سورۃ المومنون: آیت 1 - قد أفلح المؤمنون... - اردو

آیت 1 کی تفسیر, سورۃ المومنون

قَدْ أَفْلَحَ ٱلْمُؤْمِنُونَ

اردو ترجمہ

یقیناً فلاح پائی ہے ایمان والوں نے جو:

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qad aflaha almuminoona

آیت 1 کی تفسیر

درس نمبر 145 تشریح آیات (1 تا 22)

قد افلح خلدون (ا تا 11)

یہ ایک پختہ وعدہ ہے بلکہ یہ عالم بالا کی ایک وہ ٹوک قرار داد ہے کہ مومنین فلاح پائیں گے۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے۔ اللہ تو کبھی اپنے عہد کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔ پھر یہ اللہ کا فیصلہ ہے اور اللہ کے فیصلے کو کوئی رد نہیں کرسکتا کہ مومنین دنیا میں بھی فلاح پائیں گے اور آخرت میں بھی فلاح پائیں گے ۔ ایک مومن انفرادی طور پر فلاح پائے گا اور اہل ایمان کی جماعت بھی فلاح پائیں گی۔ ایسی کامیابی جسے ایک مومن اپنے دل اپنی حقیقی زندگی میں محسوس کرتے ہوں اور اس کے اندر فلاح کے وہ تمام مفہوم پائے جاتے ہوں جن سے دنیا با خبر ہے اور وہ مفاہیم بھی پائے جاتے ہیں جن سے اہل ایمان با خبر بھی نہ ہوں اللہ نے مستقبل مین ان کے لیے اس کا فیصلہ کر رکھا ہو۔

اب سوال یہ ہے کہ وہ مومنین کون ہیں جن کے ساتھ اللہ نے اس قدر پختہ وعدہ کرلیا ہے اور پیشگی ان کی فلاح اور کامیابی کا اعلان کردیا ہے۔

یہ کون لوگ ہیں جن کے لیے بھلائی ، نصرت ، سعادت ، توفیق اور دنیا کا سازو سامان لکھ دیا گیا ہے ، اور جن کے لیے آخرت کا اجر ، کامیابی اور نجات لکھ دی گئی ہے اور سب سے بڑھ کر ان کے رب نے ان سے راضی ہونے کا اعلان کردیا ہے اور ان کے لیے اللہ نے اس جہان اور اس جہاں کی فلاح لکھ دی ہے اور وہ کچھ لکھ دیا ہے جس کے بارے میں انسانوں کو عہم ہی نہیں ہے۔

یہ کون لوگ ہیں جو جنت کے وارث ہونے والے ہیں اور جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے ۔ یہ لوگ ہو ہیں جن کے بارے میں سیام کلام یہ تفصیلات دیتا ہے۔

O جو اپنی نمازوں میں خشوع اختیار کرتے ہیں۔

O جو لغویات سے دور رہتے ہیں۔

O جو زکوٰۃ کے طریقے پر عامل رہتے ہیں۔

O جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں سوائے اپنی بیویوں کے اور ان عورتوں کے جو ان کے ملک یمین میں ہوں۔

O جو اپنی امانتوں اور عہد و یمان کا پاس رکھتے ہیں ۔

جو اپنی نمازوں کی محافظت کرتے ہیں۔

اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ ان صفات کی قدرو قیمت کیا ہے ؟

یہ صفات ایک مسلمان کی شخصیت کے مختلف رنگ ہیں ۔ ان کے ساتھ ایک مسلم انسانیت کے افق پر تمام انسانوں کے مقابلے میں بلند نظر آنا ہے۔ وہ افق کا معیار حضرت محمد ﷺ نے متعین فرمایا ہے ، کیونکہ آپ تمام مخلوقات سے بر تر اخلاق کے مالک تھے۔ آپ کی تربیت اللہ نے فرمائی تھی اور بہترین تربیت فرمائی تھی اور اس امر کی شہادت اپنی کتاب میں دی۔

وانک لعلی خلق عظیم ــ” اے محمد ؐ آپ خلق عظیم کے مالک ہیں “ ۔ حضرت عائشہ ؓ سے جب آپ کے اخلاق کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا

کان خلقہ القران ” آپ کا اخلاق قرآن تھا “۔ اور اس کے بعد حضرت عائشہ ؓ نے سورة المومنون کی یہ آیات (11) تلاوت فرمائیں اور فرمایا ایسے تھے رسول اللہ ﷺ ۔

الذین ھم فی صلاتھم خشعون (23 : 2) ” وہ جو اپنی نمازوں میں خشوع اختیار کرتے ہیں “۔

جب وہ نماز پڑھتے ہیں تو ان کے دلوں میں یہ خوف بیٹھا ہوتا ہے کہ وہ رب ذوالجلال کے سامنے کھڑے ہیں ، نہایت سکون اور نہیات ہی دھیمے پن کے ساتھ ۔ ان کی حرکات ، ان کے انداز قیام ، ان کے انداز سجود سے خوف خدا اور خشوعیاں ہوتا ہے ان کی روح اللہ کی عظمت اور جلال سے بھری ہوئی ہے۔ اس لیے ان کے ذہن سے تمام دوسرے مشاغل غائب ہوجاتے ہیں اور اللہ کے ہاں حضوری کے سوا تمام تصورات اوجھل ہوجاتے ہیں ۔ ان کے پر دئہ احساس سے ان کا پورا ماحول اور ان کے تمام دوسرے حالات اور تعلقات ان کے جسم و خیال سے محو ہوجاتے ہیں ۔ وہ صرف اللہ کا احساس رکھتے ہیں اور صرف ذلت باری کی معرفت کو محسوس کررہے ہوتے ہیں۔ ان لوگوں کا وجد ان تمام کثافتوں سے پاک ہوتا ہے۔ وہ تمام دنیاوی روابط کو کچھ دیر کے لیے جھٹک دیتے ہیں غرض نماز کے وقت اللہ کے جلال کے سوا ان کی نظروں میں کچھ بھی نہیں ہوتا۔ یوں تو حقیر زدہ اپنے حقیقی مصدر سے مل جاتا ہے۔ ایک حیران روح کو طاقت پر وز مل جاتی ہے۔ ایک پریشان دل کو جائے قرار مل جاتی ہے۔ اس مقام پر تمام چیزیں ، تمام دنیاوی قدریں اور تمام افراد اشخاص نظروں سے گر جاتے ہیں اور ان چیزوں کا وہی پہلو نظروں میں ہوتا ہے جس کا تعلق اللہ سے ہو۔

والذین ھم عن الغو معرضون (23 : 3) ” جو لغویات سے دور رہتے ہیں “۔ ایسی باتون سے ادور رہتے ہیں جو لغو ہوں۔ ایسے افعال سے دور رہتے ہیں جو لغو ہو ، ایسی ترجیحات سے دور رہتے ہیں جو لغو ہوں ، ایسے خیالات سے دور رہتے ہیں جو لغو ہوں۔ ایک مومن کے دل کی وہ چیز ہوتی ہے جو اسے لہو و لعب اور لغو ہوں سے دور رکھتی ہے۔ یعنی وہ ذکر الہی میں مشغول رہتا ہے ۔ اللہ کی جلالت قدر کے بارے میں سوچنا رہتا ہے ۔ وہ نفس انسانی اور آفاق کائنات میں موجود آیات کے تدبر میں مصروف رہتا ہے۔ اس کائنات کے مناظر میں سے ہر منظر اس کے دماغ کو مصروف رکھے ہوئے ہوتا ہے۔ اس کی فکر ہر وقت ان مناظر میں غور کرتی رہتی ہے اور اس کا وجدان ہر وقت متحرک رہتا ہے۔ ہر وقت اپنے قلب و نظر کی تطمیر میں لگا رہتا ہے ، تزکیہ نفس کرتا رہتا ہے اور ضمیر کو پاک کرتا رہتا ہے۔ نیز ایک مومن نے اپنے طرز عمل میں جو تبدیلی لانی ہوتی ہے وہ رات اور دن اسی میں مصروف رہتا ہے۔ پھر ایمان کی راہ میں اسے جو مشکلات پیش آتی ہیں وہ ان کے دور کرنے میں مصروف رہتا ہے۔ امر بالمعروف اور نہی المنکرکے فرائض کی ادائیگی اسے کرنی ہوتی ہے۔ پھر اس نے اپنی جماعت کی صف بندی بھی کرنی ہوتی ہے اور اسے فتنہ فساد سے بچانا ہوتا ہے ۔ ایک مسلم کو جہاد فی سبیل اللہ کے ذریعہ اسلامی سوسائٹی کی نصرت اور حمایت کرنی ہوتی ہے اور اسلامی سو سائٹی کے مخالفین اور معاندین سے اسے بچانا ہوتا ہے ۔ یہ وہ فرائض ہیں جو ایک مسلمان کے لیے ہر حال میں واجب الاداء ہیں۔ یہ تمام کام فرض عین ہیں یا فرض کفایہ ہیں یہ وہ فرائض ہیں کہ اگر ان کو صحیح طرح سے انجام دیا جائے تو انسان کی پوری زندگی سعی و جہد کے لیے یہ کام کفایت کرتے ہیں کیونکہ انسان کی عمر محدود ہے اور اس کی طاقت بھی محدود ہے۔ اس طاقت کو کوئی شخص یا تو مذکورہ بالا کاموں میں صرف کرکے انسانی نشونما ، ترقی اور اصلاح میں کھپائے گا یا اس محدود قوت کو لہو و لعب من اور فضولیات میں خرچ کے گا۔ یاد رہے کہ یہ تما فرائض اور شریعت کی تمام ہدایات کسی مسلمان کو وقتا فوقتا جائز تفریح سے نہیں روکتے۔ کیونکہ جائز تفریح اور لہو و لعب اور زندگی کو بالکل بےمعنی بنانے کے درمیان بہت فرق ہے۔

والذین ھم للزکوۃ فعلون (23 : 3) ” وہ لوگ جو زکواۃ کے طریقے پر عمل پیرا رہتے ہیں “۔ اللہ کی طرف متوجہ ہونے اور لہو و لعب اور بےمعنی زندگی سے دور ہونے کے بعد زکواۃ پر عمل پیرا ہوتے ہیں ۔ زکواۃ انسانی دل اور انسانی دولت دونوں کے لیے پاکیزگی کا باعث ہوتی ہے۔ اس کے ذریعے انسان کا دل کنجوسی سے پاک ہوتا ہے اور انسان ذاتی مفاد کو قربان کردیتا ہے اور شیطان کی اس وسوسہ اندازی کا بھی مقابلہ کرتا ہے کہ تم غریب ہو جائو گے نیز زکواۃ کی وجہ سے سوسائٹی کا یہ روگ بھی دور ہوجاتا ہے کہ اس میں کچھ لوگ تو مالدار ہوں اور کچھ ایسے ہوں جن کے پاس کچھ نہ ہو۔ گویا یہ ایک لحاظ سے سوشل سکیورٹی کا ایک نظام ہے اور غریبوں کے لیے اجتماعی کفالت کا ذریعہ۔ اس کے ذریعہ ۔ اس کے ذریعے تمام لوگوں اور پوری سو سائٹی کے درمیان امن وا طمینان اور اتحاد و اتفاق کا سامان کیا جاسکتا ہے اور طبقاتی کشمکش کو دور کیا جاسکتا ہے۔

والذین ھم لفروجھم حفظون (23 : 5) ” وہ لوگ جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں “۔ یہ روح کی پاکیزگی ہے ، یہ ایک خاندان کی پاکیزگی ہے ۔ اور پھر پوری سوسائٹی طہارت ہے۔ اس کے ذریعے ایک نفس ، ایک خاندان اور ایک معاشرے کو گندگی سے بچانا مقصود ہے ا۔ انسانی کی شرمگاہ کو غیر حلال اور ناجائز مباشرت سے محفوظ رکھا جاتا ہے ۔ انسانی دل حرام کاری سے محفوظ رہتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے جنسی تسکین کے لیے ایک سخت ضابطہ تجویز کیا ہے۔

واقعہ یہ ہے کہ جن سو سائیٹیوں میں آزاد شہوت رانی کا رواج ہوتا ہے ان کا نظام ڈھیلا پڑجاتا ہے اور ایسی سو سائٹیاں فساد کا شکار ہوجاتی ہیں۔ کسی بھی ایسی سوسائٹی میں خاندانی نظام میں خلل واقع ہوجاتا ہے اور خاندان کا کوئی احترام نہیں رہتا۔

جبکہ فیملی کسی بھی سو سائٹی کے لیے پہلی وحدت اور پہلا یونٹ ہوتی ہے کیونکہ یہ وہ نرسری ہوتی ہے جس میں انسانی پود پروان چرھتی ہے اور درجہ بدرجہ برھتی ہے۔ لہذا خاندان ان کے ماحول میں امن و سکون اور پاکیزگی کا دور دورہ ہونا بھی ضروری ہے تاکہ یہ نرسری تدریج کے ساتھ نشو نما پائے اور والدین ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے نئی انسانی پود کی پرورش کریں۔ خصوصاً نہایت ہی چھوٹے بچوں کی پرورش اور خاندانی نظام کے بغیر یہ ممکن نہیں ہے۔

پھر جس سوسائٹی کے اندر آزاد شہوت رانی بےحد و حساب اور بےباک روک ٹوک ہو وہ ایک گندی اور غلیظ سوسائٹی ہوتی ہے ۔ اس کے افراد گرے ہوئے اور بےہمت ہوتے ہیں کیونکہ وہ معیار جس میں انسانی ترقی میں کوئی غلطی نہیں ہوتییہ ہے کہ انسان کی قوت ارادی اس کے تمام امور اور تمام میلانات پر حاوی ہو۔ انسان کے تمام فطری تقاضے اس طرح منظم ہوں کہ وہ پاک و صاف ہوں اور اس سوسائٹی کے اندر انسانی پود کی جو نرسری تشکیل پائے وہ شرمندہ طریقوں کے مطابق نہ ۔ اور بچے اس دنیا میں ایسے پاک طریقے کے مطابق آئیں کہ ہر بچے کو اپنا باپ معلوم ہو ۔ اور یہ نہ ہو کہ اس میں ایک مادہ حیوان کسی بھی نر حیوان سے نطفہ لے اور اس کے بعد پیدا ہونے والے حیوان کو یہ معلوم نہ ہو کہ وہ کہاں سے آیا ہے اور کس طرح آیا ہے اور کون اسے لایا ہے۔

یہاں قرآن کریم متعین طور پر بتا دیتا ہے کہ انہوں نے اس نرسری کے لیے بیج کس طرح بونا ہے اور زندگی کی یہ تخم ریزی کہاں کرنی ہے۔

الل علی ازواجھم او ماملکت ایمانھم غیر ملومین (23 : 2) ” سوائے اپنی بیویوں کے اور ان عورتوں کے جو ان کے ملک یمین میں ہو۔ جہاں تک بیویوں کا تعلق ہے اس کی تشریح کی ضرورت نہیں ہے “۔ اور نہ اس میں کوئی قیل و قال ہے ۔ یہ تو ایک معروف اور قانونی نظام ہے لیکن ملک یمین کے مسئلے کی تشریح ضروری ہے ۔ غلامی کے مسئلے پر ہم القران کی جلد دوئم میں منصل بحث کر آئے ہیں جس میں یہ کہا گیا تھا کہ جب اسلامی نظام آیا تو غلامی ایک عالمی نظام کے طور پر رائج تھی۔ اسی طرح جنگی قیدیوں کو غلام بنانا بھی ایک عالمی مسئلہ تھا۔ اسلام اور کفر کی کشمکش میں دشمنان اسلام پوری مادی قوت لے کر میدان میں اترے ہوئے تھے ، اس لیے اسلام کے لیے یہ ممکن نہ تھا کہ وہ اس نظام کو یکطرفہ طور پر ختم کردے اور صورت حال یہ ہوجائے کہ مسلمان تو قیدی بن کر کفار کے غلام بن جائیں اور کفار قیدی ہو کر آئیں تو وہ اس قانون کی رو سے آزاد ہوجائیں ۔ اسلام نظام نے بامر مجبوری جنگی قیدیوں کی غلامی کا قانون تو بحال رکھا جبکہ غلامی کے دوسرے سرچشمے بند کردیئے ۔ اور یہ بھی اس وقت تک کہ قانون بین الاقوام مین غلامی کے خلاف کوئی قانون پاس نہیں ہوتا۔

چناچہ اس قانون کے مطابق اسلامی کیمپ میں بعض قیدی عورتیں آجاتی تھیں جو غلام ہوتی تھیں اور اس غلامی کی وجہ سے ان کا درجہ ایک آزاد منکوحہ عورت کے نہیں ہوتا تھا لیکن اسلام نے ان کے ساتھ مباشرت کی اجازت صرف اس شخص کو دے دی جو ان کا مالک ہوتا۔ یہاں تک کہ ان کو ان طریقوں کے مطابق آزادی مل جائے جو اسلام نے غلاموں کی آزادی کے لیے وضع کیے اور یہ طریقے متعدد تھے۔

اسلام نے ملک یمین میں مباشرت کی جو آزادی دی ہے اس میں خود اسیر عورتوں کی فطری ضروریات کو بھی ملحوظ رکھا گیا ہے تاکہ یہ نہ ہو کہ قیدی عورتیں اسلامی معاشرے میں آزاد شہوت رانی کرتی پھریں۔ جس طر آج ہمارے دور میں جنگی قیدی عورتوں کے ساتھ ہوتا ہے ۔ خصوصاً اس دور کے بعد جبکہ جنگی قیدیوں کو غلام نہ بنانے کا بین الاقوامی معاہدہ ہوگیا۔ اسلام نے یہ قانون اسلیے جاری رکھا ہے کہ اسلام آزاد شہوت رانی اور جنسی بےراہ روی کے خلاف ہے۔ یہ ایک عارضی نظام تھا اور اس وقت تک کے لیے تھا جب تک اللہ کی طرف سے ان کی آزادی کا انتظام نہیں کردیا جاتا ۔ اور یہ غلام عورتیں آزادی کے مقام تک نہیں پہنچ جائیں۔ اسلام نے ایسے قوانین بنائے کے کوئی غلام عورت بہت سے ذرائع استعمال کرکے آزادی حاصل کرسکتی ہے ۔ مثلا اگر اس سے مالک سے اس کا لڑکا یا لڑکی پیدا ہوجائے اور یہ مالک فوت ہوجائے تو غلام عورت آزاد ہوجائے گی یا یہ مالک خود اسے آزاد کردیگا یا کسی کفارہ میں وہ آزاد ہوجائے۔ نیز مکاتبت کے ذریعے بھی غلام عورت آزاد ہوسکتی ہے ۔ مکاتبت وہ تحریری معاہدہ وہوتا ہے جس میں ایک غلام اپنی آزادی کے لیے اپنے مالک کے ساتھ معاہدہ کرتا ہے ۔ (مزید تفصیلات کے لیے ملاحظہ فرمائیے میری کتاب شبہات حول الاسلام)

بہر حال غلامی ایک عارضی جنگی ضرورت تھی اور یہ اس طرح تھی کہ بین الاقوامی سطح پر جنگی قوانین مشل بالمشل ہوتے ہیں۔ یعنی جس طرح دشمن قوم جنگی قیدیوں سے سلوک کرے گی ، اسلام بھی ویسا ہی سلوک کرے گا۔ غرض آزاد لوگوں کو غلام بنانا اسلامی نظام کا کوئی مستقل اصول نہ تھا کیونکہ یہ ایک بین الاقوامی ضرورت تھی۔

فمن ابتغی ورآء ذلک فا ولئک ھم العدون (23 : 7) ” البتہ جو اس کے علاوہ کچھ اور چاہیں وہی زیادتی کرنے والے ہیں “۔ یعنی جو شخص اپنی منکوحہ بیویوں اور مملوکہ لونڈیوں کے علاوہ دوسرے کسی طریقے سے بھی شہوت رانی کرے گا وہ جائز دائرہ سے تجاوز کرنے والا ہوگا۔ وہ حرام میں پڑجائے گا۔ تعدی یوں ہوگی کہ نکاح اور جہاد کے بغیر وہ دوسرے طریقے سے شہوت رانی کر رہاے ہے۔ یو اس کا ضمیر بھی اسے ملامت کرے گا کیونکہ وہ ایک ایسی چراگاہ میں چر رہا ہے جو اس کے لیے جائز نہیں ہے۔ پھر اس حرام کاری کے نتیجے مین جو نر سری ہوگی وہ بھی شتر بےمہار ہوگی اور اس کی وجہ سے پوری سوسائٹی فساد کا شکار ہوگی۔ اس سو سائٹی کے بھیڑئے آزاد ہوجائیں گے اور جہاں سے چاہیں گے گوشت نچ لیں گے۔ یہ تمام ایسی صورتیں ہیں جنہیں اسلام ناپسند کرتا ہے۔

وا ؛ ذہم لل منتھم عھد رعون (23 : 8) ” جو اپنی امانتوں اور عہد ویمان کا خیال رکھتے ہیں “۔ یعنی انفرادی طور پر بھی وہ اپنے عہد و یمان کے محافظ ہوتے ہیں اور اجتماعی طور پر بھی اور بین الاقوامی سطح پر بھی وہ عہد ویمان کی حفاظت کرنے والے ہوتے ہیں۔

امانتوں میں وہ تمام ذمہ داریاں آتی ہیں جو کسی فرد یا جماعت کے ذمہ لازم ہوتی ہیں۔ پہلی امانت تو فطرت انسانی ہے۔ فطرت انسانی کو اللہ نے نہایت ہی سیدھا بنایا ہے اور فطرت انسانی ناموس کائنات کے ساتھ بھی ہم آہنگ ہے ۔ اور یہ دونوں پھر اللہ کی وحدانیت اور اس کی تخلیق پر شاہد عادل ہیں کیونکہ اس پوری کائنات میں ایک ہی قانون قدرت کام کر رہا ہے جس میں خود ذلت انسانی بھی شامل ہے اور یہ وحدت ناموس فطرت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اس کائنات کے پیچھے ایک ہی ارادہ مدبرہ کام کررہا ہے۔ اہل ایمان کا یہ فریضہ قرار دیا گیا ہے کہ وہ کائنات کی اس فطرت کو تبدیل نہ ہونے دیں۔ کیونکہ یہ ان کہ پاس اللہ تعالیٰ کی امانت ہے اور ذلت باری پر یہ شاہد عادل بھی ہے اور اسکے بعد پھر تمام دوسری امانتوں کا یہی حکم ہے۔

عہد کی رعایت کا مطلب بھی یہ ہے کہ سب سے پہلے اس عہد کی رعایت کی جائے جو از روئے فطرت انسان پر عائد ہے۔ انسان کا یہ فریضہ ہے کہ وہ اللہ وحدہ کو ازروئے فطرت پہچانے کہ وہ موجود ہے اور واحد ہے پھر اس عہد کے بعد تمام عہدو یمان آتے ہیں۔ ان عقود کی رعایت کرتے ہیں۔ گویا یہ اہل ایمان کی صفت دائمہ اور قائمہ ہے اور کسی بھی سو سائٹی کا نظم و نسق اس وقت تک درست نہیں ہو سکتا جب تک اس کے افراد میں استقامت نہ اختیار کریں۔ اپنے عہد ویمان کا خیال نہ رکھیں اور اس مشترکہ نظام زندگی پر اس سوسائٹی کے تمام افراد مطمئن نہ ہوجائیں تاکہ تمام لوگوں کو امن و اطمینان حاصل ہو اور وہ اعتماد سے زندگی بسر کریں۔

والذین ھم علی صلوتھم یحافظون (23 : 9) ” جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں “۔ وہ اپنی نماز ہرگز قضا نہیں کرتے نہ وہ انہیں ضائع کرتے ہیں۔ اسی طرح وہ اپنی نمازوں کی کیفیت میں کمی نہیں کرے۔ وہ ان نمازوں کے فرائض سنن اور مستحبات کو پوری طرح ادا کرتے ہیں ۔ پورے ارکان اور آداب کے ساتھ نمازیں پڑھتے ہیں۔ ان کی نمازیں زندہ نمازیں ہوتی ہیں۔ اور پوری توجہ سے وہ ان میں غرق ہوتے ہیں ، ان کی روح اور ان کا وجدان نمازوں سے اچھا اثر لیتا ہے۔ نماز دراصل بندے اور رب کے درمیاں ایک رابطہ ہوتی ہے ۔ جو شخص نماز کی حفاظت نہیں کرتا وہ درحقیقت اپنے اور اپنے رب کے درمیاں اس رابطے کو کاٹ دیتا ہے۔ اور ایسا شخص پھر دو سرے بنی نوع انسان کے ساتھ بھی اچھے روابط نہیں رکھتا۔ بیان صفات اہل ایمان کا آغاز بھی نماز کے ذکر سے ہوا اور اختتام بھی نماز کے ذکر سے ہوا۔ مقصد یہ بتلانا ہے کہ اسلام اور ایمان کے بعد نماز سب سے اہم فریضہ ہے۔ یہاں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ نماز کو اپنی پوری صفات کے ساتھ ادا کیا جائے اور اس میں اپنی پوری توجہ اللہ کی طرف مبذول کردی جائے کہ اسلام میں اول بھی نماز اور آخر بھی نماز ہے۔

یہ ان اہل ایمان کی صفات ہیں جن کے لیے اللہ نے فلاح لکھ دی ہے ۔ یہ وہ خصوصیات ہیں جو یہ طے کرتی ہیں کہ اہل ایمان کی زندگی کے خدوخال کیا ہوتے ہیں اور اہل ایمان کو کیسی زندگی بسر کرنا چاہئے۔ یعنی ایسی زندگی جو ایک ایسے انسان کے ساتھ لائق ہے جسے پوری مخلوق پر کرامت اور شرف عطا کیا گیا ہے۔ نہ زندگی سے اس طرح لطف اندوز ہو کہ وہ اپنی زندگی کو مزید ترقی دے اور محض حیوانات کی طرح زندگی بسر کرے۔ نہ زندگی سے اس طرح لطف اندوز ہو جس طرح حیوانات ہوتے ہیں اور نہ اس طرح کھاتا پیتا ہو جس طرح حیوانات کھاتے پیتے ہیں۔

لیکن دنیا کی اس ہم گیر ترقی کے باوجود وہ ترقی اور کمال اس دنیا میں حاصل نہیں کیا جاسکتا جو اہل ایمان کے لائق ہے اس لیے اللہ نے انسان کو راہ ترقی اور کمال اس دنیا میں حاصل نہیں کیا جاسکتا جو اہل ایمان کے لائق ہے اس لیے اللہ نے انسان کو راہ ترقی پر مزید آگے بڑھاتے ہوئے ، کمال اور ترقی کے اعلیٰ ترین مدارج تک یعنی جنت الفردوس میں پہنچایا۔ ترقی و کمال کے ان اعلیٰ مدارج پر ، پھر اہل ایمان ہمیشہ فائز رہیں گے۔ یہاں ان کے لیے کوئی خوف و خطر نہ ہوگا اور وہاں وہ بلا زوہل قرار و سکون رہیں گے۔

اولئک ھم الورثون (10) الذین یرثون الفردوس ھم فیھا خلدون

” یہی وہ لوگ وہ وارث ہیں جو میراث میں فردوس پائیں گے اور اس میں ہمیشہ رہیں گے “۔ یہ وہ آخری مطلوب ہے جو اہل ایمان کے لیے لکھا گیا ہے ۔ اس کے سوا ایک مومن کا کوئی نصب العین نہیں ہے اور نہ اس کے حصول کے بعد اس کا کوئی اور نصب العین رہتا ہے جس کی وہ آرزو کرے۔

اہل ایمان کی صفات میں سے ایک اہم صفت یہ ہے کہ وہ خود اپنے نفوس کے اندر پائے جانے والے دلائل ایمان پر غور کریں۔ سب سے پہلے وہ ذرا اپنے وجود اور اس کی نشو نما کی حقیقت پر غور کریں کہ اس کی شخصیت کا آغاز کس چھوٹے سے چرثومے سے ہوا اور پھر بعث بعد الموت اور آخرت کی زندگی کا حال کیا ہوگا۔ ان دونوں زندگیوں کی دنیاوی اور اخروی کیفیت کے درمیان تعلق کی نوعیت کیا ہے ؟

آیت 1 قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ ”اس آیت کا یہ ترجمہ شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی کا ہے۔ مگر خود حضرت شیخ الہند رح کا کہنا ہے کہ انہوں نے ”موضح القرآن“ میں شاہ عبدالقاد ردہلوی کا ترجمہ ہی اختیار کیا ہے اور اس میں کہیں کہیں زبان کی تبدیلیوں کے علاوہ کوئی اور تبدیلی نہیں کی۔ گویا بنیادی طور پر یہ ترجمہ شاہ عبدالقادر دہلوی رح کا ہے اور میرے نزدیک لفظ فلح کی اصل روح کے قریب ترین ہے۔ ”فَلَاح“ کا ترجمہ بالعموم ”کامیابی“ سے کیا جاتا ہے ‘ لیکن اس کے مفہوم کو درست انداز میں سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ لفظ ”فلاح“ کے حقیقی اور لغوی معنی کو اچھی طرح ذہن نشین کرلیا جائے۔ اس مادہ کے لغوی معنی ہیں : ”پھاڑنا“۔ اسی معنی میں کسان کو عربی میں ”فلّاح“ کہا جاتا ہے ‘ اس لیے کہ وہ اپنے ہل کی نوک سے زمین کو پھاڑتا ہے۔ عربی کی ایک کہاوت ہے : اِنَّ الحَدِید بالحَدِید یفلَحُ یعنی لوہا لوہے کو کاٹتا ہے۔ اس طرح فَلَح کا مفہوم گویا فلقَ کے قریب تر ہے۔ سورة الانعام کی آیت 95 میں لفظ ”فلق“ اسی مفہوم میں آیا ہے : اِنَّ اللّٰہَ فَالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوٰی ط ”یقیناً اللہ تعالیٰ گٹھلیوں اور بیجوں کو پھاڑنے والا ہے“۔ اس سے اگلی آیت میں یہی لفظ اللہ تعالیٰ کے لیے نمود صبح کے حوالے سے اس طرح استعمال ہوا ہے : فَالِقُ الْاِصْبَاحِ ج یعنی وہ تاریکی کا پردہ چاک کر کے صبح کو نمودار کرنے والا ہے۔ چونکہ فلح اور فلق دونوں قریب المعنی الفاظ ہیں اور دونوں کے معنی پھاڑنا ہے اس لیے آیت زیر نظر میں فلح کا مفہوم سمجھنے کے لیے فٰلِقُ الْحَبِّ وَالنَّوٰی کے حوالے سے گٹھلی کے پھٹنے اور اس کے اندر سے کو نپلیں برآمد ہونے کے عمل کو ذہن میں رکھیں۔ جس طرح گٹھلی کے اندر پورا پودا بالقوہّ potentially موجود ہے ‘ اسی طرح انسان کے اندر بھی اس کی انا یا روح اپنی تمام تر خصوصیات کے ساتھ موجود ہے۔ اور جس طرح گٹھلی کے پھٹنے فلق سے دو کو نپلیں برآمد ہوتی ہیں اور پھر ان سے پورا درخت بنتا ہے اسی طرح جب انسانی وجود کے اندر موجود مادیت کے پردے چاک فلح ہوتے ہیں تو اس کی انا یا روح بےنقاب ہوتی ہے اور اس کی نشوونما سے اس کی معنوی شخصیت ترقی پاتی ہے۔ انسان کی اسی انا یا روح کو اقبال نے خودی کا نام دیا ہے اور اس کو اجاگر develop کرنے کے تصور پر اپنے فلسفے کی بنیاد رکھی ہے۔ ڈاکٹر رفیع الدین مرحوم نے خصوصی طور پر آئیڈیل یا آدرش کے فلسفہ کے حوالے سے اس ضمن میں گزشتہ صفحات میں سورة الحج کی آیت 73 کی تشریح بھی مدنظر رہے اپنی معرکۃ الآراء کتاب The Idealogy of the Future میں اقبال کے فلسفہ خودی کی بہترین تعبیر کی ‘ ہے۔انسان بظاہر ایک مادی وجود کا نام ہے۔ اس وجود میں ہڈیاں ہیں ‘ گوشت ہے اور دیگر اعضاء ہیں۔ لیکن اس مادی وجود کے اندر اس کی انا اور روح بھی ہے جو اس کی اصل شخصیت ہے۔ انسان کہتا ہے میرا ہاتھ ‘ میرا پاؤں ‘ میری آنکھ ‘ میری ٹانگ ‘ میرا سر ‘ میرا جسم ! لیکن اس ”میرا“ اور ”میری“ کی تکرار میں ”میں“ کہاں ہے اور کون ہے ؟ یہ ”میں“ دراصل انسان کی انایا روح ہے۔ یعنی انسان کو حیوانوں کے مقابلے میں صرف عقل و شعور کی دولت سے ہی نہیں نوازا گیا بلکہ اسے روح ربانی کی نورانیت بھی عطا کی گئی ہے۔ بقول علامہ اقبال ؂دم چیست ؟ پیام است ! شنیدی نشنیدی ؟در خاک تو یک جلوۂ عام است ندیدی ؟دیدن دگر آموز ! شنیدن دگر آموز ! !انسانی جسم کے اندر اس کی روح مادی غلافوں میں لپٹی ہوئی ہے۔ گویا یہ ایک مخفی خزانہ ہے جسے کھود کر نکالنے کی ضرورت ہے۔ اگر اس خزانے کو کام میں لانا ہے تو ”فلّاحی“ کے عمل سے مادیت کے پردوں کو چاک کرنا ہوگا اور آیت زیر نظر میں قَدْ اَفْلَحَ کے الفاظ اسی مفہوم میں آئے ہیں کہ مؤمنین صادقین نے اپنی روحوں پر پڑے ہوئے مادیت کے پردوں کو چاک کر کے اصل خزانے یعنی روح کو بےنقاب کرنے اور اس کی نشوونما develop کرنے کا مشکل کام کر دکھایا ہے۔ جبکہ عام انسان کی تمام تر توجہ اپنے حیوانی وجود پر ہی مرکوز رہتی ہے۔ نہ وہ اپنی روح کی خبر لیتا ہے اور نہ ہی اس کی غذا اور نشوونما کا اہتمام کرتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسے انسان کی روح سسک سسک کر مرجاتی ہے اور اس کا جسم اس کی روح کا مقبرہ بن جاتا ہے۔ بظاہر ایسے شخص کا شمار زندہ انسانوں میں ہوتا ہے لیکن حقیقت میں وہ مردہ ہوتا ہے۔ مثلاً ابوجہل زندہ ہوتے ہوئے بھی مردہ تھا۔ وہ اندھا اور بہرا تھا ‘ اسی لیے نہ تو وہ محمد رسول اللہ ﷺ کو پہچان سکا اور نہ آپ ﷺ کی دعوت کو سن سکا۔ اس کے برعکس ایک بندۂ مؤمن ہے جو حقیقت میں زندہ ہے ‘ اس لیے کہ اس کی روح زندہ ہے۔ جیسے کہ سورة النحل کی آیت 97 میں ارشاد ہوا : فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً ج ”تو ہم ضرور اسے عطا کریں گے ایک پاکیزہ زندگی“۔ چناچہ جو شخص بھی اپنی خودی کے ارتقاء development of self اور اپنے کردار کی تعمیر development of character کا مشکل کارنامہ سرانجام دے پائے گا وہی حقیقت میں کامیاب قرار پائے گا اور وہی آیت زیر مطالعہ کے حوالے سے قَدْ اَفْلَحَ کا مصداق ٹھہرے گا۔ اور یہ کامیابی ہر انسان کی پہنچ میں ہے ‘ کیونکہ روح کی دولت تو ہر انسان کو عطا ہوئی ہے۔ ہندی شاعر بھیکؔ کے بقول : ع ”بھیکاؔ بھوکا کوئی نہیں ‘ سب کی گدڑی لال !“ یعنی بھوکا یا نادار کوئی بھی نہیں ہے ‘ ہر انسان کی گٹھڑی میں لعل موجود ہے ‘ بس اس گٹھڑی کی گرہ کھول کر اس ”لعل“ یا دولت کو دریافت کرنے اور اسے کام میں لانے کا فن اسے آنا چاہیے۔ یہی نکتہ اس خوبصورت فارسی شعر میں ایک دوسرے انداز میں پیش کیا گیا ہے : ؂ ستم است گر ہو ست کشد کہ بہ سیرسرو وسمن درآ تو زغنچہ کم نہ دمیدۂ درِدل کشا بہ چمن در آ !یعنی تمہارے اندر بھی ایک مہکتا ہوا چمن موجود ہے ‘ تم اپنے دل کے دروازے سے داخل ہو کر اس چمن کی سیر سے لطف اندوز ہوسکتے ہو۔ اسی حقیقت کو قرآن حکیم میں اس طرح واضح کیا گیا ہے : وَفِیْٓ اَنْفُسِکُمْط اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ الذّٰرٰیت یعنی خود تمہارے اندرمعرفت کا سامان موجود ہے مگر تم لوگ اس سے غافل ہو۔ اپنشد کے ایک جملے کا انگریزی ترجمہ اس طرح ہے :" Man in his ignorance identifies himself with the material sheeths which encompass his real self."یعنی انسان اپنی جہالت کے باعث ان مادی غلافوں ہی کو اپنی ذات سمجھ بیٹھتا ہے جو اس کی ذات انا یا روح کے گرداگرد لپٹے ہوئے ہیں۔ اور یوں وہ نہ خود کو پہچان پاتا ہے اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کی معرفت اسے حاصل ہوتی ہے۔ چناچہ اللہ کی معرفت حاصل کرنے کے لیے اپنی ذات کی معرفت ضروری ہے ‘ جیسے کہ صوفیاء کا قول ہے : مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ ”جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا“۔ دوسرے لفظوں میں اس کا مفہوم یہ ہے کہ جو اپنی ”انا“ self سے غافل رہا وہ معرفت الٰہی سے بھی محروم رہا۔ یہی نکتہ ہے جو سورة الحشر کی آیت 19 میں اس طرح واضح فرمایا گیا ہے : وَلَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ نَسُوا اللّٰہَ فَاَنْسٰٹہُمْ اَنْفُسَہُمْ ط ”ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جنہوں نے اللہ کو بھلا دیا تو اللہ نے انہیں اپنے آپ سے غافل کردیا“۔ چناچہ لفظ فلحکا یہ مفہوم ذہن میں رکھ کر اس آیت کو پڑھیں تو بات واضح ہوجاتی ہے کہ اپنی شخصیت اور ذات کے مادی غلافوں کو پھاڑ کر اپنی معنوی شخصیت اور روح کو اجاگر کرنے اور اس کے ذریعے سے عرفان ذات اور پھر معرفتِ الٰہی تک پہنچنے جیسے مشکل مراحل ‘ اہل ایمان کامیابی سے طے کرلیتے ہیں۔ اور وہ کون سے اہل ایمان ہیں :

دس آیتیں اور جنت کی ضمانت نسائی، ترمذی اور مسند احمد میں مروی ہے کہ حضرت رسول ﷺ پر جب وحی اترتی تو ایک ایسی میٹھی میٹھی، بھینی بھینی، ہلکی ہلکی سی آواز آپ کے پاس سنی جاتی جیسے شہد کی مکھیوں کے اڑنے کی بھنبھناہٹ کی ہوتی ہے۔ ایک مرتبہ یہی حالت طاری ہوئی۔ تھوڑی دیر کے بعد جب وحی اترچکی تو آپ نے قبلہ کی طرف متوجہ ہو کر اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر یہ دعا پڑھی کہ اے اللہ تو ہمیں زیادہ کر، کم نہ کر، ہمارا اکرام کر، اہانت نہ کر، ہمیں انعام عطا فرما، محروم نہ رکھ، ہمیں دوسروں پر کے مقابلے میں فضیلت دے، ہم پر دوسروں کو پسند نہ فرما، ہم سے خوش ہوجا اور ہمیں خوش کر دے۔ عربی کے الفاظ یہ ہیں۔ دعا (الہم زدنا ولا تنقصنا واکرمنا ولاتہنا واعطنا ولاتحرمنا واثرنا ولاتوثر علینا وارض عنا وارضنا۔)پھر فرمایا مجھ پر دس آیتیں اتری ہیں، جو ان پر جم گیا وہ جنتی ہوگیا۔ پھر آپ نے مندرجہ بالا دس آیتیں تلاوت فرمائیں۔ امام ترمذی ؒ اس حدیث کو منکر بتاتے ہیں، کیونکہ اس کا راوی صرف یونس بن سلیم ہے جو محدثین کے نزدیک معروف نہیں۔ نسائی میں ہے حضرت عائشہ ؓ سے آنحضور ﷺ کے عادات و اخلاق کی بابت سوال ہوا تو آپ نے فرمایا حضور ﷺ کا خلق قرآن تھا، پھر ان آیتوں کی (یحافظون)۔ تک تلاوت فرمائی۔ اور فرمایا یہی حضرت ﷺ کے اخلاق تھے۔ مروی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے جنت عدن پیدا کی اور اس میں درخت وغیرہ اپنے ہاتھ سے لگائے تو اسے دیکھ کر فرمایا کچھ بول۔ اس نے یہی آیتیں تلاوت کیں جو قرآن میں نازل ہوئیں۔ ابو سعید ؓ فرماتے ہیں کہ اس کی ایک اینٹ سونے کی اور دوسری چاندی کی ہے۔ فرشتے اس میں جب داخل ہوئے، کہنے لگے واہ واہ یہ تو بادشاہوں کی جگہ ہے۔ اور روایت میں ہے اس کا گارہ مشک کا تھا۔ اور روایت میں ہے کہ اس میں وہ وہ چیزیں ہیں جو نہ کسی آنکھ نے دیکھیں، نہ کسی دل میں سمائیں۔ اور روایت میں ہے کہ جنت نے جب ان آیتوں کی تلاوت کی تو جناب باری نے فرمایا مجھے اپنی بزرگی اور جلال کی قسم تجھ میں بخیل ہرگز داخل نہیں ہوسکتا۔ اور حدیث میں ہے کہ اس کی ایک اینٹ سفید موتی کی ہے اور دوسری سرخ یاقوت کی اور تیسری سبز زبرجد کی۔ اس کا گارہ مشک کا ہے اس کی گھاس زعفران ہے۔ اس روایت کے آخر میں ہے کہ اس حدیث کو بیان فرما کر حضور ﷺ نے یہ آیت (وَمَنْ يُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ۚ) 59۔ الحشر :9) پڑھی الغرض فرمان ہے کہ مومن مراد کو پہنچ گئے، وہ سعادت پاگئے، انہوں نے نجات پالی۔ ان مومنوں کی شان یہ ہے کہ وہ اپنی نمازوں میں اللہ کا خوف رکھتے ہیں خشوع اور سکون کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں۔ دل حاضر رکھتے ہیں، نگاہیں نیچی ہوتی ہیں، بازو جھکے ہوئے ہوتے ہیں۔ محمد بن سیرین ؒ کا قول ہے کہ اصحاب رسول ﷺ اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے اپنی نگاہیں آسمان کی طرف اٹھاتے تھے۔ لیکن اس آیت کے نازل ہونے کے بعد ان کی نگاہیں نیچی ہوگئیں، سجدے کی جگہ سے اپنی نگاہ نہیں ہٹاتے تھے۔ اور یہ بھی مروی ہے کہ جائے نماز سے ادھر ادھر ان کی نظر نہیں جاتی تھی اگر کسی کو اس کے سوا عادت پڑگئی ہو تو اسے چاہے کہ اپنی نگاہیں نیچی کرلے۔ ایک مرسل حدیث میں ہے کہ حضور ﷺ بھی اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے ایسا کیا کرتے تھے پس یہ خضوع و خشوع اسی شخص کو حاصل ہوسکتا ہے، جس کا دل فارغ ہو، خلوص حاصل ہو اور نماز میں پوری دلچپسی ہو اور تمام کاموں سے زیادہ اسی میں دل لگتا ہو۔ چناچہ حدیث شریف میں ہے رسول ﷺ فرماتے ہیں مجھے خوشبو اور عورتیں زیادہ پسند ہیں اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھ دی گئی ہے (نسائی) ایک انصاری صحابی ؓ نے نماز کے وقت اپنی لونڈی سے کہا کہ پانی لاؤ، نماز پڑھ کر راحت حاصل کروں تو سننے والوں کو ان کی یہ بات گراں گزری۔ آپ نے فرمایا رسول ﷺ حضرت بلال ؓ سے فرماتے تھے۔ اے بلال اٹھو اور نماز کے ساتھ ہمیں راحت پہنچاؤ۔ مومنوں کے اوصاف پھر اور وصف بیان ہوا کہ وہ باطل، شرک، گناہ اور ہر ایک بیہودہ اور بےفائدہ قول وعمل سے بچتے ہیں۔ جیسے فرمان ہے آیت (وَاِذَا مَرُّوْا باللَّغْوِ مَرُّوْا كِرَامًا 72؀) 25۔ الفرقان :72) وہ لغو بات سے بزرگانہ گزر جاتے ہیں وہ برائی اور بےسود کاموں سے اللہ کی روک کی وجہ سے رک جاتے ہیں۔ اور انکا یہ وصف ہے کہ یہ مال کی زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔ اکثر مفسرین یہی فرماتے ہیں لیکن اس میں ایک بات یہ ہے کہ یہ آیت مکی ہے اور زکوٰۃ کی فرضیت ہجرت کے دوسرے سال میں ہوتی ہے پھر مکی آیت میں اسکا بیان کیسے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اصل زکوٰۃ تو مکہ میں واجب ہوچکی تھی ہاں اس کی مقدار، مال کا نصاب وغیرہ یہ سب احکام مدینے میں مقرر ہوئے۔ دیکھئے سورة انعام بھی مکی ہے اور اس میں یہی زکوٰۃ کا حکم موجود ہے آیت (وَاٰتُوْا حَقَّهٗ يَوْمَ حَصَادِهٖ ڮ وَلَا تُسْرِفُوْا01401ۙ) 6۔ الانعام :141) یعنی کھیتی کے کٹنے والے دن اس کی زکوٰ ۃ ادا کردیا کرو۔ ہاں یہ بھی معنی ہوسکتے ہیں کہ مراد زکوٰۃ سے یہاں نفس کو شرک وکفر کے میل کچیل سے پاک کرنا ہو۔ جیسے فرمان ہے آیت (قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا ۽) 91۔ الشمس :9) ، جس نے اپنے نفس کو پاک کرلیا اس نے فلاح پالی۔ اور جس نے اسے خراب کرلیا وہ نامراد ہوا۔ یہی ایک قول آیت (وَوَيْلٌ لِّـلْمُشْرِكِيْنَ ۙ) 41۔ فصلت :6) میں بھی ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آیت میں دونوں زکاتیں ایک ساتھ مراد لی جائیں۔ یعنی زکوٰۃ نفس بھی اور زکوٰۃ مال بھی۔ فی الواقع مومن کامل وہی ہے جو اپنے نفس کو بھی پاک رکھے اور اپنے مال کی بھی زکوٰۃ دے واللہ اعلم۔ پھر اور وصف بیان فرمایا کہ وہ سوائے اپنی بیویوں اور ملکیت کی لونڈیوں کے دوسری عورتوں سے اپنے نفس کو دور رکھتے ہیں۔ یعنی حرام کاری سے بچتے ہیں۔ زنا لواطت وغیرہ سے اپنے آپ کو بچاتے ہیں۔ ہاں ان کی بیویاں جو اللہ نے ان پر حلال کی ہیں اور جہاد میں ملی ہوئی لونڈیاں جو ان پر حلال ہیں۔ ان کے ساتھ ملنے میں ان پر کوئی ملامت اور حرج نہیں۔ جو شخص ان کے سوا دوسرے طریقوں سے یا کسی دوسرے سے خواہش پوری کرے وہ حد سے گزر جانے والا ہے۔ قتادہ ؒ فرماتے ہیں کہ ایک عورت نے اپنے غلام کو لے لیا اور اپنی سند میں یہی آیت پیش کی۔ جب حضرت عمر ؓ کو یہ معلوم ہوا تو آپ نے صحابہ کے سامنے اس معاملے کو پیش کیا۔ صحابہ نے فرمایا اس نے غلط معنی مراد لئے۔ اس پر فاروق اعظم ؓ نے اس غلام کا سر منڈوا کر جلاوطن کردیا اور اس عورت سے فرمایا اس کے بعد تو ہر مسلمان پر حرام ہے، لیکن یہ اثر منقطع ہے۔ اور ساتھ ہی غریب بھی ہے۔ امام ابن جریر نے اسے سورة مائدہ کی تفسیر کے شروع میں وارد کیا ہے لیکن اس کے وارد کرنے کی موزوں جگہ یہی تھی۔ اسے عام مسلمانوں پر حرام کرنے کی وجہ اس کے ارادے کے خلاف اسکے ساتھ معاملہ کرنا تھا واللہ اعلم۔ امام شافعی ؒ اور ان کے موافقین نے اس آیت سے استدلال کیا ہے اپنے ہاتھ سے اپنا خاص پانی نکال ڈالنا حرام ہے کیونکہ یہ بھی ان دونوں حلال صورتوں کے علاوہ ہے اور مشت زنی کرنے والا شخص بھی حد سے آگے گزرجانے والا ہے۔ امام حسن بن عرفہ نے اپنے مشہور جز میں ایک حدیث وارد کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں سات قسم کے لوگ ہیں جن کی طرف اللہ تعالیٰ نظر رحمت سے نہ دیکھے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا اور نہ انہیں عالموں کے ساتھ جمع کرے گا اور انہیں سب سے پہلے جہنم میں جانے والوں کے ساتھ جہنم میں داخل کرے گا یہ اور بات ہے کہ وہ توبہ کرلیں توبہ کرنے والوں پر اللہ تعالیٰ مہربانی سے رجوع فرماتا ہے ایک تو ہاتھ سے نکاح کرنے والا یعنی مشت زنی کرنے والا اور اغلام بازی کرنے اور کرانے والا۔ اور نشے باز شراب کا عادی اور اپنے ماں باپ کو مارنے پیٹنے والا یہاں تک کہ وہ چیخ پکار کرنے لگیں اور اپنے پڑوسیوں کو ایذاء پہنچانے والا یہاں تک کہ وہ اس پر لعنت بھیجنے لگے اور اپنی پڑوسن سے بدکاری کرنے والا۔ لیکن اس میں ایک راوی مجہول ہے۔ واللہ اعلم۔ اور وصف ہے کہ وہ اپنی امانتیں اور اپنے وعدے پورے کرتے ہیں امانت میں خیانت نہیں کرتے بلکہ امانت کی ادائیگی میں سبقت کرتے ہیں وعدے پورے کرتے ہیں اس کے خلاف عادتیں منافقوں کی ہوتی ہیں۔ رسول ﷺ فرماتے ہیں کہ منافق کی تین نشانیاں ہیں۔ 001 جب بات کرے، جھوٹ بولے 002 جب وعدہ کرے خلاف کرے 003 جب امانت دیا جائے خیانت کرے۔ پھر اور وصف بیان فرمایا کہ وہ نمازوں کی ان اوقات پر حفاظت کرتے ہیں۔ رسول کریم ﷺ سے سوال ہوا کہ سب سے زیادہ محبوب عمل اللہ کے نزدیک کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا نماز کو وقت پر ادا کرنا۔ پوچھا گیا پھر ؟ فرمایا ماں باپ سے حسن سلوک کرنا۔ پوچھا گیا پھر ؟ فرمایا اللہ کے راہ میں جہاد کرنا (بخاری ومسلم) حضرت قتادہ ؒ فرماتے ہیں وقت، رکوع، سجدہ وغیرہ کی حفاظت مراد ہے۔ ان آیات پر دوبارہ نظر ڈالو۔ شروع میں بھی نماز کا بیان ہوا اور آخر میں بھی نماز کا بیان ہوا۔ جس سے ثابت ہوا کہ نماز سب سے افضل ہے حدیث شریف میں ہے سیدھے سیدھے رہو اور تم ہرگز احاطہ نہ کرسکو گے۔ جان لو کہ تمہارے تمام اعمال میں بہترین عمل نماز ہے۔ دیکھو وضو کی حفاظت صرف مومن ہی کرسکتا ہے۔ ان سب صفات کو بیان فرما کر ارشاد ہوتا ہے کہ یہی لوگ وارث ہیں جو جنت الفردوس کے دائمی وارث ہونگے۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے اللہ سے جب مانگو جنت الفردوس مانگو، وہ سب سے اعلی اور اوسط جنت ہے۔ وہیں سے سب نہریں جاری ہوتی ہیں اسی کے اوپر اللہ تعالیٰ کا عرش ہے (بخاری ومسلم) فرماتے ہیں تم میں ہر ایک کی دو دو جگہیں ہیں۔ ایک منزل جنت میں ایک جہنم میں، جب کوئی دوزخ میں گیا تو اس کی منزل کے وارث جنتی بنتے ہیں۔ اسی کا بیان اس آیت میں ہے۔ مجاہد ؒ فرماتے ہیں جنتی تو اپنی جنت کی جگہ سنوار لیتا ہے اور جہنم کی جگہ ڈھا دیتا ہے۔ اور دوزخی اس کے خلاف کرتا ہے، کفار جو عبادت کے لئے پیدا کئے گئے تھے، انہوں نے عبادت ترک کردی تو ان کے لئے جو انعامات تھے وہ ان سے چھین کر سچے مومنوں کے حوالے کر دئیے گئے۔ اسی لئے انہیں وارث کہا گیا۔ صحیح مسلم میں ہے کچھ مسلمان پہاڑوں کے برابر گناہ لے کر آئیں گے، جنہیں اللہ تعالیٰ یہود و نصاری پر ڈال دے گا اور انہیں بخش دے گا۔ اور سند سے مروی ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو ایک ایک یہودی یا نصرانی دے گا کہ یہ تیرا فدیہ ہے، جہنم سے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ نے جب یہ حدیث سنی تو راوی حدیث ابو بردہ ؓ کو قسم دی انہوں نے تین مرتبہ قسم کھا کر حدیث کو دوہرا دیا۔ اسی جیسی آیت یہ بھی ہے (تِلْكَ الْجَــــنَّةُ الَّتِيْ نُوْرِثُ مِنْ عِبَادِنَا مَنْ كَانَ تَقِيًّا 63۔) 19۔ مریم :63) اسی جیسی آیت یہ بھی (وَتِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِيْٓ اُوْرِثْتُمُوْهَا بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ 72؀) 43۔ الزخرف :72) فردوس رومی زبان میں باغ کو کہتے ہیں بعض سلف کہتے کہ اس باغ کو جس میں انگور کی بیلیں ہوں۔ واللہ اعلم۔

آیت 1 - سورۃ المومنون: (قد أفلح المؤمنون...) - اردو