سورۃ المنافقون: آیت 1 - إذا جاءك المنافقون قالوا نشهد... - اردو

آیت 1 کی تفسیر, سورۃ المنافقون

إِذَا جَآءَكَ ٱلْمُنَٰفِقُونَ قَالُوا۟ نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ ٱللَّهِ ۗ وَٱللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّكَ لَرَسُولُهُۥ وَٱللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّ ٱلْمُنَٰفِقِينَ لَكَٰذِبُونَ

اردو ترجمہ

اے نبیؐ، جب یہ منافق تمہارے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں "ہم گواہی دیتے ہیں کہ آ پ یقیناً اللہ کے رسول ہیں" ہاں، اللہ جانتا ہے کہ تم ضرور اُس کے رسول ہو، مگر اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ منافق قطعی جھوٹے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Itha jaaka almunafiqoona qaloo nashhadu innaka larasoolu Allahi waAllahu yaAAlamu innaka larasooluhu waAllahu yashhadu inna almunafiqeena lakathiboona

آیت 1 کی تفسیر

یہ رسول اللہ کے پاس آتے تھے۔ آپ کے سامنے یہ لوگ آپ کی رسالت پر ایمان کی شہادت دیتے تھے ، لیکن دل سے یہ شہادت نہ ہوتی۔ بطور تقیہ یہ شہادت دیتے ، تاکہ ان کی حقیقت مسلمانوں سے چھپ جائے ، لیکن درحقیقت یہ جھوٹی شہادت دے رہے تھے۔ محض دھوکے کے لئے آتے۔ یہ اس کے ذریعہ اپنے آپ کو چھپاتے۔ چناچہ اللہ فرماتا ہے کہ یہ جھوٹے ہیں۔ لیکن اس موقعہ پر اللہ حضور کی رسالت کی تصدیق خود فرماتا ہے اور منافقین کی جھوٹ کی شہادت دیتا ہے۔

واللہ ................ لرسولہ (36 : 1) ” اللہ جانتا ہے کہ تم ضرور اس کے رسول ہو “۔ اور واللہ .................... لکذبون (36 : 1) ” اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ منافق قطعی جھوٹے ہیں “۔

یہاں انداز تعبیر میں نہایت احتیاط ملحوظ رکھی گئی ہے۔ منافقین کے قول کی تکذیب سے پہلے رسالت محمدی کی تصدیق فرماتا ہے۔ اگر یوں نہ ہوتا تو صرف یہ بات آتی کہ منافقین کی شہادت جھوٹی ہے۔ اور شہادت تو رسالت سے متعلق فرماتا ہے۔ اور قرآن کا مقصد یہ نہ تھا۔” ان کی شہادت سچی ہے لیکن وہ اپنی شہادت میں جھوٹے ہیں “۔ مطلب یہ ہے کہ شہادت سچی ہے لیکن وہ اقرار رسالت میں جھوٹے ہیں۔ ضمیر کے مطابق شہادت نہیں دے رہے۔

آیت 1{ اِذَا جَآئَ کَ الْمُنٰفِقُوْنَ قَالُوْا نَشْہَدُ اِنَّکَ لَرَسُوْلُ اللّٰہِ 7} ”اے نبی ﷺ ! جب منافق آپ کے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں : ہم گواہی دیتے ہیں کہ بیشک آپ اللہ کے رسول ہیں۔“ { وَاللّٰہُ یَعْلَمُ اِنَّکَ لَرَسُوْلُہٗ } ”اور اللہ جانتا ہے کہ یقینا آپ اس کے رسول ہیں۔“ { وَاللّٰہُ یَشْہَدُ اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لَــکٰذِبُوْنَ۔ } ”اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ منافقین یقینا جھوٹے ہیں۔“ یعنی آپ ﷺ کی رسالت کی گواہی یہ لوگ صرف اپنی زبانوں سے دیتے ہیں ‘ ان کے دل اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرتے ‘ اس لیے یہ لوگ جھوٹے کٰذِبُوْنَ ہیں۔ جیسا کہ تمہیدی کلمات میں ذکر ہوا ہے بات بات پر جھوٹ بولنا مرض منافقت کی پہلی سٹیج ہے۔

اللہ تعالیٰ منافقوں کے نفاق کو ظاہر کرتا ہے کہ گویہ تیرے پاس آ کر قسمیں کھا کھا کر اپنے اسلام کا اظہار کرتے ہیں تیری رسالت کا اقرار کرتے ہیں مگر درصال دل کے کھوٹے ہیں، فی الواقع آپ رسول اللہ بھی ہیں، ان کا یہ قول بھی ہے مگر چونکہ دل میں اس کا کوئی اثر نہیں، لہذا یہ جھوٹے ہیں۔ یہ تجھے رسول اللہ مانتے ہیں، اس بارے میں اگر یہ سچے ہونے کے لئے قسمیں بھی کھائیں لیکن آپ یقین نہ کیجئے۔ یہ قسمیں تو ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے یہ تو اپنے جھوٹ کو سچ بنانے کا ایک ذریعہ ہیں، مقصد یہ ہے کہ مسلمان ان سے ہوشیار ہیں کہیں انہیں سچا ایماندار سمجھ کر کسی بات میں ان کی تقلید نہ کرنے لگیں کہ یہ اسلام کے رنگ میں تم کو کفر کا ارتکاب کرا دیں، یہ بد اعمال لوگ اللہ کی راہ سے دور ہیں۔ ضحاک کی قرأت میں ابمانھم الف کی زیر کے ساتھ ہے تو مطلب یہ ہوگا کہ انہوں نے اپنی ظاہری تصدیق کو اپنے لئے تقیہ بنا لیا ہے کہ قتل سے اور حکم کفر سے دنیا میں بچ جائیں۔ یہ نفاق ان کے دلوں میں اس گناہ کی شومی کے باعث رچ گیا ہے کہ ایمان سے پھر کر کفر کی طرف اور ہدایت سے ہٹ کر ضلالت کی جانب آگئے ہیں، اب دلوں پر مہر الٰہی لگ چکی ہے اور بات کی تہہ کو پہنچنے کی قابلیت سلب ہوچکی ہے، بظاہر تو خوش رو خوش گو ہیں اس فصاحت اور بلاغت سے گفتگو کرتے ہیں کہ خواہ مخواہ دوسرے کے دل کو مائل کرلیں، لیکن باطن میں بڑے کھوٹے بڑے کمزور دل والے نامرد اور بدنیت ہیں، جہاں کوئی بھی واقعہ رونما ہوا اور سمجھ بیٹھے کہ ہائے مرے، اور جگہ ہے اشحتہ علیکم الخ تمہارے مقابلہ میں بخل کرتے ہیں، پھر جس وقت خوف ہوتا ہے تو تمہاری طرف اس طرح آنکھیں پھیر پھیر کر دیکھتے ہیں گویا کسی شخص پر موت کی بیہوشی طاری ہے، پھر جب خوف چلا جاتا ہے تو تمہیں اپنی بدکلامی سے ایذاء دیتے ہیں اور مال غنیمت کی حرص میں نہ کہنے کی باتیں کہہ گذرتے ہیں یہ بےایمان ہیں ان کے اعمال غارت ہیں اللہ پر یہ امر نہایت ہی آسان ہے، پس ان کی یہ آوازیں خالی پیٹ کے ڈھول کی بلند بانگ سے زیادہ وقعت نہیں رکھتیں یہی تمہارے دشمن ہیں ان کی چکنی چپڑی باتوں اور ثقہ اور مسکین صورتوں کے دھوکے میں نہ آجانا، اللہ انہیں برباد کرے ذرا سوچیں تو کیوں ہدایت کو چھوڑ کر بےراہی پر چل رہے ہیں ؟ مسند احمد میں ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا منافقوں کی بہت سی علامتیں ہیں جن سے وہ پہچان لئے جاتے ہیں ان کا سلام لعنت ہے ان کی خوراک لوٹ مار ہے ان کی غنیمت حرام اور خیانت ہے وہ مسجدوں کی نزدیکی ناپسند کرتے ہیں وہ نمازوں کے لئے آخری وقت آتے ہیں تکبر اور نحوت والے ہوتے ہیں نرمی اور سلوک تواضع اور انکساری سے محروم ہوتے ہیں نہ خود ان کاموں کو کریں نہ دوسروں کے ان کاموں کو وقعت کی نگاہ سے دیکھیں رات کی لکڑیاں اور دن کے شور و غل کرنیوالے اور روایت میں ہے دن کو خوب کھانے پینے والے اور رات کو خشک لکڑیوں کی طرح پڑ رہنے والے۔

آیت 1 - سورۃ المنافقون: (إذا جاءك المنافقون قالوا نشهد إنك لرسول الله ۗ والله يعلم إنك لرسوله والله يشهد إن المنافقين لكاذبون...) - اردو