سورۃ المجادلہ: آیت 5 - إن الذين يحادون الله ورسوله... - اردو

آیت 5 کی تفسیر, سورۃ المجادلہ

إِنَّ ٱلَّذِينَ يُحَآدُّونَ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥ كُبِتُوا۟ كَمَا كُبِتَ ٱلَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۚ وَقَدْ أَنزَلْنَآ ءَايَٰتٍۭ بَيِّنَٰتٍ ۚ وَلِلْكَٰفِرِينَ عَذَابٌ مُّهِينٌ

اردو ترجمہ

جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں وہ اسی طرح ذلیل و خوار کر دیے جائیں گے جس طرح ان سے پہلے کے لوگ ذلیل و خوار کیے جا چکے ہیں ہم نے صاف صاف آیات نازل کر دی ہیں، اور کافروں کے لیے ذلت کا عذاب ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna allatheena yuhaddoona Allaha warasoolahu kubitoo kama kubita allatheena min qablihim waqad anzalna ayatin bayyinatin walilkafireena AAathabun muheenun

آیت 5 کی تفسیر

پہلے پیراگراف میں یہ بتایا گیا تھا کہ اللہ اہل اسلام کے ساتھ کس قدر مہربانی کرنے والا ہے اور جماعت مسلمہ کے مسائل حل کرنے کے لئے وہ ہر وقت تیار ہے۔ یہ دوسرا پیراگراف کافروں کی سرکوبی کے لئے ہے۔ ان لوگوں کے لئے جو اللہ اور رسول اللہ کی دشمنی پر اتر آئے ہیں یعنی وہ مسلمانوں کی حدود پر متضاد اور مخالفانہ موقف اختیار کرتے ہیں اور محاذ آرائی کرتے ہیں۔ پہلے چونکہ حدود اللہ کا ذکر ہے اور حدود پر جو جھگڑتا ہے وہ دشمن ہوتا ہے یعنی سرحدوں پر جو لڑتا ہے اس لئے یہاں ایسے دشمنان اسلام کا ذکر کردیا گیا۔ جو رسول اللہ کے مقابلے میں حد پر کھڑے ہیں اور مقابلے کی تیاریاں کررہے ہیں۔ اس سے دو مقابل فریقوں کی ایک تصویر دی گئی جو حدود پر لڑتے ہیں۔ اس سے کافروں کے اس فعل کی قباحت اور گھناؤنے پن کا اظہار مقصود ہے۔ اس لئے کہ یہ لوگ اپنے خالق اور رازق سے لڑنے نکل آئے ہیں اور انہوں نے اللہ کی حدوں پر اپنی شیطانی افواج جمع کررکھی ہیں۔

کبتوا .................... قبلھم (85 : 5) ” اسی طرح ذلیل و خوار کردیئے جائیں گے جس طرح ان سے پہلے کے لوگ ذلیل و خوار کیے جاچکے ہیں۔ “ راجح بات یہ ہے کہ یہ ایسے لوگوں کے لئے بددعا ہے اور اللہ کی طرف سے بددعا دراصل حکم الٰہی ہی ہوتا ہے۔ کیوں کہ اللہ تو فعال لما یرید ہے۔ کبت کے معنی قہر نازل ہونے اور ذلیل کرنے کے ہیں۔ پہلے لوگوں سے مراد یا تو وہ ہیں جو گزر چکے ، انبیائے سابقہ کی امتیں۔ جن کو اللہ نے اسی جرم میں پکڑ لیا ان سے مراد وہ مشرکین اور یہود ہیں جن کو مسلمانوں کے ذریعہ اللہ نے ذلیل کردیا تھا ، ان آیات کے نزول سے پہلے ، مثلاً غزوہ بدر میں۔

وقد .................... بینت (85 : 5) ” ہم نے تو صاف صاف آیات نازل کردی ہیں۔ “ اس آیت میں ان لوگوں کے انجام کو مفصل اور جدا کرکے بیان کیا ہے جو اللہ اور رسول سے دشمنی کرتے ہیں۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ یہ اس لئے کہ یہ انجام جو ان آیات میں بیان ہوا ہے وہ لوگ اس انجام تک کسی جہالت کی وجہ سے نہیں پہنچ رہے یا اس لئے اس انجام تک نہیں پہنچ گئے کہ ان کی سمجھ میں بات نہیں آئی۔ بلکہ ان کو بات بڑی وضاحت کے ساتھ سمجھادی گئی تھی۔ اس کے بعد ان کا اخروی انجام نہایت ہی سبق آموز انداز میں لایا جاتا ہے تاکہ اہل ایمان کی اصلاح اور تربیت ہو۔

وللکفرین .................... شھید (85 : 6) ” اور کافروں کے لئے ذلت کا عذاب ہے۔ اس دن (یہ ذلت کا عذاب ہونا ہے) جب اللہ ان سب کو پھر سے زندہ کرکے اٹھائے گا۔ اور انہیں بتادے گا کہ وہ کیا کچھ کرکے آئے ہیں۔ وہ بھول گئے ہیں مگر اللہ نے ان کا سب کیا دھڑاگن گن کر محفوظ کررکھا ہے اور اللہ ایک ایک چیز پر شاہد ہے۔ “

یہاں تو توہین آمیز عذاب ، ان کے تکبر کے بدلے ، ان کو دیا جائے گا۔ جب لوگوں کو اللہ اٹھائے گا تو ان نام نہاد بڑوں کو اللہ عوام کے سامنے توہین آمیز عذاب دے گا۔ یہ وہ عذاب ہوگا جو حق پر دیا جائے گا۔ اور ان کا مفصل اعمال نامہ اس کی پشت پر ہوگا جسے یہ اس دن بڑی بےپرواہی سے بھول جائیں گے۔ حالانکہ اللہ نے اسے یوں تیار کیا ہوگا کہ اس میں سے کوئی چیز بھی باقی نہ رہی ہوگی کیونکہ اللہ تو سب کچھ جانتا ہے۔

وللہ .................... شھید (85 : 6) ” اور اللہ ہر ایک چیز پر گواہ ہے۔ “

یہاں رعایت اور فضل وکرم اور جنگ اور انتقام کی دونوں تصاویر آمنے سامنے ہیں۔ اللہ کا علم اور موجود گی ہر جگہ ہے۔ وہ رعایت امداد اور مہربانی کے لئے بھی حاضر ہے اور وہ جنگ اور انتقام اور دشمنوں کو عذاب دینے کے لئے بھی حاضر ہے۔ لہٰذا اللہ کے حضوری اور موجودگی پر اہل ایمان مطمئن ہوجائیں اور کافر اور دشمن خوفزدہ ہوجائیں۔

یہ کہ اللہ ہر چیز پر شاہد ہے۔ اب یہاں اس کی ایک زندہ تصویر پیش کی جاتی ہے۔ یہ اس قدر موثر ہے کہ قلب و شعور کی تاروں میں اضطرابی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔

آیت 5{ اِنَّ الَّذِیْنَ یُحَآدُّوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ } ”یقینا وہ لوگ جو تل گئے ہیں مخالفت کرنے پر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی“ اس مضمون کا تعلق سورة الحدید کے مرکزی مضمون کے ساتھ ہے۔ سورة الحدید کی آیت 25 میں انبیاء و رسل علیہ السلام کی بعثت اور کتاب و میزان کے نزول کا مقصد یہ بتایا گیا ہے : لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ تاکہ انسانی معاشرے میں اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے نظامِ عدل وقسط کا قیام عمل میں لایا جاسکے۔ اب ظاہر ہے اہل ایمان جونہی اس مشن کے علمبردار بن کر اٹھیں گے تو شیطانی قوتیں بھی ان کا راستہ روکنے کے لیے پوری قوت سے سرگرم عمل ہوجائیں گی۔ ان حالات میں معاشرے کا سرمایہ دار اور جاگیردار طبقہ نظام عدل و قسط کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہوگا۔ یہ لوگ تو کبھی بھی نہیں چاہیں گے کہ مزدوروں اور کسانوں کو ان کے حقوق ملیں۔ چناچہ وہ اپنے تمامتر وسائل کے ساتھ روایتی ظالمانہ نظام کے دفاع کے لیے میدان میں کود پڑیں گے۔ اس طرح فریقین کے درمیان ایک بھرپور کشمکش کا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ آیت زیر مطالعہ میں انہی قوتوں کی سرگرمیوں کا ذکر ہے۔ آئندہ آیات میں ان دونوں گروہوں کے کردار اور رویے کا ذکر حزب اللہ اور حزب الشیطان کے نام سے آئے گا۔ واضح رہے کہ لفظ یُحَادُّوْنَ کا تعلق بھی حدید سورۃ الحدید ‘ آیت 25 ہی سے ہے۔ یہ حدّ سے باب مفاعلہ ہے ‘ جیسے جہد سے مجاہدہ یا قتل سے مقاتلہ۔ چناچہ اس لفظ میں پوری قوت اور منصوبہ بندی کے ساتھ کسی کی مخالفت کرنے کا مفہوم پایاجاتا ہے۔ آیت زیر مطالعہ میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے مراد اللہ کا دین ہے اور یہ مخالفت جس کا یہاں ذکر ہے وہ دراصل اللہ کے دین کی مخالفت ہے۔ ظاہر ہے اللہ تعالیٰ کی تکوینی حکومت جو پوری دنیا میں قائم ہے اسے تو سبھی تسلیم کرتے ہیں۔ اس حوالے سے کسی کی طرف سے اللہ تعالیٰ کی مخالفت کرنے کا کوئی سوال ہی نہیں۔ اسی طرح اللہ کے رسول ﷺ سے بھی کسی کو کوئی ذاتی دشمنی نہیں۔ چناچہ دنیا میں جہاں کہیں اللہ کے رسول ﷺ کی مخالفت کی جاتی ہے وہ بھی اللہ کے دین کی وجہ سے ہی کی جاتی ہے۔ اس نکتہ کو سورة الانعام کی اس آیت میں یوں واضح کیا گیا ہے : { فَاِنَّھُمْ لَا یُکَذِّبُوْنَکَ وَلٰـکِنَّ الظّٰلِمِیْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ یَجْحَدُوْنَ۔ } ”اے نبی ﷺ ! یہ لوگ آپ کو نہیں جھٹلا رہے بلکہ یہ ظالم تو اللہ کی آیات کا انکار کر رہے ہیں“۔ چناچہ باطل قوتوں کی اصل دشمنی اللہ کے دین سے ہے ‘ اور یہ دین بھی جب تک کتابوں اور لائبریریوں تک محدود رہے تب تک اس پر بھی کسی کو کوئی اعتراض نہیں۔ دینی مسائل کے بارے میں کوئی اعلیٰ سطحی تحقیقات کرے ‘ مقالے لکھے ‘ کتابیں تصنیف کرے ‘ کسی کو اس سے کچھ لینا دینا نہیں۔ لیکن جب کوئی اللہ کا بندہ یہ دعویٰ کرے کہ ہم اللہ کے دین اور اس کے دیے ہوئے نظامِ عدل و قسط کی معاشرے میں بالفعل ترویج و تنفیذ چاہتے ہیں تو اس کی یہ بات باطل پسند قوتوں کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں ہوسکتی۔ چناچہ یہ لوگ ایسی کسی بھی کوشش کا راستہ روکنے کے لیے خم ٹھونک کر میدان میں آجاتے ہیں۔ اب ایسے لوگوں کے انجام کے بارے میں بتایا جا رہا ہے۔ { کُبِتُوْا کَمَا کُبِتَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ } ”وہ ذلیل و خوار کردیے جائیں گے جس طرح ان سے پہلے کے لوگ ذلیل و خوار کیے جا چکے ہیں“ ان سے پہلے قوم فرعون ‘ قومِ عاد اور بہت سی دوسری اقوام نے بھی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں علیہ السلام کی مخالفت کی یہی روش اختیار کر کے اپنی بربادی کو دعوت دی تھی۔ چناچہ جو انجام مذکورہ اقوام کا ہوا ویسے ہی انجام سے اب یہ لوگ یعنی قریش مکہ بھی دوچار ہونے والے ہیں۔ { وَقَدْ اَنْزَلْنَـآ اٰیٰتٍم بَیِّنٰتٍ } ”اور ہم اتار چکے ہیں روشن آیات۔“ یعنی قرآن میں گزشتہ اقوام کے واقعات بہت تفصیل سے بیان کردیے گئے ہیں۔ ان میں سے اکثر قومیں قریش مکہ کی نسبت بہت طاقتور تھیں۔ جب ایسی طاقتور اقوام بھی اپنے پیغمبروں کے انکار کی بنا پر صفحہ ہستی سے مٹا دی گئیں تو آج ان لوگوں کی سرکشی و نافرمانی کو کیسے نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔ { وَلِلْکٰفِرِیْنَ عَذَابٌ مُّہِیْنٌ۔ } ”اور کافروں کے لیے بہت ذلت والاعذاب ہے۔“ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے مخالفین کو دنیا میں بھی ہزیمت اٹھانا پڑے گی اور آخرت میں بھی انہیں بہت رسوا کن عذاب کا سامنا کرنا ہوگا۔

احکامات رسول اللہ ﷺ اور ہم فرمان ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی مخالفت کرنے والے اور احکام شرع سے سرتابی کرنے والے ذلت ادبار نحوست اور پھٹکار کے لائق ہیں جس طرح ان سے اگلے انہی اعمال کے باعث برباد اور رسوا کردیئے گئے، اسی طرح واضح، اس قدر ظاہر، اتنی صاف اور ایسی کھلی ہوئی آیتیں بیان کردی ہیں اور نشانیاں ظاہر کردی ہیں کہ سوائے اس کے جس کے دل میں سرکشی ہو کوئی ان سے انکار کر نہیں سکتا اور جو ان کا انکار کرے وہ کافر ہے اور ایسے کفار کیلئے یہاں کی ذلت کے بعد وہاں کے بھی اہانت والے عذاب ہیں، یہاں ان کے تکبر نے اللہ کی طرف جھکنے سے روکا وہاں اس کے بدلے انہیں بےانتہا ذلیل کیا جائے گا، خوب روندا جائے گا، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تمام اگلوں پچھلوں کو ایک ہی میدان میں جمع کرے گا اور جو بھلائی برائی جس کسی نے کی تھی اس سے اسے آگاہ کرے گا۔ گو یہ بھول گئے تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے تو اسے یاد رکھا تھا اس کے فرشتوں نے اسے لکھ رکھا تھا۔ نہ تو اللہ پر کوئی چیز چھپ سکے نہ اللہ تعالیٰ کسی چیز کو بھولے۔ پھر بیان فرماتا ہے کہ تم جہاں ہو جس حالت میں ہو نہ تمہاری باتیں اللہ کے سننے سے رہ سکیں نہ تمہاری حالتیں اللہ کے دیکھنے سے پوشیدہ رہیں اس کے علم نے ساری دنیا کا احاطہ کر رکھا ہے اسے ہر زبان و مکان کی اطلاع ہر وقت ہے، وہ زمین و آسمان کی تمام تر کائنات سے باعلم ہے، تین شخص آپس میں مل کر نہایت پوشیدگی، رازداری کے ساتھ اپنی باتیں ظاہر کریں انہیں وہ سنتا ہے اور وہ اپنے آپ کو تین ہی نہ سمجھیں بلکہ اپنا چوتھا اللہ کو گنیں اور جو پانچ شخص تنہائی میں رازداریاں کر رہے ہیں وہ چھٹا اللہ کو جانیں پھر جو اس سے کم ہوں یا اس سے زیادہ ہوں، وہ بھی یقین رکھیں کہ وہ جہاں کہیں بھی ہیں ان کے ساتھ ان کا اللہ ہے یعنی ان کے حال و قال سے مطلع ہے ان کے کلام کو سن رہا ہے اور ان کی حالتوں کو دیکھ رہا ہے پھر ساتھ ہی ساتھ اس کے فرشتے بھی لکھتے جا رہے ہیں۔ جیسے اور جگہ ہے آیت (اَلَمْ يَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ يَعْلَمُ سِرَّهُمْ وَنَجْوٰىهُمْ وَاَنَّ اللّٰهَ عَلَّامُ الْغُيُوْبِ 78؀ۚ) 9۔ التوبہ :78) کیا لوگ نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ ان کی پوشیدہ باتوں کو اور ان کی سرگوشیوں کو بخوبی جانتا ہے اور اللہ تعالیٰ تمام غیبوں پر اطلاع رکھنے والا ہے، اور جگہ ارشاد ہے آیت (اَمْ يَحْسَبُوْنَ اَنَّا لَا نَسْمَعُ سِرَّهُمْ وَنَجْوٰىهُمْ ۭ بَلٰى وَرُسُلُنَا لَدَيْهِمْ يَكْتُبُوْنَ 80؀) 43۔ الزخرف :80) کیا ان کا یہ گمان ہے کہ ہم ان کی پوشیدہ باتوں اور خفیہ مشوروں کو سن نہیں رہے ؟ برابر سن رہے ہیں اور ہمارے بھیجے ہوئے ان کے پاس موجود ہیں جو لکھتے جا رہے ہیں، اکثر بزرگوں نے اس بات پر اجماع نقل کیا ہے کہ اس آیت سے مراد معیت علمی ہے یعنی اللہ تعالیٰ کا وجود نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا علم ہر جگہ ہے، ہر تین کے مجمع میں چوتھا اس کا علم ہے تبارک و تعالیٰ۔ بیشک و شبہ اس بات پر ایمان کامل اور یقین راسخ رکھنا چاہئے کہ یہاں مراد ذات سے ساتھ ہونا نہیں بلکہ علم سے ہر جگہ موجود ہونا ہے، ہاں بیشک اس کا سننا دیکھنا بھی اسی طرح اس کے علم کے ساتھ ساتھ ہے، اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنی تمام مخلوق پر مطلع ہے ان کا کوئی کام اس سے پوشیدہ نہیں، پھر قیامت کے دن انہیں ان کے تمام اعمال پر تنبیہ کرے گا، اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔ حضرت امام احمد بن حنبل ؒ فرماتے ہیں کہ اس آیت کو شروع بھی اپنے علم کے بیان سے کیا تھا اور ختم بھی اللہ کے علم بیان پر کیا (مطلب یہ ہے کہ درمیان میں اللہ کا ساتھ ہونا جو بیان کیا تھا اس سے بھی ازروئے علم کے ساتھ ہونا ہے نہ کہ ازروئے ذات کے۔ مترجم)

آیت 5 - سورۃ المجادلہ: (إن الذين يحادون الله ورسوله كبتوا كما كبت الذين من قبلهم ۚ وقد أنزلنا آيات بينات ۚ وللكافرين عذاب مهين...) - اردو