سورہ مائدہ: آیت 1 - يا أيها المدثر... - اردو

آیت 1 کی تفسیر, سورہ مائدہ

يَٰٓأَيُّهَا ٱلْمُدَّثِّرُ

اردو ترجمہ

اے اوڑھ لپیٹ کر لیٹنے والے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ya ayyuha almuddaththiru

آیت 1 کی تفسیر

یہ عالم بالا کی بہت ہی اہم آواز ہے۔ اور اس نہایت ہی اہم معاملے کے بارے میں ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ انسانوں کو ڈرانا ہے ، ان کو جگانا اور بیدار کرنا ہے اور دنیا میں ان کو شر و فساد سے بچانا ہے اور آخرت میں آگ سے بچانا ہے۔ اور وقت ختم ہونے سے قبل ہی نجات کا طریقہ اور امتحان میں کامیابی کی حکمت بتانا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ بہت ہی بڑی ذمہ داری ہے خصوصاً جبکہ یہ ذمہ داری ایک فرد بشر کے کاندھوں پر ڈال دی جائے۔ اگرچہ یہ فردو بشر نبی اور رسول ہو ، کیونکہ انسان اس قدر گمراہ ، سرکش ، باغی ، نافرمان ، معاند ، کج رو اور اپنے روبہ پر اصرار کرنے والا ہے کہ کسی انسان کے لئے اس کی اصلاح کا کام بہت ہی مشکل کام ہے۔ دنیا کے مشکل سے مشکل کام کے مقابلے میں بھی یہ زیادہ مشکل تر کام ہے۔

یایھا المدثر (1) قم فانذر (74:2) ” اے اوڑھ لپیٹ کرلیٹنے والے ، اٹھو اور خبردار کرو “۔ رسالت کے فرائض میں سب سے بڑا فریضہ یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کو برے انجام سے ڈرایا جائے۔ اور ان کو متنبہ کیا جائے کہ خطرہ بہت قریب ہے۔ اور عذاب ان لوگوں کے لئے گھات میں بیٹھا ہوا ہے جو غافل ہیں اور جو بری راہوں پر سرپٹ دوڑ رہے ہیں اور ان کو خطرے کا کوئی شعور اور احساس نہیں ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ کو اپنے بندوں سے کس قدر زیادہ ہمدردی ہے اور وہ کس قدر رحیم ہے۔ باوجود اس حقیقت کے کہ اگر سب کے سب انسان گمراہ ہوجائیں تو وہ اللہ کی بادشاہت میں ذرہ برابر کمی نہیں کرسکتے اور اگر یہ سب کے سب ہدایت پر آجائیں تو اللہ کی بادشاہت میں کوئی اضافہ نہیں کرسکتے۔ لیکن یہ اللہ کا رحم وکرم ہے کہ وہ ان کو آخرت کے درد ناک عذاب سے بچانے کے لئے اب قدر انتظامات کرتا ہے۔ دنیا میں لوگوں کو شر سے بچاتا ہے۔ اور رسولوں کو بھیجتا ہے کہ آﺅ میں تمہیں بخش دوں گا اور اپنے فضل وکرم سے جنت میں داخل کردوں۔

ابتدائے وحی حضرت جابر سے صحیح بخاری شریف میں مروی ہے کہ سب سے پہلے قرآن کریم کی یہی آیت (يٰٓاَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ ۙ) 74۔ المدثر :1) نازل ہوئی ہے، لیکن جمہور کا قول یہ ہے کہ سب سے پہلی وحی آیت (اقرا باسم) کی آیتیں ہیں جیسے اسی سورت کی تفسیر کے موقعہ پر آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ۔ یحییٰ بن ابو کثیر فرماتے ہیں میں نے حضرت ابو سلمہ بن عبدالرحمٰن سے سوال کیا کہ سب سے پہلے قرآن کریم کی کونسی آیتیں نازل ہوئیں ؟ تو فرمایا آیت (یا ایھا المدثر) میں نے کہا لوگ تو آیت (اِقْرَاْ باسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ ۚ) 96۔ العلق :1) بتاتے ہیں فرمایا میں نے حضرت جابر سے پوچھا تھا انہوں نے وہی جواب دیا جو میں نے تمہیں دیا اور میں نے بھی وہی کہا جو تم نے مجھے کہا اس کے جواب میں حضرت جابر نے فرمایا کہ میں تو تم سے وہی کہتا ہوں جو ہم سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں حرا میں اللہ کی یاد سے جب فارغ ہوا اور اترا تو میں نے سنا کہ گویا مجھے کوئی آواز دے رہا ہے میں نے اپنے آگے پیچھے دائیں بائیں دیکھا مگر کوئی نظر نہ آیا تو میں نے سر اٹھا کر اوپر کو دیکھا تو آواز دینے والا نظر آیا۔ میں خدیجہ ؓ کے پاس آیا اور کہا مجھے چادر اڑھا دو اور مجھ پر ٹھنڈا پانی ڈالو انہوں نے ایسا ہی کیا اور آیت (يٰٓاَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ ۙ) 74۔ المدثر :1) کی آیتیں اتریں (بخاری) صحیح بخاری مسلم میں ہے کہ حضور ﷺ نے وحی کے رک جانے کی حدیث بیان فرماتے ہوئے فرمایا کہ ایک مرتبہ میں چلا جا رہا تھا کہ ناگہاں آسمان کی طرف سے مجھے آواز سنائی دی۔ میں نے نگاہ اٹھا کر دیکھا کہ جو فرشتہ میرے پاس غار حرا میں آیا تھا وہ آسمان و زمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا ہے میں مارے ڈر اور گھبراہٹ کے زمین کی طرف جھک گیا اور گھر آتے ہی کہا کہ مجھے کپڑوں سے ڈھانک دو چناچہ گھر والوں نے مجھے کپڑے اوڑھا دیئے اور سورة مدثر کی (وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ ۽) 74۔ المدثر :5) تک کی آیتیں اتریں، ابو سلمہ فرماتے ہیں (رجز) سے مراد بت ہیں۔ پھر وحی برابر تابڑ توڑ گرما گرمی سے آنے لگی، یہ لفظ بخاری کے ہیں اور یہی سیاق محفوظ ہے اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ اس سے پہلے بھی کوئی وحی آئی تھی کیونکہ آپ کا فرمان موجود ہے کہ یہ وہی تھا جو غار حرا میں میرے پاس آیا تھا یعنی حضرت جبرائیل ؑ جبکہ غار میں سورة اقراء کی آیتیں (مالم یعلم) تک پڑھا گئے تھے، پھر اس کے بعد وحی کچھ زمانہ تک نہ آئی پھر جو اس کی آمد شروع ہوئی اس میں سب سے پہلے وحی سورة مدثر کی ابتدائی آیتیں تھیں اور اس طرح ان دونوں احادیث میں تطبیق بھی ہوجاتی ہے کہ دراصل سب سے پہلے وحی تو اقراء کی آیتیں ہیں پھر وحی کے رک جانے کے بعد کی اس سے پہلی وحی اس سورت کی آیتیں ہیں اس کی تائید مسند احمد وغیرہ کی احادیث سے بھی ہوتی ہے جن میں ہے کہ وحی رک جانے کے بعد کی پہلی وحی اس کی ابتدائی آیتیں ہیں، طبرانی میں اس سورت کا شان نزول یہ مروی ہے کہ ولید بن مغیرہ نے قریشیوں کی دعوت کی جب سب کھا پی چکے تو کہنے لگا بتاؤ تم اس شخص کی بابت کیا کہتے ہو ؟ تو بعض نے کہا جادوگر ہے بعض نے کہا نہیں ہے، بعض نے کہا کاہن ہے کسی نے کہا کاہن نہیں ہے، بعض نے کہا شاعر ہے بعض نے کہا شاعر نہیں ہے، بعض نے کہا اس کا یہ کلام یعنی قرآن منقول جادو ہے چناچہ اس پر اجماع ہوگیا کہ اسے منقول جادو کہا جائے حضور ﷺ کو جب یہ اطلاع پہنچی تو غمگین ہوئے اور سر پر کپڑا ڈال لیا اور کپڑا اوڑھ بھی لیا جس پر یہ آیتیں فاصبر تک اتریں۔ پھر فرمایا ہے کہ کھڑے ہوجاؤ، یعنی عزم اور قومی ارادے کے ساتھ کمربستہ اور تیار ہوجاؤ اور لوگوں کو ہماری ذات سے، جہنم سے، اور ان کے بداعمال کی سزا سے ڈرا۔ ان کو آگاہ کردو ان سے غفلت کو دور کردو، پہلی وحی سے نبوۃ کے ساتھ حضور ﷺ کو ممتاز کیا گیا اور اس وحی سے آپ رسول بنائے گئے اور اپنے رب ہی کی تعظیم کرو اور اپنے کپڑوں کو پاک رکھو یعنی معصیت، بدعہدی، وعدہ شکنی وغیرہ سے بچتے رہو، جیسے کہ شاعر کے شعر میں ہے کہ بحمد للہ میں فسق و فجور کے لباس سے اور غدر کے رومال سے عاری ہوں، عربی محاورے میں یہ برابر آتا ہے کہ کپڑے پاک رکھو یعنی گناہ چھوڑ دو ، اعمال کی اصلاح کرلو، یہ بھی مطلب کہا گیا ہے کہ دراصل آپ نہ تو کاہن ہیں نہ جادوگر ہیں یہ لوگ کچھ ہی کہا کریں آپ پرواہ بھی نہ کریں، عربی محاورے میں جو معصیت آلود، بد عہد ہو اسے میلے اور گندے کپڑوں والا اور جو عصمت مآب، پابند وعدہ ہو اسے پاک کپڑوں والا کہتے ہیں، شاعر کہتا ہے۔ اذا المر الم یدنس من اللوم عرضہ فکل ردا یرتدیہ جمیل یعنی انسان جبکہ سیہ کاریوں سے الگ ہے تو ہر کپڑے میں وہ حسین ہے اور یہ مطلب بھی ہے کہ غیر ضروری لباس نہ پہنو اپنے کپڑوں کو معصیت آلود نہ کرو۔ کپڑے پاک صاف رکھو، میلوں کو دھو ڈالا کرو، مشرکوں کی طرح اپنا لباس ناپاک نہ رکھو۔ دراصل یہ سب مطالب ٹھیک ہیں یہ بھی وہ بھی۔ سات ہی دل بھی پاک ہو دل پر بھی کپڑے کا اطلاق کلام عرب میں پایا جاتا ہے جیسے امراء القیس کے شعر میں ہے اور حضرت سعید بن جبیر سے اس آیت کی تفسیر میں مروی ہے کہ اپنے دل کو اور اپنی نیت کو صاف رکھو، محمد بن کعب قرظی اور حسن سے یہ بھی مروی ہے کہ اپنے اخلاق کو اچھا رکھو۔ گندگی کو چھوڑ دو یعنی بتوں کو اور اللہ کی نافرمانی چھوڑ دو ، جیسے اور جگہ فرمان ہے (يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ اتَّقِ اللّٰهَ وَلَا تُطِـعِ الْكٰفِرِيْنَ وَالْمُنٰفِقِيْنَ ۭ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِيْمًا حَكِيْمًا ۙ) 33۔ الأحزاب :1) اے نبی اللہ سے ڈرو اور کافروں اور منافقوں کی نہ مانو، حضرت موسیٰ ؑ نے اپنے بھائی حضرت ہارون ؑ سے فرمایا تھا اے ہارون میرے بعد میری قوم میں تم میری جانشینی کرو اصلاح کے درپے رہو اور مفسدوں کی راہ اختیار نہ کرو۔ پھر فرماتا ہے عطیہ دے کر زیادتی کے خواہاں نہ رہو، ابن مسعود کی قرأت میں آیت (ان تستکثر) ہے، یہ بھی مطلب بیان کیا گیا ہے کہ اپنے نیک اعمال کا احسان اللہ پر رکھتے ہوئے حد سے زیادہ تنگ نہ کرو اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ طلب خیر میں غفلت نہ برتو اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اپنی نبوت کا بار احسان لوگوں پر رکھ کر اس کے عوض دنیا طلبی نہ کرو، یہ چار قول ہوئے، لیکن اول اولیٰ ہے واللہ اعلم۔ پھر فرماتا ہے ان کی ایذاء پر جو راہ اللہ میں تجھے پہنچے تو رب کی رضامندی کی خاطر صبر و ضبط کر، اللہ تعالیٰ نے جو تجھے منصب دیا ہے اس پر لگا رہ اور جما رہ۔ (ناقور) سے مراد صور ہے، مسند احمد ابن ابی حاتم وغیرہ میں ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں کیسے راحت سے رہوں ؟ حالانکہ صور والے فرشتے نے اپنے منہ میں صور لے رکھا ہے اور پیشانی جھکائے ہوئے حکم اللہ کا منتظر ہے کہ کب حکم ہو اور وہ صور پھونک دے، اصحاب رسول ﷺ نے کہا یا رسول اللہ ﷺ پھر ہمیں کیا ارشاد ہوتا ہے ؟ فرمایا کہو دعا (حسبنا اللہ ونعم الوکیل علی اللہ توکلنا) پس صور کے پھونکے جانے کا ذکر کر کے یہ فرما کر جب صور پھونکا جائے گا پھر فرماتا ہے کہ وہ دن اور وہ وقت کافروں پر بڑا سخت ہوگا جو کسی طرح آسان نہ ہوگا، جیسے اور جگہ خود کفار کا قول مروی ہے کہ آیت (فَذٰلِكَ يَوْمَىِٕذٍ يَّوْمٌ عَسِيْرٌ ۙ) 74۔ المدثر :9) یہ آج کا دن تو بیحد گراں بار اور سخت مشکل کا دن ہے، حضرت زرارہ بن اوفی ؒ جو بصرے کے قاضی تھے وہ ایک مرتبہ اپنے مقتدیوں کو صبح کی نماز پڑھا رہے تھے اسی سورت کی تلاوت تھی جب اس آیت پر پہنچے تو بےساختہ زور کی ایک چیخ منہ سے نکل گئی اور گرپڑے لوگوں نے دیکھا روح پرواز ہوچکی تھی، اللہ تعالیٰ ان پر اپنی رحمت نازل فرمائے۔

آیت 1 - سورہ مائدہ: (يا أيها المدثر...) - اردو