سورۃ الممتحنہ: آیت 1 - يا أيها الذين آمنوا لا... - اردو

آیت 1 کی تفسیر, سورۃ الممتحنہ

يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ لَا تَتَّخِذُوا۟ عَدُوِّى وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَآءَ تُلْقُونَ إِلَيْهِم بِٱلْمَوَدَّةِ وَقَدْ كَفَرُوا۟ بِمَا جَآءَكُم مِّنَ ٱلْحَقِّ يُخْرِجُونَ ٱلرَّسُولَ وَإِيَّاكُمْ ۙ أَن تُؤْمِنُوا۟ بِٱللَّهِ رَبِّكُمْ إِن كُنتُمْ خَرَجْتُمْ جِهَٰدًا فِى سَبِيلِى وَٱبْتِغَآءَ مَرْضَاتِى ۚ تُسِرُّونَ إِلَيْهِم بِٱلْمَوَدَّةِ وَأَنَا۠ أَعْلَمُ بِمَآ أَخْفَيْتُمْ وَمَآ أَعْلَنتُمْ ۚ وَمَن يَفْعَلْهُ مِنكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَآءَ ٱلسَّبِيلِ

اردو ترجمہ

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر تم میری راہ میں جہاد کرنے کے لیے اور میری رضا جوئی کی خاطر (وطن چھوڑ کر گھروں سے) نکلے ہو تو میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ تم اُن کے ساتھ دوستی کی طرح ڈالتے ہو، حالانکہ جو حق تمہارے پاس آیا ہے اُس کو ماننے سے وہ انکار کر چکے ہیں اور اُن کی روش یہ ہے کہ رسول کو اور خود تم کو صرف اِس قصور پر جلا وطن کرتے ہیں کہ تم اپنے رب، اللہ پر ایمان لائے ہو تم چھپا کر اُن کو دوستانہ پیغام بھیجتے ہو، حالانکہ جو کچھ تم چھپا کر کرتے ہو اور جو علانیہ کرتے ہو، ہر چیز کو میں خوب جانتا ہوں جو شخص بھی تم میں سے ایسا کرے وہ یقیناً راہ راست سے بھٹک گیا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ya ayyuha allatheena amanoo la tattakhithoo AAaduwwee waAAaduwwakum awliyaa tulqoona ilayhim bialmawaddati waqad kafaroo bima jaakum mina alhaqqi yukhrijoona alrrasoola waiyyakum an tuminoo biAllahi rabbikum in kuntum kharajtum jihadan fee sabeelee waibtighaa mardatee tusirroona ilayhim bialmawaddati waana aAAlamu bima akhfaytum wama aAAlantum waman yafAAalhu minkum faqad dalla sawaa alssabeeli

آیت 1 کی تفسیر

سورت کا آغاز نہایت ہی محبوب آواز سے ہوتا ہے جہاں بھی اس آواز سے مسلمانوں کو خطاب کیا جاتا ہے اس کے اندر گہرے اشارات ہوتے ہیں۔

یایھا الذین امنوا (06 : 1) ” اے لوگو جو ایمان لائے ہو “۔ یہ آواز اس رب کی جانب سے ہے جس پر وہ ایمان لاچکے ہیں۔ ان کو اہل ایمان کے نام سے پکارا جاتا ہے ، کہ تمہارے ایمان کے کچھ تقاضے ہیں۔ تم نہایت ہی خطرناک موڑ پر کھڑے ہو ، تمہارے ارد گرد دشمن سازشوں کے جال بن رہے ہیں۔ اور تم پر بہت بڑی ذمہ داری ڈالی گئی ہے .... اپنائیت کے انداز میں۔ اللہ اپنے دشمنوں کو ان کا دشمن اور ان کے دشمنوں کو اپنے دشمن سے تعبیر کرتا ہے ، تاکہ مسلمانوں کے اندر یہ شعور ہو کہ وہ اللہ کے سپاہی ہیں۔ اسی کی طرف ہی ان کو جانا ہے۔ اللہ کا دشمن ان کا دشمن ہے۔

لا تتخذو .................... بالمودة (06 : 1) ” میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ۔ کہ تم ان کے ساتھ دوستی کی طرح ڈالتے ہو “۔ یہاں مومنین کو یہ شعور دیا جاتا ہے کہ وہ میرے ہیں اور میری طرف آنے والے ہیں۔ اس لئے میں تمہارے دشمنوں کا دشمن ہوں۔ لہٰذا وہ ایسے لوگ ہیں جو اللہ کی طرف منسوب ہیں ، جو اس زمین پر اللہ کے جھنڈے بلند کرنے والے ہیں۔ وہ اللہ کے محبوب اور دوست ہیں۔ لہٰذا ان کے شایان شان یہ بات نہیں ہے کہ وہ اللہ کے دشمنوں کے ساتھ دوستی کریں۔ یہاں ان کو یاد دلایا کہ ذرا سوچو تو سہی کہ یہ دشمن تمہارے خلاف کیا کچھ کرتے رہے ہیں۔ تمہارے دین اور تمہارے رسول کے بارے میں ان کا رویہ کیا رہا ہے۔ یہ جنون کی حد تک تم پر مظالم کرتے رہے۔

وقد کفروا ............................ باللہ ربکم (0 : 1) ” حالانکہ جو حق تمہارے پاس آیا ہے اس کو ماننے سے وہ انکار کرچکے ہیں اور ان کی روش یہ ہے کہ رسول کو اور خود تم کو صرف اس قصور پر جلاوطن کرتے ہیں کہ تم اپنے رب ، اللہ پر ایمان لائے ہو “۔ آخر ان جرائم کے بعد ان کے ساتھ دوستی اور محبت کی کیا بنیاد رہ گئی ہے۔ انہوں نے سچائی سے کفر کیا۔ رسول اللہ کو اپنے گھر اور شہر سے نکالا۔ مومنین کو نکالا اور ان کا اس کے سوا کوئی جرم نہ تھا کہ وہ اللہ رب العالمین پر ایمان لائے تھے۔ مسلمانوں کو وہ باتیں یاددلائی جارہی ہیں جن کا تعلق ان کے عقیدے سے ہے۔ اس عقیدے ہی کی وجہ سے ان کے ساتھ مشرکین نے جنگ کی تھی اور اس عقیدے کے سوا اس مسلسل جنگ کی اور کوئی وجہ نہ تھی۔ بتایا جاتا ہے کہ مسئلہ ہی ایمان کا تھا۔ جس پر اس قدر جنگیں اور دشمنیاں ہوئیں۔ یہ عقائد کی جنگ ہے ، نظریات کی جنگ ہے۔ صرف یہ مسئلہ ہے کہ انہوں نے سچائی سے انکار کیا ، انہوں نے رسول کو اور ایمان کی وجہ سے مسلمانوں کو نکالا

جب یہ مسئلہ واضح ہے اور ظاہر ہے تو ان کو یاد دلایا جاتا ہے کہ اب تو ان کے ساتھ مروت و محبت کا کوئی جو ازہی نہیں ہے۔ بشرطیکہ تم صرف اس مقصد کے لئے آئے ہو ، اگر کسی کا کوئی اور مقصد ہے تو وہ یایھا الذین امنوا (06 : 1) سے مخاطب نہیں ہے۔

ان کنتم .................... مرضاتی (06 : 1) ” اگر تم میری راہ میں جہاد کرنے کے لئے اور میری رضا جوئی کی خاطر نکلے ہو “۔ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ ایک شخص جہاد کے لئے آیا ہو اور اللہ کی رضا کی خاطر مہاجر ہوا ہو اور پھر اسے اس کے ایمان کی وجہ سے نکالا گیا ہو اور وہ ایسے لوگوں سے محبت کرے جنہوں نے اسے نکالا ہو اور وہ اس کے اور اللہ کے دشمن ہوں۔

اس کے بعد ان کو اس بات سے ڈرایا جاتا ہے جو ان کے دلوں میں خفیہ طور پر بیٹھی ہوئی ہے۔ یہ کہ وہ اللہ کے دشمنوں کی محبت اپنے دلوں میں رکھتے ہیں ، حالانکہ اللہ سے تو کوئی امر پوشیدہ نہیں ہے۔ وہ تو خفیہ اور علانیہ سب چیزوں کو جانتا ہے۔

تشرون ........................ وما اعلنتم (06 : 1) ” تم چھپا کر ان کو دومستانہ پیغام بھیجتے ہو ، حالانکہ جو کچھ تم چھپا کر کرتے ہو اور جو علانیہ کرتے ہو ، ہر چیز کو میں خوب جانتا ہوں “۔

اس کے بعد ان کو ذرا شدید انداز میں دھمکی دی جاتی ہے۔ اس قدر شدید کہ ایک مومن کا دل دہل جاتا ہے۔

ومن .................... السبیل (06 : 1) ” جو شخص بھی تم میں سے ایسا کرے وہ یقینا راہ راست سے بھٹک گیا “۔ مومن نے سب قربانیاں تو ایمان کی خاطر دی ہیں۔ اگر ایمان ہی کو خطرہ لاحق ہوگیا تو اس کے سوا اس کے لئے کیا اور خطرہ ہوسکتا ہے ؟

ان دونوں تخویفات اور تنبیہات کے بعد دوبارہ اہل ایمان کو بتایا جاتا ہے کہ کفار تمہارے بارے میں کیا کچھ سوچتے ہیں اور منصوبے بناتے ہیں۔

آیت 1{ یٰٓــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَـتَّخِذُوْا عَدُوِّیْ وَعَدُوَّکُمْ اَوْلِیَـآئَ } ”اے اہل ِایمان ! تم میرے دشمنوں اور اپنے دشمنوں کو اپنا دوست نہ بنائو“ یعنی تم لوگ کفار و مشرکین کی خیر خواہی اور بھلائی کا مت سوچو۔ ان کے ساتھ احسان کا معاملہ کرنے اور اچھے تعلقات بنانے کی کوشش مت کرو۔ ان آیات کا نزول اس وقت ہوا جب سردارانِ قریش کے نام حضرت حاطب رض بن ابی بلتعہ کا خط پکڑا گیا۔ { تُـلْقُوْنَ اِلَـیْہِمْ بِالْمَوَدَّۃِ } ”تم ان کی طرف دوستی اور محبت کے پیغامات بھیجتے ہو“ { وَقَدْ کَفَرُوْا بِمَا جَآئَ کُمْ مِّنَ الْحَقِّ } ”حالانکہ انہوں نے انکار کیا ہے اس حق کا جو تمہارے پاس آیا ہے۔“ { یُخْرِجُوْنَ الرَّسُوْلَ وَاِیَّاکُمْ } ”وہ رسول ﷺ کو اور تم لوگوں کو صرف اس بنا پر جلاوطن کرتے ہیں“ { اَنْ تُؤْمِنُوْا بِاللّٰہِ رَبِّکُمْ } ”کہ تم ایمان رکھتے ہو اللہ ‘ اپنے رب پر۔“ { اِنْ کُنْتُمْ خَرَجْتُمْ جِہَادًا فِیْ سَبِیْلِیْ وَابْتِغَآئَ مَرْضَاتِیْ } ”اگر تم نکلے تھے میرے راستے میں جہاد کرنے اور میری رضاجوئی کے لیے تو تمہارا یہ طرزعمل اس کے منافی ہے“ { تُسِرُّوْنَ اِلَـیْہِمْ بِالْمَوَدَّۃِ } ”تم انہیں خفیہ پیغامات بھیجتے ہو محبت اور دوستی کے“ { وَاَنَا اَعْلَمُ بِمَآ اَخْفَیْتُمْ وَمَـآ اَعْلَنْتُمْ } ”اور میں خوب جانتا ہوں جسے تم چھپاتے ہو اور جسے تم ظاہر کرتے ہو۔“ { وَمَنْ یَّـفْعَلْہُ مِنْکُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَآئَ السَّبِیْلِ۔ } ”اور جو کوئی بھی تم میں سے یہ کام کرے تو وہ یقینا سیدھے راستے سے بھٹک گیا۔“ یہ طویل آیت مدنی سورتوں کے عمومی مزاج کی ترجمانی کرتی ہے۔

حضرت حاطب بن ابوبلتہ ؓ کے بارے میں اس سورت کی شروع کی آیتیں نازل ہوئی ہیں، واقعہ یہ ہوا کہ حضرت حاطب مہاجرین میں سے تھے بدر کی لڑائی میں بھی آپ نے مسلمانوں کے لشکر میں شرکت کی تھی ان کے بال بچے اور مال و دولت مکہ میں ہی تھا اور یہ خود قریش سے نہ تھے صرف حضرت عثمان ؓ کے حلیف تھے اس وجہ سے مکہ میں انہیں امن حاصل تھا، اب یہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مدینہ شریف میں تھے یہاں تک کہ جب اہل مکہ نے عہد توڑ دیا اور رسول اللہ ﷺ نے ان پر چڑھائی کرنا چاہی تو آپ کی خواہش یہ تھی کہ انہیں اچانک دبوچ لیں تاکہ خونریزی نہ ہونے پائے اور مکہ شریف پر قبضہ ہوجائے اسی لئے آپ نے اللہ تعالیٰ سے دعا بھی کی کہ باری تعالیٰ ہماری تیاری کی خبریں ہمارے پہنچنے تک اہل مکہ کو پہنچیں ادھر آپ نے مسلمانوں کو تیاری کا حکم دیا حضرت حاطب ؓ نے اس موقعہ پر ایک خط اہل مکہ کے نام لکھا اور ایک قریشیہ عورت کے ہاتھ اسے چلتا کیا جس میں رسول اللہ ﷺ کے اس ارادے اور مسلمانوں کی لشکر کشی کی خبر درج تھی، آپ کا ارادہ اس سے صرف یہ تھا کہ میرا کوئی احسان قریش پر رہ جائے جس کے باعث میرے بال بچے اور مال دولت محفوظ رہیں، چونکہ حضور ﷺ کی دعا قبول ہوچکی تھی ناممکن تھا کہ قریشیوں کو کسی ذریعہ سے بھی اس ارادے کا علم ہوجائے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کو اس پوشیدہ راز سے مطلع فرما دیا اور آپ نے اس عورت کے پیچھے اپنے سوار بھیجے راستہ میں اسے روکا گیا اور خط اس سے حاصل کرلیا گیا، یہ مفصل واقعہ صحیح احادیث میں پوری طرح آچکا ہے، مسند احمد میں ہے حضرت علی ؓ فرماتے ہیں مجھے، حضرت زبیر ؓ اور حضرت مقداد ؓ کو رسول اللہ ﷺ نے بلوا کر فرمایا تم یہاں سے فوراً کوچ کرو روضہ خاخ میں جب تم پہنچو گے تو تمہیں ایک سانڈنی سوار عورت ملے گی جس کے پاس ایک خط ہے تم اسے قبضہ میں کر کے یاں لے آؤ، ہم تینوں گھوڑوں پر سوار ہو کر بہت تیز رفتاری سے روانہ ہوگئے روضہ خاخ میں جب پہنچے تو فی الواقع ہمیں ایک سانڈنی سوار عورت دکھائی دی ہم نے اس سے کہا کہ جو خط تیرے پاس ہے وہ ہمارے حوالے کر، اس نے صاف انکار کردیا کہ میرے پاس کوئی خط نہیں ہم نے کہا غلط کہتی ہے تیرے پاس یقین ط ہے اگر تو راضی خوشی نہ دے گی تو ہم جامہ تلاشی کر کے جبراً وہ خط تجھ سے چھینیں گے، اب تو وہ عورت سٹ پٹائی اور آخر اس نے اپنی چٹیا کھول کر اس میں سے وہ پرچہ نکال کر ہمارے حوالے کیا ہم اسی وقت وہاں سے واپس روانہ ہوئے اور حضور ﷺ کی خدمت میں اسے پیش کردیا، پڑھنے پر معلوم ہوا کہ حضرت حاطب ؓ نے اسے لکھا ہے اور یہاں کی خبر رسانی کی ہے۔ حضور ﷺ کے ارادوں سے کفار مکہ کو آگاہ کیا ہے، آپ نے کہا حاطب یہ کیا حرکت ہے ؟ حضرت حاطب ؓ نے فرمایا رسول اللہ ﷺ جلدی نہ کیجئے میری بھی سن لیجئے، میں قریشویں میں ملا ہوا تھا خود قریشیوں میں سے نہ تھا پر آپ پر ایمان لا کر آپ کے ساتھ ہجرت کی جتنے اور مہاجرین ہیں ان سب کے قرابت دار مکہ میں موجود ہیں جو ان کے بال بچے وغیرہ مکہ میں رہ گئے ہیں وہ ان کی حمایت کرتے ہیں لیکن میرا کوئی رشتہ دار نہیں جو میرے بچوں کی حفاظت کرے اس لئے میں نے چاہا کہ قریشیوں کے ساتھ کوئی سلوک و احسان کروں جس سے میرے بچوں کی حفاظت وہ کریں اور جس طرح اوروں کے نسب کی وجہ سے ان کا تعلق ہے میرے احسان کی وجہ سے میرا تعلق ہوجائے۔ یا رسول اللہ ﷺ میں نے کوئی کفر نہیں کیا نہ اپنے دین سے مرتد ہوا ہوں نہ اسلام کے بعد کفر سے راضی ہوا ہوں بس اس خط کی وجہ سے صرف اپنے بچوں کی حفاظت کا حیلہ تھا، آنحضرت ﷺ نے فرمایا لوگو تم سے جو واقعہ حاطب بیان کرتے ہیں وہ بالکل حرف بہ حرف سچا ہے کہ اپنے نفع کی خاطر ایک غلطی کر بیٹھے ہیں نہ کہ مسلمانوں کو نقصان پہنچانا یا کفار کی مدد کرنا ان کے پیش نظر ہو، حضرت فاروق اعظم ؓ اس موقعہ پر موجود تھے اور یہ واقعات آپ کے سامنے ہوئے آپ کو بہت غصہ آیا اور فرمانے لگے یا رسول اللہ ﷺ مجھے اجازت دیجئے کہ اس منافق کی گردن اڑا دوں آپ نے فرمایا تمہیں کیا معلوم نہیں ؟ کہ یہ بدری صحابی ہیں اور بدر والوں پر اللہ تعالیٰ نے جھانکا اور فرمایا جو چاہو عمل کرو میں نے تمہیں بخش دیا، یہ روایت اور بھی بہت سی حدیث کی کتابوں میں ہے، صحیح بخاری شریفک تاب المغازی میں اتنا اور بھی ہے کہ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ سورت اتاری اور کتاب التفسیر میں ہے کہ حضرت عمرو ؓ نے فرمایا اسی بارے میں آیت (ترجمہ) الخ، اتری لیکن راوی کو شک ہے کہ آیت کے اترنے کا بیان حضرت عمرو ؓ کا ہے یا حدیث میں ہے، امام علی بن مدینی ؒ فرماتے ہیں حضرت سفیان ؒ سے پوچھا گیا کہ یہ آیت اسی میں اتری ہے ؟ تو سفیان نے فرمایا یہ لوگوں کی بات میں ہے میں نے اسے عمرو ؓ سے حفظ کیا ہے اور ایک حرف بھی نہیں چھوڑا اور میرا خیال ہے کہ میرے سوا کسی اور نے اسے حفظ بھی نہیں رکھا، بخاری مسلم کی ایک روایت میں حضرت مقداد ؓ کے نام کے بدلے حضرت ابومرتد ؓ کا نام ہے اس میں یہ بھی ہے کہ حضور ﷺ نے یہ بھی بتادیا تھا کہ اس عورت کے پاس حضرت حاطب ؓ کا خطہ ہے، اس عورت کی سواری کو بٹھا کر اس کے انکار پر ہرچند ٹٹولا گیا لیکن کوئی پرچہ ہاتھ نہ لگا آخر جب ہم عاجز آگئے اور کہیں سے پرچہ نہ ملا تو ہم نے اس عرت سے کہا کہ اس میں تو مطلق شک نہیں کہ تیرے پاس پرچہ ہے گو ہمیں نہیں ملتا لیکن تیرے پاس ہے ضرور، یہ ناممکن ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی بات غلط ہو اب اگر تو نہیں دیتی تو ہم تیرے کپڑے اتار کر ٹٹولیں گے، جب اس نے دیکھ لیا کہ انہیں پتہ یقین ہے اور یہ لئے بغیر نہ ٹلیں گے تو اس نے اپنا سر کھول کر اپنے بالوں میں سے پرچہ نکال کر ہمیں دے دیا ہم اسے لے کر واپس خدمت نبوی ﷺ میں اضر ہوئے، حضرت عمر ؓ نے یہ واقعہ سن کر فرمایا اس نے اللہ، اس کے رسول ﷺ کی اور مسلمانوں کی خیانت کی مجھے اس کی گردن مارنے کی اجازت دیجئے، حضور ﷺ نے حضرت حاطب ؓ سے دریافت کیا اور انہوں نے وہ جواب دیا جو اوپر گذر چکا آپ نے سب سے فرما دیا کہ انہیں کچھ نہ کہو اور حضرت عمر ؓ سے بھی وہ فرمایا جو پہلے بیان ہوا کہ بدری صحابہ میں سے ہیں جن کے لئے اللہ تعالیٰ نے جنت واجب کردی ہے جسے سن کر حضرت عمر ؓ رو دیئے اور فرمانے لگے اللہ کو اور اس کے رسول ﷺ کو ہی کامل علم ہے، یہ حدیث ان الفاظ سے صحیح بخاری کتاب المغازی میں غزوہ بدر کے ذکر میں ہے اور روایت میں ہے کہ حضور ﷺ نے اپنے مکہ جانے کا ارادہ اپنے چند ہم راز صحابہ کبار ؓ کے سامنے تو ظاہر کیا تھا جن میں حضرت حاطب ؓ بھی تھے باقی عام طور پر مشہور تھا کہ خیبر جا رہے ہیں، اس روایت میں یہ بھی ہے کہ جب ہم خط کو سارے سامان میں ٹٹول چکے اور نہ ملا تو حضرت ابو مرتد ؓ نے کہا شاید اس کے پاس کوئی پرچہ ہی نہیں اس پر حضرت علی ؓ نے فرمایا ناممکن ہے نہ رسول اللہ ﷺ جھوٹ بول سکتے ہیں نہ ہم نے جھوٹ کہا، جب ہم نے اسے دھمکایا تو اس نے ہم سے کہا تمہیں اللہ ا خوف نہیں ؟ کیا تم مسلمان نہیں ؟ ایک روایت میں ہے کہ اس نے پرچہ اپنے جسم میں سے نکالا۔ حضرت عمر ؓ کے فرمان میں یہ بھی ہے کہ آپ نے فرمایا یہ بدر میں موجود تو ضرور تھے لیکن عہد شکنی کی اور دشمنوں میں ہماری خبر رسانی کی اور روایت میں ہے کہ یہ عورت قبیلہ مزینہ کی عورت تھی، بعض کہتے ہیں اس کا نام سارہ تھا اور دشمنوں میں ہماری خبر رسانی کی اور روایت میں ہے کہ یہ عورت قبیلہ مزینہ کی عورت تھی، بعض کہتے ہیں اس کا نام سارہ تھا اولاد عبدالمطلب کی آزاد کردہ لونڈی تھی حضرت حاطب ؓ نے اسے کچھ دینا کیا تھا اور اس نے اپنے بالوں تلے کاغذ رکھ کر اوپر سے سرگوندھ لیا تھا آپ نے اپنے گھوڑ سواروں سے فرما دیا تھا کہ اس کے پاس حاطب ؓ کا دیا ہوا اس مضمون کا خط ہے، آسمان سے اس کی خبر حضور ﷺ کے پاس آئی تھی بنو ابو احمد کے حلیفہ میں یہ عورت پکڑی گئی تھی، اس عورت نے ان سے کہا تھا کہ تم منہ پھیر لو میں نکال دیتی ہوں انہوں نے منہ پھیرلیا پھر اس نے نکال کر حوالہ کیا، اس روایت میں حضرت حاطب ؓ کے جواب میں یہ بھی ہے کہ اللہ کی قسم میں اللہ پر اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان رکھتا ہوں کوئی تغیر تبدل میرے ایمان میں نہیں ہوا، اور اسی بارے میں اس سورت کی آیتیں حضرت ابراہیم کے قصہ کے ختم تک اتریں، ایک اور روایت میں ہے کہ اس عورت کو اس کی اجرت کے دس درہم حضرت حاطب ؓ نے دیئے تھے، اور حضور ﷺ نے اس خط کے حاصل کرنے کے لئے حضرت عمر ؓ اور حضرت علی ؓ کو بھیجا تھا اور حجفہ میں یہ ملی تھی۔ مطلب آیتوں کا یہ ہے کہ اے مسلمانو ! مشرکین اور کفار کو جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ اور مومن بندوں سے لڑنے والے ہیں، جن کے دل تمہاری عداوت سے پر ہیں تمہیں ہرگز لائق نہیں کہ ان سے دوستی اور محبت میل ملاپ اور اپنایت رکھو تمہیں اس کے خلاف حکم دیا گیا ہے ارشاد ہے (ترجمہ) الخ، اے ایماندار و یہود و نصاریٰ سے دوستی مت گانٹھو وہ آپس میں ہی ایک دوسروں کے دوست ہیں تم میں سے جو بھی ان سے سوالات و محبت کرے وہ انہی میں سے شمار ہوگا۔ اس میں کس قدر ڈانٹ ڈپٹ کے ساتھ ممانعت فرمائی ہے اور جگہ ہے (ترجمہ) الخ، مسلمانو ! ان اہل کتاب اور کفار سے دوستیاں نہ کرو جو تمہارے دین کا مذاق اڑاتے ہیں اور اسے کھیل کود سمجھ رہے ہیں اگر تم میں ایمان ہے تو ذات باری سے ڈرو، ایک اور جگہ ارشاد ہے مسلمانو مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں سے دوستیاں نہ کرو کیا تم چاہتے ہو کہ اپنے اوپر اللہ تعالیٰ کا کھلا الزام ثابت کرلو، ایک اور جگہ فرمایا مسلمانوں کو چاہئے کہ اپنوں کے علاوہ کافروں سے دوستانہ نہ کریں جو ایسا کیر گا وہ اللہ کی طرف سے کسی چیز میں نہیں ہاں بطور دفع الوقتی اور بچاؤ کے ہو تو اور بات ہے اللہ تعالیٰ تمہیں اپنے آپ سے ڈرا رہا ہے، اسی بنا پر رسول اللہ ﷺ نے حضرت حاطب ؓ کا عذر قبول فرما لیا کہ اپنے مال و اولاد کے بچاؤ کی خاطر یہ کام ان سے ہوگیا تھا، مستند احمد میں ہے کہ ہمارے سامنے رسول اللہ ﷺ نے کئی مثالیں بیان فرمائیں ایک اور تین اور پانچ اور سات اور نو اور گیارہ پھر ان میں سے یہ تفصیل صرف ایک ہی بیان کی باقی سب چھوڑ دیں، فرمایا ایک ضعیف مسکین قوم تھی جس پر زور آور ظالم قوم چڑھائی کر کے آگئی لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کمزوروں کی مدد کی اور انہیں اپنے دشمن پر غالب کردیا غالب آ کر ان میں رعونت سما گئی اور انہوں نے ان پر مظالم شروع کردیئے جس پر اللہ تعالیٰ ان سے ہمیشہ کے لئے ناراض ہوگیا۔ پھر مسلمانوں کو ہوشیار کرتا ہے کہ تم ان دشمنان دین سے کیوں مودت و محبت رکھتے ہو ؟ حالانکہ یہ تم سے بدسلوکی کرنے میں کسی موقعہ پر کمی نہیں کرتے کیا یہ تازہ واقعہ بھی تمہارے ذہن سے ہٹ گیا کہ انہوں نے تمہیں بلکہ خود رسول اللہ ﷺ کو بھی جبراً وطن سے نکال باہر کیا اور اس کی کوئی اور وجہ نہ تھی سوائے اس کے کہ تمہاری توحید اور فرمانبرداری رسول ﷺ ان پر گراں گذرتی تھی۔ جیسے اور جگہ ہے (ترجمہ) یعنی مومنوں سے صرف اس بنا پر مخاصمت اور دشمنی ہے کہ وہ اللہ برتر بزرگ پر ایمان رکھتے ہیں اور جگہ ہے یہ لوگ محض اس وجہ سے ناحق جلا وطن کئے گئے کہ وہ کہتے تھے ہمارا رب اللہ ہے۔ پھر فرماتا ہے اگر سچ مچ تم میری راہ کے جہاد کو نکلے ہو اور میری رضامندی کے طالب ہو تو ہرگز ان کفار سے جو تمہارے اور میرے دشمن ہیں میرے دین کو اور تمہارے جان و مال کو نقصان پہنچا رہے ہیں دوستیاں نہ پیدا کرو، بھلا کس قدر غلطی ہے کہ تم ان سے پوشیدہ طور پر دوستانہ رکھو ؟ کیا یہ پوشیدگی اللہ سے بھی پوشیدہ رہ سکتی ہے ؟ جو ظاہر وباطن کا جاننے والا ہے، دلوں کے بھید اور نفس کے وسوسے بھی جس کے سامنے کھلے ہوئے ہیں۔ بس سن لو جو بھی ان کفار سے موالات و محبت رکھے وہ سیدھی راہ سے بھٹک جائے گا۔ تم نہیں دیکھ رہے ؟ کہ ان کافروں کا اگر بس چلے اگر انہیں کوئی موقعہ مل جائے تو نہ اپنے ہاتھ پاؤں سے تمہیں نقصان پہنچانے میں دریغ کریں نہ برا کہنے سے اپنی زبانیں روکیں جو ان کے امکان میں ہوگا وہ کر گذریں گے بلکہ تمام تر کوشش اس امر پر صرف کردیں گے کہ تمہیں بھی اپنی طرح کافر بنالیں، پس جب کہ ان کی اندرونی اور بیرنی دشمنی کا حال تمہیں بخوبی معلوم ہے پھر کیا اندھیر ہے ؟ کہ تم اپنے دشمنوں کو دوست سمجھ رہے ہو اور اپنی راہ میں آپ کانٹے بو رہے ہو، غرض یہ ہے کہ مسلمانوں کو کافروں پر اعتماد کرنے اور ان سے ایسے گہرے تعلقات رکھنے اور دلی میل رکھنے سے روکا جا رہا ہے اور وہ باتیں یاد دلائی جا رہی ہیں جو ان سے علیحدگی پر آمادہ کردیں۔ تمہاری قرابتیں اور رشتہ داریاں تمہیں اللہ کے ہاں کچھ کام نہ آئیں گی، اگر تم اللہ کو ناراض کر کے انہیں خوش کرو اور چاہو کہ تمہیں نفع ہو یا نقصان ہٹ جائے یہ بالکل خام خیالی ہ، نہ اللہ کی طرف کے نقصان کو کوئی ٹال سکے نہ اس کے دیئے ہوئے نفع کو کوئی روک سکے، اپنے والوں سے ان کے کفر پر جس نے موافقت کی وہ برباد ہوا، گو رشتہ دار کیسا ہی ہو کچھ نفع نہیں، مسند احمد میں ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ میرا باپ کہاں ہے ؟ آپ نے فرمایا جہنم میں۔ جب وہ جانے لگا تو آپ نے اسے بلایا اور فرمایا سن میرا باپ اور تیرا باپ دونوں ہی جہنمی ہیں۔ یہ حدیث صحیح مسلم شریف میں اور سنن ابو داؤد میں بھی ہے۔ مسلمانو ! تمہارے لئے حضرت ابراہیم ؑ میں اور ان کے ساتھیوں میں بہترین نمونہ اور اچھی پیروی موجود ہے۔ جبکہ ان سب نے اپنی قوم سے برملا کہہ دیا کہ ہم تم سے اور جن جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو ان سب سے بالکل بیزار ہیں، ہم تمہارے عقائد کے منکر ہیں جب تک تم اللہ کی وحدانیت پر ایمان نہ لاؤ ہم میں تم میں ہمیشہ کے لئے عداوت و بغض ظاہر ہوگیا لیکن ابراہیم کی اتنی بات تو اپنے باپ سے ہوی تھی کہ میں تمہارے لئے استغفار ضرور کروں گا اور تمہارے لئے مجھے اللہ کے سامنے کسی چیز کا اختیار کچھ بھی نہیں، اے ہمارے پروردگار تجھ ہی پر ہم نے بھروسہ کیا ہے اور تیری ہی طرف ہم رجوع کرتے ہیں اور تیری ہی طرف لوٹنا ہے۔ اے اللہ تو ہمیں کافروں کا زبردست اور تختہ مشق نہ بنا اور اے ہمارے پالنے والے ہماری خطاؤں کو بخش دے، بیشک تو ہی غالب حکمتوں والا ہے۔ یقیناً تمہارے لئے ان میں نیک نمونہ اور عمدہ پیروی ہے خاص کر ہر اس شخص کے لئے جو اللہ کی اور قیامت کے دن کی ملاقات کا اعتقاد رکھتا ہو اور اگر کوئی روگردانی کرے تو اللہ تعالیٰ بالکل بےپرواہ ہے اور وہ سزا وار حمد وثناء ہے۔

آیت 1 - سورۃ الممتحنہ: (يا أيها الذين آمنوا لا تتخذوا عدوي وعدوكم أولياء تلقون إليهم بالمودة وقد كفروا بما جاءكم من الحق يخرجون الرسول...) - اردو