سورۃ الملک: آیت 2 - الذي خلق الموت والحياة ليبلوكم... - اردو

آیت 2 کی تفسیر, سورۃ الملک

ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلْمَوْتَ وَٱلْحَيَوٰةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ۚ وَهُوَ ٱلْعَزِيزُ ٱلْغَفُورُ

اردو ترجمہ

جس نے موت اور زندگی کو ایجاد کیا تاکہ تم لوگوں کو آزما کر دیکھے تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے، اور وہ زبردست بھی ہے اور درگزر فرمانے والا بھی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Allathee khalaqa almawta waalhayata liyabluwakum ayyukum ahsanu AAamalan wahuwa alAAazeezu alghafooru

آیت 2 کی تفسیر

یہ کہ وہ قادر مطلق ہے اور اپنی مملکت میں ہر قسم کے تصرفات کرتا ہے ، تو اس کے آثار قدرت اور نمونہ تصرفات ملاحظہ فرمائیں کہ اس نے موت وحیات کی تخلیق کی۔ موت میں وہ حالت بھی شامل ہے جو کسی زندہ چیز کو حیات دینے سے پہلے ہوتی ہے۔ اور وہ حالت بھی شامل ہے ، جو حیات واپس لینے کے بعد طاری ہوتی ہے۔ اور حیات میں بھی پہلی زندگی شامل ہے اور مرنے کے بعد اٹھائے جانے والی زندگی بھی شامل ہے۔ یہ سب حالات اللہ کی تخلیقات میں آتے ہیں۔ ذہن انسانی میں یہ حقیقت بٹھانے کا مقصد یہ ہے کہ اے انسان تجھے بےمقصد نہیں پیدا کیا گیا تو ایک ذمہ دار مخلوق ہے۔ یہ نہیں ہے کہ بس یونہی اتفاقاً تو آگیا ہے اور بس یونہی ایک دن مرکر مٹی ہوجائے گا۔ اور یہ کام اور یہ عظیم تخلیقی عمل بےمقصد نہیں ہے بلکہ یہ انسانوں کو آزمانے کے لئے پیدا کیا گیا ہے تاکہ اللہ کے علم میں جن انسانوں کو جو مظاہرہ کرنا تھا وہ سامنے آجائے ، جس کا اللہ کو پہلے سے علم تھا۔ اور وہ اپنے اعمال پر مناسب جزاء وسزا کے حقدار ہوجائیں۔

لیبلوکم ................ عملاً (76 : 2) ” تاکہ تم لوگوں کو آزما کر دیکھے کہ تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے “۔ جب یہ عقیدہ ذہن میں بیٹھ جائے تو انسان بیدار ، محتاط ، چوکنا اور سمجھدار ہوجاتا ہے۔ وہ دل میں چھوٹے بڑے کاموں کے بارے میں سوچنا ہے اور پوشیدہ اور ظاہری باتوں کے بارے میں غور کرتا ہے۔ یہ عقیدہ انسان کو غفلت میں نہیں چھوڑتا۔ نہ مطمئن اور بےفکر چھوڑتا ہے۔ چناچہ کہا جاتا ہے۔

وھوالعزیز الغفور (76 : 2) ” اور وہ زبردست بھی ہے اور درگزر فرمانے والا بھی “۔ اس اختتامیہ سے یہ اطمیانان دلانا مطلوب ہے کہ بیشک اللہ قدیر ہے اور زبردست ہے لیکن وہ غفور بھی ہے۔ وہ بندوں پر سختی نہیں کرتا۔ جب انسان کے دل میں یہ بات بیٹھ جائے کہ میرا امتحان ہے تو وہ ہر وقت خائف رہتا ہے کہ کیا نتیجہ نکلے گا لیکن جب وہ یہ سوچے گا کہ اللہ تو غفور ورحیم ہے تو اسے امید بندھ جائے گی اور وہ ثبات وقرار کے ساتھ صراط مستقیم پر چلے گا۔

اسلام نے انسانوں کے سامنے خدا کا جو تصور پیش کیا ہے وہ ایسا نہیں ہے کہ جو ہر وقت انسانوں کا پیچھا کرتا ہے ، نہ ایسا ہے کہ اسے عذاب دینے میں مزا آتا ہے ، وہ عذاب دینے کو پسند کرتا ہے بلکہ اللہ ہر وقت یہ یاد دہانی کراتا ہے کہ تمہارا ایک مقصد وجود ہے ، اس کو نظروں سے اوجھل ہونے نہ دو ، اپنی حقیقت کے مقام تک اپنے آپ کو بلند کرو ، اور جس طرح اللہ نے اپنی روح تم میں پھونک کر تمہیں ایک بلند مرتبہ دیا۔ اس پر فائز ہو کر اللہ کی مخلوقات سے اپنے آپ کو افضل ثابت کرو ، جب لوگ اس مقصد کو پالیں تو پھر ان پر اللہ کی رحمتوں کی بارش ہوتی ہے۔ قدم قدم پر ان کی معاونت کی جاتی ہے اور حساب و کتاب میں عفو و درگزر سے کام لیا جاتا ہے۔

یہ کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے اور اسی نے موت وحیات کو پیدا کیا تاکہ لوگوں کو آزمائے تو اس حقیقت کا مطالعہ ایک طرف اس پوری کائنات کے میدان میں کرایا جاتا ہے اور دوسری طرف حشر کے میدان میں اس کے مظاہردکھائے جاتے ہیں۔

آیت 2 { نِ الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا } ”جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون اچھے اعمال کرنے والا ہے۔“ { وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْغَفُوْرُ۔ } ”اور وہ بہت زبردست بھی ہے اور بہت بخشنے والا بھی۔“ یہ ہے انسانی زندگی اور موت کی تخلیق کا اصل مقصد۔ جو کوئی اس فلسفے کو نہیں سمجھے گا اسے زندگی ‘ موت اور موت کے بعد پھر زندگی کی یہ باتیں محض افسانہ معلوم ہوں گی۔ جیسے ایک معروف جاہلی شاعر نے اپنی بیوی کو مخاطب کر کے کہا تھا : حَیَاۃٌ ثُمَّ مَوْتٌ ثُمَّ بَعْثٌ حَدِیْثُ خَرَافَۃٍ یا اُمَّ عَمرو !”کہ یہ زندگی ‘ پھر موت ‘ پھر زندگی ‘ اے اُم عمرو ! یہ کیا حدیث خرافات ہے ؟“ معاذ اللہ ! انسانی زندگی کا سفر دراصل عالم ارواح سے شروع ہو کر ابد الآباد کی سرحدوں تک جاتا ہے۔ انسان کی دنیوی زندگی ‘ موت اور بعث بعد الموت اس طویل سلسلہ ٔ حیات کے مختلف مراحل ہیں۔ جیسا کہ اس آیت میں آیا ہے : { وَکُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْیَاکُمْج ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یُحْیِیْـکُمْ ثُمَّ اِلَـیْہِ تُرْجَعُوْنَ۔ } البقرۃ ”اور تم مردہ تھے ‘ پھر اس نے تمہیں زندہ کیا ‘ پھر وہ تمہیں مارے گا ‘ پھر جلائے گا ‘ پھر تم اسی کی طرف لوٹا دیے جائو گے“۔ زندگی کے اس تسلسل کے اندر موت کے مرحلے کی توجیہہ میر تقی میر نے ان الفاظ میں بیان کی ہے : ؎موت اِک زندگی کا وقفہ ہے یعنی آگے چلیں گے دم لے کر !بہرحال انسان کی دنیوی زندگی ایک وقفہ امتحان ہے اور موت اس وقفے کے اختتام کی گھنٹی ہے : { نَحْنُ قَدَّرْنَا بَـیْـنَـکُمُ الْمَوْتَ وَمَا نَحْنُ بِمَسْبُوْقِیْنَ۔ } الواقعۃ۔ اس وقفہ امتحان کا انداز بالکل اسکولوں اور کالجوں کے امتحانات جیسا ہے۔ فرق بس یہ ہے کہ ان امتحانات کے لیے چند گھنٹوں کا وقت دیا جاتا ہے ‘ جبکہ انسانی زندگی کے حقیقی امتحان کا دورانیہ اوسطاً تیس چالیس برس پر محیط ہے۔ ظاہر ہے انسان کی زندگی کے ابتدائی بیس پچیس برس تو بچپنے اور غیر سنجیدہ رویے کی نذر ہوجاتے ہیں۔ پھر اگر کسی کو بڑھاپا دیکھنا نصیب ہو تو اپنی آخری عمر میں وہ { لِکَیْلَا یَعْلَمَ مِنْم بَعْدِ عِلْمٍ شَیْئًا } الحج : 5 کی عبرت ناک تصویر بن کر رہ جاتا ہے۔ لے دے کر ایک انسان کو عمل کے لیے شعور کی عمر کے اوسطاً تیس چالیس سال ہی ملتے ہیں۔ علامہ اقبال نے اپنی مشہور نظم خضر راہ میں ”زندگی“ کے عنوان کے تحت زندگی کے اس فلسفے پر کمال مہارت سے روشنی ڈالی ہے۔ اس نظم کے چند اشعار ملاحظہ ہوں :؎برتر از اندیشہ سود و زیاں ہے زندگی ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیم ِجاں ہے زندگی !؎تو اسے پیمانہ امروز و فردا سے ناپ جاوداں ‘ پیہم دواں ‘ ہر دم جواں ہے زندگی !؎قلزمِ ہستی سے تو ابھرا ہے مانند ِحباب اس زیاں خانے میں تیرا امتحاں ہے زندگی !ان اشعار میں علامہ اقبال نے دراصل قرانی آیات ہی کی ترجمانی کی ہے۔ مندرجہ بالا آخری شعر قلزمِ ‘ ہستی… آیت زیر مطالعہ کے مفہوم کا ترجمان ہے ‘ جبکہ پہلے شعر میں سورة البقرۃ کی آیت 154 { وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتٌط بَلْ اَحْیَـآئٌ …} کا بنیادی فلسفہ بیان ہوا ہے۔ ظاہر ہے عام طور پر تو زندہ جان کو ہی زندگی کا نام دیا جاتا ہے ‘ لیکن کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ حقیقی اور دائمی زندگی جان دے دینے تسلیم ِجاں سے حاصل ہوتی ہے۔

آیت 2 - سورۃ الملک: (الذي خلق الموت والحياة ليبلوكم أيكم أحسن عملا ۚ وهو العزيز الغفور...) - اردو