سورۃ المنافقون: آیت 4 - ۞ وإذا رأيتهم تعجبك أجسامهم... - اردو

آیت 4 کی تفسیر, سورۃ المنافقون

۞ وَإِذَا رَأَيْتَهُمْ تُعْجِبُكَ أَجْسَامُهُمْ ۖ وَإِن يَقُولُوا۟ تَسْمَعْ لِقَوْلِهِمْ ۖ كَأَنَّهُمْ خُشُبٌ مُّسَنَّدَةٌ ۖ يَحْسَبُونَ كُلَّ صَيْحَةٍ عَلَيْهِمْ ۚ هُمُ ٱلْعَدُوُّ فَٱحْذَرْهُمْ ۚ قَٰتَلَهُمُ ٱللَّهُ ۖ أَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ

اردو ترجمہ

اِنہیں دیکھو تو اِن کے جثے تمہیں بڑے شاندار نظر آئیں بولیں تو تم ان کی باتیں سنتے رہ جاؤ مگر اصل میں یہ گویا لکڑی کے کندے ہیں جو دیوار کے ساتھ چن کر رکھ دیے گئے ہوں ہر زور کی آواز کو یہ اپنے خلاف سمجھتے ہیں یہ پکے دشمن ہیں، ان سے بچ کر رہو، اللہ کی مار ان پر، یہ کدھر الٹے پھرائے جا رہے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waitha raaytahum tuAAjibuka ajsamuhum wain yaqooloo tasmaAA liqawlihim kaannahum khushubun musannadatun yahsaboona kulla sayhatin AAalayhim humu alAAaduwwu faihtharhum qatalahumu Allahu anna yufakoona

آیت 4 کی تفسیر

واذا ........................ یوفکون (36 : 4) ” انہیں دیکھو تو ان کے جثے تمہیں بڑے شاندار نظر آئیں۔ بولیں تو تم ان کی باتیں سنتے ہو مگر اصل میں یہ گویا لکڑی کے کندے ہیں جو دیوار کے ساتھ چن کر رکھ دیئے گئے ہوں۔ ہر زور کی آواز کو یہ اپنے خلاف سمجھتے ہیں۔ یہ پکے دشمن ہیں ، ان سے بچ کر رہو ، اللہ کی مار ان پر ، یہ کدھر الٹے پھرائے جارہے ہیں “۔

یہ اس طرح ہیں جس طرح مضحکہ خیز حثے ہوتے ہیں۔ انسان معلوم ہی نہیں ہوتے۔ جب یہ خاموش ہوتے ہیں تو کندہ ناتراش نظر آتے ہیں اور جب یہ بولتے ہیں تو ان کے الفاظ ہر قسم کے مفہوم ، احساس ، اثر یا حقیقت سے خالی ہوتے ہیں ، تم ان کی بات سنتے ہو ، یوں نظر آتے ہیں کہ گویا لکڑیاں ہیں جن کو دیوار کے سہارے سے کھڑا کردیا گیا ہے (یعنی یہ بےجان ہیں اور ماسوائے آواز کے ان میں زندگی کی کوئی علامت نہیں) ۔

ایک طرف تو وہ ایسے جامد ، نافہم اور بےروح ہیں اور دوسری طرف سے یہ اسی قدر چوکنے ہیں اور ڈرپوک ہیں اور ہر وقت کانپتے ہی رہتے ہیں اور انہیں ڈر لگا رہتا ہے کہ کہیں راز فاش نہ ہوجائے۔

یحسبون .................... علیھم (36 : 4) ” ہر زور کی آواز یہ اپنے خلاف سمجھتے ہیں “۔ ان کو تو علم ہے کہ وہ منافق ہیں۔ اور ان کے اوپر نفاق کا مہین پردہ پڑا ہوا ہے ، جو چالاکی ، قسموں اور احتیاطوں کی وجہ سے ابھی تک فاش نہیں ہوا۔ ہر وقت وہ سہمے رہتے ہیں کہ یہ پردہ چاک ہی نہ ہوجائے اور راز فاش ہی نہ ہوجائے ۔ تصویر ایسی کھینچی گئی ہے کہ ہر وقت ادھر ادھر دیکھتے رہتے ہیں۔ ہر حرکت ، ہر آواز اپنے خلاف سمجھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہر حرکت ان پر دار ہے ، اور ہر آواز ان کی پکار ہے۔ یہ عجیب تصویر ہے ان کی اگر معاملہ فہم وادراک کا ہو ، تو وہ لکڑی کے بت ہیں۔ کوئی سمجھ ، کوئی روح ، کوئی شعور اور ایمان کا اثر ان پر نہیں ہے۔ اور اگر معاملہ ثابت قدمی اور خوف کا ہو تو وہ اس باریک ٹہنی کی طرح ہیں جو ہوا کے جھونکوں کے ساتھ جھلکتی رہتی ہے۔ ہر وقت کپکپاتی رہتی ہے۔ اور اپنی ان خصوصیات کے ساتھ ساتھ وہ رسول اللہ کے دشمن نمبر ایک ہیں۔

ھم العدو فاحذرھم (36 : 4) ” یہ پکے دشمن ہیں ان سے بچ کر رہو “۔ یہ اسلامی محاذ کے اندر گھسے ہوئے خفیہ دشمن ہیں۔ اسلامی صفوں کے اندر ہیں ، اس لئے یہ خارجی دشمنوں سے زیادہ خطرناک ہیں۔

فاحذرھم (36 : 4) ” ان سے بچ کر رہو “۔ لیکن ان سب باتوں کے باوجود حضور اکرم ﷺ کو حکم نہیں دیا گیا کہ ان کو قتل کرو ، ان کو دوسرے انداز سے پکڑنا مطلوب تھا۔ اور اس میں حکمت ، یقین ، رواداری کے ساتھ ان کی سازشوں سے بچنا مطلوب تھا۔ (اس کا ایک نمونہ ابھی آرہا ہے)

قتلھم ................ یوفکون (36 : 4) ” اللہ کی مار ان پر یہ کدھر الٹے پھرائے جارہے ہیں “۔ یہ جہاں بھی جائیں اللہ ہی ان کے ساتھ جنگ کرنے والا ہے۔ اور اللہ جس کے خلاف دعا کرے ، تو یہ حکم تصور ہوتا ہے کہ گویا فیصلہ ہوگیا کہ یہ ختم ہوگئے ، قتل ہوگئے۔ اور یہی ہوا پہلے مدینہ اور پھر جزیرة العرب میں۔

مزید بتایا جاتا ہے کہ ان لوگوں کی اندرونی حالت کیا ہے۔ وہ رسول اللہ ﷺ کے خلاف خفیہ طور پر کیا سازشیں کرتے ہیں اور آپ کے سامنے کس طرح جھوٹ بولتے ہیں ان کی اہم صفات یہ ہیں :

آیت 4 { وَاِذَا رَاَیْتَہُمْ تُعْجِبُکَ اَجْسَامُہُمْ } ”اے نبی ﷺ ! جب آپ انہیں دیکھتے ہیں تو ان کے جسم آپ کو بڑے اچھے لگتے ہیں۔“ جسمانی طور پر ان کی شخصیات بڑی دلکش اور متاثر کن ہیں۔ { وَاِنْ یَّـقُوْلُوْا تَسْمَعْ لِقَوْلِہِمْ } ”اور اگر وہ بات کرتے ہیں تو آپ ﷺ ان کی بات سنتے ہیں۔“ ظاہر ہے یہ لوگ سرمایہ دار بھی تھے اور معاشرتی لحاظ سے بھی صاحب حیثیت تھے۔ اس لحاظ سے ان کی گفتگو ہر فورم پر توجہ سے سنی جاتی تھی۔ { کَاَنَّہُمْ خُشُبٌ مُّسَنَّدَۃٌ} ”لیکن اصل میں یہ دیوار سے لگائی ہوئی خشک لکڑیوں کی مانند ہیں۔“ حقیقت میں ان لوگوں کی حیثیت ان خشک لکڑیوں کی سی ہے جو کسی سہارے کے بغیر کھڑی بھی نہیں ہوسکتیں اور انہیں دیوار کی ٹیک لگا کر کھڑا کیا جاتا ہے۔ { یَحْسَبُوْنَ کُلَّ صَیْحَۃٍ عَلَیْہِمْ } ”یہ ہر زور کی آواز کو اپنے ہی اوپر گمان کرتے ہیں۔“ اندر سے یہ لوگ اس قدر بودے اور بزدل ہیں کہ کوئی بھی زور کی آواز یا کوئی آہٹ سنتے ہیں تو ان کی جان پر بن جاتی ہے۔ یہ ہر خطرے کو اپنے ہی اوپر سمجھتے ہیں اور ہر وقت کسی ناگہانی حملے کے خدشے یا جہاد و قتال کے تقاضے کے ڈر سے سہمے رہتے ہیں۔ { ہُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْہُمْ } ”آپ ﷺ کے اصل دشمن یہی ہیں ‘ آپ ان سے بچ کر رہیں !“ یہ ان کے مرض نفاق کی تیسری سٹیج کا ذکر ہے۔ ان کی دشمنی چونکہ دوستی کے پردے میں چھپی ہوتی ہے اس لیے یہاں خصوصی طور پر ان سے ہوشیار رہنے کی ہدایت کی جا رہی ہے کہ اے نبی ﷺ ! یہ لوگ آستین کے سانپ ہیں۔ مشرکین مکہ کے لشکر آپ لوگوں کے لیے اتنے خطرناک نہیں جتنے یہ اندر کے دشمن خطرناک ہیں۔ لہٰذا آپ ﷺ ان کو ہلکا نہ سمجھیں اور ان سے ہوشیار رہیں۔ ایسی صورت حال کے لیے حضرت مسیح علیہ السلام کا یہ قول بہت اہم ہے کہ ”فاختہ کی مانند بےضرر لیکن سانپ کی طرح ہوشیار رہو“۔ منافقین اگرچہ حضور ﷺ سے دشمنی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے ‘ لیکن حضور ﷺ کی شان یہی تھی کہ آپ ﷺ ان کی غلطیاں اور گستاخیاں مسلسل نظرانداز فرماتے رہتے تھے ‘ بلکہ آپ ﷺ اپنی طبعی شرافت اور مروّت کی وجہ سے ان کے جھوٹے بہانے بھی مان لیتے تھے۔ یہاں تک کہ غزوئہ تبوک کی تیاری کے موقع پر جب آپ ﷺ نے بہت سے منافقین کو جھوٹے بہانوں کی وجہ سے پیچھے رہ جانے کی اجازت دے دی تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تنبیہہ آگئی : { عَفَا اللّٰہُ عَنْکَج لِمَ اَذِنْتَ لَہُمْ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَتَعْلَمَ الْکٰذِبِیْنَ۔ } التوبۃ ”اے نبی ﷺ ! اللہ آپ کو معاف فرمائے یا اللہ نے آپ کو معاف فرمادیا آپ نے انہیں کیوں اجازت دے دی ؟ یہاں تک کہ آپ کے لیے واضح ہوجاتا کہ کون لوگ سچے ہیں اور آپ یہ بھی جان لیتے کہ کون جھوٹے ہیں !“ { قَاتَلَہُمُ اللّٰہُز اَنّٰی یُؤْفَـکُوْنَ۔ } ”اللہ ان کو ہلاک کرے ‘ یہ کہاں سے پھرائے جا رہے ہیں !“ تصور کیجیے یہ لوگ کس قدرقابل رشک مقام سے ناکام و نامراد لوٹے ہیں ! ان کو نبی آخر الزماں ﷺ کا زمانہ نصیب ہوا ‘ آپ ﷺ کی دعوت ایمان پر لبیک کہنے کی توفیق ملی ‘ آپ ﷺ کے قدموں میں بیٹھنے کے مواقع ہاتھ آئے۔ کیسی کیسی سعادتیں تھیں جو ان لوگوں کے حصے میں آئی تھیں۔ بقول ابراہیم ذوق : ع ”یہ نصیب اللہ اکبر ! لوٹنے کی جائے ہے“۔ مگر دوسری طرف ان کی بدنصیبی کی انتہا یہ ہے کہ یہاں تک پہنچ کر بھی یہ لوگ نامراد کے نامراد ہی رہے۔ مقامِ عبرت ہے ! کس بلندی پر پہنچ کر یہ لوگ کس اتھاہ پستی میں گرے ہیں : ؎قسمت کی خوبی دیکھئے ٹوٹی کہاں کمند دوچارہاتھ جب کہ لب ِبام رہ گیا !

آیت 4 - سورۃ المنافقون: (۞ وإذا رأيتهم تعجبك أجسامهم ۖ وإن يقولوا تسمع لقولهم ۖ كأنهم خشب مسندة ۖ يحسبون كل صيحة عليهم ۚ...) - اردو