سورۃ المعارج: آیت 26 - والذين يصدقون بيوم الدين... - اردو

آیت 26 کی تفسیر, سورۃ المعارج

وَٱلَّذِينَ يُصَدِّقُونَ بِيَوْمِ ٱلدِّينِ

اردو ترجمہ

جو روز جزا کو برحق مانتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waallatheena yusaddiqoona biyawmi alddeeni

آیت 26 کی تفسیر

والذین ................ الدین (07 : 62) ” جو روز جزاء کو برحق مانتے ہیں “۔ یہ صفت تو اس سورت کے محور سے براہ راست متعلق ہے ، کیونکہ سورت کا محور اور موضوع قیامت ہے۔ لیکن یہاں ان آیات میں ایک مومن کی نفسیاتی حالت سے بحث ہے۔ قیامت کی تصدیق ایمانیات کا اہم حصہ ہے اور کسی نظام زندگی کی تشکیل میں اس کا شعوری اور عملی اثر ہوتا ہے کیونکہ جو شخص قیامت کی تصدیق کرتا ہے اس کی قدریں اور پیمانے اور ہوتے ہیں اور جو قیامت کی تصدیق نہیں کرتا اس کے بارے میں شک میں ہوتا ہے ، اس کی قدریں بالکل جدا ہوتی ہیں ، چاہے ان کا تعلق نظریات سے ہو یا اعمال سے ہو یا زندگی کے اہم حادثات سے ہو۔

قیامت پر یقین رکھنے والا آسمانوں (خدا) کے میزان اور نظام کے مطابق کام کرتا ہے۔ وہ آخرت کے حساب و کتاب کے لئے تیاری کرتا ہے۔ صرف دنیا پر نظریں مرکوز نہیں کرتا۔ اور اسے زندگی میں جن حادثات اور جن واقعات سے دو چار ہونا پڑے خواہ اچھے ہوں یا برے ، اس کے بارے میں اس کا رد عمل یہ ہوتا ہے کہ یہ تو دنیا کے عارضی حالات ہیں ، اصل جہاں تو اور ہے۔ لہٰذا وہ اپنی قیامت کو درست کرتا ہے اور جو آخرت کی تکذیب کرتا ہے اس کا سب کچھ اسی دنیا کے لئے ہوتا ہے۔

اگر وہ یہاں کسی چیز سے محروم ہوگیا تو اس کے نزدیک گویا وہ سب چیزوں سے محروم ہوگیا۔ کیونکہ اس کی تمام سرگرمیاں اس جہاں کے لئے ہوتی ہیں۔ چناچہ اس کے حساب و کتاب کے پیمانے مختلف ہوتے ہیں اور وہ ہر معاملے میں ایک غلط نتیجے تک پہنچتا ہے۔ اور وہ اپنے آپ کو اس محدود دنیا کے مختصر وقت کے اندر محدود کردیتا ہے۔ چناچہ یہ بدبخت ، مسکین ، ہر وقت عذاب میں مبتلا اور قلق میں گرفتار ہوتا ہے۔ کیونکہ اس دنیا کے بارے میں اس کے تمام اندازے غلط ہوتے ہیں۔ وہ کبھی مطمئن اور خوش نہیں ہوتا۔ کبھی عادلانہ اور منصفانہ فیصلے نہیں کرتا۔ اس لئے کہ اس کے فیصلے دنیا کے محدود دائرے میں محدود ہوتے ہیں ، لہٰذا یہ خود بھی پریشان ہوتا ہے اور اپنے ماحول کو بھی پریشان کرتا ہے۔ آزردہ دل آزردہ کمند الجمنے را .... غرض وہ اس دنیا میں بھی کوئی اعلیٰ اقدار پر مشتمل زندگی نہیں پاتا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں یوم الاخرت پر یقین کو اسلامی نظریہ حیات کا جز بنایا گیا ہے۔

آیت 26{ وَالَّذِیْنَ یُصَدِّقُوْنَ بِیَوْمِ الدِّیْنِ۔ } ”اور جو فیصلے کے دن کی تصدیق کرتے ہیں۔“ زیر مطالعہ آیات کی سورة المومنون کی ابتدائی آیات کے ساتھ مناسبت کے حوالے سے اس آیت کا تعلق سورة المومنون کی اس آیت سے ہے : { وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ۔ } ”اور جو لغو باتوں سے اعراض کرنے والے ہیں“۔ گویا زیر مطالعہ آیت سورة المومنون کی مذکورہ آیت کی وضاحت کر رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نیک بندے لغویات سے اعراض کیوں کرتے ہیں ؟ اس لیے کہ وہ قیامت اور جزا و سزا کے دن پر پختہ یقین رکھتے ہیں۔ ظاہر ہے جو شخص آخرت پر یقین رکھتا ہے اس کے لیے تو اس زندگی کا ایک ایک لمحہ امر کبھی نہ مرنے والا ‘ دائمی ہے۔ بظاہر تو انسان کی یہ زندگی فانی finite ہے ‘ لیکن درحقیقت بالقوہ potentially یہ دائمی infinite ہے۔ اس لیے کہ اس فانی زندگی کے اعمال کا نتیجہ آخرت کی دوامی زندگی میں نکلے گا۔ دنیا میں انسان اچھے برے جو اعمال بھی کمائے گا ‘ ان اعمال کے اثرات و نتائج آخرت کی زندگی میں ہمیشہ ہمیش کے لیے ہوں گے۔ چناچہ آخرت کی دوامی زندگی کے لیے جو پونجی انسان کو درکار ہے وہ تو دنیوی زندگی کے ”اوقات“ میں ہی کمائی جاسکتی ہے۔ سورة العصر کی پہلی آیت میں تیزی سے گزرتے ہوئے وقت کی قسم کے پردے میں بھی دراصل یہی فلسفہ بیان ہوا ہے۔ گویا انسان کا اصل سرمایہ اس کی مہلت ِعمر یعنی زندگی کے وہ قیمتی لمحات ہیں جو تیزی سے اس کے ہاتھ سے نکلے جا رہے ہیں ؎غافل تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے منادی گردوں نے گھڑی عمر کی اِک اور گھٹا دی !

آیت 26 - سورۃ المعارج: (والذين يصدقون بيوم الدين...) - اردو