سورۃ المعارج: آیت 21 - وإذا مسه الخير منوعا... - اردو

آیت 21 کی تفسیر, سورۃ المعارج

وَإِذَا مَسَّهُ ٱلْخَيْرُ مَنُوعًا

اردو ترجمہ

اور جب اسے خوشحالی نصیب ہوتی ہے تو بخل کرنے لگتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waitha massahu alkhayru manooAAan

آیت 21 کی تفسیر

آیت 21{ وَّاِذَا مَسَّہُ الْخَیْرُ مَنُوْعًا۔ } ”اور جب اسے بھلائی ملتی ہے تو بہت بخیل بن جاتا ہے۔“ جب اسے کشادگی حاصل ہوتی ہے تو سب کچھ سمیٹ کر اپنے ہی پاس رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ اب اگلی آیات میں ان انسانی کمزوریوں پر قابو پانے کے لیے راہنمائی فراہم کی گئی ہے۔ اپنے مضمون کے اعتبار سے ان آیات آیت 22 تا 35 کا سورة المومنون کی ابتدائی گیارہ آیات کے ساتھ خصوصی تعلق ہے۔ قرآن مجید کے یہ دو مقامات نہ صرف باہم مشابہ ہیں بلکہ ”اَلْقُرْآنُ یُفَسِّرُ بَعْضَہٗ بَعْضًا“ کے اصول کے مطابق ایک مقام کی بعض آیات دوسرے مقام کی بعض آیات کی وضاحت بھی کرتی ہیں۔ یہاں ضمنی طور پر یہ بھی جان لیجیے کہ ہمارے ”مطالعہ قرآن حکیم کا منتخب نصاب“ کے تیسرے حصے کا پہلا سبق ان ہی دو مقامات کی آیات سورۃ المومنون کی ابتدائی گیارہ آیات اور زیر مطالعہ سورة کی آیت 22 سے آیت 35 تک چودہ آیات پر مشتمل ہے۔ ان آیات میں دراصل بندئہ مومن کی سیرت و کردار کے ان اوصاف کی فہرست دی گئی ہے جو اللہ تعالیٰ کے ہاں مطلوب اور پسندیدہ ہیں۔ گویا یہ اوصاف وہ اینٹیں ہیں جنہیں کام میں لا کر ایک بندئہ مومن کو اپنی سیرت کی عمارت تعمیر کرنا ہے۔ اگر یہ اینٹیں کچی ہوں گی تو ان سے بنائی گئی عمارت کمزور اور بودی ہونے کے باعث کفر و الحاد کے سیلاب کا سامنا نہیں کرسکے گی۔ چناچہ سیل باطل کی بلاخیزیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم ان ”اینٹوں“ کو خوب پختہ کر کے اپنی سیرت کی عمارت استوار کریں۔ بقول اکبر الٰہ آبادی : ؎تو آگ میں جل اور خاک میں مل ‘ جب خشت بنے تب کام چلے ان خام دلوں کے عنصر پر بنیاد نہ رکھ ‘ تعمیر نہ کر ! بہرحال گزشتہ آیات میں جن انسانی کمزوریوں کا ذکر ہے ‘ عمومی طور پر انسان ان میں مبتلا ہو کر ان کا شکار ہوجاتے ہیں۔ لیکن یہ پیدائشی کمزوریاں ناقابل تغیر و تبدل نہیں ‘ بلکہ انسان ان سے نجات پاسکتا ہے۔ چناچہ مندرجہ ذیل اوصاف کے حامل لوگ ان سے مستثنیٰ ہیں :

آیت 21 - سورۃ المعارج: (وإذا مسه الخير منوعا...) - اردو