سورۃ الممتحنہ: آیت 4 - قد كانت لكم أسوة حسنة... - اردو

آیت 4 کی تفسیر, سورۃ الممتحنہ

قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِىٓ إِبْرَٰهِيمَ وَٱلَّذِينَ مَعَهُۥٓ إِذْ قَالُوا۟ لِقَوْمِهِمْ إِنَّا بُرَءَٰٓؤُا۟ مِنكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ ٱللَّهِ كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ ٱلْعَدَٰوَةُ وَٱلْبَغْضَآءُ أَبَدًا حَتَّىٰ تُؤْمِنُوا۟ بِٱللَّهِ وَحْدَهُۥٓ إِلَّا قَوْلَ إِبْرَٰهِيمَ لِأَبِيهِ لَأَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ وَمَآ أَمْلِكُ لَكَ مِنَ ٱللَّهِ مِن شَىْءٍ ۖ رَّبَّنَا عَلَيْكَ تَوَكَّلْنَا وَإِلَيْكَ أَنَبْنَا وَإِلَيْكَ ٱلْمَصِيرُ

اردو ترجمہ

تم لوگوں کے لیے ابراہیمؑ اور اُس کے ساتھیوں میں ایک اچھا نمونہ ہے کہ اُنہوں نے اپنی قوم سے صاف کہہ دیا "ہم تم سے اور تمہارے اِن معبودوں سے جن کو تم خدا کو چھوڑ کر پوجتے ہو قطعی بیزار ہیں، ہم نے تم سے کفر کیا اور ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ کے لیے عداوت ہو گئی اور بیر پڑ گیا جب تک تم اللہ واحد پر ایمان نہ لاؤ" مگر ابراہیمؑ کا اپنے باپ سے یہ کہنا (اِس سے مستثنیٰ ہے) کہ "میں آپ کے لیے مغفرت کی درخواست ضرور کروں گا، اور اللہ سے آپ کے لیے کچھ حاصل کر لینا میرے بس میں نہیں ہے" (اور ابراہیمؑ و اصحاب ابراہیمؑ کی دعا یہ تھی کہ) "اے ہمارے رب، تیرے ہی اوپر ہم نے بھروسا کیا اور تیری ہی طرف ہم نے رجوع کر لیا اور تیرے ہی حضور ہمیں پلٹنا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qad kanat lakum oswatun hasanatun fee ibraheema waallatheena maAAahu ith qaloo liqawmihim inna buraao minkum wamimma taAAbudoona min dooni Allahi kafarna bikum wabada baynana wabaynakumu alAAadawatu waalbaghdao abadan hatta tuminoo biAllahi wahdahu illa qawla ibraheema liabeehi laastaghfiranna laka wama amliku laka mina Allahi min shayin rabbana AAalayka tawakkalna wailayka anabna wailayka almaseeru

آیت 4 کی تفسیر

انہی لوگوں کے طرفز عمل میں تمہارے لئے ہر اس شخص کے لئے اچھا نمونہ ہے جو اللہ اور روز آخر کا امیدوار ہو۔ اس سے کوئی منحرف ہو تو اللہ بےنیاز اور اپنی ذات میں آپ محمود ہے “۔

ایک مسلم جب تاریخ پر نظر ڈالتا ہے تو اسے معلوم ہوجاتا ہے کہ اس کی ایک طویل تاریخی نسب نامہ اور شجرہ ایمان ہے۔ یہ ماضی کی تاریخ میں بہت دور تک پھیلا ہوا ہے ، دور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تک۔ نہ صرف یہ کہ وہ اپنے عقائد ونظریات میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا پیروکار ہے بلکہ اہل ایمان اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دعوتی تجربات بھی ایک ہی جیسے ہیں اس لئے ایک مومن یہ شعور رکھتا ہے کہ اس کے پاس تجربات کا بہت بڑا ذخیرہ ہے۔ نہ صرف وہ تجربات جن سے وہ گزر رہا ہے بلکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے تجربات بھی اس میں شامل ہیں۔ قافلہ ایمان جو اب مکہ میں ہے ، یہ تو ماضی کی تاریخ زمان ومکان میں بہت دور تک چلا ہے۔ کئی وادیاں اس نے طے کی ہیں۔ یہ صرف اسی جھنڈے تلے چلتا رہا ہے اور ایسے ہی حالات سے گزرا ہے جن سے وہ گزر رہے ہیں ، یہ کوئی نیا معاملہ نہیں ہے کہ گویا صرف تم ان مشقتوں سے دو چار ہوگئے ہو۔ آج اگر مومنین کا تعلق اپنے دشمنوں سے کٹ گیا تو کیا بات ہے۔ وہ ایک ایسے نظریہ کی ایک شاخ ہے جس کی نہایت ہی سایہ دار شاخیں تاریخ کی فضا میں ، دور تک پھیلی ہوئی ہیں۔ یہ وہ درخت ہے جس کا پودا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے لگایا۔

حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بھی اس تجربے سے گزرے تھے ، جس سے مدینہ میں مسلمان گزر رہے تھے اور حضرت ابراہیم میں الہ ایمان کے لئے اسوہ حسنہ ہے۔

اذ قالو ........................ وحدہ (0 : 4) ”” تم لوگوں کے لئے ابراہیم (علیہ السلام) اور اس کے ساتھیوں میں اچھا نمونہ ہے کہ انہوں نے اپنی قوم سے صاف کہہ دیا “۔ ہم تم سے اور تمہارے معبودوں سے جن کو تم خدا کو چھوڑ کر پوجتے ہو ، قطعی بیزار ہیں۔ ہم نے تم سے کفر کیا اور ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ کے لئے عداوت ہوگئی اور بیر پڑگیا۔ جب تک تم اللہ واحد پر ایمان نہ لاؤ “۔ اس میں انہوں نے اپنی قوم ، ان کے معبودوں ، اور ان کی عبادت سے بیزاری کا اظہار کردیا۔ دوسرے الفاظ میں ان کا کفر کیا اور اللہ پر ایمان لائے اور یہ عداوت اور بغض اس وقت تک ختم نہیں ہوتا جب تک وہ اللہ وحدہ پر ایمان نہ لائے۔ یہ دو ٹوک ، فیصلہ کن اور پختہ قطع تعلق تھا ، جس کے بعد فریقین کے درمیان سے ہر قسم کے روابط کٹ گئے ، ماسوائے تعلق ایمان کے۔ یہی فیصلہ اہل ایمان کا فیصلہ ہے اور یہی قرار داد ان اہل ایمان کی ہے جو مدینہ میں ہیں۔ اور ایسا ہی ہونا چاہئے جس طرح امت ابراہیمی نے فیصلہ کیا۔

بعض مومنین یہ دیکھتے تھے کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے باوجود قطع تعلق کے اپنے والد کے لئے استغفار کیا حالانکہ وہ مسرک تھے۔ اس میں بعض مسلمانوں کے لئے دبے ہوئے جذبات ابھرانے کی راہ تھی۔ جو وہ اپنے مشرک بھائیوں کے لئے رکھتے تھے۔ چناچہ قرآن نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اس استغفار کی توضیح کردی۔ کیونکہ انہوں نے باپ سے کہا تھا۔

لا ستغفرن لک (06 : 4) ” میں تمہارے لئے ضروری استغفار کروں گا “۔ یہ بات انہوں نے اس وقت کہہ دی ، جب ان کے والد نے شرک پر اصرار نہ کیا تھا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب حضرت اپنے والد کے ایمان کے بارے میں توقع رکھتے تھے۔

فلما .................... منہ ” جب یہ بات کھل گئی کہ وہ اللہ کا دشمن ہے تو انہوں نے اس سے بیزاری کا اعلان کردیا “۔ جیسا کہ دوسری سورت میں آیا ہے۔

یہاں یہ بتایا جاتا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے سارا معاملہ اللہ کے سپرد کردیا تھا اور توکل اور یکسوئی کے ساتھ اللہ کی طرف متوجہ ہوگئے تھے۔

وما املک .................... المصیر (06 : 4) ” اور اللہ سے آپ کے لئے کچھ حاصل کرلینا میرے بس میں نہیں ہے “ (اور ابراہیم (علیہ السلام) واصحاب ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا یہ تھی کہ) ” اے ہمارے رب ، تیرے ہی اوپر ہم نے بھروسہ کیا اور تیری ہی طرف ہم نے رجوع کرلیا اور تیرے ہی حضور ہمیں پلٹنا ہے “۔ یوں اللہ کے سامنے مطلق سپردگی کا اعلان حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی سیرت کا خاصہ ہے۔ اور اس کی طرف یہاں اہل ایمان کے دلوں کو متوجہ کیا جاتا ہے کیونکہ قرآن کا یہ انداز ہے کہ وہ کسی بھی قصے کی ایک ہی کڑی کو لے کر اس کا تجزیہ کرتا ہے اور اہل ایمان کو اس طرف متوجہ کرتا ہے۔ اور اس کڑی کے اندر مسلمانوں کے لئے جو سبق ، نصیحت ، حکمت اور دانائی کی قابل تقلید مثال ہوتی ہے ، اسے واضح کردیتا ہے۔

آیت 4 { قَدْ کَانَتْ لَـکُمْ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ فِیْٓ اِبْرٰہِیْمَ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ } ”تمہارے لیے بہت اچھا نمونہ ہے ابراہیم علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کے طرزِعمل میں۔“ { اِذْ قَالُوْا لِقَوْمِہِمْ اِنَّا بُرَئٰٓ ؤُا مِنْکُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ } ”جب انہوں نے اپنی قوم سے برملا کہہ دیا کہ ہم بالکل بری ہیں تم سے اور ان سے جنہیں تم پوجتے ہو اللہ کے سوا۔“ ہم تم سے بھی اور ان سے بھی اعلانِ براءت اور اظہارِ لاتعلقی کرتے ہیں۔ { کَفَرْنَا بِکُمْ وَبَدَا بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمُ الْعَدَاوَۃُ وَالْبَغْضَآئُ اَبَدًا } ”ہم تم سے منکر ہوئے ‘ اور اب ہمارے اور تمہارے درمیان عداوت اور بغض کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے ہمیشہ کے لیے“ { حَتّٰی تُؤْمِنُوْا بِاللّٰہِ وَحْدَہٗٓ } ”یہاں تک کہ تم بھی ایمان لے آئو اللہ پر توحید کے ساتھ“ گویا حضرت ابراہیم علیہ السلام اور آپ علیہ السلام کے ساتھی اہل ایمان j اپنے کافراعزہ و اقارب کے لیے ننگی تلوار بن گئے۔ یہاں یہ اہم نکتہ نوٹ کر لیجیے کہ حزب اللہ والوں کو اللہ تعالیٰ کے راستے میں جدوجہد کرتے ہوئے اپنے رحمی رشتوں کو کاٹ پھینکنے کا مشکل مرحلہ بھی لازماً طے کرنا پڑتا ہے۔ جیسا کہ سورة المجادلہ کی اس آیت میں واضح کیا گیا ہے : { لَا تَجِدُ قَوْمًا یُّـؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ یُوَآدُّوْنَ مَنْ حَآدَّ اللّٰہَ وَرَسُوْلَـہٗ وَلَوْ کَانُوْٓا اٰبَآئَ ہُمْ اَوْ اَبْنَآئَ ہُمْ اَوْ اِخْوَانَہُمْ اَوْ عَشِیْرَتَہُمْط } آیت 22 ”تم نہیں پائو گے ان لوگوں کو جو حقیقتاً ایمان رکھتے ہیں اللہ پر اور یوم آخرت پر کہ وہ محبت کرتے ہوں ان سے جو مخالفت پر کمر بستہ ہیں اللہ کی اور اس کے رسول ﷺ کی ‘ خواہ وہ ان کے باپ ہوں یا ان کے بیٹے ہوں یا ان کے بھائی ہوں یا ان کے رشتے دار ہوں“۔ چناچہ اسی اصول کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ السلام اور آپ علیہ السلام کے اہل ایمان ساتھیوں نے اپنی قوم ‘ برادری اور رشتہ داروں سے نہ صرف اظہارِ لاتعلقی کیا بلکہ انہیں کھلم کھلا عداوت اور مخالفت کا چیلنج بھی دے دیا۔ { اِلَّا قَوْلَ اِبْرٰہِیْمَ لِاَبِیْہِ لَاَسْتَغْفِرَنَّ لَکَ } ”سوائے ابراہیم علیہ السلام کے اپنے باپ سے یہ کہنے کے کہ میں آپ کے لیے ضرور استغفار کروں گا“ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اپنے والد کے ساتھ اس گفتگو کا حوالہ ہے جس کی تفصیل سورة مریم میں آئی ہے۔ اس موقع پر باپ بیٹے کے درمیان جو آخری مکالمہ ہوا وہ یہ تھا : { قَالَ اَرَاغِبٌ اَنْتَ عَنْ اٰلِہَتِیْ یٰٓــاِبْرٰہِیْمُج لَئِنْ لَّمْ تَنْتَہِ لَاَرْجُمَنَّکَ وَاہْجُرْنِیْ مَلِیًّا - قَالَ سَلٰمٌ عَلَیْکَج سَاَسْتَغْفِرُ لَکَ رَبِّیْط اِنَّہٗ کَانَ بِیْ حَفِیًّا۔ } ”اس نے کہا : اے ابراہیم ! کیا تم کنارہ کشی کر رہے ہو میرے معبودوں سے ؟ اگر تم اس سے باز نہ آئے تو میں تمہیں سنگسار کر دوں گا ‘ اور تم مجھے چھوڑ کر چلے جائو ایک مدت تک۔ ابراہیم d نے کہا : آپ پر سلام ! میں اپنے رب سے آپ کے لیے استغفار کرتا رہوں گا ‘ وہ مجھ پر بڑا مہربان ہے“۔ آیت زیر مطالعہ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اسی وعدے کا حوالہ آیا ہے۔ { وَمَآ اَمْلِکُ لَکَ مِنَ اللّٰہِ مِنْ شَیْئٍ } ”اور میں آپ کے بارے میں اللہ کے ہاں کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا۔“ میں آپ کے لیے دعا ضرور کروں گا ‘ اللہ تعالیٰ دعا قبول کرے نہ کرے ‘ وہ آپ کو معاف کرے نہ کرے ‘ یہ اس کا اختیار ہے۔ اس ضمن میں یہ نکتہ بھی پیش نظر رہنا چاہیے کہ سورة مریم کی مذکورہ آیات ہجرت سے پہلے مکہ میں نازل ہوئی تھیں اور زیر مطالعہ آیت 8 ہجری میں فتح مکہ سے قبل نازل ہوئی۔ ان آیات میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے جس وعدے کا ذکر ہے اس سے متعلق آخری حکم سورة التوبہ کی اس آیت میں آیا ہے ‘ جو 9 ہجری میں ذیقعدہ کے بعد نازل ہوئی : { وَمَا کَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰہِیْمَ لِاَبِیْہِ اِلاَّ عَنْ مَّوْعِدَۃٍ وَّعَدَہَآ اِیَّاہُج فَلَمَّا تَـبَیَّنَ لَـہٗٓ اَنَّـہٗ عَدُوٌّ لِلّٰہِ تَـبَرَّاَ مِنْہُط اِنَّ اِبْرٰہِیْمَ لَاَوَّاہٌ حَلِیْمٌ۔ } ”اور نہیں تھا استغفار کرنا ابراہیم علیہ السلام کا اپنے والد کے حق میں مگر ایک وعدے کی بنیاد پر جو انہوں نے اس سے کیا تھا ‘ اور جب آپ علیہ السلام پر واضح ہوگیا کہ وہ اللہ کا دشمن ہے تو آپ علیہ السلام نے اس سے اعلانِ بیزاری کردیا۔ یقینا ابراہیم علیہ السلام بہت درد دل رکھنے والے اور حلیم الطبع انسان تھے“۔ چناچہ سورة التوبہ کی یہ آیت جو 9 ہجری میں ذیقعدہ کے بعد نازل ہوئی ‘ محکم تصور ہوگی اور پہلی آیات اس کے تابع سمجھی جائیں گی۔ { رَبَّنَا عَلَیْکَ تَوَکَّلْنَا وَاِلَیْکَ اَنَبْنَا وَاِلَیْکَ الْمَصِیْرُ۔ } ”پروردگار ! ہم نے تجھ پر ہی تو کل ّکیا اور تیری ہی طرف رجوع کیا اور ہمیں تیری طرف ہی لوٹ کر جانا ہے۔“

عصبیت دین ایمان کا جزو لاینفک ہے اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو کفار سے موالات اور دوستی نہ کرنے کی ہدایت فرما کر ان کے سامنے اپنے خلیل اور ان کے اصحاب کا نمونہ پیش کر رہا ہے کہ انہوں نے صاف طور پر اپنے رشتہ کنبے اور قوم کے لوگوں سے برملا فرما دیا کہ ہم تم سے اور جنہیں تم پوجتے ہو ان سے بیزار بری الذمہ اور الگ تھلگ ہیں، ہم تمہارے دین اور طریقے سے متنفر ہیں، جب تک تم اسی طریقے اور اسی مذہب پر ہو تم ہمیں اپنا دشمن سمجھوناممکن ہے کہ برادری کی وجہ سے ہم تمہارے اس کفر کے باوجود تم سے بھائی چارہ اور دوستانہ تعلقات رکھیں، ہاں یہ اور بات ہے کہ اللہ تمہیں ہدایت دے اور تم اللہ وحدہ لاشریک لہ پر ایمان لے آؤ اس کی توحید کو مان لو اور اسی ایک عی ابدت شروع کردو اور جن جن کو تم نے اللہ کا شریک اور ساجھی ٹھہرا رکھا ہے اور جن جن کی پوجا پاٹ میں مشغول ہو ان سب کو ترک کردو اپنی اس روش کفر اور طریق شرک سے ہٹ جاؤ تم پھر بیشک ہمارے بھائی ہو ہمارے عزیز ہو ورنہ ہم میں تم میں کوئی اتحاد و اتفاق نہیں ہم تم سے اور تم ہم سے علیحدہ ہو، ہاں یہ یاد رہے کہ حضرت ابراہیم ؑ نے اپنے والد سے جو استغفار کا وعدہ کیا تھا اور پھر اسے پورا کیا اس میں ان کی اقتداء نہیں، اس لئے کہ یہ استغفار اس وقت تک رہا جس وقت تک کہ اپنے والد کا دشمن اللہ ہونا ان پر وضاحت کے ساتھ ظاہر نہ ہوا تھا جب انہیں یقینی طور پر اس کی اللہ سے دشمنی کھل گئی تو اس سے صاف بیزاری ظاہر کردی، بعض مومن اپنے مشرک ماں باپ کے لئے دعاء و استغفار کرتے تھے اور سند میں حضرت ابراہیم ؑ کا اپنے والد کے لئے دعا مانگنا پیش کرتے تھے اس پر اللہ تعالیٰ نے اپنا فرمان (ترجمہ) پوری دو آیتوں تک نازل فرمایا اور یہاں بھی اسوہ ابراہیمی میں سے اس کا استثناء کرلیا کہ اس بات میں ان کی پیروی تمہارے لئے ممنوع ہے اور حضرت ابراہیم کے اس استغفار کی تفصیل بھی کردی اور اس کا خاص سبب اور خاص وقت بھی بیان فرما دیا، حضرت ابن عباس مجاہد قتادہ مقاتل بن حیان صحاک وغیرہ نے بھی یہی مطلب بیان کیا ہے۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ قوم سے برات کر کے اب اللہ کی بار گاہ میں آتے ہیں اور جناب باری میں عاجزی اور انکساری سے عرض کرتے ہیں کہ باری تعالیٰ تمام کاموں میں ہمارا بھروسہ اور اعتماد تیری ہی پاک ذات پر ہے ہم اپنے تمام کام تجھے سونپتے ہیں تیری طرف رجوع ورغبت کرتے ہیں، دار آخرت میں بھی ہمیں تیری ہی جانب لوٹنا ہے۔ پھر کہتے ہیں الٰہی تو ہمیں کافروں کے لئے فتنہ نہ بنا، یعنی ایسا نہ ہو کہ یہ ہم پر غالب آ کر ہمیں مصیبت میں مبتلا کردیں، اسیط رح یہ بھی نہ ہو کہ تیری طرف سے ہم پر کوئی عتاب و عذاب نازل ہو اور وہ ان کے اور بہکنے کا سبب بنے کہ اگر یہ حق پر ہوتے تو اللہ انہیں عذاب کیوں کرتا ؟ اگر یہ کسی میدان میں جیت گئے تو بھی ان کے لئے یہ فتنہ کا سبب ہوگا وہ سمجھیں گے کہ ہمیں اس لئے غالب آئے کہ ہم ہی حق پر ہیں، اسیطرح اگر یہ ہم پر غالب آگئے تو ایسا نہ ہو کہ ہمیں تکلیفیں پہنچا پہنچا کر تیرے دین سے برگشتہ کردیں۔ پھر دعا مانگتے ہیں کہ الٰہی ہمارے گناہوں کو بھی بخش دے، ہماری پردہ پوشی کر اور ہمیں معاف فرما، تو عزیز ہے تیری جناب میں پناہ لینے والا نامراد نہیں پھرتا تیرے در پر دستک دینے والا خالی ہاتھ نہیں جاتا، تو اپنی شریعت کے تقرر میں اپنے اقوال و افعال میں اور قضا و قدر کے مقدر کرنے میں حکمتوں والا ہے، تیرا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں۔ پھر بہ طور تاکید کے وہی پہلی بات دوہرائی جاتی ہے کہ ان میں تمہارے لئے نیک نمونہ ہے جو بھی اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے آنے کی حقانیت پر ایمان رکھتا ہو اسے ان کی اقتداء میں آگے بڑھ کر قدم رکھنا چاہئے اور جو احکام اللہ سے روگردانی کرے وہ جان لے کہ اللہ اس سے بےپرواہ ہے وہ لائق حمد وثناء ہے مخلوق اس خالق کی تعریف میں مشغول ہے، جیسے اور جگہ ہے (ترجمہ) " اگر تم اور تمام روئے زمین کے لوگ کفر پر اور اللہ کے نہ ماننے پر اتر آئیں تو اللہ تعالیٰ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے اللہ تعالیٰ سب سے غنی سب سے بےنیاز اور سب سے بےپرواہ ہے اور وہ تعریف کیا گیا ہے " حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں غنی اسے کہا جاتا ہے جو اپنی غنا میں کامل ہو۔ اللہ تعالیٰ ہی کی یہ صفت ہے کہ وہ ہر طرح سے بےنیاز اور بالکل بےپرواہ ہے کسی اور کی ذات ایسی نہیں، اس کا کوئی ہمسر نہیں اس کے مثل کوئی اور نہیں وہ پاک ہے اکیلا ہے سب پر حاکم سب پر غالب سب کا بادشاہ ہے، حمید ہے یعنی مخلوق اسے سراہ رہی ہے، اپنے جمیع اقوال میں تمام افعال میں وہ ستائشوں اور تعریفوں والا ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں اس کے سوا کوئی پالنے والا نہیں، رب وہی ہے معبود وہی ہے۔

آیت 4 - سورۃ الممتحنہ: (قد كانت لكم أسوة حسنة في إبراهيم والذين معه إذ قالوا لقومهم إنا برآء منكم ومما تعبدون من دون الله...) - اردو