آیت 108 ذٰلِکَ اَدْنآی اَنْ یَّاْتُوْا بالشَّہَادَۃِ عَلٰی وَجْہِہَآ اَوْ یَخَافُوْٓا اَنْ تُرَدَّ اَیْمَانٌم بَعْدَ اَیْمَانِہِمْ ط کیونکہ انہیں معلوم ہوگا کہ اگر ہم نے جھوٹی قسم کھا بھی لی ‘ اور پھر اگر دوسرا فریق بھی قسم کھا گیا ‘ تو ہمارا منصوبہ کامیاب نہیں ہوگا۔ لہٰذا وہ اس کی ہمت نہیں کریں گے۔وَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاسْمَعُوْا ط وَاللّٰہُ لاَ یَہْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ اسی طرح کا معاملہ سورة النور آیات 6 تا 9 میں بھی مذکور ہوا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو بدکاری کرتے ہوئے دیکھے اور اس کے پاس کوئی اور گواہ نہ ہو تو وہ چار مرتبہ قسم کھا کر کہے کہ میں جو کہہ رہا ہوں سچ کہہ رہا ہوں۔ تو اس ایک شخص کی گواہی چار گواہوں کے برابر ہوجائے گی۔ لیکن پھر اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب بھی بتایا ہے ‘ کہ اگر بیوی بھی چار مرتبہ قسم کھا کر کہہ دے کہ یہ جھوٹ بول رہا ہے ‘ مجھ پر تہمت لگا رہا ہے اور پانچویں مرتبہ یہ کہے کہ مجھ پر اللہ کا غضب ٹوٹے اگر اس کا الزام درست ہو ‘ تو شوہر کی گواہی ساقط ہوجائے گی۔ اس طرح دونوں طرف سے اللہ تعالیٰ نے معاملے کو متوازن کیا ہے۔ اب آخری دو رکوع اس لحاظ سے اہم ہیں کہ ان میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ حضرت مسیح علیہ السلام کے مکالمے کا نقشہ کھینچا گیا ہے ‘ جو قیامت کے دن ہوگا۔ اور اس کے پس منظر میں گویا ایک پوری داستان ہے ‘ جو ایک نئی شان سے سامنے آئی ہے۔