سورۃ المومنون: آیت 17 - ولقد خلقنا فوقكم سبع طرائق... - اردو

آیت 17 کی تفسیر, سورۃ المومنون

وَلَقَدْ خَلَقْنَا فَوْقَكُمْ سَبْعَ طَرَآئِقَ وَمَا كُنَّا عَنِ ٱلْخَلْقِ غَٰفِلِينَ

اردو ترجمہ

اور تمہارے اوپر ہم نے سات راستے بنائے، تخلیق کے کام سے ہم کچھ نابلد نہ تھے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Walaqad khalaqna fawqakum sabAAa taraiqa wama kunna AAani alkhalqi ghafileena

آیت 17 کی تفسیر

ولقد تحملون (آیت نمبر 17 تا 22)

سیاق کلام ان دلائل کو پیش کرتا ہے اور ان تمام دلائل کو باہم مربوط کرتا ہے کہ یہ تمام دلائل قدرت الہیہ کے نشانات ہیں۔ پھر یہ سب نشانات یہ بھی دکھاتے ہیں کہ اس کائنات کو کس شان اور تدبیر کے ساتھ چلایا جاتا ہے۔ قدرت کے یہ تمام مظاہر ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ ہیں ان نشا نات کے کام اور فرائض منصبی بھی باہم مربوط ہیں اور جس سمت کی یہ نشاہدہی کرتے ہیں وہ بھی ایک ہے یعنی ایک خالق۔ سب کے سب ایک ہی ناموس فطرت کے مطیع ہیں ، اپنے فرائض تکوینی میں باہم متعاون ہیں اور ان کی خدمات سب کی سب اس حضرت انسان کے لیے ہیں جسے اللہ نے معزز اور مکرم بنایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں تخلیق انسان اور دوسرے مظاہر فطرت کو یکجا کیا گیا ہے۔

ولقد خلقنا فو قکم سبع طرائق وما کنا عن الخلق غفلین (23 : 17) ” اور تمہارے اوپر ہم نے سات راستے بنائے ، تخلیق کے کام سے ہم کچھ نا بلد نہ تھے “۔ یہ سات راستے طرائق کیا ہیں ، یہ دراصل طبقات ہیں ، بعض ، بعض کے اوپر ہیں یا بعض دوسرے کی نسبت بہت دور ہیں ۔ سیع طرائق سے اہم فلکی مدار بھی ہوسکتے ہیں ۔ اور اسی طرح ان سے مرادوہ سات ، کہکشاں بھی ہو سکتے ہیں جس طرح ہم سورج کی کہکشاں میں بستے ہیں ، یا ان سے سات سدم بھی مراد ہوسکتے اور سدم سے مراد فلکیات والوں کے نزدیک ستاروں کے مجموعے (Nebula) ہیں۔ غرض مراد جو بھی ہو ، یہ سات فلکی مخلوق ہے اور یہ انسانوں کے اوپر ہے ، بہر حال یہ سبع طرائق زمین سے بلندی پر ہیں اور اسی فضائے کائنات میں ہیں ۔ اللہ نے اپنی سان حکیمانہ سے ان کو پیدا کیا ہے اور وہ اللہ وہ اللہ اپنی تخلیق سے غافل نہیں ہے۔

وانزلنا من السماء ماء بقدر فاسکنہ فی الارض وانا علی ذھاب بہ لقدرون (23 : 18) ” اور آسمان سے ہم نے ٹھیک حساب کے مطابق ایک خاص مقدار میں پانی اتارا اور اس کو زمین میں ٹھرادیا ، ہم اسے جس طرح چاہیں غائب کرسکتے ہیں “۔ یہاں یہ سات راستے زمین کے ساتھ جمع ہوجاتے ہیں ۔ پانی آسمان سے اترتا ہے۔ ان سات افلاک کے ساتھ پانی کا تعلق ہے۔ کیونکہ اس کائنات کا اس انداز پر پیدا کیا جانا ہی اس بات کا ضامن ہے کہ وہ آسمانوں سے پانی اتارتا ہے ، پھر یہ پانی کے اوپر ٹھرتا ہے ۔

یہ نظریہ کہ زمین کے اندر جو پانی ہے وہ بارشوں ہی کا پانی ہے ۔ یہ پانی مختلف راہوں سے زمین کے اندر جذب ہوجاتا ہے۔ یہ نظریہ بالکل ایک جدید نظریہ ہے۔ ماضی قریب تک لوگ یہ سوچتے تھے کہ بارش کے پانی اور زمین کے اندر کے پانی کا باہم کوئی تعلق نہیں ہے لیکن قرآن نے آج سے تقریباً تیرہ سو سال پہلے اس حقیقت کو بیان کردیا تھا۔

پھر اللہ نے اس پانی کو ٹھیک ٹھیک حساب کے مطابق اتارا ، نہ زیادہ اتارا کہ طوفان کی شکل میں سب کچھ غرق کردے اور نہ ضرورت سے کم اتارا کہ ملکوں کے اندر خشک سالی ہوجائے اور تروتازہ گی اور شادابی ختم ہوجائے۔ نہ بےموسم اتارا کہ پانی ضائع چلا جائے۔

فا سکنہ فی الارض (23 : 61) ” اور اس کو زمین میں ٹھرادیا “۔ تو یہ پانی بھی زمین میں ٹہرا ہوا ہے اور انسان کا نطف بھی قرار مکیں میں ٹھرا ہوا ہے اور ان دونوں کے درمیان بہترین مشابہت اور تقابل ہے۔ دونوں اللہ کی تدبیر سے ٹھہرے ہوئے ہیں ۔ ایک زمین میں اور ایک رحم میں۔

وانا علی ذھاب بہ لقدرون (23 : 18) ” اور ہم اسے جس طرح چاہیں غائب کرسکتے ہیں “۔ یو کہ وہ زمین کے اندر دور تک گہرائیوں میں چلا جائے ، اور جن محفوظ مقامات کے اندر یہ بانی محفوظ رہتا ہے ، ان میں شکاف پر جائیں اور پانی گہرائیوں میں سے نکل کر غائب ہوجائے یا کسی اور طریقے سے ناپید ہوجائے۔ کیونکہ جس خدا نے اپنی قدرت سے پای کو زمین میں ٹھہرایا ہے وہ اپنی قدرت سے اسے غائب بھی کرسکتا ہے ۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے کہ اس نے اسے روک رکھا ہے۔

اور یہ زندگی کی بو قلمو نیاں تو قائم ہی پانی سے ہیں۔

فانشا نا لکم بہ جنت من نخیل و اعناب لکم فیھا فواکہ کثیرۃ ومنھا تاکلون (23 : 19) ” پھر اس پانی کے ذریعے سے ہم نے تمہارے لیے کھجور اور انگور کے باغ پیدا کردیئے “۔ تمہارے لیے ان باغوں میں بہت سے لذیذ پھل ہیں اور ان سے تم روزی حاصل کرتے ہو “۔ کھجور اور انگور دوہ نمونے ہیں ان نباتاتی اشیاء کے جو پانی سے پیدا ہوتے ہیں جیسا کہ انسان اور حیوان نطفے کے پانی سے پیدا ہوتے ہیں ۔ یہ دونوں نمونے ایسے ہیں جو لوگوں کے ذہنوں میں اسی دور میں رچے بسے تھے جبکہ دوسرے تمام قسم کے فواکہ اور حیوانات بھی پانی ہی سے پیدا ہوئے ہیں ۔

دوسری تمام پیداوار مین زیتون کے درخت کا ذکر خصوصیت کے ساتھ کیا گیا ہے۔

و شجرۃ تخرج من طور سیناء تنبت بالدھن وصبغ لااکلین (23 : 20) ” اور وہ درخت بھی ہم نے پیدا کیا جو طور سینا سے نکلتا ہے ، تیل بھی لیے ہوئے نکلتا ہے اور کھانے والوں کے لیے سالن بھی “۔

یہ اکثر درختوں سے زیادہ مفید ہے اس کا تیل ، اس کا پھل اور اس کی ٹکڑی سب ہی مفید ہیں ۔ اور عربستاں کے قریب ترین مقامات جہاں یہ اگتا ہے ، طور سینا ہے۔ یہ اس وادی مقدس کے قریب ہے جہاں موسیٰ (علیہ السلام) کو نبوت عطا ہوئی۔ لہذا اس کا ذکر خصوصیت کے ساتھ کیا گیا۔ یہ درخت بھی وہاں اس پانی کی وجہ پیدہوتا ہے جو زمین کے اندر کے اندر محفوظ ہے۔

اب نبا تات سے آگے عالم حیوانات پر ایک نظر

وان منھا تاکلون (21) وعلیھا وعلی الفلک تحملون (23 : 22) ” اور حقیقت یہ ہے کہ تمہارے لیے مویشیوں میں بھی ایک سبق ہے ۔ ان کے پیٹوں میں جو کچھ ہے اسی میں سے ایک چیز (یعنی دودھ) ہم تمہیں پلاتے ہیں ، اور تمہارے لیے ان میں بہت سے دوسرے فائدے بھی ہیں ۔ ان کو تم کھاتے ہو اور ان پر اور کشتیوں پر سوار بھی کیے جاتے ہو “۔ یہ تمام مخلوقات انسان کے لیے اللہ کی قدرت نے مسخر کردی ہے اور اس کائنات میں یہ مخلوق مختلف قسم کے مقاصد پورے کررہی ہے۔ ان چیزوں میں عبرت ہے ، اس شخص کے لیے جو چشم بصیرت کے ساتھ ان کو دیکھے اور پھر عقل کے ساتھ ان چیزون کے دیکھے اور ان پر غور کرے۔ انسان دیکھتا ہے کہ وہ جو خوشگوار دودھ پیتا ہے۔ وہ ان جانوروں کے پیٹ سے نکلتا ہے ۔ یہ ہے خلاصہ اس غذا کا جو یہ جانور ہضم کرتے ہیں۔ اور پھر دودھ کے غدود سے اسے اس پاک و صاف سفید سیال مادے کی شکل دیتے ہیں جو نہایت ہی خوشگوار اور لطیف غذا بھی ہے۔

ولکم فیھا منافع کثیرۃّ (23 : 21) ” ان کو تم کھاتے ہو اور ان پر اور کشتیوں پر تم سوار ہوتے ہو “۔ اللہ نے انسانوں کے لیے مویشیوں کا کھان حلال قرار دیا ۔ مثلاً اونٹ ، گائے ، اور بھیڑ بکری۔ لیکن اللہ نے ان کو عذاب دینا اور مثلہ بنانے کی اجازت نہیں دی کیونکہ کھانے سے تو ایک ضرورت پوری ہوتی ہے لیکن ان کو عذاب دینا تکلیف پہنچانا اور مثلہ بنانا بےفائدہ تعذیب ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے شخص کے قلب و نظر میں فساد ہے اور اس کی فطرط سلیمہ نہیں رہی ہے جبکہ اس فعل سے زندگی کو کوئی فائدہ بھی نہیں پہنچا۔

یہاں مویشیوں پر سواری کی منا سبت سے کشتیوں کی سواری کا ذکر بھی کردیا گیا ہے ۔ کشتی بھی ایک کائناتی نظام کے تحت انسان کے لیے مسخر بنا دی گئی ہے اور اس نظام بحری سفر کے نظام میں بھی انسانوں کا مفاد ہے۔ پانی کو بھی انسان کے لیے مفید بنایا۔ پھر کشتی کو اس قابل بنایا کہ وہ پانی کے اوپر تیر رہی ہے اور ہوائوں کو اس طرح چلایا کہ وہ کشتیوں کو منزل مقصود مقصود تل لے جارہی ہیں۔ اگر ان امور میں سے کوئی امر بھی نہ ہو یعنی پانی ، کشتی ، اور ہوا تو بحری سفر مشکل ہوجائے ۔ آج بھی بحری سفر انہی سہولیات پر مبنی ہے۔

یہ تمام امور دلائل ایمان کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں ، بشرطیکہ کوئی فہم اور ادراک اور تفکر و تدبر کر رے ان پر غور کرے اور ان سب امور کا تعلق اس سورة کے پہلے اور دوسرے پیرا گراف کے ساتھ ہے۔ ان امور سے تمام پیرا گرف مربوط اور ہم آہنگ ہوجاتے ہیں۔

آیت 17 وَلَقَدْ خَلَقْنَا فَوْقَکُمْ سَبْعَ طَرَآءِقَق ”عام طور پر ”سَبْعَ طَرَآءِقَ“ سے سات آسمان مراد لیے جاتے ہیں۔ ”طرائق“ کے معنی راستوں کے بھی ہیں اور طبقوں کے بھی۔ دوسرے معنی کے مطابق اس سے ”تہہ بر تہہ سات آسمان“ مراد ہیں۔ واللہ اعلم ! جب تک انسانی علم کی رسائی اس کی حقیقت تک نہ ہوجائے ‘ اس بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ اس لحاظ سے یہ آیت متشابہات میں سے ہوگی۔

آسمان کی پیدائش مرحلہ وار انسان کی پیدائش کا ذکر کرکے آسمانوں کی پیدائش کا بیان ہو رہا ہے جن کی بناوٹ انسانی بناوٹ سے بہت بڑی بہت بھاری اور بہت بڑی صنعت والی ہے۔ سورة الم سجدہ میں بھی اسی کا بیان ہے جیسے حضور ﷺ جمعہ کے دن صبح کی نماز کی اول رکعت میں پڑھا کرتے تھے وہاں پہلے آسمان و زمین کی پیدائش کا ذکر ہے پھر انسانی پیدائش کا بیان ہے پھر قیامت کا اور سزا جزا کا ذکر ہے وغیرہ۔ سات آسمانوں کے بنانے کا ذکر کیا ہے جسے فرمان ہے آیت (تُـسَبِّحُ لَهُ السَّمٰوٰتُ السَّـبْعُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِيْهِنَّ 44؀) 17۔ الإسراء :44) ساتوں آسمان اور سب زمینیں اور ان کی سب چیزیں اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتی ہیں کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح اوپر تلے ساتوں آسمانوں کو بنایا ہے۔ اللہ تعالیٰ وہ ہے جس نے سات آسمان بنائے انہی جیسی زمینیں بھی۔ اس کا حکم ان کے درمیان نازل ہوتا ہے تاکہ تم جان لو کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ اور تمام چیزوں کو اپنے وسیع علم سے گھیرے ہوئے ہے اللہ اپنی مخلوق سے غافل نہیں۔ جو چیز زمین میں جائے جو زمین سے نکلے اللہ کے علم میں ہے آسمان سے جو اترے اور جو آسمان کی طرف چڑھے وہ جانتا ہے جہاں بھی تم ہو وہ تمہارے ساتھ ہے اور تمہارے ایک ایک عمل کو وہ دیکھ رہا ہے۔ آسمان کی بلند وبالا چیزیں اور زمین کی پوشیدہ چیزیں، اور پہاڑوں کی چوٹیاں، سمندروں، میدانوں، درختوں کی اسے خبر ہے۔ درختوں کا کوئی پتہ نہیں گرتا جو اس کے علم میں نہ ہو کوئی دانہ زمین کی اندھیروں میں ایسا نہیں جاتا جسے وہ نہ جانتا ہو کوئی ترخشک چیز ایسی نہیں جو کھلی کتاب میں نہ ہو۔

آیت 17 - سورۃ المومنون: (ولقد خلقنا فوقكم سبع طرائق وما كنا عن الخلق غافلين...) - اردو