سورۃ الماعون: آیت 1 - أرأيت الذي يكذب بالدين... - اردو

آیت 1 کی تفسیر, سورۃ الماعون

أَرَءَيْتَ ٱلَّذِى يُكَذِّبُ بِٱلدِّينِ

اردو ترجمہ

تم نے دیکھا اُس شخص کو جو آخرت کی جزا و سزا کو جھٹلاتا ہے؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Araayta allathee yukaththibu bialddeeni

آیت 1 کی تفسیر

یہ چھوٹی سی سورت جو صرف سات آیات پر مشتمل ہے اور آیات بھی چھوٹی چھوٹی ہیں ، ایک عظیم حقیقت پر مشتمل ہے ۔ اس کے مطالعہ سے احساس ہوتا ہے کہ یہ گویا شعائر اسلام کو بدل کر رکھ دیتی ہے اور اس پر غور کرنے سے انسان کو ایمان وکفر کا مفہوم مکمل طور پر بدلتا ہوا نظر آتا ہے۔ اس سے آگے یہ سورت ہمیں یہ بتاتی ہے کہ اسلامی نظریہ حیات کا مزاج کیا ہے۔ اور اس میں انسانیت کے لئے کس قدر عظیم خیر اور بھلائی پوشیدہ ہے۔ اور اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انسانیت کے لئے اپنا آخری مشن بھیج کر اللہ نے اس پر کتنا عظیم رحم کیا ہے ۔

حقیقت یہ ہے کہ یہ دین چندظاہری رسوم عبادات اور دینی شعائر ہی کا نام نہیں ہے۔ اس میں دینی مرام اور شعائر اور عبادات اس وقت تک مفید نہیں ہوتے جب تک ان میں خلوص نہ ہوئے اور ان کی ادائیگی صرف رضائے الٰہی کے لئے نہ ہو۔ اور جب ان کی وجہ سے قلب انسانی میں ایسے آثار پیدا نہ ہوں جو انسان کو عمل صالح پر ابھارتے ہیں اور جب تک یہ آثار ایسا طرز عمل اختیار نہ کریں جن کے ذریعہ انسانی زندگی اصلاح آخرت پذیر ہو۔ اور اس دنیا میں بھی ان کے نتیجے میں اصلاح اور ترقی نہ ہو۔

پھر یہ دین چند متفرق اجزاء اور ٹکڑوں میں بٹا ہوا دین نہیں ہے کہ انسان ان میں سے جس جزء کو چاہے لے کر نکل جائے اور جس جزء کو چاہے ترک کردے۔ یہ ایک مکمل نظام زندگی ہے اور منہاج حیات ہے۔ اس کے مراسم عبودیت اور اس کے شعائر باہم پیوست ہیں ، اس کے انفرادی فرائض اور اجتماعی احکام باہم مربوط اور معاون ہیں۔ اس کے تمام اجزاء کا مقصد ایک ہے اور وہ انسانیت کے ساتھ متعلق ہیں ، یہ کہ انسانیت کو قلبی اور روحانی تطہیر نصب ہو۔ ان کی زندگی سنور جائے ۔ لوگ باہم معاون ہوں ، ایک دوسرے کے کفیل ہوں ، اور بھلائی ، ترقی اور اصلاحات کی راہ میں ہمقدم ہوں۔ اور ان کی زندگی اللہ کی رحمتوں کا نمونہ ہو۔

انسان اپنی زبان سے کہتا ہے کہ میں مسلم ہوں ، وہ مسلمان ہے اور دین اسلام کے تمام احکام اور فیصلوں کو قبول کرتا ہے ، وہ نماز پڑھتا ہے ، نماز کے علاوہ دوسرے مراسم عبودیت بھی سرانجام دیتا ہے ، لیکن اس کے باوجود حقیقت ایمان اور دین و ایمان کی تصدیق اس سے کوسوں دور ہوتی ہے۔ اس لئے کہ حقیقت ایمان کے کچھ آثا ہوتے ہیں ، یہ آثار بتاتے ہیں کہ ایمان کی حقیقت موجود ہے ۔ جب یہ آثار نہ ہوں تو کوئی کس طرح کہہ سکتا ہے کہ ایمان کی حقیقت موجود ہے۔ اگر آثار نہ ہوں تو محض اقرار ایمان ہے اور چند ظاہری مراسم عبودیت ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ جب ایمان کی حقیقت کسی دل میں پوری طرح بیٹھ جائے تو وہ فوراً عمل صالح کی شکل میں نمودار ہوتی ہے۔ جیسا کہ ہم نے سورة العصر میں تفصیلات دی ہیں۔ اگر کسی کا ایمان اس اسلوب سے متحرک نہیں ہوتا تو ظاہری علامت تو یہ ہوگی کہ ایمان اصلا موجود ہی نہیں ہے۔ یہ وہ عظیم حقیقت ہے جس کو یہ سورت ایک مکمل قرار داد کی شکل میں پیش کرتی ہے۔

ارءیت الذی ................................ المسکین (1:107 تا 3) ” تم نے دیکھا اس شخص کو جو آخرت کی جزاوسزا کو جھٹلاتا ہے ؟ وہی تو ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے اور مسکین کا کھانا دینے پر نہیں اکساتا “۔ آغاز ایک ایسے سوال سے ہوتا ہے کہ تمام اس کی طرف متوجہ ہوجائیں تاکہ ایسے شخص کی بابت علم حاصل کرسکیں کہ کون ہے وہ شخص جو دین کی تکذیب کرتا ہے اور اس بات کی صراحت قرآن مجید کررہا ہے کہ ایسا شخص مکذب دین ہے۔ چناچہ جواب آتا ہے۔

فذلک الذی ................................ المسکین (2:107 تا 3) ” وہی تو ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے اور مسکین کا کھانا دینے پر نہیں اکساتا “۔

ایمان اور دین کی جو روایتی تعریف ہے اس کو دیکھتے ہوئے قرآن کی یہ صراحت بادی النظر میں انوکھی معلوم ہوسکتی ہے ، لیکن یہ اصل حقیقت ہے کہ جو شخص یتیم کو دھکے دیتا ہے وہ دراصل دین کی تکذیب کرتا ہے۔ یتیم کو دھکے دینے کا مطلب اسے ایذا دینا اور اس کی توہین کرنا ہے۔ اور

ولا یحض (3:107) کے معنی یہ ہیں کہ وہ دوسرے لوگوں کو اس کام پر نہیں اکساتا اور مسکینوں کا خیال نہیں رکھتا۔ اگر اس نے صداقت کے ساتھ دین اسلام کو قبول کیا ہوتا اور اس کے دل میں حقیقی تصدیق ہوتی تو وہ یتیم کو دھکے نہ دیتا ، اور مساکین کو کھانے کے لئے اکسانے اور تحریک چلانے پر لوگوں کو آمادہ کرتا۔

حقیقت یہ ہے کہ دین کا اقرار اور تصدیق صرف ربانی فعل نہیں ہے بلکہ وہ ایک ذہنی اور قلبی انقلاب ہے جس کے نتیجے میں انسان خود بخودبنی نوع انسان پر رحم اور نیکی کرنے لگتا ہے۔ ان لوگوں پر جو امداد اور مراعات کے مستحق ہوں۔ اللہ کا مطالبہ یہ نہیں ہے کہ لوگ اپنی زبان سے محض چند کلمے جپتے جائیں ۔ ان کلمات کے ساتھ ساتھ اللہ کا مطالبہ کچھ اعمال کا بھی ہے جو یہ تصدیق کریں کہ ایمان موجود ہے ، ورنہ ایمان محض ایک ہوائی ذرہ ہوگا جو فضا میں ادھر ادھر اڑتا رہتا ہے۔

ان تین آیات میں اس حقیقت کو جس طرح نہایت واضح طور پر بیان کیا گیا ہے اس کی مثال پورے قرآن میں نہیں ہے۔ اس لئے کہ یہ اسلامی نظریہ حیات کی روح ہے اور اس دین کا یہ مزاج ہے۔

ہم یہاں اسلام اور ایمان کی فقہی تعریفات اور ان کے حدود وقیود کے مباحث اور اختلافات میں داخل ہونا نہیں چاہتے۔ یہ تعریفات اس لئے کی جاتی ہیں کہ ان پر شرعی اور قانونی حقوق وفرائض کا فیصلہ کیا جاسکے۔ اس سورت میں جو بات کہی گئی ہے وہ اس حقیقت نفس الامری کا اظہار کرتی ہے جو اللہ کے ہاں معتبر ہے اور جو اللہ کے معیار کے مطابق ناپی تولی جاتی ہے۔ اللہ کے ہاں جو حقائق ہوتے ہیں وہ ان حقائق سے الگ ہوتے ہیں جن کے مطابق شرعی اور قانونی معاملات طے ہوتے ہیں۔ اس کے بعد اس حقیقت اور اس اصول کے مطابق بعض عملی صورتوں کا ذکر کیا جاتا ہے :

فویل ................................ الماعون (4:107 تا 7) ” پھر تباہی ہے ان نماز پڑھنے والوں کے لئے جو اپنی نماز سے غفلت برتتے ہیں ، جو ریاکاری کرتے ہیں اور معمولی ضرورت کی چیزیں (لوگوں کو) دینے سے گریز کرتے ہیں “۔ یہ ان لوگوں کے لئے بددعا ہے یا دھمکی ۔ ان لوگوں کے لئے جو اپنی نماز سے غفلت برتتے ہیں۔ یہ کون ہیں ؟ وہ لوگ جو ریاکاری کرتے ہیں اور جو معمولی ضرورت کی چیزیں بھی دوسروں کو نہیں دیتے۔

یہ لوگ نماز تو پڑھتے ہیں مگر نماز کو قائم نہیں کرتے ، یہ نماز کے اندر نہیں ہوتا۔ ان کی روح نماز کی حقیقت سے بیگانہ ہوتی ہے۔ ان کی سوچ ان معانی سے دور ہوتی جو وہ پڑھتے ہیں۔ جو قرات ، جو دعائیں اور جو ثنائیں وہ پڑھتے ہیں اس سے ان کی روح دور ہوتی ہے ، گویا وہ اپنی نماز سے جسے وہ پڑھ رہے ہوں ، غافل ہوتے ہیں۔ اسے صحیح طرح ادا نہیں کرتے۔ اللہ کے ہاں مطلوب یہ ہے کہ نماز کو صحیح طرح قائم کیا جائے۔ فقط ادائیگی مطلوب نہیں ہے اور نماز قائم تب ہوتی ہے کہ اسے دینی روح اور اس کے معانی کے ساتھ پڑھاجائے اور جس میں اللہ کی ذات مستحضر ہو۔

یہی وجہ ہے کہ جس نماز کو وہ پڑھ رہے ہوتے ہیں ان کی زندگی میں اس نماز کے آثار پیدا نہیں ہوتے کیونکہ وہ نماز کی حرکات کے دوران غافل ہوتے ہیں۔ چناچہ یہ لوگ معمولی ضرورت کی چیز (ماعون) بھی دوسروں کو نہیں دیتے۔ دوسروں کے ساتھ کوئی امداد نیکی ، بھلائی نہیں کرتے۔ حالانکہ نماز کا تقاضا یہ ہے کہ وہ نمازی اللہ کے بندوں کے ساتھ بھلائی کرے اور ان سے معمولی ضرورت کی چیز نہ روکے۔ اس لئے جو لوگ اس قسم کے ہوتے ہیں وہ دراصل حقیقی نماز نہیں ادا کررہے ہوتے۔ لہٰذا اللہ کے نزدیک حقیقی اور سچی عبادت کا معیار یہ ہے کہ ایک انسان اپنے بنی نوع انسان سے معمولی ضرورت کی اشیاء نہ روکے ۔ ان کی معاونت سے دستکش نہ ہو۔

یوں ہم دین کی ایک دوسری لانیفک حقیقت کو سامنے اپنے آپ کو کھڑا پاتے ہیں اور یہ اسلامی نظریہ حیات کا تقاضا ہے وہ یہ کہ ایک قرآنی آیت نمازیوں کو کھلی دھمکی دے رہی ہے کہ وہ ہلاکت سے دوچار ہوں گے کیونکہ وہ نماز کو صحیح طرح قائم نہیں کررہے۔ بلکہ وہ ایسی حرکات کررہے ہیں جن میں کوئی روح نہیں ہے۔ وہ ان حرکات میں اللہ کے دربار میں حاضر نہیں ہوتے۔ خالص اللہ کے نہیں ہوتے ، بلکہ محض لوگوں کے دکھاوے کے ئے وہ نماز پڑھتے ہیں ، اس لئے ان کی نماز سے وہ آثار نمودار نہیں ہوتے جو حقیقی نماز سے ہوتے ہیں ، نہ اس ان کے دل پر نماز کا اثر ہوتا ہے ، نہ ان کی عملی دنیا پر وہ اثرانداز ہوتی ہے۔ لہٰذا یہ نماز ذرہ بےقیمت ہے ، ایک غبار ہے بلکہ نمازی کے لئے یہ نماز ایک وبال وہلاکت ہے۔

ان تصریحات کے بعد ہماری سمجھ میں یہ بات اچھی طرح آجاتی ہے کہ اللہ لوگوں کے پاس رسول کیوں بھیجتا ہے اور لوگوں سے کیوں مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ ایمان لائیں اور بندگی کریں ؟.... اس ساری جدوجہد سے اللہ کا کوئی مفاد وابستہ نہیں ہے۔ وہ تو غنی بادشاہ ہے۔ اس لئے مقصود یہ ہے کہ خود انسانوں کی زندگی سنور جائے ان کی بھلائی مقصود ہے۔ ان کے قلوب پاک ہوں اور زندگی کامیاب ہو ، وہ ان کے لئے ایک ایسی ندگی چاہتا ہے جو پاکیزہ شعور اور اعلیٰ نظریات پر قائم ہو۔ جس کے اندر لوگ ایک دوسرے سے کفیل ہوں جن کی ذہنیت شریفانہ ہو ، جن کے اندر محبت اور بھائی چارہ ہو ، جن کا تصور اور طرز عمل دونوں پاک ہوں۔

اے کاش ! انسانیت اس بھلائی کو چھوڑ کر کدھر جارہی ہے۔ اس رحمت کو چھوڑ کر کہاں بھکٹ رہی ہے اور اس خوبصورت اور حسین و جمیل مقام بلند کو چھوڑ کر کن پستیوں میں گری ہوتی ہے یا کہاں وہ جاہلیت کے پیچیدہ اور تاریک راہوں میں گم گشتہ ہے حالانکہ اس کے سامنے نور ، اسلام کا نور ، مرکزی چوک میں موجود ہے۔

آیت 1{ اَرَئَ یْتَ الَّذِیْ یُـکَذِّبُ بِالدِّیْنِ۔ } ”کیا تم نے دیکھا اس شخص کو جو جزا و سزا کو جھٹلاتا ہے ؟“ جو نہ تو بعث بعد الموت کا قائل ہے اور نہ ہی آخرت کی جزا و سزا کو مانتا ہے۔ ایسے لوگ سمجھتے ہیں کہ اس زندگی کے سوا ان کی کوئی اور زندگی نہیں ہے : { وَقَالُوْا مَا ہِیَ اِلَّا حَیَاتُـنَا الدُّنْیَا نَمُوْتُ وَنَحْیَا وَمَا یُہْلِکُنَآ اِلَّا الدَّہْرُج } الجاثیۃ : 24 ”وہ کہتے ہیں کہ نہیں ہے کوئی اور زندگی سوائے ہماری دنیا کی زندگی کے ‘ ہم خود ہی مرتے ہیں اور خود ہی جیتے ہیں اور ہمیں نہیں ہلاک کرتا مگر زمانہ“۔ آخرت کے احتساب کا انکار کر کے انسان دراصل جائز و ناجائز اور حلال و حرام کی پابندیوں سے آزاد ہوجاتا ہے اور اس کا کردار ع ”بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست“ کے فلسفے کا چلتا پھرتا اشتہار بن کر رہ جاتا ہے۔

نماز میں غفلت اور یتیموں سے نفرت :اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے محمد ﷺ تم نے اس شخص کو دیکھا جو قیامت کے دن کو جو جزا سزا کا دن ہے جھٹلاتا ہے یتیم پر ظلم و ستم کرتا ہے اس کا حق مارتا ہے اس کے ساتھ سلوک و احسان نہیں کرتا مسکینوں کو خود تو کیا دیتا دوسروں کو بھی اس کار خیر پر آمادہ نہیں کرتا جیسے اور جگہ ہے (كَلَّا بَلْ لَّا تُكْرِمُوْنَ الْيَتِيْمَ 17 ۙ) 89۔ الفجر :17) یعنی جو برائی تمہیں پہنتی ہے وہ تمہارے اعمال کا نتیجہ ہے کہ نہ تم یتیموں کی عزت کرتے ہو نہ مسکینوں کو کھانا دینے کی رغبت دلاتے ہو یعنی اس فققیر کو جو اتنا نہیں پاتا کہ اسے کافی ہو پھر فرمان ہوتا ہے کہ غفلت برتنے والے نمازیوں کے لیے ویل ہے یعنی ان منافقوں کے لیے جو لوگوں کے سامنے نماز ادا کریں ورنہ ہضم کر جائیں یہی معنی حضرت ابن عباس کے کیے ہیں اور یہ بھی معنی ہیں کہ مقرر کردہ وقت ٹال دیتے ہیں جیسے کہ مسروق اور ابو الضحی کہتے ہیں حضرت عاء بن دینا فرماتے ہیں اللہ کا شکر ہے کہ فرمان باری میں عن صلوتھم ہے فی صلوتھم نہیں یعنی نمازوں سے غفلت کرتے ہیں فرمایا نمازوں میں غفلت برتتے ہیں نہیں فرمایا اسی طرح یہ الف ظشامل ہے ایسے نمازی کو بھی جو ہمیشہ نماز کو آخری وقت ادا کرے یا عموماً آخری وقت پڑھے یا ارکان و شروط کی پوری رعایت نہ کرے یا خشو و خضو اور تدبر و غروفکر نہ کرے لفظ قرآن ان میں سے ہر ایک کو شامل ہے یہ سب باتیں جس میں ہوں وہ تو پورا پورا بدنصیب ہے اور جس میں جتنی ہوں اتنا ہی وہ ویل ہے اور نفاق عملی کا حقو دار ہے بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں یہ نماز منافق کی ہے یہ نماز منافق کی ہے یہ نماز منافق کی ہے کہ بیٹھا ہوا سورج کا انتظار کرتا رہے جب وہ غروب ہونے کے قریب پہنچے اور شیطان اپنے سینگ اس میں ملا لے تو کھڑا ہو اور مرغ کی طرح چار ٹھونگیں مار لے جس میں اللہ کا ذکر بہت ہی کم کرے یہاں مراد عصر کی نماز ہے ججو صلوہ وسطی ہے جیسے کہ حدیث کے لفظوں سے ثابت ہے یہ شخص مکروہ وقت میں کھڑا ہوتا اور کوے کی طرح چونچیں مار لیتا ہے جس میں اطمینان ارکان بھی نہیں ہوتا نہ خشو و خضوع ہوتا ہے بلکہ ذکر اللہ بھی بہت ہی کم ہوتا ہے اور کیا عجب کہ یہ نماز محض دکھاوے کی نماز ہو تو پڑھی نہ پڑھی یکاں ہے انہی منافقین کے بارے میں اور جگہ ارشاد ہے (اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ يُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَھُوَ خَادِعُھُمْ ۚ وَاِذَا قَامُوْٓا اِلَى الصَّلٰوةِ قَامُوْا كُسَالٰى ۙ يُرَاۗءُوْنَ النَّاسَ وَلَا يَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ اِلَّا قَلِيْلًا01402ۡۙ) 4۔ النسآء :142) یعنی منافق اللہ کو دھوکہ دیتے ہیں اور وہ انہیں یہ جب بھی نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو تھکے ہارے بادل ناخواستہ صرف لوگوں کے دکھاو کے لیے نماز گذارتے ہیں اللہ کی یاد بہت ہی کم کرتے ہیں یہاں بھی فرمایا یہ ریا کاری کرتے ہیں لوگوں میں نمازی بنتے ہیں طبرانی کی حدیث میں ہے ویل جہنم کی ایک وادی کا نام ہے جس کی آگ اس قدر تیز ہے کہ اور آگ جہنم کی ہر دن اس سے چار سو مرتبہ پناہ مانگتی ہے یہ ویل اس امت کے ریاکار علماء کے لیے ہے اور ریاکاری کے طور پر صدقہ خیرات کرنے والوں کے لیے ہے اور ریا کاری کے طور پر حج کرنے والوں کے لیے ہے اور ریا کاری کے طور پر جہاد کرنے والوں کے لیے ہے مسند احمد میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں جو شخص دوسروں کو سنانے کے لیے کوئی نیک کام کرے اللہ تعالیٰ بھی لوگوں کو سنا کر عذاب کریگا اور اسے ذلیل و حقیر کریگا ہاں اس موقعہ پر یہ یاد رہے کہ اگر کسی شخص نے بالکل نیک نیتی سے کوئی اچھا کام کیا اور لوگوں کو اس کی خبر ہوگئی اس پر سے بھی خوشی ہوئی تو یہ ریا کاری نہیں اس کی دلیل مسند ابو یعلی موصلی کی یہ حدیث ہے کہ حضرت ابوہریرہ ؓ نے سرکار نبوی میں ذکر کیا کہ حضور ﷺ میں تو تنہا نوافل پڑھتا ہوں لیکن اچانک کوئی آجاتا ہے تو ذرا مجھ بھی یہ اچھا معلوم ہونے لگتا ہے آپ نے فرمایا تجھے دو اجر ملیں گے ایک اجر پوشیدگی کا اور دوسرا ظاہر کرنے کا حضرت ابن المبارک فرمایا کرتے تھے یہ حدیث ریا کاروں کے لیے بھی اچھی چیز ہے یہ حدیث بروئے اسنا غریب ہے لیکن اسی معنی کی حدیث اور سند سے بھی مروی ہے ابن جریر کی ایک بہت ہی ضعیف سند والی حدیث میں ہے کہ جب یہ آیت اتری تو حضور ﷺ نے فرمایا اللہ اکبر یہ تمہارے لیے بہتر ہے اس سے کہ تم میں سے ہر شخص کو مثل تمام دنیا کے دیا جائے اس سے مراد وہ شخص ہے کہ نماز پڑھے تو اس کی بھلائی سے اسے کچھ سروکار نہ ہو اور نہ پڑھے تو اللہ کا خوف اسے نہ ہو اور روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے اس آیت کا مطلب پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا یہ وہ لوگ ہیں جو نماز کو اس کے وقت سے موخر کرتے ہیں اس کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ سرے سے پڑھتے ہی نہیں دوسرے معنی یہ ہیں کہ شرعی وقت نکال دیتے ہیں پھر پڑھتے ہیں یہ معنی بھی ہیں کہ اول وقت میں ادا نہیں کرتے ایک موقوف روایت میں حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے مروی ہے کہ تنگ وقت کر ڈالتے ہیں زیادہ صحیح موقوف روایت ہی ہے امام بیہقی بھی فرماتے ہیں کہ مرفوع توضعیف ہے ہاں موقوف صحیح ہے امام حاکم کا قول بھی یہی ہے پس جس طرح یہ لوگ عبادت رب میں سست ہیں اسی طرح لوگوں کے حقوق بھی ادا نہیں کرتے یہاں تک کہ برتنے کی کمی قیمت چیزیں لوگوں کو اس لیے بھی نہیں دتے کہ وہ اپنا کام نکال لیں اور پھر وہ چیز جوں کی توں واپس کردیں پس ان خسیس لوگوں سے یہ کہاں بن آئے کہ وہ زکوٰۃ ادا کریں یا اور نیکی کے کام کریں حضرت علی سے ماعون کا مطلب ادائیگی زکوٰۃ بھی مروی ہے اور حضرت ابن عمر سے بھی اور دیگر حضرات مفسرین معتبرین سے بھی امام حسن بصری ؒ فرماتے ہیں کہ اس کی نماز میں ریا کاری ہے اور مال کے صدقہ میں ہاتھ روکنا ہے حضرت زید بن اسلم فرماتے ہیں یہ منافق لوگ ہیں نماز تو چونکہ ظاہر ہے پڑھنی پڑتی ہے اور زکوٰۃ چونکہ پوشیدہ ہے اس لیے اسے ادا نہیں کرتے ابن مسعود ؓ فرماتے ہیں ماعون ہر وہ چیز ہے جو لوگ آپس میں ایک دوسرے سے مانگ لیا کرتے ہیں جیسے کدال پھاوڑا دیگچی ڈول وغیرہ۔ دوسری روایت میں ہے کہ اصحاب رسول ﷺ اس کا یہی مطلب بیان کرتے ہیں اور روایت میں ہے کہ ہم نبی ﷺ کے ساتھ تھے اور ہم اس کی تفسیر یہی کرتے تھے نسائی کی حدیث میں ہے ہر نیکی چیز صدقہ ہے ڈول اور ہنڈیا یا پتیلی مانگے پر دینے کو ہم آنحضرت ﷺ کے زمانے میں ماعون سے تعبیر کرتے تھے غرض اس کے معنی زکوٰۃ نہ دینے کے اطاعت نہ کرنے کے مانگی چیز نہ دینے کے ہیں چھوٹی چھوٹی بےجان چیزیں کوئی دو گھڑی کے لیے مانگنے آئے اس سے ان کا انکار کردینا مثلا چھلنی ڈول سوئی سل بٹا کدال پھائوڑا پتیلی دیگچی وغیرہ ایک غریب حدیث میں ہے کہ قبیلہ نمیر کے وفد نے حضور ﷺ سے کہا کہ ہمیں خاص حکم کیا ہوتا ہے آپنے فرمایا ماعون سے منع کرنا انہوں نے پوچھا ماعون کیا ؟ فرمایا پتھر لوہا پانی انہوں نے پوچھا لوہے سے مراد کونسا لوہا ہے ؟ فرمایا یہی تمہاری تانبے کی پتیلیاں اور کدال وغیرہ پوچھا پتھر سے کیا مراد ؟ فرمایا یہی دیگچی وغیرہ یہ حدیث بہت ہی غریب ہے بلکہ مرفوع ہونا منکر ہے اور اس کی اسناد میں وہ راوی ہیں جو مشہور نہیں علی نمیری فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے میں نے سنا ہے آپ نے فرمایا مسلمان کا مسلمان بھائی ہے جب ملے سلام کرے جب سلام کرے تو بہتر جواب دے اور ماعون کا انکار نہ کرے میں نے پوچھا حضور ﷺ ماعون کیا ؟ فرمایا پتھر لوہ اور اسی جیسی اور چیزیں واللہ اعلم الحمد اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اس کے احسان اور رحم سے اس سورت کی تفسیر بھی ختم ہوئی۔

آیت 1 - سورۃ الماعون: (أرأيت الذي يكذب بالدين...) - اردو