سورۃ المجادلہ: آیت 1 - قد سمع الله قول التي... - اردو

آیت 1 کی تفسیر, سورۃ المجادلہ

قَدْ سَمِعَ ٱللَّهُ قَوْلَ ٱلَّتِى تُجَٰدِلُكَ فِى زَوْجِهَا وَتَشْتَكِىٓ إِلَى ٱللَّهِ وَٱللَّهُ يَسْمَعُ تَحَاوُرَكُمَآ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ سَمِيعٌۢ بَصِيرٌ

اردو ترجمہ

اللہ نے سن لی اُس عورت کی بات جو ا پنے شوہر کے معاملہ میں تم سے تکرار کر رہی ہے اور اللہ سے فریاد کیے جاتی ہے اللہ تم دونوں کی گفتگو سن رہا ہے، وہ سب کچھ سننے اور دیکھنے والا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qad samiAAa Allahu qawla allatee tujadiluka fee zawjiha watashtakee ila Allahi waAllahu yasmaAAu tahawurakuma inna Allaha sameeAAun baseerun

آیت 1 کی تفسیر

جاہلیت کا یہ قانون تھا کہ مرد کسی وجہ سے بیوی سے ناراض ہوجاتا تو اسے یہ کہہ دیتا ” تو میرے لئے اس طرح ہے جس طرح میری ماں کی پیٹھ “۔ اس فقرے سے نہ عورت طلاق ہوتی تھی اور نہ وہ اس کے ساتھ تعلق زناشوئی قائم کرسکتا تھا۔ یوں یہ عورت ہمیشہ ہمیشہ کے لئے معلق رہ جاتی تھی۔ یہ دوسرے مظالم کے علاوہ ایک ظلم تھا جس میں کوئی عورت زمانہ جاہلیت میں مبتلا ہوجاتی تھی۔

جب اسلام ظہور پذیر ہوا تو اسلامی سوسائٹی میں اظہار کا یہ پہلا واقعہ پیش آیا جس کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے۔ ابھی تک اسلامی قانون اظہار نافذ نہ ہوا تھا۔ امام احمد روایت کرتے ہیں۔ سعد ابن ابراہیم اور یعقوب سے ، یہ دونوں ابی سے ، وہ محمد ابن اسحاق سے ، وہ معمرابن عبداللہ ابن حنظلہ سے ، وہ یوسف ابن عبداللہ ابن سلام سے ، وہ خویلہ بنت ثعلبہ ؓ سے وہ کہتی ہیں : ” خدا کی قسم سورة مجادلہ کی ابتدائی آیات میرے اور اوس ابن الصامت کے بارے میں نازل ہوئیں۔ میں ان کی بیوی تھی۔ یہ بہت بوڑھے اور سخت مزاج تھے۔ ایک دن وہ آئے میں نے کسی معاملے میں ان کے ساتھ تکرار کرلیا۔ انہیں بہت غصہ آیا تو انہوں نے مجھے کہا تو مجھ پر ایسی ہے جیسے میری ماں کی پیٹھ۔ اس کے بعد وہ چلے گئے۔ اور لوگوں کی محفل میں کچھ دیر تک رہے۔ پھر واپس آگئے۔ تو کیا دیکھتی ہوں کہ یہ میرے ساتھ تعلق زنا شوئی کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے کہا خدا کی قسم جس کے ہاتھ میں خویلہ کی جان ہے ، تم میرے قریب نہیں آسکتے۔ تم نے جو کچھ کہا ہے وہ تو کہہ دیا ہے۔ اب یہ معاملہ رسول اللہ کے پاس جائے گا۔ اور جب تک اللہ اور رسول اللہ کا کوئی حکم نہیں آجاتا تم میرے قریب نہیں آسکتے۔ تو انہوں نے مجھ پر حملہ کردیا اور میں نے انہیں روکا جس طرح ایک عورت بوڑھے شخص کو رک لیتی ہے۔ غرض میں انہیں اپنے سے پرے پھینک دیا۔ اس کے بعد میں اپنی بعض پڑوسنوں کے پاس گئی اور ان سے کپڑے عاریتاً مانگے۔ پھر میں رسول اللہ کے پاس پہنچ گئی۔ میں آپ کے سامنے بیٹھ گئی۔ تو میں نے آپ کے سامنے پورا ماجرہ سنایا اور میں نے سو ہر کی بداخلاقی کی شکایت بھی کی۔ تو رسول اللہ فرمانے لگے ” وہ تمہارا چچازاد بوڑھا ہے اس کے بارے میں اللہ سے ڈرو “ خدا کی قسم میں اصرار کرتی ہی رہی یہاں تک کہ قرآن مجید نازل ہوگیا۔ رسول اللہ پر فوراً ایک حالت طاری ہوگئی۔ جو عموماً آپ پر نہ ہوتی تھی۔ اس کے بعد آپ سے یہ حالت دور ہوگئی تو مجھے آپ نے فرمایا ” خویلہ ، اللہ نے تمہارے اور تمہارے خاوند کے بارے میں قرآن نازل کردیا ہے۔ “ اس کے بعد آپ نے مجھے یہ آیات سنائیں۔

قد سمع اللہ .................................... عذاب الیم (4) (75 : 1 تا 4)

” اللہ نے سن لی اس عورت کی بات جو اپنے شوہر کے معاملہ میں تم سے تکرار کررہی ہے اور اللہ سے فریاد کیے جاتی ہے۔ اللہ تم دونوں کی گفتگو سن رہا ہے ، وہ سب کچھ سننے اور دیکھنے والا ہے۔ تم میں سے جو لوگ اپنی بیویوں سے اظہار کرتے ہیں کہ ان کی بیویاں ان کی مائیں بہنیں ہیں ، ان کی مائیں تو وہی ہیں جنہوں نے ان کو جنا ہے۔ یہ لوگ ایک سخت ناپسندیدہ اور جھوٹی بات کہتے ہیں ، اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ بڑا معاف کرنے والا اور درگزر فرمانے والا ہے۔ جو لوگ اپنی بیویوں سے اظہار کریں پھر اپنی اس بات سے رجوع کریں جو انہوں نے کہی تھی ، تو قبل اس کے کہ دونوں ایک دوسرے کو ہاتھ لگائیں ، ایک غلام آزاد کرنا ہوگا۔ اس سے تم کو نصیحت کی جاتی ہے ، اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے۔ اور جو شخص غلام نہ پائے وہ دو مہینے کے پے در پے روزے رکھے قبل اس کے کہ دونوں ایک دوسرے کو ہاتھ لگائیں۔ اور جو اس پر بھی قادر نہ ہو وہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے۔ یہ حکم اس لئے دیا جارہا ہے کہ تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ۔ یہ اللہ کی مقرر کی گئی ہوئی حدیں ہیں ، اور کافروں کے لئے درد ناک سزا ہے۔ “

کہتی ہیں مجھے رسول اللہ نے بتایا کہ اس کو حکم دیں کہ وہ ایک غلام آزاد کردے۔ تو میں نے حضور سے عرض کی ” اس کے پاس کیا ہے کہ وہ غلام آزاد کرے “ تو آپ نے فرمایا “ پھر وہ مسلسل دو ماہ تک روزے رکھے۔ “ تو میں نے کہا کہ : ” خدا کی قسم وہ تو بڑھا آدمی ہے۔ وہ دو ماہ کے مسلسل روزے نہیں رکھ سکتا۔ “ تو آپ نے فرمایا ” پھر وہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا دے فی مسکین ایک وسق کھجوریں دے۔ “ کہتی ہیں میں نے کہا رسول خدا ، خدا کی قسم اس کے پاس یہ بھی نہیں ہے۔ تو رسول اللہ نے فرمایا کہ ” میں اسے کھجور کی ایک ” عرق “ (ساٹھ صاع) دے دوں گا۔ “ تو میں نے کہا ” حضور ﷺ ایک عرق میں دے دوں گی “۔ تو اس پر حضور ﷺ نے فرمایا ” تونے ٹھیک رویہ اختیار کیا اور احسان کیا ، لہٰذا جاؤ اور اس کی طرف سے صدقہ کرو ، اور اس کے بعد اپنے چچا زاد کے ساتھ اچھا رویہ اختیار کرو۔ “ کہتی ہیں ” میں نے ایسا ہی کیا۔ “ (اس روایت کو امام ابوداؤد نے کتاب الطلاق میں نقل کیا ہے) ۔

یہ حالات تھے جن میں حضور اکرم اور ایک عورت کے درمیان گفتگو ہوئی اور اس بارے میں پھر سات آسمانوں کے اوپر سے حکم آیا تاکہ اس عورت کو اس کا حق دیا جائے اور اس کے اور اس کے خاوند کے دلوں کو سکون دیا جائے اور اس قسم کے معاملات ، روز مرہ معاملات میں مسلمانوں کے لئے ضابطہ وضع کردیا جائے۔

یہ وہ حالات ہیں ، جن سے قرآن کی ایک سورت کا آغاز ہورہا ہے۔ قرآن اللہ کی ایک دائمی اور لازوال کتاب ہے اور اس کی اہمیت یہ ہے کہ اس کے ایک ایک لفظ کے ساتھ پوری کائنات ہم رکاب ہوجاتی ہے۔ سورت کا آغاز یوں ہوتا ہے۔

قد سمع .................... زوجھا (85 : 1) ” اللہ نے سن لی اس عورت کی بات جو اپنے شوہر کے معاملہ میں تم سے تکرار کررہی تھی “ تو اللہ مسلمانوں کی ایک عام عورت کے معاملات کی طرف بھی متوجہ ہے۔ اس عظیم کائنات ، ناپیدا کنار کائنات کے انتظام وانصرام نے اللہ کو ان معاملات سے مشغول نہ کردیا تھا ، نہ کسی اہم معاملے نے اللہ کو اس سے باز رکھا۔

یہ بہت ہی اہم معاملہ ہے کہ اس طرح کے ایک چھوٹے سے روزہ مرہ کے معاملے میں اللہ کی مداخلت ہوجائے اور پوری جامعت مسلمہ یہ شعور لے کر اللہ ان کے ساتھ ہے ، ان کے حالات میں ، ان کے معاملات میں کسی بڑے معاملے میں یا چھوٹے معاملے میں ، روز مرہ کے معاملے میں یا دائمی اور بڑے مسئلے اور مسائل میں۔ حالانکہ اللہ بہت ہی بڑا ، برتر ، جلیل القدر ، جبار اور متکبر ہے۔ تمام آسمان اور زمین اسی کے ہیں اور وہ غنی ہے اور اپنی ذات میں محمود ہے۔

حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں : تعریفیں ہیں اس ذات کے لئے جو تمام آوازوں کو سنتا ہے ، رسول اللہ سے تکرار کرنے والی کا نام خولہ تھا ، وہ آئی گھر کے ایک کونے میں وہ رسول اللہ سے بات کررہی تھی اور میں اس کی باتیں نہ سن سکتی تھی ، اللہ نے یہ آیت نازل کی۔

قدسمع ........................ الی اللہ (85 : 1) ” اللہ نے سن لی اس عورت کی بات جو اپنے شوہر کے معاملے میں تم سے تکرار کررہی تھی اور اللہ سے فریاد کئے جاتی تھی۔ “ (بخاری)

خولہ کی روایت میں ، جسے خویلہ تصغیر اور تذلیل کے لئے کہا گیا ہے ، یہ بات ہے کہ یہ حادثہ ، اس میں اس عورت کی کاروائی ، رسول اللہ تک پہنچنا ، تکرار کرنا ، قرآن کا نازل ہونا ، ان سب باتوں سے اس زندگی کا ایک نقشہ سامنے آجاتا ہے جو انسانی تاریخ کی یہ منفرد سوسائٹی گزار رہی تھی۔ یہ عجیب دور تھا ، لوگوں کا رابطہ براہ راست عالم بالا سے قائم تھا۔ وہ اپنی زندگی کے ہر معاملے میں اللہ کی ہدایات کے منتظر رہتے تھے۔ گویا سب لوگ عیال اللہ تھے۔ لوگوں کی نظریں عالم بالا پر اس طرح لگی ہوئی تھیں جس طرح ایک بچہ ہر وقت ماں باپ کی طرف دیکھتارہتا ہے۔

قرآن کے اندر اس واقعہ کی جو روایت ہے اس سے جو سبق ملتا ہے وہ یہ ہے کہ عالم بالا کی طرف سے مسلسل ہدایت اور تربیت بھی ہورہی ہے اور ساتھ ساتھ قانون سازی بھی۔ قرآن اپنے اسلوب کے مطابق قانون بنارہا تھا۔ یہ بصورت ایک خشک قانون سازی نہیں ہے۔

قد سمع .................... سمیع بصیر (85 : 1) ” اللہ نے سن لی اس عورت کی بات جو اپنے شوہر کے معاملے میں تم سے تکرار کررہی تھی اور اللہ سے فریاد کیے جاتی تھی اور اللہ تم دونوں کی گفتگو سن رہا ہے اور وہ سب کچھ سننے اور دیکھنے والا ہے۔ “ یہ نہایت ہی موثر آغاز ہے۔ دیکھو تم دونوں جو باتیں کررہے ہو ، اکیلے نہیں ہو۔ تمہارے ساتھ اللہ موجود ہے۔ وہ سن رہا ہے ۔ اس نے عورت کی بات سن لی۔ اپنے خاوند کے بارے میں تکرار اور اللہ سے شکایت۔ اللہ کو سب کچھ معلوم ہے ، وہ دیکھتا اور سنتا ہے۔ یہ تھے حالات اس حادثہ کے جس میں دونوں کے ساتھ ثالث اللہ تھا .... یہ سب باتیں چٹکیاں اور دل کے تاروں پر مضراب ہیں۔

اور اس کے بعد اصل مسئلے کو لیا جاتا ہے :

آیت 1 { قَدْ سَمِعَ اللّٰہُ قَوْلَ الَّتِیْ تُجَادِلُکَ فِیْ زَوْجِہَا } ”اللہ نے سن لی اس عورت کی بات جو اے نبی ﷺ ! آپ سے جھگڑ رہی ہے اپنے شوہر کے بارے میں“ { وَتَشْتَـکِیْٓ اِلَی اللّٰہِ } ”اور وہ اللہ سے بھی فریاد کر رہی ہے۔“ { وَاللّٰہُ یَسْمَعُ تَحَاوُرَکُمَا } ”اور اللہ سن رہا ہے آپ دونوں کے مابین ہونے والی گفتگو۔“ { اِنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌم بَصِیْرٌ۔ } ”یقینا اللہ سب کچھ سننے والا ‘ سب کچھ دیکھنے والا ہے۔“ ”قَدْ سَمِعَ اللّٰہُ“ کے معنی یہاں محض سن لینے کے نہیں ‘ بلکہ قبول کرلینے اور فریاد رسی کرنے کے ہیں۔ یہ ”ظہار“ کے معاملے کا ذکر ہے جو ایک صحابی حضرت اوس رض بن صامت انصاری اور ان کی بیوی حضرت خولہ رض بنت ثعلبہ کے درمیان پیش آیا۔ کسی شخص کا اپنی بیوی کو اپنی ماں یا اپنی ماں کے کسی عضو سے تشبیہہ دینا اصطلاحاً ”ظہار“ کہلاتا ہے ‘ مثلاً کسی کا اپنی بیوی کو یوں کہہ دینا کہ تم میرے لیے میری ماں کی طرح ہو یا میری ماں کی پیٹھ کی طرح ہو۔ عربوں کے ہاں اس کے لیے یہ الفاظ کہے جاتے تھے : ”اَنْتِ عَلَیَّ کَظَھْرِ اُمِّی“ یعنی اب تجھ کو ہاتھ لگانا میرے لیے گویا اپنی ماں کی پیٹھ کو ہاتھ لگانا ہے۔ زمانہ جاہلیت میں ظہار کو طلاق ہی کی طرح سمجھا جاتا تھا ‘ بلکہ طلاق میں تو حالات و قرائن کے مطابق پھر بھی رجوع کی گنجائش تھی ‘ لیکن ظہار کی صورت میں میاں بیوی میں عمر بھر کے لیے علیحدگی ہوجاتی تھی اور وہ دوبارہ کبھی کسی بھی صورت میں میاں بیوی کے طور پر اکٹھے نہیں ہوسکتے تھے۔ روایات میں مذکورہ معاملے کی تفصیل یوں بیان کی گئی ہے کہ حضرت اوس رض غصے کی حالت میں اپنی بیوی سے ظہار کر بیٹھے۔ اس پر ان کی بیوی حضرت خولہ رض بنت ثعلبہ فریاد لے کر حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کی کہ حضور ﷺ اوس رض نے یہ کردیا ہے۔ میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں ‘ اب میں ان کو لے کر کہاں جائوں گی ؟ ان کو کیسے پالوں گی ؟ آپ ﷺ اس پریشانی کا کوئی حل بتائیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ ظہار کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ابھی تک کوئی حکم نازل نہیں فرمایا ‘ اس لیے میں ابھی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ حضور ﷺ کے توقف پر وہ بدستور اصرار کرتی رہیں کہ حضور ﷺ آپ کچھ کریں ! ‘ میرا کیا بنے گا ؟ میرے بچے ہلاک ہوجائیں گے ! اسی کیفیت میں کبھی وہ اللہ تعالیٰ سے مخاطب ہوتیں کہ اے اللہ ! تو میری فریاد کو سن لے اور میرے لیے کوئی راستہ پیدا کر دے ! روایات کے مطابق اس اصرار و تکرار کے دوران ہی زیر مطالعہ آیات نازل ہوئیں۔ پہلی آیت کا انداز خصوصی طور پر بہت شفقت بھرا ہے کہ اے نبی ﷺ ! اللہ نے اس خاتون کی اس بحث و تکرار کو سن لیا ہے جو وہ آپ ﷺ کے ساتھ کر رہی ہے۔ حضرت خولہ رض بنت ثعلبہ کی فریاد پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کا دریا موج میں آیا اور ظہار کے بارے میں مستقل قانون بنا دیا گیا۔ یہ قانون اگلی تین آیات میں بیان ہوا ہے۔

حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں اللہ تعالیٰ کی ذات حمد وثناء کے لائق ہے جس کے سننے نے تمام آوازوں کو گھیر رکھا ہے، یہ شکایت کرنے والی خاتون آکر آنحضرت ﷺ سے اس طرح چپکے چپکے باتیں کر رہی تھیں کہ باوجود اسی گھر میں موجود ہونے کے میں مطلقاً نہ سن سکی کہ وہ کیا کہہ رہی ہیں ؟ اللہ تعالیٰ نے اس پوشیدہ آواز کو بھی سن لیا اور یہ آیت اتری (بخاری و مسند وغیرہ) اور روایت میں آپ کا یہ فرمان اس طرح منقول ہے کہ بابرکت ہے وہ الہ جو ہر اونچی نیچی آواز کو سنتا ہے، یہ شکایت کرنے والی بی بی صاحبہ حضرت خولہ بنت ثعلبہ ؓ جب حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں تو اس طرح سرگوشیاں کر رہی تھیں کہ کوئی لفظ تو کان تک پہنچ جاتا تھا ورنہ اکثر باتیں باوجود اسی گھر میں موجود ہونے کے میرے کانوں تک نہیں پہنچتی تھیں۔ اپنے میاں کی شکایت کرتے ہوئے فرمایا کہ یارسول اللہ ﷺ میری جوانی تو ان کے ساتھ کٹی بچے ان سے ہوئے اب جبکہ میں بڑھیا ہوگئی بچے پیدا کرنے کے قابل نہ رہی تو میرے میاں نے مجھ سے ظہار کرلیا، اے اللہ میں تیرے سامنے اپنے اس دکھڑے کا رونا روتی ہوں، ابھی یہ بی بی صاحبہ گھر سے باہر نہیں نکلی تھیں کہ حضرت جبرائیل ؑ یہ آیت لے کر اترے، ان کے خاوند کا نام حضرت اوس بن صامت ؓ تھا (ابن ابی حاتم) انہیں بھی کچھ جنون سا ہوجاتا تھا اس حالت میں اپنی بیوی صاحبہ سے ظہار کرلیتے پھر جب اچھے ہوجاتے تو گویا کچھ کہا ہی نہ تھا، یہ بی بی صاحبہ حضور سے فتویٰ پوچھنے اور اللہ کے سامنے اپنی التجا بیان کرنے کو آئیں جس پر یہ آیت اتری۔ حضرت یزید فرماتے ہیں کہ حضرت عمر ؓ اپنی خلافت کے زمانے میں اور لوگوں کے ساتھ جا رہے تھے کہ ایک عورت نے آواز دے کر ٹھہرالیا، حضرت عمر فوراً ٹھہر گئے اور ان کے پاس جاکر توجہ اور ادب سے سر جھکائے ان کی باتیں سننے لگے، جب وہ اپنی فرمائش کی تعمیل کراچکیں اور خود لوٹ گئیں تب امیرالمومنین ؓ بھی واپس ہمارے پاس آئے، ایک شخص نے کہا امیرالمومنین ایک بڑھیا کے کہنے سے آپ رک گئے اور اتنے آدمیوں کو آپ کی وجہ سے اب تک رکنا پڑا، آپ نے فرمایا افسوس جانتے بھی ہو یہ کون تھیں ؟ اس نے کہا نہیں، فرمایا یہ وہ عورت ہیں جن کی شکایت اللہ تعالیٰ نے ساتویں آسمان پر سنی یہ حضرت خولہ بنت ثعلبہ ہیں اگر یہ آج صبح سے شام چھوڑ رات کردیتیں اور مجھ سے کچھ فرماتی رہتیں تو بھی میں ان کی خدمت سے نہ ٹلتا ہاں نماز کے وقت نماز ادا کرلیتا اور پھر کمربستہ خدمت کیلئے حاضر ہوجاتا (ابن ابی حاتم) اس کی سند منقطع ہے اور دوسرے طریق سے بھی مروی ہے، ایک روایت میں ہے کہ یہ خولہ بن صامت تھیں اور ان کی والدہ کا نام معاذہ تھا جن کے بارے میں آیت (وَلَا تُكْرِهُوْا فَتَيٰتِكُمْ عَلَي الْبِغَاۗءِ اِنْ اَرَدْنَ تَحَصُّنًا لِّتَبْتَغُوْا عَرَضَ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا 33؀) 24۔ النور :33) ہوئی تھی، لیکن ٹھیک بات یہ ہے کہ حضرت خولہ اوس بن صامت کی بیوی تھیں، اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہو۔

آیت 1 - سورۃ المجادلہ: (قد سمع الله قول التي تجادلك في زوجها وتشتكي إلى الله والله يسمع تحاوركما ۚ إن الله سميع بصير...) - اردو