سورہ مائدہ: آیت 16 - كلا ۖ إنه كان لآياتنا... - اردو

آیت 16 کی تفسیر, سورہ مائدہ

كَلَّآ ۖ إِنَّهُۥ كَانَ لِءَايَٰتِنَا عَنِيدًا

اردو ترجمہ

ہرگز نہیں، وہ ہماری آیات سے عناد رکھتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Kalla innahu kana liayatina AAaneedan

آیت 16 کی تفسیر

یہاں اس کی سرزنش کی جاتی ہے اور اس پر سخت عتاب آتا ہے۔

انہ کان ................ عنیدا (74:12) ” وہ ہماری آیات سے عناد رکھتا تھا “۔ اس نے عناد کی وجہ سے حق کے دلائل کو رد کردیا اور ان اشارات کو قبول نہ کیا جو ایمان کی طرف جاتے تھے۔ یہ دعوت اسلامی کے مقابلے میں آکھڑا ہوا۔ رسول اللہ سے جنگ شروع کردی ، لوگوں کو اسلام سے روکا اور اس کے خلاف گمراہ کن پروپیگنڈا کیا۔

اس کے بعد ، اس سخت ترین سرزنش کے بعد اب اسے دھمکی دی جاتی ہے ، جس کی وجہ سے اب اس کو حاصل سہولیات مشکلات میں بدل جاتی ہیں۔ اور آسانیوں کی جگہ دشواریاں لیتی ہیں۔

آیت 17{ سَاُرْہِقُہٗ صَعُوْدًا۔ } ”میں اسے عنقریب ایک سخت چڑھائی چڑھوائوں گا۔“ اس سے مراد ایسا عذاب ہے جس کی شدت ہر آن بڑھتی چلی جائے گی۔ اسی نوعیت کے عذاب کا ذکر سورة جن میں بھی آچکا ہے : { یَسْلُکْہُ عَذَابًا صَعَدًا۔ } ”تو وہ ڈال دے گا اس کو چڑھتے عذاب میں۔“ ولید بن مغیرہ بنیادی طور پر بہت ذہین اور سمجھ دار شخص تھا۔ وہ سمجھ چکا تھا کہ قرآن اللہ ہی کا کلام ہے اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں ‘ لیکن اپنے ضمیر کی اس آواز پر لبیک کہہ کر وہ اپنی چودھراہٹ اور دنیوی ٹھاٹھ باٹھ کی قربانی نہیں دے سکتا تھا۔ اس لحاظ سے وہ واقعتا بہت مشکل میں تھا۔ اپنی اس مشکل کا حل اسے کسی درمیانی راہ میں نظر آتا تھا۔ چناچہ قریش میں سب سے بڑھ کر اس شخص نے حضور ﷺ پر سمجھوتے compromise کے لیے دبائو ڈالنے کی کوشش کی تھی۔ اس کے لیے اس نے حضور ﷺ کو ہمدردانہ انداز میں بھی سمجھایا ‘ پرکشش پیشکش کا حربہ بھی آزمایا اور برادری کے معاملات کا واسطہ بھی دیا کہ قریش اگر آپس میں تقسیم ہوجائیں گے تو ان کی بنی بنائی ساکھ ختم ہو کر رہ جائے گی۔ غرض اس نے ہر طرح سے کوشش کی کہ حضور ﷺ کچھ اپنی بات منوا لیں ‘ کچھ قریش کی مان لیں اور اس طرح فریقین کے اختلافات کو مذاکرات کے ذریعے ختم کردیا جائے۔ آئندہ آیات میں ایک خاص واقعہ کے حوالے سے اس شخص کی ایک خاص کیفیت کی تصویر دکھائی گئی ہے۔ تفاسیر میں اس واقعہ کی تفصیل یوں بیان کی گئی ہے کہ ایک محفل میں قریش کے بڑے بڑے سردار جمع تھے۔ زیربحث موضوع یہ تھا کہ محمد ﷺ کے بارے میں ہمیں ایک متفقہ موقف اپنانا چاہیے۔ جب ہم میں سے کوئی اسے شاعر سمجھتا ہے ‘ کوئی جادوگر کہتا ہے ‘ کوئی کاہن قرار دیتا ہے تو اس سے خود ہمارا موقف کمزور ہوجاتا ہے کہ ہم خود کسی بات پر متفق نہیں۔ بحث مباحثے کے بعد انہوں نے ولید بن مغیرہ کو حضور ﷺ کے پاس بھیجا کہ وہ جائے اور آپ ﷺ سے تفصیلی بات چیت کر کے انہیں اپنی حتمی رائے سے آگاہ کرے۔ جب وہ حضور ﷺ سے ملاقات کرکے واپس آیا تو انہوں نے اس کے چہرے کا رنگ بدلا ہوا پایا۔ دراصل حضور ﷺ سے گفتگو کرنے کے بعد وہ پوری طرح قائل ہوچکا تھا کہ آپ ﷺ واقعی اللہ کے رسول ﷺ ہیں اور جو کلام آپ ﷺ پیش کر رہے ہیں وہ بلاشبہ اللہ ہی کا کلام ہے۔ لیکن یہ بات سردارانِ قریش کے سامنے تسلیم کرنا اسے کسی قیمت پر گوارا نہیں تھا۔ چناچہ جب انہوں نے اس سے پوچھا کہ وہ کس نتیجے پر پہنچا ہے ؟ کیا ہم محمد ﷺ کو محض ایک شاعر سمجھیں ؟ تو اس نے کہا : نہیں ان ﷺ کا کلام شعر نہیں ہے۔ انہوں نے پوچھا تو کیا پھر ہم اسے ﷺ کاہن کہہ سکتے ہیں ؟ اس نے جواب دیا : نہیں ‘ کاہنوں کے قول و کردار کو میں خوب جانتا ہوں۔ وہ ذومعنی باتیں کرتے ہیں جبکہ یہ ﷺ تو دو ٹوک اور سیدھی بات کرتے ہیں۔ اس پر سردارانِ قریش نے کہا کہ لوجی ! یہ تو گیا ! اس پر بھی محمد ﷺ کا جادو چل گیا ! اب اس نے اہل محفل کے جو تیور دیکھے تو فوراً پینترا بدل کر بولا کہ ہاں اس کے کلام کے بارے میں آپ لوگ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ جادو ہے ‘ جو پچھلے زمانے سے چلا آ رہا ہے۔ اب ظاہر ہے ولید بن مغیرہ جیسے معتبر اور ّمدبر شخص کا ایک بات پر پوری طرح سے قائل ہونے کے بعد زبان سے اس کی علی الاعلان نفی کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ چناچہ اس موقع پر وہ اپنے ضمیر کی آواز کو دباتے ہوئے ‘ زبان سے جھوٹ کہتے ہوئے اور اس دوران اپنی پریشانی اور خفت کو چھپاتے ہوئے جس کرب سے گزرا ہے ‘ ان آیات میں اس کی اس پوری کیفیت کی تصویر کھینچ دی گئی ہے۔ اس اعتبار سے قرآن مجید کا یہ مقام فصاحت و بلاغت کی معراج اور لفظی منظر کشی کی بہترین مثال ہے۔

آیت 16 - سورہ مائدہ: (كلا ۖ إنه كان لآياتنا عنيدا...) - اردو