سورۃ المعارج: آیت 24 - والذين في أموالهم حق معلوم... - اردو

آیت 24 کی تفسیر, سورۃ المعارج

وَٱلَّذِينَ فِىٓ أَمْوَٰلِهِمْ حَقٌّ مَّعْلُومٌ

اردو ترجمہ

جن کے مالوں میں،

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waallatheena fee amwalihim haqqun maAAloomun

آیت 24 کی تفسیر

والذین .................... والمحروم (52) (07 : 42۔ 52) ” جن کے مالوں میں سائل اور محروم کا ایک مقرر حق ہے “۔ یعنی وہ صدقات جو معلوم اور متعین ہیں ، وہ مومنین کے اموال میں غرباء کا حق ہیں اور ” حق معلوم “ کا اس سے بھی زیادہ جامع مفہوم یہ ہے کہ وہ خود اپنے اموال میں ایک متعین حق مساکین کے لئے مقرر کرتے ہیں اور وہ اپنے جذبہ سے کہتے ہیں کہ یہ ان کا حق ہے۔ اس طرح وہ بخل اور کنجوسی کے جذبہ پر قابو پاتے ہیں۔ اور اسی طرح یہ شعور ابھرتا ہے کہ اہل معاشرہ پر ناداروں کے حوالے سے ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ خصوصاً اسلامی امت تو باہم متکافل امت ہے۔ سائل وہ ہے جو سوال کرتا ہے اور محرم ونادار جو سوال نہیں کرتا۔ اور اپنی ضرورت کا اظہار کسی کے سامنے نہیں کرتا ، یوں وہ محروم رہتا ہے۔ یا محروم وہ شخص ہے جس پر کوئی مصیبت آئی ہو اور اسے نعمتوں سے محروم کردیا گیا ہو اور اس نے سوال کرنے سے اجتناب کیا ہو۔ یہ شعور کہ محتاجوں اور محروم لوگوں کا بھی دولت میں حصہ ہے ایک زاویہ سے تو اللہ کے فضل کا شعور ہے اور دوسری جانب سے انسانی اخوت کا شعور ہے جبکہ نفسیاتی فائدہ یہ ہوتا ہے کہ انسان بخل اور کنجوسی کے بندھنوں سے آزاد ہوجاتا ہے اور یہ ایک اجتماعی ضمانت میں بھی ہے۔ لہٰذا معاشرے کے مالی حقوق ادا کرنے میں بہت فائدے ہیں۔ غرض زکوٰة وصدقات میں نفسانی ، ذاتی اور معاشرتی فائدے ہیں۔ اور یہاں اس کا ذکر انسان کے نفسیاتی علاج کے حوالے سے ہے۔

آیت 24 ‘ 25{ وَالَّذِیْنَ فِیْٓ اَمْوَالِہِمْ حَقٌّ مَّعْلُوْمٌ - لِّلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْمِ۔ } ”اور وہ جن کے اموال میں معین حق ہے ‘ مانگنے والے کا اور محروم کا۔“ ایسے لوگ یہ نہیں سمجھتے کہ جو کچھ انہوں نے کمایا ہے یا جو کچھ بھی انہیں مل گیا ہے وہ سب ان کا ہے ‘ بلکہ وہ اپنے اموال میں سے ایک معین حصہ معاشرے کے ان محروم اور نادار افراد کے لیے مختص کیے رکھتے ہیں جو اپنی کسی مجبوری کی وجہ سے دوسروں کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلا سکتے۔ دراصل اللہ تعالیٰ آزمائش کے لیے بعض لوگوں کے حصے کا کچھ رزق بعض دوسرے لوگوں کے رزق میں شامل کردیتا ہے۔ چناچہ متمول افراد کو چاہیے کہ وہ اپنے اموال میں سے مساکین و فقراء کا حصہ الگ کر کے ”حق بہ حق دار رسید“ کے اصول کے تحت خود ان تک پہنچانے کا اہتمام کریں۔ یاد رہے سورة المومنون میں اس آیت کے مقابل یہ آیت ہے : { وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِلزَّکٰوۃِ فٰـعِلُوْنَ۔ } ”اور وہ جو ہر دم اپنے تزکیے کی طرف متوجہ رہنے والے ہیں“۔ ان دونوں آیات پر غور کرنے سے یہ نکتہ واضح ہوتا ہے کہ زکوٰۃ غرباء و مساکین کا حق ادا کردینے سے نہ صرف بقیہ مال پاک ہوجاتا ہے بلکہ یہ انفاق انسان کے تزکیہ باطن کا باعث بھی بنتا ہے۔ اس نکتے کی وضاحت سورة الحدید کی آیت 17 اور 18 کے ضمن میں بھی کی جا چکی ہے۔ دراصل مال کی محبت جب کسی دل میں گھر جاتی ہے تو یوں سمجھ لیجیے کہ اس دل میں گندگی کے انبار لگ جاتے ہیں۔ ایسی صورت میں دل کی صفائی یعنی تزکیہ باطن کا موثر ترین طریقہ یہی ہے کہ انفاق فی سبیل اللہ کے ذریعے مال کی محبت کو دل سے نکالا جائے۔ لیکن اس کے برعکس اگر کوئی شخص اپنے مال کو تو سینت سینت کر رکھتا ہے اور محض مراقبوں کے بل پر اپنے باطن اور نفس کا ”تزکیہ“ چاہتا ہے وہ گویا سراب کے پیچھے بھاگ بھاگ کر خود کو ہلکان کر رہا ہے۔

آیت 24 - سورۃ المعارج: (والذين في أموالهم حق معلوم...) - اردو