سورۃ المجادلہ: آیت 4 - فمن لم يجد فصيام شهرين... - اردو

آیت 4 کی تفسیر, سورۃ المجادلہ

فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ مِن قَبْلِ أَن يَتَمَآسَّا ۖ فَمَن لَّمْ يَسْتَطِعْ فَإِطْعَامُ سِتِّينَ مِسْكِينًا ۚ ذَٰلِكَ لِتُؤْمِنُوا۟ بِٱللَّهِ وَرَسُولِهِۦ ۚ وَتِلْكَ حُدُودُ ٱللَّهِ ۗ وَلِلْكَٰفِرِينَ عَذَابٌ أَلِيمٌ

اردو ترجمہ

اور جو شخص غلام نہ پائے وہ دو مہینے کے پے در پے روزے رکھے قبل اس کے کہ دونوں ایک دوسرے کو ہاتھ لگائیں اور جو اس پر بھی قادر نہ ہو وہ ۶۰ مسکینوں کو کھانا کھلائے یہ حکم اس لیے دیا جا رہا ہے کہ تم اللہ اور اُس کے رسول پر ایمان لاؤ یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں، اور کافروں کے لیے دردناک سزا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Faman lam yajid fasiyamu shahrayni mutatabiAAayni min qabli an yatamassa faman lam yastatiAA faitAAamu sitteena miskeenan thalika lituminoo biAllahi warasoolihi watilka hudoodu Allahi walilkafireena AAathabun aleemun

آیت 4 کی تفسیر

فمن لم ................ مسکینا (85 : 4) ” اور جو شخص غلام نہ پائے وہ دو مہینے کے پے در پے روزے رکھے قبل اس کے کہ دونوں ایک دوسرے کو ہاتھ لگائیں۔ اور جو اس پر بھی قادر نہ ہو وہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے۔ “

اب اس قانون کے توضیحی بیان اور مسلمانوں کو ہدایت کے لئے تبصرہ آتا ہے۔

ذلک لتومنو باللہ ورسولہ (85 : 4) ” یہ حکم اس لئے دیا جارہا ہے کہ تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ۔ “ وہ تو پہلے سے مومن ہیں ؟ لیکن یہ بیان کہ یہ کفارات اور جرمانے اور ان کے حالات کو اللہ کے احکام وقوانین سے مربوط کرنے سے ایمان میں قوت اور اضافہ ہوتا ہے۔ عملی زندگی ایمان کے ساتھ مربوط ہوتی ہے اور عملی زندگی پر ایمان کا کنٹرول قائم ہوتا ہے۔

وتلک ........................ الیم (85 : 4) ” یہ اللہ کی مقرر کی گئی ہوئی حدیں ہیں ، اور کافروں کے لئے درد ناک سزا ہے۔ “ یہ حدیں اللہ نے اس لئے قائم کی ہیں کہ لوگ ان حدوں سے آگے نہ بڑھ جائیں۔ اور جو شخص ان کا خیال نہیں رکھتا اور ان سے ادھر ہی رک کر نہیں رہتا اس کے غضب کا مستحق ہوتا ہے۔

وللکفرین عذاب الیم (85 : 4) ” اور کافروں کے لئے درد ناک عذاب ہے۔ “ کیونکہ وہ ظلم کرتے ہیں ، اللہ کو چیلنج کرتے ہیں ، ایمان نہیں لاتے۔ اللہ کی حدود پر نہیں رکھتے ، جس طرح اہل ایمان رکتے ہیں۔

یہ آخری عبارت وللکفرین عذاب الیم (85 : 4) ” اور کافروں کے لئے درد ناک عذاب ہے۔ “ سابقہ آیت کے خاتمے کے ساتھ ہم آہنگ ہے اور آنے والی آیت کا سابق آیت کے ساتھ رابطہ بھی قائم کردیتی ہے۔ جس کا موضوع یہ ہے کہ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے دشمنی کرتے ہیں وہ ذلیل ہوکر رہیں گے۔

آیت 4 { فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ شَہْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّتَمَآسَّا } ”تو جو کوئی غلام نہ پائے وہ دو مہینوں کے روزے رکھے لگاتار ‘ اس سے پہلے کہ وہ دونوں ایک دوسرے کو چھوئیں۔“ یعنی دو ماہ کے روزے اس طرح متواتر رکھے جائیں کہ درمیان میں کسی دن کا روزہ چھوٹنے نہ پائے۔ { فَمَنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَاِطْعَامُ سِتِّیْنَ مِسْکِیْنًا } ”تو جو کوئی یہ بھی نہ کرسکتا ہو تو وہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے۔“ اگر کوئی شخص کمزور ہے ‘ ضعیف العمر ہے یا ایسا مریض ہے کہ دو ماہ کے لگاتار روزے رکھنا اس کے لیے ممکن نہیں تو وہ ساٹھ مساکین کو کھانا کھلائے۔ اس کے لیے اوسط معیار وہی ہوگا جو سورة المائدۃ کی آیت 89 میں قسم کے کفارے کے ضمن میں بیان ہوا ہے : { مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَھْلِیْکُمْ } یعنی جس معیار کا کھانا متعلقہ شخص اپنے اہل و عیال کو معمول کے مطابق کھلاتا ہے ‘ ویسا ہی کھانا وہ ساٹھ مسکینوں کو کھلائے۔ { ذٰلِکَ لِتُؤْمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ } ”یہ اس لیے تاکہ تم ایمان رکھو اللہ پر اور اس کے رسول ﷺ پر۔“ اس فقرے پر میں بہت عرصہ سوچ بچار کرتا رہا ‘ بالآخر مجھے اس بارے میں یہ نکتہ سمجھ میں آیا کہ جب کوئی شخص کفارہ کو اللہ کا قانون سمجھتے ہوئے اس کی سختی برداشت کرتا ہے تو اس کے ایمان میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ یعنی جس طرح ایمان سے عمل صالح پیدا ہوتا ہے ‘ اسی طرح عمل صالح سے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے ‘ جیسے کہ سورة الحجرات میں فرمایا گیا :{ یَمُنُّوْنَ عَلَیْکَ اَنْ اَسْلَمُوْا قُلْ لَّا تَمُنُّوْا عَلَیَّ اِسْلَامَکُمْ بَلِ اللّٰہُ یَمُنُّ عَلَیْکُمْ اَنْ ہَدٰٹکُمْ لِلْاِیْمَانِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ۔ } ”اے نبی ﷺ ! یہ لوگ آپ پر احسان دھر رہے ہیں کہ وہ اسلام لے آئے ہیں ! ان سے کہیے کہ مجھ پر اپنے اسلام کا احسان نہ دھرو ‘ بلکہ اللہ تم پر احسان دھرتا ہے کہ اس نے تمہیں ایمان کے راستے پر ڈال دیا ہے ‘ اگر تم سچے ہو۔“یعنی تم لوگ اسلام میں داخل ہو کر گویا ایمان کے راستے پر چل پڑے ہو۔ اس بارے میں تم اللہ کا احسان مانو کہ وہ تمہیں ایمان کے راستے پر لے آیا ہے۔ اگر تم اخلاص کے ساتھ اس راستے پر چلتے ہوئے اعمالِ صالحہ کا اہتمام کرتے رہو گے تو تم ایمان تک بھی ضرور پہنچ جائو گے۔ یہاں { ذٰلِکَ لِتُؤْمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ } کا بھی یہی مفہوم ہے کہ اگر تم میں سے کوئی شخص غلطی کے بعد توبہ کرتے ہوئے کفارہ ادا کرے گا تو اللہ کے قانون پر عمل درآمد کرنے کی وجہ سے اس کے دل میں ایمان باللہ اور ایمان بالرسول مزید راسخ اور پختہ ہوجائے گا۔ { وَتِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ وَلِلْکٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ۔ } ”اور یہ اللہ کی مقرر کردہ حدود ہیں ‘ اور کافروں کے لیے بہت دردناک عذاب ہے۔“

آیت 4 - سورۃ المجادلہ: (فمن لم يجد فصيام شهرين متتابعين من قبل أن يتماسا ۖ فمن لم يستطع فإطعام ستين مسكينا ۚ ذلك لتؤمنوا...) - اردو