سورۃ المومنون: آیت 12 - ولقد خلقنا الإنسان من سلالة... - اردو

آیت 12 کی تفسیر, سورۃ المومنون

وَلَقَدْ خَلَقْنَا ٱلْإِنسَٰنَ مِن سُلَٰلَةٍ مِّن طِينٍ

اردو ترجمہ

ہم نے انسان کو مٹی کے ست سے بنایا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Walaqad khalaqna alinsana min sulalatin min teenin

آیت 12 کی تفسیر

ولقد تبعثون (12 تا 16)

یہ انداز تخلیق ، یہ منظم انداز نشونما اس کے اندر پایا جانے وا لا تسلسل ۔ سب سے پہلے تو یہ بتاتا ہے کہ اس پورے نظام کا ایک خالق ہے اور پھر اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ پورا عمل اس کے ارادہ مدبرہ کے مطابق ہے۔ یہ نہایت ہی پچیدہ عمل محض اتفاق سے یونہی نہیں ہوجاتا اور نہ یہ پورا عمل بغیر کسی ارادے اور تدبیر کے یونہی اتفاقاً ہوتا ہے۔ خصوصاً اس کا یہ پہلو کہ اس پورے نظام واقعات میں کبھی بھی یہ سلسلہ منقطع نہیں ہوتا۔ انسان کا یہ نظام تخلیق عقلاً کئی دوسرے طریقوں سے ممکن ہے لیکن کبھی یہ طریق کار تبدیلی کو قبول نہیں کرتا۔ یہ پہلوخصوصاً ٓاس بات کا اظہار کرتا ہے کہ ایک مخصوص ارادہ جو اس نظام کی پشت پر ہے۔

حیات انسانی کی یہ تدریجی نشونما اپنے اس تسلسل کے ساتھ بظاہر ایک اعجوبہ ہے اور اسے صرف اس صورت میں حل کیا جاسکتا ہے کہ اس سورة کے مطابق ایک انسان سیدھی طرح اللہ پر ایمان لے آئے۔

بس یہی ایک طریقہ ہے جس سے اس تخلیق اور اس نشو نما کو اپنے کمال تک پہنچانے کا تصور دیا جاسکتا ہے۔ صرف ایمان باللہ ہی کی صورت میں دنیا و آخرت کی زندگی با معنی اور با مقصد ہوسکتی ہے۔ صفات مومنین کے بعد یہاں زندگی کی اس عجیب نشونما کے مدارج کو کیوں لایا گیا ہے ؟

ولقد خلقنا الانسان من سللۃ من طین (23 : 12) ” ہم نے انسان کو مٹی کے ست سے بنایا ، پھر ایک محفوظ جگہ ٹپی کی ہوئی بوند میں تبدیل کیا “۔ یہ آیت انسانی زندگی کی نشونما کے انداز کو نہایت ہی تعین کے ساتھ بتاتی ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان موجود انسانی شکل تک کئی مراحل طے کرکے پہنچتا ہے۔ یو وہ پہلے مٹی سے انسان تک پہنچا ، کیچڑ گویا انسان کی تخلیق درجہ اول ہے۔ اور انسان اپنی موجودہ شکل میں اس عمل تخلیق کا فائنل مرحلہ ہے۔ یہ وہ حقیقت ہے جس کی قرآن کریم صراحت کرتا ہے۔ ہم انسان کے اس عمل تخلیق کی تصدیق ان سائنسی مشاہدات سے کرنا نہیں چاہتے جنہوں نے اس عمل کو تخلیقی کا بڑی باریکی سے مشاہدہ کیا ہے کہ انسانی زندگی کس طرح نشونما پاتی ہے۔

قرآن کریم نے تخلیق کس قدر پچیدہ ہے ۔ قابل غور بات یہ ہے کہ کیچڑ سے انسان کی تخلیق تک کس قدر تبدیلی ہے ۔ قرآن کریم نے اس سے زیادہ تفصیلات نہیں دی ہیں کیونکہ قرآن کریم کا مقصد ان موٹے موٹے مدارج تخلیق کے ذکر ہی سے پورا ہوجاتا ہے ۔ رہے موجودہ سائنسی مشاہدات تو ان کے پیش نظر نشونما کے نہایت ہی مفصل مدارج کا بیان ہوتا ہے تاکہ وہ کیچڑ سے مکمل انسان کی تخلیق تک مدارج کو تفصیل سے لیں۔ سائنس دانوں کے مشاہدات درست بھی ہوسکتے ہیں اور بعض اوقات وہ غلط مشاہدات بھی کرتے ہیں۔ آج زیادہ وہ مدارج بتاتے ہیں اور کل ان میں کمی کردیتے ہیں کیونکہ آلات مشاہدہ میں آئے دن تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں ۔

قرآن کریم کبھی تو ان مدارج کو اختصار کے ساتھ بیان کرتا ہے اور کبھی ان کی تفصیلات دیتا ہے۔ بعض اوقات صرف یہ فقرہ ہوتا ہے۔

و بدا خلق الانسان من طین (32 : 7) ” انسان کی ابتدائی تخلیق مٹی سے کی گئی “۔ اب اس میں مراحل کا ذکر بالکل نہیں ہے اور جس آیت میں تفصیلات دی گئی ہیں اس میں کہا ہے۔

من سللۃ من طین (23 : 12) ” دوسری آیت میں اختصار سے کام لیا گیا ہے۔ رہی یہ بات کہ انسان مٹی سے کس طرح تسلسل کے ساتھ اپنی موجودہ کامل حالت تک پہنچاتو قرآن کریم نے اس کی تفصیلات نہیں دی ہیں اور جیسا کہ ہم نے دوسری جگہ تفصیلات دے دی ہیں یہ امور قرآن کریم کے مقاصد میں شامل ہی نہیں ہیں۔ قرآن کریم نے جو مدارج حیات بیان کیے ہیں وہ سائنسی مشاہدات کے مطابق بھی ہوسکتے ہیں اور خلاف بھی ہوسکتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ عمل کسی نامعلوم ذریعہ سے ہوا ہو اور ابھی بھی انسان نے اسے دریافت نہ کیا ہو یا کچھ ایسے فیکٹر ہوں جو ابھی انسان کے علم سے باہر ہوں۔ لیکن قرآن انسان کو جس نظر سے دیکھتا ہے اور یہ دوسرے سائنسی نظریات اسے جن مقاصد کے لیے مشاہدہ کرتی ہیں ان میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ قرآن کریم انسان کو ایک نہایت ہی مکرم اور برگزیدہ مخلوق قرار دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اس ذات کے اندر اللہ کی روح پھونگی گئی ہے اور اس روح ہی نے اسے مٹی سے انسان بنادیا اور اسے دو خصوصیات عطا کیں جن کی وجہ سے انسان کہلایا اور حیوان سے ممتاز قرار پایا یوں قرآن کا نقطہ نظر انسان کے بارے میں مادہ پرستوں سے بالکل جدا ہے اور اللہ کا قول تمام لوگوں سے زیادہ سچا ہے۔

(دیکھئے الانسان بین المادیۃ والاسلام محمد قطب) یہ ہے جنس انسانی کی اصل تخلیق مٹی کے ست سے۔ رہا بعد کا سلسلہ نسل انسانی تو اس کا طریق کا بالکل کار بالکل جدا ہے اور ایک معروف اور مشاہدہ کیا ہواطریقہ ہے۔

ثم جعلنہ نطفۃ فی قرار مکین (23 : 13) ” پھر ہم نے اسے ایک محفوظ ٹپکی ہوئی بوند میں تبدیل کردیا ”۔ اللہ نے جنس انسانی (آدم) کو تو مٹی کے ست بنایا۔ رہا سلسلہ تناسل تو اس سلسلے کو اللہ تعالیٰ نے پانی کے ایک قطرے سے چلایا۔ پانی کا یہ قطرہ مرد صنب سے نکلتا ہے۔ یہ قطرہ رحم مادر میں ٹھرتا ہے۔ یہ پانی کا نہایت ہی چھوٹا نکتہ ہوتا ہے بلکہ یہ ہزار ہا خلیوں میں سے ایک خلیہ ہوتا ہے اور پانی کے اس قطرے میں یہ خلیے ہزار ہا کی تعداد میں ہوتے ہیں۔

فی قرار مکین (23 : 13) ” محفوظ جگہ میں “ یہ نقطہ رحم میں جاکر رحم کی ہڈیوں کے درمیان ایسی جگہ محفوظ جگہ میں ہوتا ہے کہا اس پر جسم کی حرکات کا کو ئی اثر نہیں ہوتا۔ یہ جگہ ایسی ہوتی ہے کہ انسان کی پیٹھ اور پیٹ کو جھٹکے اور چوٹیں اور حرکات اور تاثرات پہنچتے ہیں یہ جگہ ان سے محفوظ ہوتی ہے۔

قرآن کریم اس نقطے کو انسان کی تخلیق کا ایک مرحلہ قرار دیتا ہے اس نقطے سے بڑھ کر انسان ایک مکمل انسان بنتا ہے ۔ یہ ایک سائنسی حقیقت ہے لیکن یہ عجیب اور قابل غور حقیقت ہے۔ جب اس عظیم الحبثہ انسان کو ہم مختصص کرکے اس نقطے کے اندر وہ تمام انسانی خصائص پائے جاتے ہیں تو پھر ایک کامل انسان اندر سے اس قسم کے اور جینز تخلیق ہوتے رہتے ہیں ۔ سلسلہ تخلیق کا یہ ایک عجیب نظام ہے۔

اس نقطے سے انسان پھر علفہ بن جاتا ہے یعنی خون کا ایک لوتھڑا۔ اس مرحلے میں مرد کا جرثومہ عورت کے انڈے کے ساتھ مکس ہوجاتا ہے اور ابتداء میں رحم مادر کے ساتھ معلق یہ ایک باریک نقطہ ہی ہوتا ہے ۔ یہ نقطہ رحم مادر کے خون سے غذاپاتا ہے۔ علقہ سے پھر المضغۃ ” خون کی بوٹی “ کی شکل میں آجاتا ہے ۔ بوٹی کی شکل میں اب یہ نقطہ قدرے بڑا ہے ۔ اب یہ گوشت کا ایک ٹکڑا ہوتا ہے ۔ یہ خون کا ایک موٹا ٹکڑا ہوتا ہے ۔

یہ چھوٹی سی مخلوق اپنی اس راہ پر چلتی ہے۔ یہ اپنی ڈگر تبدیل نہیں کرتی۔ نہ اپنی راہ سے ادھر ادھر جاتی ہے ۔ اس کی حرکت معظم اور مرتب ہوتی ہے اور یہ اس ناموس کے مطابق ہوتی ہے جو پہلے سے اللہ نے مقرر کردیا ہے۔۔ یعنی اللہ کی تدبیر و تقدیر کے مطابق ۔ اس کے بعد ہڈیوں مرحلہ آتا ہے۔

فخلقنا المضغۃ عظما (23 : 13) پھر بوٹی کی ہڈیاں بنائیں۔ اور اس کے بعد یہ مرحلہ آیا کہ ہڈیوں پر گوشت چڑھ آیا۔

فکسونا العظم لحما (23 : 31) ” پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا “۔ ان مراحل کو پڑھ کر اور پھر دیکھ کر انسان حیران رہ جاتا ہے کہ قرآن کریم نے کے ان مراحل کو جس تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے وہ سائنس دانوں کے مشاہدے میں بہت بعد میں آئی ہے ۔ سائنس دانوں نے بعد میں یہ بات معلوم ہوئی کہ ہڈیوں کے خلیے اور ہیں ۔ اور گوشت کے خلیے اور ہیں۔ اور یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچی کہ جنین کے اندر ہڈیوں کے خلیے پہلے چڑھتے ہیں اور بعد میں ان پر گوشت کے خلیے چڑھتے ہیں اور جب تک ہڈیوں کے خلیے مکمل نہیں ہوتے اس وقت تک گوشت کے خلیے پاپید ہوتے ہیں اور بعد میں جنین کا ڈھانچہ بنتا ہے۔ یہ حیران کن حقیقت ہے جسے جسے قرآن کریم ریکارڈ کرتا ہے۔

فخلقنا المضغۃ عظما فکسونا العظم لحما (23 : 14) ” پھر بوٹی کی ہڈیاں بنائیں “ اور پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا ۔ ثم انشانہ خلقا اخر (23 : 14) ” پھر اسے ایک دوسری مخلوق بنا کھڑا کیا “۔ اور یہ مخلوق انسان ہے۔ یہ امتیازی خصوصیات کا حامل ہے ۔ ابتداء مین انسان کا جنین اور حیوان کا جنین جسمانی ساخت کے اعتبار سے ایک جیسے نظر آتے ہیں لیکن آخر میں جاکر انسان کا جنین ایک دوسری مخلوق کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ یہ ایک مکرم اور صاحب امتیاز مخلوق ہوتی ہے اور یہ ارتقاء اور ترقی کی بےپناہ استعداد اپنے اندر رکھتی ہے ۔ حیوان کا جنین حیوان کے ہی درجے میں رہ جاتا ہے۔ وہ انسانی خصائص کو اخذ نہیں کرسکتا۔ اور ان کمالات تک نہیں پہنچ پاتا جن تک انسان پہنچتا ہے۔

واقعہ یہ ہے کہ انسانی جنین کو متعین اور مخصوص خصوصیات دی گئی ہیں اور یہی خصوصیات ہیں جو بعد کے زمانے مین انسان کو انسانیت کی راہ پر ڈالتی ہیں۔ اس طرح انسان ” ایک دوسری “ مخلوق بن جاتا ہے ۔ اور یہ اس وقت ہی بن جاتا ہے جب یہ جنین اپنے آخری دور میں نشونما میں ہوتا ہے۔ حیوان اپنے آخری دور میں انسان سے پیچھے رہ جاتا ہے اس لیے کہ اس کو انسانی خصوصیات نہیں دی گئیں۔ چناچہ کسی حیوان کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ اپنے حیوانی مقام سے آگے بڑھ پائے اور اس طرح آگے بڑھتے بڑھتے حیوان سے انسان بن جائے جیسا کہ مادی نطریہ کے قائلین اس پر یقین رکھتے ہیں لیکن انسان اپنی انسانی خصوصیات کے اعتبار سے ایک مقام جا کر رک جاتا ہے اور انسان خلق آخر بن جاتا ہے اور ان ذمہ داریوں کے اٹھانے کے قابل بن جاتا ہے جو اس نے اس کرہ ارض پر ادا کرنی ہیں۔ یہ فرق ان امتیازی خصوصیات کی وجہ سے ہے جو اللہ تعالیٰ نے انسان کو دی ہیں ۔ اس معاملے میں یہ نظریہ بالکل غلط ہے کہ حیوانات نے ترقی کرتے کرتے درجہ انسانی تک بلندی حاصل کی ہے۔

نظریہ ارتقاء اسلام کے نظریہ سے متضاد تصور پر قائم ہے۔ یہ نظریہ فرض کرتا ہے کہ موجودہ انسان حیوانی ارتقاء کا ایک درجہ ہے ۔ اور یہ کہ حیوان بھی ترقی کرکے انسان بن سکتا ہے لیکن واقعی صورت حالات یہ ہے کہ واضح طور پر یہ کہ نظریہ محض مفروضہ اور جھوٹ نظر آتا ہے ۔ حیوان کبھی بھی انسانی خصوصیات کا حامل نہیں ہوسکتا ۔ وہ ہمیشہ ہی اپنی حدود میں رہتا ہے ان سے آگے نہیں بڑھ سکتا ۔ یہ ممکن ہے کہ کسی نوع کے اندر شکلی اعتبار سے کوئی نوع حیوان ترقی کرلے جس طرح ڈرائون کہتا ہے۔ لیکن ہر نوع اپنے نوع اپنے نوعی حدود کے اندر رہتی ہے وہ نوعی خصوصیات بدل نہیں سکتی کیونکہ ہر نوع حیوانی کی خصوصیات علیحدہ ہوتی ہیں اور کسی خارجی قوت نے اسے دی ہوتی ہیں جبکہ نوع انسانی بالکل ایک علیحدہ نوعیت اور خصوصیات کی حامل ہے اور یہ خصوصیات اسے بعض مخصوص مقاصد کے لیے اللہ کی قوت نے دی ہیں۔

فتبرک اللہ احسن الخلقین (23 : 14) ” بس بڑا ہی با برکت ہے اللہ ، سب کا کاریگروں سے اچھا کاریگر “۔ جس نے انسان کے جنین کے اندر یہ صلاحیت رکھی ہے وہ اس انداز نشونما کے مطابق ایک خود کار نظام کے مطابق آگے برھتا ہے۔ ایک نہایت ہی پچیدہ سنت الیہ کے مطا بق جس کے اندر کوئی تبدیلی نہیں آئی اور نہ اس کے مراحل میں سے مرحلہ حذف ہوتا ہے یہاں تک کہ انسان ترقی و کمال مقررہ درجہ کمال تک پہنچ جاتا ہے ۔

لوگ سائنس کے انکشافات کو معجزہ قرار دیتے ہیں اور ان کو سن سن کر تعجب کا اظہار کرتے ہیں۔ خصوصا جب انسان ایک ایسا آلہ یا مشین تیار کرتا ہے جو خود کار طریقے کے مطابق چلتا ہے اور انسان کی مداخلت کے بغیر کام کرتا ہے ۔ کیا یہ لوگ اس جنین کو نہیں دیکھتے کہ یہ نہایت ہی خود کار طریقے کے مطابق اپنے مختلف مراحل طے کرتا چلا جاتا ہے۔ بظاہر ان مراحل سے گزرنے میں اسے گزارنے والا نظر نہیں آتا ۔ جب ایک مرحلے سے دوسرے مرحلے میں داخل ہوتا ہے تو اس کی ماہیت میں بھی مکمل تبدیلی آجاتی ہے۔ پھر نظر آتا ہے کہ ان دونوں مراحل میں اس کے اندر ایک تبدیلی آگئی ہے۔ لوگ رات دن ان تغیرات اور واقعات کو دیکھتے ہیں لیکن اپنی آنکھیں بند کرکے چلے جاتے ہیں ، ان کے دل و دماغ اس عظیم خود کار نظام پر غور نہیں کرتے۔ یہ کیوں ؟ اس لیے کہ ہم اس نظام کے عادی ہوگئے ہیں حالانکہ یہ اپنی جگہ حیرت انگیز نظام ہے۔ محض انسان کی اس پچیدہ تخلیق پر غور و فکر ہی انسان کی ہدایت کے لیے کافی ہے جس کی تمام خصوصیات ، تمام خدوخال ، اس چھوٹے نکتے کے اندر موجود ہوتے ہیں جو اس قدر چھو ٹا ہوتا ہے کہ انسان خوردبین کے بغیرا سے دیکھ نہیں سکتا ۔ یہ تمام خصوصیات اور تمام خدو خال آہستہ آہستہ بڑھتے ہیں اور اپنے مختلف مراحل طے کرتے ہوئے پھر ہماری نظروں میں آجاتے ہیں ۔ جب انسان بچے کی صورت میں ہوتا ہے تو انسان کے انسانی خصائص نمودار ہونا شروع ہوجاتے ہیں ۔ پھر ہر بچہ عام انسانی خصائص کے ساتھ ساتھ اپنے والدین کی مخصوص خصوصیات کو بھی وراثت میں پاتا ہے اور یہ دونوں قسم کی خصوصیات اس چھوٹے سے نکتے کے اندر مرکوز ہوتی ہیں۔ غرض یہ عمل جو رات اور دن ہمارے درمیان اور ہمارے سامنے قدرت دہراتی ہے ، انسان کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے اور انسانی غورو فکر کے لیے اس میں عظیم مواد موجود ہے۔

اب سیاق کلام ایک قدم اور آگے بڑھتا ہے تاکہ زندگی کے اس سفر کو انتہا تک پہنچا دے ۔ اب زندگی کے ایک نئے مرحلے کا ذکر ہوتا ہے ۔ کیونکہ یہ زندگی جس کی تخلیق اس متی سے کی گئی ہے اس دنیا ہی میں ختم نہیں ہوجاتی کیونکہ یہ صرف مٹنی نہیں ہے بلکہ اس میں روح کا آمیزہ کیا گیا ہے ، لہذا اس کو اس سے بھی آگے بڑھنا ہے۔ اس زندگی میں چونکہ عالم بالا کی طرف سے روح پھونکی گئی ہے اس لیے اس کا آخری منزل یہی جسمانی منزل نہیں ہے ۔ خون اور گوشت کی اس قریبی منزل سے آگے اور جہان بھی ہیں ۔ چناچہ زندگی کا آخری مرحلہ سامنے آتا ہے۔

اب جو مضمون آ رہا ہے وہ اس سے پہلے سورة الحج کی آیت 5 میں بھی آچکا ہے ‘ مگر وہاں اختصار کے ساتھ آیا تھا ‘ جبکہ یہاں زیادہ وضاحت اور جامعیت کے ساتھ آیا ہے۔ اس سے سورة الحج کے ساتھ اس سورت کی مشابہت کا پہلو بھی نظر آتا ہے۔آیت 12 وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰلَۃٍ مِّنْ طِیْنٍ ”تلوار کو نیام سے باہر کھینچنے کے عمل کو ”سَلَّ یَسُلُّ“ جبکہ نیام سے باہر نکلی ہوئی ننگی تلوار کو ”مَسْلُوْل“ کہا جاتا ہے۔ کسی بھی چیز کا اصل جوہر جو اس میں سے کشید کیا گیا ہو ”سُلَالَۃ“ کہلاتا ہے۔ چناچہ اس آیت کا ایک مفہوم تو یہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کو براہ راست مٹی کے جوہر سے تخلیق کیا گیا اور پھر پوری نسل انسانی چونکہ ان کی اولاد تھی اس لیے اپنی تخلیق کے حوالے سے ہر انسان کو گویا اسی مادہ تخلیق یعنی مٹی سے نسبت ٹھہری۔ لیکن میرے نزدیک اس کی زیادہ صحیح تعبیر یہ ہے کہ مرد کے جسم میں بننے والا نطفہ دراصل مٹی سے کشید کیا ہوا جوہر ہے۔ اس لیے کہ انسان کو خوراک تو مٹی ہی سے حاصل ہوتی ہے ‘ چاہے وہ معدنیات اور نباتات کی شکل میں اسے براہ راست زمین سے ملے یا نباتات پر پلنے والے جانوروں سے حاصل ہو۔ اس خوراک کی صورت میں گارے اور مٹی کے جوہر کشید ہو کر انسانی جسم میں جاتے ہیں اور اس سے وہ نطفہ بنتا ہے جس سے بالآخر بچے کی تخلیق ممکن ہوتی ہے۔

انسان کی پیدائش مرحلہ وار اللہ تعالیٰ انسانی پیدائش کی ابتدا بیان کرتا ہے کہ اصل آدم مٹی سے ہیں، جو کیچڑ کی اور بجنے والی مٹی کی صورت میں تھی پھر حضرت آدم ؑ کے پانی سے ان کی اولاد پیدا ہوئی۔ جیسے فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں مٹی سے پیدا کرکے پھر انسان بنا کر زمین پر پھیلادیا ہے۔ مسند میں اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم ؑ کو خاک کی ایک مٹھی سے پیدا کیا، جسے تمام زمین پر سے لیا تھا۔ پس اسی اعتبار سے اولاد آدم کے رنگ روپ مختلف ہوئے، کوئی سرخ ہے، کوئی سفید ہے، کوئی سیاہ ہے، کوئی اور رنگ کا ہے۔ ان میں نیک ہیں اور بد بھی ہیں۔ آیت (ثم جعلنہ)۔ میں ضمیر کا مرجع جنس انسان کی طرف ہے جیسے ارشاد ہے آیت (ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَهٗ مِنْ سُلٰلَةٍ مِّنْ مَّاۗءٍ مَّهِيْنٍ ۚ) 32۔ السجدة :8)۔ اور آیت میں ہے (اَلَمْ نَخْلُقْكُّمْ مِّنْ مَّاۗءٍ مَّهِيْنٍ 20؀ۙ) 77۔ المرسلات :20) پس انسان کے لئے ایک مدت معین تک اس کی ماں کا رحم ہی ٹھکانہ ہوتا ہے جہاں ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف اور ایک صورت سے دوسری صورت کی طرف منتقل ہوتا رہتا ہے۔ پھر نطفے کی جو ایک اچھلنے والا پانی ہے جو مرد کی پیٹ سے عورت کے سینے سے نکلتا ہے شکل بدل کر سرخ رنگ کی بوٹی کی شکل میں بدل جاتا ہے پھر اسے گوشت کے ایک ٹکڑے کی صورت میں بدل دیا جاتا ہے جس میں کوئی شکل اور کوئی خط نہیں ہوتا۔ پھر ان میں ہڈیاں بنادیں سر ہاتھ پاؤں ہڈی رگ پٹھے وغیرہ بنائے اور پیٹھ کی ہڈی بنائی۔ رسول ﷺ فرماتے ہیں انسان کا تمام جسم سڑ گل جاتا ہے سوائے ریڑھ کی ہڈی کے۔ اسی سے پیدا کیا جاتا ہے اور اسی سے ترکیب دی جاتی ہے۔ پھر ان ہڈیوں کو وہ گوشت پہناتا ہے تاکہ وہ پوشیدہ اور قوی رہیں۔ پھر اس میں روح پھونکتا ہے جس سے وہ ہلنے جلنے چلنے پھرنے کے قابل ہوجائے اور ایک جاندار انسان بن جائے۔ دیکھنے کی سننے کی سمجھنے کی اور حرکت وسکون کی قدرت عطا فرماتا ہے۔ وہ بابرکت اللہ سب سے اچھی پیدائش کا پیدا کرنے والا ہے۔ حضرت علی ؓ سے مروی ہے کہ جب نطفے پر چار مہنیے گزر جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ایک فرشتے کو بھجتا ہے جو تین تین اندھیریوں میں اس میں روح پھونکتا ہے یہی معنی ہے کہ ہم پھر اسے دوسری ہی پیدائش میں پیدا کرتے ہیں یعنی دوسری قسم کی اس پیدائش سے مراد روح کا پھونکا جانا ہے پس ایک حالت سے دوسری اور دوسری سے تیسری کی طرف ماں کے پیٹ میں ہی ہیر پھیر ہونے کے بعد بالکل ناسمجھ بچہ پیدا ہوتا ہے پھر وہ بڑھتا جاتا ہے یہاں تک کہ جوان بن جاتا ہے پھر ادھیڑپن آتا ہے پھر بوڑھا ہوجاتا ہے پھر بالکل ہی بڈھا ہوجاتا ہے الغرض روح کا پھونکا جانا پھر ان کے انقلابات کا آنا شروع ہوجاتا ہے۔ واللہ اعلم۔ صادق ومصدوق آنحضرت محمد مصطفٰے ﷺ فرماتے ہیں کہ تم میں سے ہر ایک کی پیدائش چالیس دن تک اس کی ماں کے پیٹ میں جمع ہوتی ہے پھر چالیس دن تک خون بستہ کی صورت میں رہتا ہے پھر چالیس دن تک وہ گوشت کے لوتھڑے کی شکل میں رہتا ہے پھر اللہ تعالیٰ فرشتے کو بھیجتا ہے جو اس میں روح پھونکتا ہے اور بحکم الہٰی چار باتیں لکھ لی جاتی ہیں روزی، اجل، عمل، اور نیک یا بد، برا یا بھلا ہونا پس قسم ہے اس کی جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں کہ ایک شخص جنتی عمل کرتا رہتا یہاں تک کہ جنت سے ایک ہاتھ دور رہ جاتا ہے لیکن تقدیر کا وہ لکھا غالب آجاتا ہے اور خاتمے کے وقت دوزخی کام کرنے لگتا ہے اور اسی پر مرتا ہے اور جہنم رسید ہوتا ہے۔ اسی طرح ایک انسان برے کام کرتے کرتے دوزخ سے ہاتھ بھر کے فاصلے پر رہ جاتا ہے لیکن پھر تقدیر کا لکھا آگے بڑھ جاتا ہے اور جنت کے اعمال پر خاتمہ ہو کر داخل فردوس بریں ہوجاتا ہے۔ (بخاری ومسلم وغیرہ) حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں نطفہ جب رحم میں پڑتا ہے تو وہ ہر ہر بال اور ناخن کی جگہ پہنچ جاتا ہے پھر چالیس دن کے بعد اس کی شکل جمے ہوئے خون جیسی ہوجاتی ہے۔ مسند احمد میں ہے کہ حضور ﷺ اپنے اصحاب سے باتیں بیان کررہے تھے کہ ایک یہودی آگیا تو کفار قریش نے اس سے کہا یہ نبوت کے دعویدار ہیں اس نے کہا اچھا میں ان سے ایک سوال کرتا ہوں جسے نبیوں کے سوا اور کوئی نہیں جانتا۔ آپ کی مجلس میں آکر بیٹھ کر پوچھتا ہے کہ بتاؤ انسان کی پیدائش کس چیز سے ہوتی ہے ؟ آپ نے فرمایا مرد عورت کے نطفے سے۔ مرد کا نطفہ غلیظ اور گاڑھا ہوتا ہے اس سے ہڈیاں اور پٹھے بنتے ہیں اور عورت کا نطفہ رقیق اور پتلا ہوتا ہے اس سے گوشت اور خون بنتا ہے۔ اس نے کہا۔ آپ سچے ہیں اگلے نبیوں کا بھی یہی قول ہے۔ حضور ﷺ فرماتے ہیں جب نطفے کو رحم میں چالیس دن گزر جاتے ہیں تو ایک فرشتہ آتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ سے دریافت کرتا ہے کہ اے اللہ یہ نیک ہوگا یا بد ؟ مرد ہوگا یا عورت ؟ جو جواب ملتا ہے وہ لکھ لیتا ہے اور عمل، عمر، اور نرمی گرمی سب کچھ لکھ لیتا ہے پھر دفتر لپیٹ لیا جاتا ہے اس میں پھر کسی کمی بیشی کی گنجائش نہیں رہتی بزار کی حدیث میں ہے کہ حضور ﷺ فرماتے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رحم پر ایک فرشتہ مقرر کیا ہے جو عرض کرتا ہے اے اللہ اب نطفہ ہے، اے اللہ اب لوتھڑا ہے، اے اللہ اب گوشت کا ٹکڑا ہے۔ جب جناب باری تعالیٰ اسے پیدا کرنا چاہتا ہے وہ پوچھتا ہے اے اللہ مرد ہو یا عورت، شکی ہو یا سعید ؟ رزق کیا ہے ؟ اجل کیا ہے ؟ اس کا جواب دیا جاتا ہے اور یہ سب چیزیں لکھ لی جاتی ہیں ان سب باتوں اور اتنی کامل قدرتوں کو بیان فرما کر فرمایا کہ سب سے اچھی پیدائش کرنے والا اللہ برکتوں والا ہے حضرت عمر بن خطاب ؓ فرماتے ہیں میں نے اپنے رب کی موافقت چار باتوں میں کی ہے جب یہ آیت اتری کہ ہم نے انسان کو بجتی مٹی سے پیدا کیا ہے تو بےساختہ میری زبان سے فتبارک اللہ احسن الخالقین نکلا اور وہی پھر اترا۔ زید بن ثابت انصاری ؓ جب رسول کریم ﷺ کو اوپر والی آیتیں لکھوا رہے تھے اور آیت (ثُمَّ اَنْشَاْنٰهُ خَلْقًا اٰخَرَ ۭفَتَبٰرَكَ اللّٰهُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِيْنَ 14؀ۭ) 23۔ المؤمنون :14) تک لکھوا چکے تو حضرت معاذ ؓ نے دریافت فرمایا یارسول اللہ ﷺ آپ کیسے ہنسے ؟ آپ نے فرمایا اس آیت کے خاتمے پر بھی یہی ہے اس حدیث کی سند کا ایک راوی جابر جعفی ہے جو بہت ہی ضعیف ہے اور یہ روایت بالکل منکر ہے۔ حضرت زید بن ثابت ؓ کاتب وحی مدینے میں تھے نہ کہ مکہ میں حضرت معاذ ؓ کے اسلام کا واقعہ بھی مدینے کا واقعہ ہے اور یہ آیت مکہ میں نازل ہوئی ہے پس مندرجہ بالا روایت بالکل منکر ہے واللہ اعلم۔ اس پہلی پیدائش کے بعد تم مرنے والے ہو، پھر قیامت کے دن دوسری دفعہ پیدا کئے جاؤگے، پھر حساب کتاب ہوگا خیروشر کا بدلہ ملے گا۔

آیت 12 - سورۃ المومنون: (ولقد خلقنا الإنسان من سلالة من طين...) - اردو