سورۃ الملک: آیت 11 - فاعترفوا بذنبهم فسحقا لأصحاب السعير... - اردو

آیت 11 کی تفسیر, سورۃ الملک

فَٱعْتَرَفُوا۟ بِذَنۢبِهِمْ فَسُحْقًا لِّأَصْحَٰبِ ٱلسَّعِيرِ

اردو ترجمہ

اس طرح وہ اپنے قصور کا خود اعتراف کر لیں گے، لعنت ہے ان دوزخیوں پر

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

FaiAAtarafoo bithanbihim fasuhqan liashabi alssaAAeeri

آیت 11 کی تفسیر

فاعترفوا .................... السعیر (76 : 11) ” اس طرح وہ اپنے قصور کا خود اعتراف کرلیں گے ، لعنت ہے ان دوزخیوں پر “۔ سحق کے معنی بعد کے ہیں۔ یہ اللہ کی طرف سے ان کے لئے بددعا ہے۔ جب انہوں نے اعتراف کرلیا اور یہ اعتراف ، اس وقت کیا جب وہ منظر ان کے سامنے آگیا ، جس کے وقوع کا وہ انکار کررہے تھے۔ اور اللہ جس کے لئے بددعا کردے تو گویا ان کی بربادی کا فیصلہ ہوگیا۔ یہ لوگ رحمت خداوندی سے دور ہوگئے ، اب ان کو اللہ کی مغفرت کی کوئی امید نہیں رہی ہے۔ نہ عذاب سے چھوٹنے کی کوئی امید ہے۔ اب تو وہ دوزخ کے ساتھی ہیں۔ کیا ہی بری صحبت ہے اور کیا ہی بری ہم نشینی ہے ان کی اور کیا ہی برانجام !

یہ عذاب ، جہنم کا عذاب ، جو پھٹکاریں ماررہی ہے ، ایک شدید عذاب ہے۔ خوفناک عذاب ہے۔ اللہ کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر نفس کے اندر اللہ نے ایمان کی حقیقت اور ایمان کے دلائل رکھ دیئے ہیں اس کے باوجود بھی اگر کو ئی نفس کے اندر اللہ نے ایمان کی حقیقت اور ایمان کے دلائل رکھ دیئے ہیں اس کے باوجود بھی اگر کوئی نفس اللہ کا انکار کرتا ہے تو معلوم ہوجاتا ہے کہ اس کے اندر کوئی بھلائی نہیں اور وہ ہر قسم کی بھلائی سے محروم ہے۔ اسی طرح وہ اپنے وجود اور شخصیت کی تمام بنیادی صفات کا بھی وزن کھوبیٹھتی ہے۔ وہ اسی طرح ہے جس طرح جہنم میں پتھروں کو جلایا جائے۔ اس کی شخصیت نے اپنے آپ کو اپنے مکان سے گرا کر اس آگ میں ڈالا ہے حالانکہ اس کا فرض یہ تھا کہ وہ اس سے بھاگتی۔

جو متنفس اللہ کا انکار کرتا ہے وہ آگے بڑھنے کے بجائے الٹے پاﺅں پھرتا ہے اور اوندھے منہ گرتا ہے اور وہ زندگی کے ہر دوڑ میں گرتا ہی چلا جاتا ہے ، یہاں تک کہ وہ انتہائی بری ، پسماندہ اور قابل نفرت شکل اختیار کرلیتا ہے۔ آخرکار وہ ایک مکروہ جہنمی کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ وہ اس قدر بدشکل ہوجاتا ہے کہ اس جہاں کی کوئی چیز بھی اس قدر کریہہ المنظر نہیں ہوتی۔ جس طرح کوئی چیز مسخ ہوجائے۔ تو ایسے متنفس کے سوا تمام جہاں ایک طرف ہوتی ہے۔ ہر چیز مومن ہے۔ اللہ کی ثناخواں ہے ، اور ہر چیز میں خیر موجود ہے اور تمام اشیاء کے اندر ایمان ایک رابطہ ہے۔ ماسوائے ان نفوس انسانی وشیطانی کے جو کفر اختیار کرتے ہیں۔ ان منکر اور بھٹکے ہوئے افراد کا ہر قسم کا تعلق جہاں بھی وہ ہوں ، ہر چیز سے کٹ جاتا ہے ، ماسوائے جہنم کے وہو کسی کام کے نہیں ہوتے۔ ان کے اندر کوئی معنی کوئی حقانیت اور کوئی عزت نہیں ہوتی۔ اس لئے یہ نفوس جہنم کے مستحق ہوجاتے ہیں۔

قرآن کریم کا یہ انداز ہے کہ وہ صفات بالمقابل پیش کرتا ہے۔ جس طرح جہنم والوں کے مناظر دکھائے گئے۔ اس کے بالمقابل مومنین کے حالات بھی دکھائے جاتے ہیں۔ اور یہ پورے قرآن کریم کا انداز ہے۔ چناچہ یہاں بھی آیات۔

آیت 1 1{ فَاعْتَرَفُوْا بِذَنْبِہِمْ } ”پس وہ اپنے اصل گناہ کا اعتراف کرلیں گے۔“ { فَسُحْقًا لاَصْحٰبِ السَّعِیْرِ۔ } ”پس پھٹکار ہے جہنمی لوگوں کے لیے۔“ اب تقابل کے طور پر آگے اہل جنت کا تذکرہ آ رہا ہے۔

آیت 11 - سورۃ الملک: (فاعترفوا بذنبهم فسحقا لأصحاب السعير...) - اردو