سورۃ الملک: آیت 1 - تبارك الذي بيده الملك وهو... - اردو

آیت 1 کی تفسیر, سورۃ الملک

تَبَٰرَكَ ٱلَّذِى بِيَدِهِ ٱلْمُلْكُ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ

اردو ترجمہ

نہایت بزرگ و برتر ہے وہ جس کے ہاتھ میں کائنات کی سلطنت ہے، اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Tabaraka allathee biyadihi almulku wahuwa AAala kulli shayin qadeerun

آیت 1 کی تفسیر

اس سورت کے آغاز میں اللہ کب برکات پر مشتمل یہ سپاس نامہ اس بات پر دال ہے کہ اللہ کی برکتیں اور اللہ کے کرم ، اور اللہ کے فیوض کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ اللہ کی برکتیں اللہ کی سلطنت میں ہیں اور اس کی بادشاہت میں کوئی کمی نہیں۔ اللہ کی ذات اور اللہ کی صفات کی برکات کا فیض عام اس پوری کائنات میں جاری وساری ہے اور یہ پوری کائنتا اس کی حمد گا رہی ہے اور اس لاانتہا وجود کی وادیوں میں اس کی گونج ہے۔ قلب مومن ان برکتوں سے لبالب ہے اور یہ کائنات اس کتاب الٰہی کے ذریعہ قلب مومن پر نازل ہوتی ہے اور اس پوری کائنات میں ان کا ظہور ہے۔

بیدہ الملک (76 : 1) ” جس کے ہاتھ میں سلطنت ہے “۔ وہ اس کائنات کا مالک ہے ، اس کا اس نے احاطہ کررکھا ہے۔ اس کی چوٹی کے بال اس کے ہاتھ میں ہیں ، وہ اس میں متصرف ہے۔ یہ ہے اصل حقیقت کہ اس پوری کائنات کا بادشاہ وہی ہے جب یہ حقیت انسانی ضمیر میں بیٹھ جاتی ہے تو یہ اپنی راہ خود بخود متعین کردیتی ہے اور اس کے بعد پھر کوئی بھی اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت کے لئے فارغ نہیں ہوتا۔ پھر وہ ایک ہی آقا ، ایک معبود اور ایک ہی بادشاہ کا قائل ہوتا ہے۔

وھو علی ............ قدیر (76 : 1) ” اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے “۔ کوئی چیز اس پر غالب نہیں ہے ، کوئی چیز اس کے ارادے کے سامنے رکاوٹ نہیں بن سکتی ، اس مشیت کی حدود وقیود سے باہر ، جو چاہتا ہے ، تخلیق کرتا ہے ، جو چاہتا ہے کرتا ہے ، جو چاہے کرسکتا ہے ، جو حکم دے اس کی تعمیل کرواسکتا ہے۔ اس کی قدرت بےحدو بےقید ہے۔ جب یہ حقیقت ذہن میں بیٹھ جائے تو ہمارے احساسات ، تصورات اور عقل میں کسی قوت کے لئے کوئی سوچ جاتی ہے تو اس کی نفی ہوجاتی ہے۔ انسان جو کچھ بھی سوچ سکتا ہے اس کی قدرت اس سے زیادہ ہوتی ہے۔ انسان کا تصور بہت ہی محدود ہے کیونکہ انسان کی ذات اور اس کی فکری کائنات محدود ہے۔ انسان اپنے ماحولیات اور معلومات کے محدود دائرے میں سوچنے کا عادی ہے جو بہت ہی محدود ہوتا ہے۔ یہ حقیقت کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ یہ انسان کو اس محدود دائرے سے نکالتی ہے۔ انسان یقین کرتا ہے کہ اللہ کی قدرت لامحدود ہے تو انسان اپنے آپ کو اس کے حوالے کرتا ہے اور یوں وہ اس محدود سوچ سے لامحدود سوچ کی طرف نکل جاتا ہے ورنہ انسان حاضر وموجود کے محدود تصور ہی کا غلام ہوتا ہے۔

آیت 1{ تَبٰـرَکَ الَّذِیْ بِیَدِہِ الْمُلْکُ } ”بہت ہی بابرکت ہے وہ ہستی جس کے ہاتھ میں بادشاہی ہے“ یہ دین اسلام کے سیاسی منشور کی بنیادی شق ہے۔ یعنی پوری کائنات کا اقتدار اور اختیار کلی طور پر اللہ تعالیٰ کے دست قدرت میں ہے۔ دنیا میں اگر انسانوں کے ہاں اللہ تعالیٰ کے احکام سے کہیں بغاوت دکھائی دیتی ہے تو وہ بھی دراصل اسی کے عطا کردہ اختیار کی وجہ سے ہے۔ اس میں ایمان کے دعوے داروں کا امتحان بھی ہے کہ وہ بھلا اللہ کے اقتدار کو چیلنج کرنے والوں کے مقابلے میں کیا طرزعمل اختیار کرتے ہیں۔ ورنہ سورج ‘ چاند ‘ ستارے ‘ کہکشائیں ‘ ہوائیں اور کائنات کا ذرّہ ذرّہ اللہ تعالیٰ کے حکم کا پابند اور تابع ہے۔ پوری کائنات پر اللہ تعالیٰ کی حکومت اور قدرت کی کیفیت یہ ہے کہ کہیں کوئی ایک ذرہ بھی اس کی مرضی کے بغیر حرکت نہیں کرسکتا اور حرکت کرتا ہوا کوئی ذرہ اس کی مشیت کے بغیر ساکن نہیں ہوسکتا۔ اپنی تمام مخلوق میں صرف انسان کو اس نے ایک حد تک ارادے اور عمل کا اختیار دیا ہے اور وہ بھی اس لیے کہ اس میں انسان کی آزمائش مقصود ہے۔ لیکن انسان ہے کہ ہلدی کی یہ گانٹھ مل جانے پر پنساری بن بیٹھا ہے۔ اب کہیں وہ فرعون بن کر اللہ کے مقابلے میں ”میری حکومت ‘ میرا ملک اور میرا مثالی نظام“ جیسے دعو وں کا ڈھنڈورا پیٹتا ہے تو کہیں کسی فرعون کی چاکری اور وفاداری کی دھن میں مقتدر حقیقی کے احکام کو پامال کرتا چلا جاتا ہے۔ جبکہ حقیقت میں انسان کی بےبسی کا عالم یہ ہے کہ خود اپنے جسم پر بھی اسے کوئی اختیار نہیں۔ ظاہر ہے انسان کے جسم کی فزیالوجی اور اناٹومی کا سارا نظام بھی تو اللہ تعالیٰ کے طے کردہ قانون کے تابع ہے۔ اگر کوئی شخص چاہے کہ وہ اپنے دل کو آرام دینے کے لیے تھوڑی دیر کے لیے بند کردے اور پھر اپنی مرضی سے دوبارہ رواں کرلے تو اس کے لیے یہ ممکن نہیں۔ { وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرُ۔ } ”اور وہ ہرچیز پر قادر ہے۔“

بہتر عمل کی آزمائش کا نام زندگی ہے اللہ تعالیٰ اپنی تعریف بیان فرما رہا ہے اور خبر دے رہا ہے کہ تمام مخلوق پر اسی کا قبضہ ہے جو چاہے کرے۔ کوئی اس کے احکام کو ٹال نہیں سکتا اس کے غلبہ اور حکمت اور عدل کی وجہ سے اس سے کوئی باز پرس بھی نہیں کرسکتا وہ تمام چیزوں پر قدرت رکھنے والا ہے۔ پھر خود موت وحیات کا پیدا کرنا بیان کر رہا ہے، اس آیت سے ان لوگوں نے استدلال کیا ہے جو کہتے ہیں کہ موت ایک وجودی امر ہے کیونکہ وہ بھی پیدا کردہ شدہ ہے، آیت کا مطلب یہ ہے کہ تمام مخلوق کو عدم سے وجود میں لایا تاکہ اچھے اعمال والوں کا امتحان ہوجائے جیسے اور جگہ ہے آیت (كَيْفَ تَكْفُرُوْنَ باللّٰهِ وَكُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْيَاكُمْ ۚ 28؀) 2۔ البقرة :28) ترجمہ تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیوں کفر کرتے ہو ؟ تم تو مردہ تھے پھر اس نے تمہیں زندہ کردیا، پس پہلے حال یعنی عدم کو یہاں بھی موت کہا گیا اور اس پیدائش کو حیات کہا گیا اسی لئے اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے آیت (ثُمَّ يُمِيْتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيْكُمْ ثُمَّ اِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ 28؀) 2۔ البقرة :28) ترجمہ وہ پھر تمہیں مار ڈالے گا اور پھر زندہ کر دے گا، ابن ابی حاتم میں ہے رسول مقبول ﷺ فرماتے ہیں کہ بنی آدم موت کی ذلت میں تھے۔ دنیا کو اللہ تعالیٰ نے حیات کا گھر بنادیا پھر موت کا اور آخرت کو جزا کا پھر بقاء کا۔ لیکن یہی روایت اور جگہ حضرت قتادہ کا اپنا قول ہونا بیان کی گئی ہے، آزمائش اس امر کی ہے کہ تم میں سے اچھے عمل والا کون ہے ؟ اکثر عمل والا نہیں بلکہ بہتر عمل والا، وہ باوجود غالب اور بلند جناب ہونے کے پھر عاصیوں اور سرتاب لوگوں کے لئے، جب وہ رجوع کریں اور توبہ کریں معاف کرنے اور بخشنے والا بھی ہے۔ جس نے سات آسمان اوپر تلے پیدا کئے ایک پر ایک گو بعض لوگوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ایک پر ایک ملا ہوا ہے لیکن دوسرا قول یہ ہے کہ درمیان میں جگہ ہے اور ایک دوسرے کے اوپر فاصلہ ہے، زیادہ صحیح یہی قول ہے، اور حدیث معراج وغیرہ سے بھی یہی بات ثابت ہوتی ہے، پروردگار کی مخلوق میں تو کوئی نقصان نہ پائے گا بلکہ تو دیکھے گا کہ وہ برابر ہے، نہ ہیر پھیر ہے نہ مخالفت اور بےربطی ہے، نہ نقصان اور عیب اور خلل ہے۔ اپنی نظر آسمان کی طرف ڈال اور غور سے دیکھ کر کہیں کوئی عیب ٹوٹ پھوٹ جوڑ توڑ شگاف و سوراخ دکھائی دیتا ہے ؟ پھر بھی اگر شک رہے تو دو دفعہ دیکھ لے کوئی نقصان نظر نہ آئے گا تو نے خوب نظریں جما کر ٹٹول کر دیکھا ہو پھر بھی ناممکن ہے کہ تجھے کوئی شکست و ریخت نظر آئے تیری نگاہیں تھک کر اور ناکام ہو کر نیچی ہوجائیں گی۔ نقصان کی نفی کر کے اب کمال کا اثبات ہو رہا ہے تو فرمایا آسمان دنیا کو ہم نے ان قدرتی چراغوں یعنی ستاروں سے بارونق بنا رکھا ہے جن میں بعض چلنے پھرنے والے ہیں اور بعض ایک جا ٹھہرے رہنے والے ہیں، پھر ان کا ایک اور فائدہ بیان ہو رہا ہے کہ ان سے شیطانوں کو مارا جاتا ہے ان میں سے شعلے نکل کر ان پر گرتے ہیں یہ نہیں کہ خود ستارہ ان پر ٹوٹے واللہ اعلم۔ شیطین کی دنیا میں یہ رسوائی تو دیکھتے ہی ہو آخرت میں بھی ان کے لئے جلانے والا عذاب ہے۔ جیسے سورة صافات کے شروع میں ہے کہ ہم نے آسمان دنیا کو ستاروں سے زینت دی ہے اور سرکش شیطانوں کی حفاظت میں انہیں رکھا ہے، وہ بلند وبالا فرشتوں کی باتیں سن نہیں سکتے اور چاروں طرف سے حملہ کر کے بھگا دیئے جاتے ہیں اور ان کے لئے دائمی عذاب ہے اگر کوئی ان میں سے ایک آدھ بات اچک کرلے بھاگتا ہے تو اس کے پیچھے چمکدار تیز شعلہ لپکتا ہے۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں ستارے تین فائدوں کے لئے پیدا کئے گئے ہیں، آسمان کی زینت، شیطانوں کی مار اور راہ پانے کے نشانات۔ جس شخص نے اس کے سوا کوئی اور بات تلاش کی اس نے رائے کی پیروی کی اور اپنا صحیح حصہ کھو دیا اور باوجود علم نہ ہونے کی تکلف کیا (ابن جریر اور ابن ابی حاتم)

آیت 1 - سورۃ الملک: (تبارك الذي بيده الملك وهو على كل شيء قدير...) - اردو