سورہ مائدہ: آیت 11 - ذرني ومن خلقت وحيدا... - اردو

آیت 11 کی تفسیر, سورہ مائدہ

ذَرْنِى وَمَنْ خَلَقْتُ وَحِيدًا

اردو ترجمہ

چھوڑ دو مجھے اور اُس شخص کو جسے میں نے اکیلا پیدا کیا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Tharnee waman khalaqtu waheedan

آیت 11 کی تفسیر

متعدد روایات میں یہ بات وارد ہے کہ ان آیات سے مراد ولید ابن مغیرہ مخزومی ہے۔ علامہ ابن جریر روایت کرتے ہیں ، ابن عبدالاعلیٰ سے ، وہ محمد ابن ثورہ سے ، وہ معمر سے ، وہ عبادہ ابن منصور سے ، وہ عکرمہ سے ، کہ ولید ابن مغیرہ نبی ﷺ کے پاس آیا۔ آپ نے اس کے سامنے قرآن کریم پڑھا۔ اس کا دل نرم ہوگیا۔ یہ بات ابوجہل ابن ہشام کو پہنچی۔ یہ اس کے پاس آیا اور کہا ” تمہاری قوم چاہتی ہے کہ تمہارے مال جمع کرے “۔ اس نے کہا : کس لیے : اس نے کہا کہ یہ مال وہ تمہیں دینا چاہتے ہیں کیونکہ تم محمد کے پاس گئے اور تم پر اس کا اثر ہوگیا ہے۔ (ابوجہل نے اس کی عزت نفس کے احساس سے فائدہ اٹھانا چاہا۔ اسے معلوم تھا کہ یہ ایک غیرت مند شخص ہے) ولید نے کہا قریش کو معلوم ہے کہ میں ان کا مالدار شخص ہوں۔ ابوجہل نے کہا ، لہٰذا تم اس کے بارے میں کوئی ایسی بات کہہ دو تاکہ لوگ سمجھیں کہ تم اس کے اقوال کو ناپسند کرتے ہو اور محمد کی باتوں کے منکر ہو۔ تو ولید نے کہا کہ میں ان کے بارے میں کیا کہوں ،” خدا کی قسم تم میں سے کوئی شخص محمد جیسا ادب اور شعر میں ماہر نہیں ہے۔ میں اشعار کی تمام اقسام سے واقف ہوں ، رجز ، قصیدہ اور اشعار تک جانتا ہوں۔ اس کا کلام ان میں سے کسی کے مماثل نہیں ہے بلکہ اس کے کلام میں ایک مٹھاس ہے ، اس کے سامنے جو آتا ہے ، پاش پاش ہوجاتا ہے۔ اور اس سے جو بلند ہونا چاہے یہ اس سے بلند ہوتا ہے۔ تو ابوجہل نے کہا خدا کی قسم تمہاری قوم ہرگز اس وقت تک تم سے راضی نہ ہوگی جب تک تم اس کے بارے میں کچھ نہ عو۔ تو اس پر اس نے کہا ذرا مجھے سوچنے دو ، جب اس نے سوچا تو اس نے کہا ، یہ کلام ایک ایسا جادو ہے جو اگلے وقتوں سے چلاآرہا ہے۔ اس پر یہ آیات نازل ہوئیں :

ذرنی ........................ وحید (74:11).... علیھا تسعة عشر (74:30) تک۔

ایک دوسری روایت میں ہے کہ حضور ﷺ کے ساتھ ولید کی ملاقات کے بعد قریش نے کہا کہ اگر ولید بےدین ہوگیا تو تمام قبیلہ قریش بےدین ہوجائے گا۔ تو ابوجہل نے کہا کہ ولید کو میں ٹھیک کردوں گا۔ اس کے بعد ابوجہل ولید کے پاس آیا۔ اور طویل غوروفکر کے بعد اس نے کہا۔” یہ پرانا جادو ہے ، کیا تم نہیں دیکھتے کہ یہ ایک آدمی اور اس کے گھرانے کے درمیان جدائی کردیتا ہے۔ باپ کو بیٹے سے جدا کردیتا ہے اور مالک اور غلام کے درمیان جدائی پیدا کرتا ہے “۔

یہ ہے واقعہ جس طرح روایات میں آتا ہے۔ لیکن قرآن اس کو نہایت ہی زندہ وتابندہ الفاظ میں پیش کرتا ہے۔ انداز نہایت ہی موثر ہے۔ اس طرح آغاز ہوتا ہے

ذرنی .................... وحیدا (74:11) ” چھوڑ دو مجھے اور شخص کو جسے میں نے اکیلا پیدا کیا “۔ یہ خطاب نبی ﷺ کو ہے۔ مطلب یہ ہے کہ وہ شخص جسے میں نے اکیلا پیدا کیا تھا اور اس وقت اس کے پاس ان چیزوں میں سے کوئی ایک چیز بھی نہ تھی جن پر اہل دنیا فخر کرتے ہیں۔ مال و دولت اور اولاد اور دوسری اشیاء مثلاً معاشرے میں عزت واحترام ، یہ چیزیں میں نے اسے دیں اور اب یہ ان پر اترا کر تحریک اسلامی کے خلاف جنگ کرتا ہے ، سازشیں کرتا ہے ، اس کو میرے ذمہ چھوڑ دو ۔ میں اس سے نمٹ لوں گا۔ اس مقام پر جب انسان قدرے غور کرتا ہے تو کانپ اٹھتا ہے اور یہ سوچتا ہے کہ اس بدبخت کے خلاف علیم وخبیر کی بےپناہ قدرت اور قوت نے کام شروع کردیا ہے۔ اللہ جبار وقہاری کی قوت ہے۔ یہ قوت اس حقیر وناتواں کو تو پیس کر رکھ دے گی اور اس کا کیا حال ہوگا۔

اس آیت نے اس شخص کے خدوخال ذرا نہایت ہی طوالت سے بیان کیے ہیں اور اللہ کی نعمتوں کی وہ تفصیلات بھی دی ہیں ، جو اللہ نے اس شخص کو دی تھیں۔ یہ تفصیلات اس کے اعراض اور اس کی سازشوں کے ذکر سے بھی پہلے دی گئی ہیں کہ میں نے اسے اکیلا پیدا کیا ، اس کے پاس کچھ بھی نہ تھا ، یہاں تک کہ بدن پر کپڑے بھی نہ تھے۔ اس کے بعد اللہ نے اسے بہت وسیع دولت دی۔ اور اس کو ڈھیر سے بیٹے دیئے جو اس کے ارد گرد ہر وقت موجود رہتے تھے۔ اور ان کی وجہ سے وہ نہایت ہی معزز سمجھا جاتا تھا۔ اور اللہ نے اس کے لئے زندگی کا ہر سامان فراہم کیا اور ہر موڑ کو آسان کیا۔

آیت 1 1{ ذَرْنِیْ وَمَنْ خَلَقْتُ وَحِیْدًا۔ } ”آپ چھوڑ دیجیے مجھے اور جس کو میں نے اکیلا پیدا کیا۔“ ذَرْنِیْکا یہ انداز ہم قبل ازیں سورة ن اور سورة المزمل میں بھی پڑھ چکے ہیں۔ خَلَقْتُ وَحِیْدًا کا مفہوم یہ ہے کہ جب میں نے اسے پیدا کیا تھا اس وقت یہ تنہا تھا ‘ کوئی مال ‘ اولاد یا جائیداد وغیرہ لے کر پیدا نہیں ہوا تھا۔ ان آیات کے بارے میں مفسرین کا اجماع ہے کہ یہ ولید بن مغیرہ کے حق میں نازل ہوئی ہیں۔ اس شخص کی مکہ اور طائف دونوں شہروں میں بڑی بڑی جائیدادیں تھیں۔ اللہ نے اسے بہت سے بیٹوں سے بھی نواز رکھا تھا۔

جہنم کی ایک وادی، صعود اور ولید بن مغیرہ جس خبیث شخص نے اللہ کی نعمتوں کا کفر کیا اور قرآن کو انسانی قول کہا اس کی سزاؤں کا ذکر ہو رہا ہے، پہلے جو نعمتیں اس پر انعام ہوئی ہیں ان کا بیان ہو رہا ہے کہ یہ تن تنہا خالی ہاتھ دنیا میں آیا تھا مال اولاد دیا اور کچھ اس کے پاس نہ تھا پھر اللہ نے اسے مالدار بنادیا، ہزاروں لاکھوں دینار زر زمین وغیرہ عنایت فرمائی اور باعتبار بعض اقوال کے تیرہ اور بعض اوراقوال کے دس لڑکے دیئے جو سب کے سب اس کے پاس بیٹھے رہتے تھے نوکر چاکر لونڈی غلام کام کاج کرتے رہتے اور یہ مزے سے اپنی زندگی اپنی اولاد کے ساتھ گزارتا، غرض دھن دولت لونڈی غلام بال بچے آرام آسائش ہر طرح کی مہیا تھی، پھر بھی خواہش نفس پوری نہیں ہوتی تھی اور چاہتا تھا کہ اللہ اور بڑھا دے، حالانکہ ایسا اب نہ ہوگا، یہ ہمارے احکامات کے علم کے بعد بھی کفر اور سرکشی کرتا ہے اسے صعود پر چڑھایا جائے گا، مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ ویل جہنم کی ایک وادی کا نام ہے جس میں کافر گرایا جائے گا چالیس سال تک اندر ہی اندر جاتا رہے گا لیکن پھر بھی تہ تک نہ پہنچے گا اور صعود جہنم کے ایک ناری پہاڑ کا نام ہے جس پر کافر کو چڑھایا جائے گا ستر سال تک تو چڑھتا ہی رہے گا پھر وہاں سے نیچے گرا دیا جائے گا ستر سال تک نیچے لڑھکتا رہے گا اور اسی ابدی سزا میں گرفتار رہے گا، یہ حدیث ترمذی میں بھی ہے اور امام ترمذی ؒ اسے غریب کہتے ہیں، ساتھ ہی یہ حدیث منکر ہے، ابن ابی حاتم میں ہے کہ صعود جہنم کے ایک پہاڑ کا نام ہے جو آگ کا ہے اسے مجبور کیا جائے گا اس پر چڑھے ہاتھ رکھتے ہی رکھتے ہی راکھ ہوجائے گا اور اٹھاتے ہی بدستور ویسا ہی ہوجائے گا اسی طرح پاؤں بھی، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں جہنم کی ایک چٹان کا نام ہے جس پر کافر اپنے منہ کے بل گھسیٹتا جائے گا، سدی کہتے ہیں یہ پتھر بڑا پھسلنا ہے، مجاہد کہتے ہیں مطلب آیت کا یہ ہے کہ ہم اسے مشقت والا عذاب دیں گے، قتادہ فرماتے ہیں ایسا عذاب جس میں اور جس سے کبھی بھی راحت نہ ہو، امام جریر اسی کو پسند فرماتے ہیں۔ پھر فرماتا ہے کہ ہم نے اس تکلیف دہ عذاب سے اس لئے قریب کردیا کہ وہ ایمان سے بہت دور تھا وہ سوچ سوچ کر خود ساختہ دنیا میں رہتا تھا کہ وہ قرآن کی مانند کہے اور بات بنائے پھر اس پر افسوس کیا جاتا ہے اور محاورہ عرب کے مطابق اس کی ہلاکت کے کلمے کہے جاتے ہیں کہ یہ غارت کردیا جائے یہ برباد کردیا جائے کتنا بد کلام، بری سوچ، کتنی بےحیائی سے جھوٹ بات گھڑ لی، اور بار بار غور و فکر کے بعد پیشانی پر بل ڈال کر، منہ بگاڑ کر، حق سے ہٹ کر بھلائی سے منہ موڑ کر اطاعت اللہ سے منہ پھیر کر، دل کڑا کر کے کہہ دیا کہ یہ قرآن اللہ کا کلام نہیں بلکہ محمد ﷺ اپنے سے پہلے لوگوں کا جادو کا منتر نقل کرلیا کرتے ہیں اور اسی کو سنا رہے ہیں یہ کلام اللہ کا نہیں بلکہ انسانی قول ہے اور جادو ہے جو نقل کیا جاتا ہے، اس ملعون کا نام ولید بن مغیرہ مخزومی تھا، قریش کا سردار تھا، حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں واقعہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ یہ ولید پلید حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے پاس آیا اور خواہش ظاہر کی کہ آپ کچھ قرآن سنائیں حضرت صدیق اکبر نے چند آیتیں پڑھ سنائیں جو اس کے دل میں گھر کر گئیں جب یہاں سے نکلا اور کفار قریش کے مجمع میں پہنچا تو کہنے لگا لوگو ! تعجب کی بات ہے حضرت محمد ﷺ جو قرآن پڑھتے ہیں اللہ کی قسم نہ تو وہ شعر ہے نہ جادو کا منتر ہے نہ مجنونانہ بڑ ہے بلکہ واللہ وہ تو خاص اللہ تعالیٰ ہی کا کلام ہے اس میں کوئی شک نہیں، قریشیوں نے یہ سن کر سر پکڑ لیا اور کہنے لگے اگر یہ مسلمان ہوگیا تو بس پھر قریش میں سے ایک بھی بغیر اسلام لائے باقی نہ رہے گا، ابو جہل کو جب یہ خبر پہنچی تو اس نے کہا گھبراؤ نہیں دیکھو میں ایک ترکیب سے اسے اسلام سے پھیر دوں گا یہ کہتے ہی اپنے ذہن میں ایک ترکیب سوچ کر یہ ولید کے گھر پہنچا اور کہنے لگا آپ کی قوم نے آپ کے لئے چندہ کر کے بہت سا مال جمع کرلیا ہے اور وہ آپ کو صدقہ میں دینے والے ہیں، اس نے کہا واہ کیا مزے کی بات ہے مجھے ان کے چندوں اور صدقوں کی کیا ضرورت ہے دنیا جانتی ہے کہ ان سب میں مجھ سے زیادہ مال و اولاد والا کوئی نہیں ابو جہل نے کہا یہ تو ٹھیک ہے لیکن لوگوں میں ایسی باتیں ہو رہی ہیں کہ آپ جو ابوبکر کے پاس آتے جاتے ہیں وہ صرف اس لئے کہ ان سے کچھ حاصل وصول ہو، ولید کہنے لگا اوہو میرے خاندان میں میری نسبت یہ چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں مجھے مطلق معلوم نہ تھا اچھا اب قسم اللہ کی نہ میں ابوبکر کے پاس جاؤں نہ عمر کے پاس نہ رسول ﷺ کے پاس اور وہ جو کچھ کہتے ہیں وہ صرف جادو ہے جو نقل کیا جاتا ہے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں یعنی آیت (ذَرْنِيْ وَمَنْ خَلَقْتُ وَحِيْدًا 11 ۙ) 74۔ المدثر :11) حضرت قتادہ فرماتے ہیں اس نے کہا تھا قرآن کے بارے میں بہت کچھ غور و خوض کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ یہ شعر تو نہیں اس میں حلاوت ہے، اس میں چمک ہے، یہ غالب ہے مغلوب نہیں لیکن ہے یقینًا جادو۔ اس پر یہ آیتیں اتریں۔ ابن جریر میں ہے کہ ولیدحضور ﷺ کے پاس آیا تھا اور قرآن سن کر اس کا دل نرم پڑگیا تھا اور پورا اثر ہوچکا تھا جب ابو جہل کو یہ معلوم ہوا تو دوڑا بھاگا آیا اور اس ڈر سے کہ کہیں یہ کھلم کھلا مسلمان نہ ہوجائے اس بھڑکانے کے لئے جھوٹ موٹ کہنے لگا کہ چچا آپ کی قوم آپ کے لئے مال جمع کرنا چاہتی ہے پوچھا کیوں ؟ کہا اس لئے کہ آپ کو دین اور محمد ﷺ کے پاس آپ کا جانا چھڑوائیں کیونکہ آپ وہاں مال حاصل کرنے کی غرض سے ہی جاتے آتے ہیں اس نے غصہ میں آ کر کہا میری قوم کو معلوم نہیں کہ میں ان سب سے زیادہ مالدار ہوں ؟ ابو جہل نے کہا یہ ٹھیک ہے لیکن اس وقت تو لوگوں کا یہ خیال پختہ ہوگیا کہ محمد ﷺ سے مال حاصل کرنے کی غرض سے آپ اسی کے ہوگئے ہیں اگر آپ چاہتے ہیں کہ یہ بات لوگوں کے دلوں سے اٹھ جائے تو آپ اس کے بارے میں کچھ سخت الفاظ کہیں تاکہ لوگوں کو یقین ہوجائے کہ آپ اس کے مخالف ہیں اور آپ کو اس سے کوئی طمع نہیں، اس نے کہا بھئی بات تو یہ ہے کہ اس نے جو قرآن مجھے سنایا ہے قسم ہے اللہ کی نہ وہ شعر ہے نہ قصیدہ ہے اور نہ رجز ہے، نہ جنات کا قول اور نہ ان کے اشعار ہیں۔ تمہیں خوب معلوم ہے کہ جنات اور انسان کا کلام مجھے خوب یاد ہے میں خود نامی شاعر ہوں کلام کے حسن و قبح سے خوب واقف ہوں لیکن اللہ کی قسم محمد ﷺ کا کلام اس میں سے کچھ بھی نہیں اللہ جانتا ہے اس میں عجب حلاوت مٹھاس لذت شیفتگی اور دلیری ہے وہ تمام کلاموں کا سردار ہے اس کے سامنے اور کوئی کلام جچتا نہیں وہ سب پر چھا جاتا ہے اس میں کشش بلندی اور جذب ہے اب تم ہی بتاؤ کہ میں اس کلام کی نسبت کیا کہوں ؟ ابو جہل نے کہا سنو جب تک تم اسے برائی کے ساتھ یاد نہ کرو گے تمہاری قوم کے خیالات تمہاری نسبت صاف نہیں ہوں گے، اس نے کہا اچھا تو مجھے مہلت دو میں سوچ کر اس کی نسبت کوئی ایسا کلمہ کہہ دوں گا چناچہ سوچ سوچ کر قومی حمیت اور ناک رکھنے کی خاطر اس نے کہہ دیا کہ یہ تو جادو ہے جسے وہ نقل کرتا ہے اس پر آیت (ذرنی سے تسعتہ یحشر) تک کی آیتیں اتریں۔ سدی کہتے ہیں کہ دارالندوہ میں بیٹھ کر ان سب لوگوں نے مشورہ کیا کہ موسم حج پر چاروں طرف سے لوگ آئیں گے تو بتاؤ انہیں محمد ﷺ کی نسبت کیا کہیں ؟ کوئی ایسی تجویز کرو کہ سب بیک زبان وہی بات کہیں تاکہ عرب بھر میں اور پھر ہر جگہ بھی وہی مشہور ہوجائے تو اب کسی نے شاعر کہا کسی نے جادوگر کہا کسی نے کاہن اور نجومی کہا کسی نے مجنون اور دیوانہ کہا ولید بیٹھا سوچتا رہا اور غور و فکر کر کے دیکھ بھال کر تیوری چڑھا اور منہ بنا کر کہنے لگا جادوگروں کا قول ہے جسے یہ نقل کر رہا ہے، قرآن کریم میں اور جگہ ہے آیت (اُنْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوْا لَكَ الْاَمْثَالَ فَضَلُّوْا فَلَا يَسْتَطِيْعُوْنَ سَبِيْلًا 48؀) 17۔ الإسراء :48) یعنی ذرا دیکھ تو سہی تیری کیسی کیسی مثالیں گھڑتے ہیں لیکن بہک بہک کر رہ جاتے ہیں اور کسی نتیجہ تک نہیں پہنچ سکتے۔ اب اس کی سزا کا ذکر ہو رہا ہے کہ میں انہیں جہنم کی آگ میں غرق کر دونگا جو زبردست خوفناک عذاب کی آگ ہے جو گوشت پوست کو رگ پٹھوں کو کھا جاتی ہے پھر یہ سب تازہ پیدا کئے جاتے ہیں اور پھر زندہ کئے جاتے ہیں نہ موت آئے نہ راحت والی زندگی لے، کھال ادھیڑ دینے والی وہ آگ ہے ایک ہی لپک میں جسم کو رات سے زیادہ سیاہ کردیتی وہ جسم و جلد کو بھون بھلس دیتی ہے، انیس انیس داروغے اس پر مقرر ہیں جو نہ تھکیں نہ رحم کریں، حضرت برار ؓ سے مروی ہے کہ چند یہودیوں نے صحابہ سے یہ واقعہ بیان کیا اسی وقت آیت (عَلَيْهَا تِسْعَةَ عَشَرَ 30؀ۭ) 74۔ المدثر :30) نازل ہوئی آپ نے صحابہ کو سنا دی اور کہا ذرا انہیں میرے پاس تو لاؤ میں بھی ان سے پوچھوں کہ جنت کی مٹی کیا ہے ؟ سنو وہ سفید میدہ کی طرح ہے، پھر یہودی آپ کے پاس آئے اور آپ سے پوچھا کہ جہنم کے داروغوں کی تعداد کتنی ہے آپ نے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں دو دفعہ جھکائیں دوسری دفعہ میں انگوٹھا روک لیا یعنی انیس۔ پھر فرمایا تم بتلاؤ کے جنت کی مٹی کیا ہے ؟ انہوں نے ابن سلام سے کہا آپ ہی کہئے ابن سلام نے کہا گویا وہ سفید روٹی ہے آپ نے فرمایا یاد رکھو یہ سفید روٹی وہ جو خالص میدے کی ہو (ابن ابی حاتم) مسند بزار میں ہے کہ جس شخص نے حضور کو صحابہ کے لاجواب ہونے کی خبر دی تھی اس نے آ کر کہا تھا کہا آج تو آپ کے اصحاب ہار گئے پوچھا کیسے ؟ اس نے کہا ان سے جواب نہ بن پڑا اور کہنا پڑا کہ ہم اپنے نبی ﷺ سے پوچھ لیں آپ نے فرمایا بھلا وہ ہارے ہوئے کیسے کہے جاسکتے ہیں ؟ جن سے جو بات پوچھی جاتی ہے اگر وہ نہیں جاتے تو کہتے ہیں کہ ہم اپنے نبی سے پوچھ کر جواب دیں گے۔ ان یہودیوں کو دشمنان الٰہی کو ذرا میرے پاس تو لاؤ ہاں انہوں نے اپنے نبی سے اللہ کو دیکھنے کا سوال کیا تھا اور ان پر عذاب بھیجا گیا تھا۔ اب یہود بلوائے گئے جواب دیا گیا اور حضور ﷺ کے سوال پر یہ بڑے چکرائے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔

آیت 11 - سورہ مائدہ: (ذرني ومن خلقت وحيدا...) - اردو