سورۃ المساد: آیت 1 - تبت يدا أبي لهب وتب... - اردو

آیت 1 کی تفسیر, سورۃ المساد

تَبَّتْ يَدَآ أَبِى لَهَبٍ وَتَبَّ

اردو ترجمہ

ٹوٹ گئے ابولہب کے ہاتھ اور نامراد ہو گیا وہ

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Tabbat yada abee lahabin watabba

آیت 1 کی تفسیر

یہ سورت اللہ کی طرف سے اس لئے نازل ہوئی کہ ابولہب اور اسکی بیوی کی طرف سے برپا کی ہوئی جنگ میں حضور ﷺ کی حمایت کی جائے۔ گویا یہ معرکہ اللہ نے اپنے ہاتھ میں لے لیا۔

تبت یدا ........................ وتب (1:111) ” ٹوٹ گئے ابولہب کے ہاتھ اور نامراد ہوگیا وہ “۔ تبت تباب سے مشتق ہے جس کے معنی ہلاکت ، تباہی انقطاع کے ہیں۔ یہاں تبت کے معنی ہیں بددعا کے اور دوسرے تب کے معنی ہیں کہ وہ ہلاک ہوگیا تباہ ہوگیا اور اس کا سلسلہ کٹ گیا۔ یہ خبر ہے وقوع بددعا کی۔ سورت کے آغاز ہی میں اس مختصر آیت میں بددعا اور اس کی تکمیل کا مکمل منظر ہے ۔ گویا معرکہ ختم ہوجاتا ہے اور پردہ گر جاتا ہے۔

اس کے بعد آنے والی دوسری آیت میں حقیقت واقعہ کا بیان ہے۔

ما اغنی ................ کسب (2:111) ” اس کا مال اور جو کچھ اس نے کمایا وہ اس کے کسی کام نہ آیا “۔ اس کے ہاتھ ٹوٹ گئے ، وہ ہلاک وبرباد ہوگیا۔ اسکا مال اور اسلام کے خلاف جدوجہد اس کے کچھ کام نہ آئی اور اس کی دولت اور اس کی مکاریاں اسے ہلاکت نہ بچا سکیں۔ یہ تو تھا اس کا انجام دنیا میں۔ آخرت میں اس کا انجام کیا ہوگا ؟

سیصلی ............................ لھب (3:111) ” ضرور وہ شعلہ زن آگ میں ڈالا جائے گا “۔ لہب سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آگ بہت شدید اور شعلہ بار ہوگی اور سخت بھڑکی ہوئی ہوگی۔

وامراتہ .................... الحطب (4:111) ” اور اس کی جورو لکڑیاں اٹھانے والی “۔ بھی اس آگ میں ڈالی جائی گی ، اس حال میں کہ وہ لکڑیاں اٹھائے ہوئے ہوگی اور اس حال میں کہ۔

فی جیدھا .................... مسد (5:111) ” اس کی گردن میں مونجھ کی رسی ہوگی “۔ اور اس رسی کے ساتھ اسے آگ میں باندھ دیا جائے گا یا یہ رسی وہ ہوگی جس کے ساتھ لکڑیاں باندھی جاتی ہیں۔ اگر اس کا حقیقی معنی لیا جائے تو وہ وہاں بھی لکڑیوں اور کانٹوں کا گٹھا اٹھائے ہوئے جہنم میں جائے گی اور اگر مجازی معنی لیا جائے تو معنی یہ ہوگا اور شرارت کی آگ کو بھڑکاتی ہے۔ اور فتنہ و فساد کی آگ بھڑکا نے کی سعی کرتی ہے۔

اس سورت کا طرز ادا اس کے موضوعات اور معانی کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔ سورت کی فضا کے مناسب طرز تعبیر اختیار کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں میری کتاب ” قرآن میں مناظر قیامت “ سے چند سطریں یہاں نقل کرنا ضروری ہیں۔ ان کا یہاں نقل کرنا اس لئے ضروری ہے کہ اس اس سورت کے نزول سے ام جمیل کے دل میں ایک ایسا تیر لگا جس کی وجہ سے وہ برافروختہ ہوگئی اور پاگل ہوکر رہ گئی۔

” ابولہب (شعلوں کا باپ) ایک ایسی آگ میں تپایا جائے گا جو شعلہ زن ہوگی اس کی عورت جو حضور کی راہ میں خاردار جھاڑیاں لاکر ڈالتی تھی وہ جہنم میں اس حال میں گرائی جائے گی کہ اس کے گلے میں مونجھ کی رسی بندھی ہوگی “۔

” الفاظ بھی باہم متناسب اور صوتی ہم آہنگی رکھنے والے ، تصاویر بھی باہم ، یک رنگ ، بس جہنم میں اس کو گرایا جائے گا وہ شعلہ بار ہے۔ اس میں شعلوں کے باب (ابولہب) کو گرایا جائے گا۔ اس کی عورت لکڑیاں لاتی ہے اور حضرت محمد ﷺ کے راستے میں ڈالتی ہے اور آپ کو ایذائیں دیتی ہے ، خواہ حقیقی معنی لیا جائے یا استعارہ۔ لکڑیوں سے آگ کو بھی بھڑکایا جاتا ہے اور ان لکڑیوں کو رسیوں میں باندھ کر لایا جاتا ہے۔ اس لئے جہنم شعلہ زن میں اسے مونجھ کی رسی سے باندھا دیا جائے گا۔ اور اسے اس رسی سے باندھ دیا جائے گا جس سے وہ لکڑیاں لاتی تھی۔ تاکہ سزا ایسی ہو جیسا اس کا جرم تھا۔ اور یہ تصویر اپنے سادہ رنگوں کے ساتھ سامنے آئے اور اس کے رنگ میں لکڑیاں ، رسی ، آگ اور شعلے ہوں۔ اور اس آگ میں میاں بیوی دونوں تپ رہے ہیں “۔

ایک دوسرے زاویہ سے بھی اس سورت میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ الفاظ کی صوتی جھنکار ، لکڑیوں کے گھٹے کے باندھنے کی آواز اور گردن کو رسی سے باندھنے کی آواز بھی باہم یکساں ہیں۔ ذرا پڑھئے۔

تبت یدا .................... وتب (1:111) ” ان الفاظ میں شد کی صوتی درشتگی ایسی ہی ہے جس طرح لکڑیوں کے گھٹے کو باندھنے میں سختی ہوتی ہے۔ جس طرح یہ الفاظ شدید ہیں اسی طرح گردن میں رسی باندھنے کا عمل اور اسے کھینچنا شدید ہے۔ اور پوری سورت میں اسی طرح کی گٹھن کی فضا ہے “۔

اس طرح صوتی ترنم ، عملی کشاکش کی آواز ، اور سورت کی حرکات کی جزئیات کے درمیان گہری مناسبت اور ہم آہنگی ہے۔ پھر الفاظ بھی ہم جنس ، اور تعبیر میں یکسانی کا لحاظ ، سب کے سب سورت کی فضا کے ساتھ ہم آہنگ ہیں۔ پھر یہ تمام چیزیں سبب نزول اور سورت کے پس منظر کے ساتھ بھی جڑی ہوئی ہیں۔ یہ سب فنی خوبیاں صرف پانچ مختصر فقروں میں ملحوظ خاطر رکھی گئی ہیں اور قرآن کی مختصر ترین سورتوں میں سے ایک میں اس فنی کمال کو ظاہر کیا گیا ہے۔

اس سورت کی ان فنی خوبیوں کی وجہ سے اور بےپناہ اثر کی وجہ سے ام جمیل کا تاثر یہ تھا کہ حضرت محمد ﷺ نے کہیں اس کی ہجو کی ہے۔ یہ سورت فوراً مکہ میں پھیل گئی تھی ، جس میں میاں بیوی کی مذمت کی گئی تھی ، ان کو دھمکی دی گئی تھی اور نہایت بھدی تصویر کھینچی گئی تھی۔ یہ ایسی تصویر کشی تھی جس نے ایک خود پسند عورت کے دل کو چور چور کردیا۔ جسے اپنے نسب وحسب پر بہت ہی غرور تھا۔ جو اپنے آپ کو بہت ہی اونچے گھرانے کی عورت سمجھتی تھی۔ لیکن قرآن نے اس کی تصویر کشی یوں کی :

حمالة ........................ من مسد (5:111) ” عورت ، جو لکڑیاں اٹھانے والی ہے اور جس کے گلے میں چھال کی رسی بندھی ہوئی ہے “۔ یہ نہایت ہی عام صورت حالات ہے جو عربوں میں عام تھی۔

ابن اسحاق کہتے ہیں مجھ تک یہ تذکرہ پہنچا ہے کہ ام جمیل حمالة الحطب نے جب اس سورت کے نزول کے بارے میں سنا کہ یہ اس کے بارے میں اور اس کے خاوند کے بارے میں نازل ہوئی۔ یہ گئی اور حضور اکرم ﷺ کعبہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ کے ساتھ حضرت ابوبکر صدیق ؓ بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ اس کی مٹھی پتھروں سے بھری ہوئی تھی ، جب یہ ان دونوں کے پاس آکر کھڑی ہوئی تو اللہ نے اس کی آنکھوں پر اس طرح پر دہڈال دیا کہ وہ صرف ابوبکر کو دیکھ سکتی تھی۔ تو اس نے کہا : ” ابوبکر کہاں ہے تمہارا ساتھی ، مجھے معلوم ہوا ہے کہ اس نے میری ہجو کی ہے۔ خدا کی قسم اگر وہ مجھے ملتا تو میں ان پتھروں سے اسے مارتی۔ خدا کی قسم میں بھی تو شاعرہ ہوں اس کے بعد اس نے یہ شعر پڑھا۔

مذمما عصینا

وامرہ ابینا

وہ محمد نہیں بلکہ مذمت کیے ہوئے ہیں ، ہم نے ان کی نافرمانی کی ہے اور ان کے احکام ماننے سے انکار کردیا یا ان کے دین کو ماننے سے انکار کردیا۔

یہ واپس چلی گئی۔ حضرت ابوبکر ؓ نے رسول اللہ سے کہا : کیا اس نے آپ کو نہیں دیکھا۔ آپ نے فرمایا : ” اس نے مجھے نہیں دیکھا ، اللہ تعالیٰ نے اس کی نظر کو مجھ سے کھینچ لیا تھا “۔

حافظ ابوبکر بزار نے اپنی سند کے ساتھ روایت کیا ہے ۔ حضرت ابن عباس ؓ سے ، جب سورة

تبت یدا .................... وتب (1:111) نازل ہوئی تو ابولہب کی بیوی حرم میں آئی۔ اس نے رسول اللہ ﷺ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے ساتھ کعبہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ حضرت ابوبکر ؓ نے کہا حضور اگر آپ ایک طرف ہوجائیں تو یہ آپ کو اذیت نہ دے سکے گی۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” میرے اور اس کے درمیان پردہ حائل ہوجائے گا “ ۔ یہ آئی اور حضرت ابوبکر ؓ کے پاس کھڑے ہوگئی اور کہا : ” ابوبکر تمہارے ساتھی نے ہماری ہجو کی ہے “۔ تو حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا : ” اس گھر کی قسم انہوں نے ایسا نہیں کیا ، وہ نہ شعر کہتے ہیں اور نہ ہی پڑھتے ہیں “۔ تو اس نے کہا آپ تو سچے ہیں۔ جب واپس گئی تو حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا ” حضور کیا اس نے آپ کو نہیں دیکھا ؟ تو آپ نے فرمایا ’ جب تک وہ کھڑی رہی فرشتے مجھ پر ستر پھیلاتے رہے جب تک وہ چلی نہیں گئی “۔

غرض اس کا پارہ اس قدر چڑھ گیا تھا کیونکہ یہ سورت پھیلی گئی تھی ، اس نے اسے ہجو سمجھا۔ اس زمانے میں ہجو صرف اشعار میں ہوتی تھی۔ اس لئے حضرت ابوبکر ؓ نے جائز طور پر ہجو کی تردید کردی۔ اور وہ بہت سچے مانے جاتے تھے لیکن ان آیات میں اس کی جو حقارت آمیز تصویر کشی کی گئی ہے وہ اس دائمی کتاب میں ریکارڈ کردی گئی ہے۔ اللہ کی کتاب بھی لازوال ہے اور ان دونوں کی مذمت بھی لازوال ہوگئی ۔ ایور یہ ایسی تصویر ہے جو ایک بولتی تصویر ہے۔ یہ ہے سزا حضور اکرم ﷺ اور آپ کی دعوت کے خلاف سازش کرنے کی۔ حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ بھی دعوت اسلامی اور داعیان حق کے خلاف اس قسم کی سازشیں کرتے ہیں ان کی قسمت میں دنیا میں بھی ناکامی لکھی ہوئی ہے۔ وہ یہاں بھی ہلاک اور برباد ہوں گے۔ اور آخرت میں بھی وہ ایک سخت سزا پائیں گے۔ یہ ان کی مناسب سز ہوگی۔ دنیا میں لکڑ ہاروں کی رسی جسے ذلت کی طرف اشارہ کرتی ہے ، آخرت میں بھی یہ رسی اس کے گلے میں ہوگی اور یہ ذلت کی کافی نشانی ہوگی۔

تفسیر سورة تبت بدترین اور بدنصیب میاں بیوی :٭٭ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ بطحا میں جا کر ایک پہاڑی پر چڑھ گئے اور اونچی آواز سے یاصباحاہ یاصباحاہ کہنے لگے قریش سب جمع ہوگئے تو آپ نے فرمایا اگر میں تم سے کہوں کہ صبح یا شام دشمن تم پر چھاپہ مارنے والا ہے تو کیا تم مجھے سچا سمھو گے ؟ سب نے جواب دیا جی ہاں۔ آپ نے فرمایا سنو میں تمہیں اللہ کے سخت عذاب کے آنے کی خبر دے رہا ہوں تو ابو لہب کہنے لگا تجھے ہلاکت ہو، کیا اسی لئے تو نے ہمیں جمع کیا تھا ؟ اس پر یہ سورت اتری (بخاری) دوسری روایت میں ہے کہ یہ ہاتھ جھاڑتا ہوا یوں کہتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا۔ تبت بددعا ہے اور تب خبر ہے، یہ ابو لہب آنحضرت ﷺ کا چچا تھا اس کا نام عبدالعزیٰ بن عبدالمطلب تھا۔ اس کی کنیت ابو عتبہ تھی اس کے چہرے کی خوبصورتی اور چمک دمک کی وجہ سے اسے ابو لہب یعنی شعلے والا کہا جاتا تھا، یہ حضور ﷺ کا بدترین دشمن تھا ہر وقت ایذاء دہی تکلیف رسائی اور نقصان پہنچانے کے درپے رہا کرتا تھا، ربیعہ بن عباد ویلی اپنے اسلام لانے کے بعد اپنا جاہلیت کا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو خود ذوالمجاز کے بازار میں دیکھا کہ آپ فرما رہے ہیں لوگو لا الہ الا اللہ کہو تو فلاح پاؤ گے لوگوں کا مجمع آپ کے آس پاس لگا ہوا تھا میں نے دیکھا کہ آپ کے پیچھے ہی ایک گورے چٹے چمکتے چہرے والا بھینگی آنکھ والا جس کے سر کے بڑے بالوں کے دو مینڈھیاں تھیں۔ آیا اور کہنے لگا لوگو یہ بےدین ہے، جھوٹا ہے۔ غرض آپ لوگوں کے مجمع میں جا کر اللہ کی توحید کی دعوت دیتے تھے اور یہ دشمن پیچھے پیچھے یہ کہتا ہوا چلا جا رہا تھا۔ میں نے لوگوں سے پوچھا یہ کون ہے ؟ لوگوں نے کہا یہ آپ کا چچا ابو لہب ہے (لعنہ اللہ) (مسند احمد) ابو الزنادنے راوی حدیث حضرت ربیعہ سے کہا کہ آپ تو اس وقت بچہ ہوں گے فرمایا نہیں میں اس وقت خاصی عمر کا تھا مشک لاد کر پانی بھر لایا کرتا تھا، دوسری روایت میں ہے میں اپنے باپ کے ساتھ تھا میری جوان عمر تھی اور میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ ایک ایک قبیلے کے پاس جاتے اور فرماتے لوگو میں تمہاری طرف اللہ کا رسول بناکر بھیجا گیا ہوں میں تم سے کہتا ہوں کہ ایک اللہ ہی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو مجھے سچا جانو مجھے میرے دشمنوں سے بچاؤ تاکہ میں اس کا کام بجا لاؤں جس کا حکم مجھے دے کر الہت عالیٰ نے بھیجا ہے، آپ یہ پیغام پہنچا کر فارغ ہوتے تو آپ کا چچا ابو لہب پیچھے سے پہنچتا اور کہتا اے فلاں قبیلے کے لوگو ! یہ شخص تو تمہیں لات و عزیٰ سے ہٹانا چاہتا ہے اور بنو مالک بن اقیش کے تمہارے حلیف جنوں سے تمہیں دور کر رہا ہوں اور اپنی نئی لائی ہوئی گمراہی کی طرف تمہیں بھی گھسیٹ رہا ہے، خبردار نہ اس کی سننا نہ ماننا (احمد و طبرانی) اللہ تعالیٰ اس سورت میں فرماتا ہے کہ ابو لہب برباد ہوا اس کی کوشش غارت ہوئی اس کے اعمال ہلاک ہوئے بالیقین اس کی بربادی ہوچکی، اس کی اولاد اس کے کام نہ آئی۔ اب مسعود فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ نے اپنی قوم کو اللہ کی طرف بلایا تو ابو لہب کہنے لگا اگر میرے بھتیجے کی باتیں حق ہیں تو میں قیامت کے دن اپنا مال و اولاد اللہ کو فدیہ میں دے کر اس کے عذاب سے چھوٹ جاؤں گا اس پر آیت ما اغنی الخ، اتری، پھر فرمایا کہ یہ شعلے مارنے والی آگ میں جو سخت جلانے الی اور بہت تیز ہے داخل ہوگا، اور اس کی بیوی بھی جو قریش عورتوں کی سردار تھی اس کی کنیت ام جمیل تھی نام ارویٰ تھا، حرب بن امیہ کی لڑکی تھی ابو سفیان کی بہن تھی اور اپنے خاوند کے کفر وعناد اور سرکشی و دشمنی میں یہ بھی اس کے ساتھ تھی اسی لئے قیامت کے دن عذابوں میں بھی اسی کے ساتھ ہوگی، لڑکیاں اٹھا اٹھا کر لائے گی اور جس آگ میں اس کا خاوند جل رہا ہوگا ڈالتی جائے گی اس کے گلے میں آگ کی رسی ہوگی اور جہنم کا ایندھن سمیٹتی رہے گی، یہ معنی بھی کئے گئے ہیں کہ حمالتہ الحطب سے مراد اس کا غیب گو ہونا ہے، امام ابن جریر اسی کو پسند کرتے ہیں، ابن عباس وغیرہ نے یہ مطلب بیان کیا ہے کہ یہ جنگل سے خار دار لکڑیاں چن لاتی تھی اور نبی اکرم ﷺ کی راہ میں بچھا دیا کرتی تھی، یہ بھی کہا گیا ہے کہ چونکہ یہ عورت نبی ﷺ کو فقیری کا طعنہ دیا کرتی تھی تو اسے اس کا لکڑیاں چننا یاد دلایا گیا، لیکن صحیح قول پہلا ہی ہے، واللہ اعلم۔ سعید بن مسیب ؒ فرماتے ہیں کہ اس کے پاس ایک نفیس ہار تھا کہتی تھی کہ اسے میں فروخت کر کے محمد ﷺ کی مخالفت میں خرچ کروں گی تو یہاں فرمایا گیا کہ اس کے بدلے اس کے گلے میں آگ کا طوق ڈالا جائے گا۔ مسد کے معنی کھجور کی رسی کے ہیں۔ حضرت عروہ فرماتے ہیں یہ جہنم کی زنجیر ہے جس کی ایک ایک کڑی ستر ستر گز کی ہے۔ ثوری فرماتے ہیں یہ جہنم کا طوق ہے جس کی لمبائی ستر ہاتھ ہے۔ جوہری فرماتے ہیں یہ اونٹ کی کھال کی اور اونٹ کے بالوں کی بنائی جاتی ہے۔ مجاہد فرماتے ہیں یعنی لوہے کا طوق۔ حضرت ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کا بیان ہے کہ جب یہ سورت اتری تو یہ بھینگی عورت ام جمیل بنت کرب اپنے ہاتھ میں نوکدار پتھر لئے یوں کہتی ہوئی حضور ﷺ کے پاس آئی۔ یعنی ہم مذمم کے منکر ہیں، اس کے دین کے دشمن ہیں اور اس کے نافرمان ہیں۔ اس وقت رسول اللہ ﷺ کعتہ اللہ میں بیٹھے ہوئے تھے، آپ کے ساتھ میرے والد حضرت ابوبکر صدیق ؓ بھی تھے صدیق اکبر نے اسے اس حالت میں دیکھ کر حضور ﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ یہ آرہی ہے ایسا نہ ہو آپ کو دیکھ لے، آپ نے فرمایا صدیق بےغم رہو یہ مجھے نہیں دیکھ سکتی، پھر آپنے قرآن کریم کی تلاوت شروع کردی تاکہ اس سے بچ جائیں، خود قرآن فرماتا ہے واذا قرأت القران جعلنا بینک وبین الذین لایومنون بالاخرۃ حجابا مسوراً یعنی جب تو قرآن پڑھتا ہے تو ہم تیرے اور ایمان نہ لانے والوں کے درمیان پوشیدہ پردے ڈال دیتے ہیں۔ یہ ڈائن آ کر حضرت ابوبکر کے پاس کھڑی ہوگئی کہ حضور ﷺ بھی حضرت صدیق اکبر کے پاس ہی بالکل ظاہر بیٹھے ہوئے تھے لیکن قدرتی حجابوں نے اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا وہ حضور ﷺ کو نہ دیکھ سکی۔ حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا نہیں نہیں رب البیت کی قسم حضور ﷺ نے تیری کوئی ہجو نہیں کی تو یہ کہتی ہوئی لوٹ گئی کہ قریش جانتے ہیں کہ میں ان کے سردار کی بیٹی ہوں (ابن ابی حاتم) ایک مرتبہ یہ اپنی لمبی چادر اوڑھے طواف کر رہی تھی پیر چادر میں الجھ گیا اور پھسل پڑی تو کہنے لگی مذمم غارت ہو۔ ام حکیم بنت عبدالطلب نے کہا میں تو پاک دامن عورت ہوں اپنی زبان نہیں بگاڑوں گی اور دوست پسند ہوں پس داغ نہ لگاؤں گی اور ہم سارے ایک ہی دادا کی اولاد میں سے ہیں اور قریش ہی زیادہ جاننے والے ہیں۔ بزار میں ہے کہ اس نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے کہا کہ تیرے ساتھی نے میری ہجو کی ہے تو حضرت صدیق نے قسم کھا کر جواب دیا کہ نہ تو آپ شعر گوئی جانت ہیں نہ کبھی آپ نے شعر کہے، اس کے جانے کے بعد حضرت صدیق نے حضور ﷺ سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ کیا اس نے آپ کو دیکھا نہیں ؟ آپ نے فرمایا فرشتہ آڑ بن کر کھڑا ہوا تھا جب تک وہ واپس چلی نہ گئی، بعض اہل علم نے کہا ہے کہ اس کے گلے میں جہنم کی آگ کی رسی ہوگی جس سے اسے کھینچ کر جہنم کے اوپر لایا جائے گا پھر ڈھیلی چھوڑ کر جہنم کی تہہ میں پہنچایا جائے گا یہی عذاب اسے ہوتا رہے گا، ڈول کی رسی کو عرب مسد کہہ دیا کرتے ہیں۔ عربی شعروں میں بھی یہ لفظ اسی معنی میں لایا گیا ہے، ہاں یہ یاد رہے کہ یہ بابرکت سورت ہمارے نبی ﷺ کی نبوت کی ایک اعلیٰ دلیل ہے کیونکہ جس طرح ان کی بدبختی کی خبر اس سورت میں دی گئی تھی اسی طرح واقعہ بھی ہوا ان دونوں کو ایمان لانا آخر تک نصیب ہی نہ ہوا نہ تو وہ ظاہر میں مسلمان ہوئے نہ باطن میں نہ چھپے نہ کھلے، پس یہ سورت زبردست بہت صاف اور روشن دلیل ہے۔ حضور ﷺ کی نبوت کی اس سورت کی تفسیر بھی ختم ہوئی۔ اللہ ہی کے لئے سب تعریفیں ہیں اور اسی کے فضل و کرم اور اسی کے احسان و انعام کی یہ برکت ہے۔

آیت 1 - سورۃ المساد: (تبت يدا أبي لهب وتب...) - اردو