حاتم میں ہے کہ یہ واقعہ غزوہ مریسیع کا ہے یہ وہ غزوہ ہے جس میں حضرت خالد ؓ کو بھیج کر حضور ﷺ نے مناۃ بت کو تڑوایا تھا جو قفا مثل اور سمندر کے درمیان تھا، اسی غزوہ میں دو شخصوں کے درمیان جھگڑا ہوگیا تھا ایک مہاجر تھا دوسرا قبیلہ بہز کا تھا اور قبیل بہز انصاریوں کا حلیف تھا بہزی نے انصاریوں کو اور مہاجر نے مہاجرین کو آواز دی کچھ لوگ دونوں طرف کھڑے ہوگئے اور جھگڑا ہنے لگا جب ختم ہوا تو منافق اور بیمار دل لوگ عبداللہ بن اب کے پاس جمع ہوئے اور کہنے لگے ہمیں تو تم سے بہت کچھ امیدیں تھیں تم ہمارے دشمنوں سے ہمارا بچاؤ تھے اب تو بیکار ہوگئے ہو، نفع کا خیال نہ نقصان کا تم نے ہی ان جلالیبکو اتنا چڑھا دیا کہ بات بات پر یہ ہم پر چڑھ دوڑیں، نئے مہاجرین کو یہ لوگ جلالیب کہتے تھے، اس دشمن اللہ نے جواب دیا کہ اب مدینے پہنچتے ہی ان سب کو وہاں سے دیس نکالا دیں گے، مالک بن وخشن جو منافق تھا اس نے کہا میں تو تمہیں پہلے ہی سے کہتا ہوں کہ ان لوگوں کے ساتھ سلوک کرنا چھوڑ دو خودبخود منتشر ہوجائیں گے یہ باتیں حضرت عمر ؓ نے سن لیں اور خدمت نبوی میں آ کر عرض کرنے لگے کہ اس بانی فتنہ عبداللہ بن ابی کا قصہ پاک کرنے کی مجھے اجازت دیجئے آپ نے فرمایا اچھا اگر اجازت دوں تو کیا تم اسے قتل کر ڈالو گے ؟ حضرت عمر نے کہا یا رسول اللہ ﷺ اللہ کی قسم ابھی اپنے ہاتھ سے اس کی گردن ماروں گا، آپ نے فرمایا اچھا بیٹھ جاؤ اتنے میں حضرت اسید بن حفیر بھی یہی کہتے ہوئے آپ نے ان سے بھی یہی پوچھا اور انہوں نے بھی یہی جواب دیا آپ نے انہیں بھی بٹھا لیا، پھر تھوڑی دیر گذری ہوگی کہ کوچ کرنے کا حکم دیا اور وقت سے پہلے ہی لشکر نے کوچ کیا، وہ دن رات دوسری صبح برابر چلتے ہی رہے جب دھوپ میں تیزی آگئی، اترنے کو فرمایا، پھر دوپہر ڈھلتے ہی جلدی سے کوچ کیا اور اسی طرح چلتے رہے تیسرے دن صبح کو قفا مثل سے مدینہ شریف پہنچ گئے، حضرت عمر کو بلوایا ان سے پوچھا کہ کیا میں اس کے قتل کا تجھے حکم دیتا تو تو اسے مار ڈالتا ؟ " حضرت عمر نے عرض کیا یقیناً میں اس کا سرتن سے جدا کردیتا۔ آپ نے فرمایا اگر تو اسے اس دن قتل کر ڈالات تو بہت سے لوگوں کے ناک خاک آلودہ ہوجاتے میں اگر انہیں کہتا تو وہ بھی اسے مار ڈالنے میں تامل نہ کرتے پھر لوگوں کو باتیں بنانے کا موقعہ ملتا کہ محمد ﷺ اپنے ساتھیوں کو بھی بےدردی کے ساتھ مار ڈالتا ہے اسی واقعہ کا بیان ان آیتوں میں ہے، یہ سیاق بہت غریب ہے اور اس میں بہت سی ایسی عمدہ باتیں ہیں جو دوسری روایتوں میں نہیں، سیرۃ محمد بن اسحاق میں ہے کہ عبداللہ بن ابی منافق کے بیٹے حضرت عبداللہ ؓ جو پکے سچے مسلمان تھے اس واقعہ کے بعد آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور گذارش کی کہ یا رسول اللہ ﷺ میں نے سنا ہے کہ میرے باپ نے جو بکواس کی ہے اس کے بدلے آپ اسے قتل کرنا چاہتے ہیں اگر یونہی ہے تو اس کے قتل کا حکم آپ کسی اور کو نہ کیجئے میں خود جاتا ہوں اور ابھی اس کا سر آپ کے قدموں تلے ڈالتا ہوں، قسم اللہ کی قبیلہ خزرج کا ایک ایک شخص جانتا ہے کہ مجھ سے زیادہ کوئی بیٹا اپنے باپ سے احسان و سلوک اور محبت و عزت کرنے والا نہیں (لیکن میں نے فرمان رسول ﷺ پر اپنے پیارے باپ کی گردن مارنے کو تیار ہوں) اگر آپ نے کسی اور کو یہ حکم دیا اور اس نے اسے مارا تو مجھے ڈر ہے کہ کیں جوش انتقام میں میں اسے نہ مار بیٹھوں اور ظاہر ہے کہ اگر یہ حرکت مجھ سے ہوگئی تو میں ایک کافر کے بدلے ایک مسلمان کو مار کر جہنمی بن جاؤں گا آپ میرے باپ کے قتل کا حکم دیجئے آپ نے فرمایا نہیں نہیں میں اسے قتل کرنا نہیں چاہتا ہم تو اس سے اور نرمی برتیں گے اور اس کے ساتھ حسن سلوک کریں گے جب تک وہ ہمارے ساتھ ہے، حضرت عکرمہ اور حضرت ابنزید کا بیان ہے کہ جب حضور ﷺ اپنے لشکروں سمیت مدینے پہنچے تو اس منافق عبداللہ بن ابی کے لڑکے حضرت عبداللہ ؓ دینہ شریف کے دروازے پر کھڑے ہوگئے تلوار کھینچ لی لوگ مدینہ میں داخل ہونے لگے یہاں تک کہ ان کا باپ آیا تو یہ فرمانے لگے پرے رہو، مدینہ میں نہ جاؤ اس نے کہا کیا بات ہے ؟ مجھے کیوں روک رہا ہے ؟ حضرت عبداللہ نے فرمایا تو مدینہ میں نہیں جاسکتا جب تک کہ اللہ کے رسول ﷺ تیرے لئے اجازت نہ دیں، عزت والے آپ ہی ہیں اور تو ذلیل ہے، یہ رک کر کھڑا ہوگیا یہاں تک کہ رسول کریم ﷺ تشریف لائے آپ کی عادت مبارک تھی کہ لشکر کے آخری حصہ میں ہوتے تھے آپ کو دیکھ کر اس مناق نے اپنے بیٹے کی شکایت کی آپ نے ان سے پوچھا کہ اسے کیوں روک رکھا ہے ؟ انہوں نے کہا قسم ہے اللہ کی جب تک آپ کی اجازت نہ ہو یہ اندر نہیں جاسکتا چناچہ حضور ﷺ نے اجازت دی اب حضرت عبداللہ نے اپنے باپ کو شہر میں داخل ہونے دیا، مسند حمیدی میں ہے کہ آپ نے اپنے والد سے کہا جب تک تو اپنی زبان سے یہ نہ کہے کہ رسول اللہ ﷺ عزت والے اور میں ذلیل تو مدینہ میں نہیں جاسکتا اور اس سے پہلے حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا تھا کہ یا رسول اللہ ﷺ اپنے باپ کی ہیبت کی وجہ سے میں نے آج تک نگاہ اونچی کر کے ان کے چہرے کو بھی نہیں دیکھا لیکن آپ اگر اس پر ناراض ہیں تو مجھے حکم دیجئے ابھی اس کی گردن حاضر کرتا ہوں کسی اور کو اس کے قتل کا حکم نہ دیجئے ایسا نہ ہو کہ میں اپنے باپ کے قتل کو اپنی آنکھوں سے چلتا پھرتا نہ دیکھ سکوں۔

آیت 5 - سورۃ المنافقون: (وإذا قيل لهم تعالوا يستغفر لكم رسول الله لووا رءوسهم ورأيتهم يصدون وهم مستكبرون...) - اردو