اتخذو ................ جنة (36 : 2) ” انہوں نے اپنی قسموں کو ڈھال بنا رکھا ہے “۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ایمان کے بارے میں جب ذرا بھی شبہ پیدا ہوتا تو وہ قسمیں اٹھانا شروع کردیتے۔ یہ اس وقت ہوتا جب معلوم ہوتا کہ انہوں نے فلاں فلاں سازش میں حصہ لیا۔ یا جب ان کی کوئی تنقید مسلمانوں تک پہنچ جاتی۔ جب بھی ان کی کوئی ایسی بات کھلتی وہ قسمیں شروع کردیتے۔ یوں وہ اپنی صفائی بیان کردیتے۔ اور اس ڈھال کے پیچھے اپنے آپ کو بچا لیتے ، تاکہ آئندہ وہ اپنی سازشیں اور خفیہ تدابیر جاری رکھ سکیں اور ان میں جو بیوقوف تھے ان کو مزید دھوکہ دے سکیں۔
فصدوا ................ اللہ (36 : 2) ” اس طرح وہ اللہ کے راستے سے رکتے اور روکتے ہیں “۔ یعنی خود اپنے نفوس کو بھی روکتے ہیں اور دوسروں کو بھی روکتے ہیں۔ اور سچائی کے ساتھ یقین نہیں کرتے۔ اور اس سلسلے میں جھوٹی قسموں کا سہارا لیتے ہیں۔
انھم .................... یعملون (36 : 2) ” یعنی بری حرکتیں ہیں جو یہ لوگ کرتے ہیں “۔ آخر جھوٹ ، فریب اور گمراہ کرنے سے بڑھ کر اور کیا برائی ہوگی۔
آیت 2 { اِتَّخَذُوْٓا اَیْمَانَہُمْ جُنَّۃً فَصَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ } ”انہوں نے اپنی قسموں کو ڈھال بنا رکھا ہے اور یہ اللہ کے راستے سے رُک گئے ہیں۔“ جہاد و قتال سے بچنے کے لیے یہ لوگ قسمیں کھا کھا کر جھوٹے بہانے بناتے تھے کہ اللہ کی قسم میری بیوی سخت بیمار ہے ‘ گھر میں کوئی دوسرا اس کی دیکھ بھال کرنے والا بھی نہیں ‘ وغیرہ وغیرہ۔ جب نوبت قسموں تک پہنچ گئی تو گویا مرض دوسری سٹیج میں داخل ہوگیا۔ { اِنَّہُمْ سَآئَ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۔ } ”بہت ہی برا کام ہے جو یہ لوگ کرر ہے ہیں۔“