سورۃ المعارج: آیت 19 - ۞ إن الإنسان خلق هلوعا... - اردو

آیت 19 کی تفسیر, سورۃ المعارج

۞ إِنَّ ٱلْإِنسَٰنَ خُلِقَ هَلُوعًا

اردو ترجمہ

انسان تھڑدلا پیدا کیا گیا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna alinsana khuliqa halooAAan

آیت 19 کی تفسیر

” اس “ انسان کی تصویر ذرا دیکھئے ، یہ ایمان سے محروم انسان ہے۔ قرآن کریم اس کی کس قدر سچی تصویر کھینچتا ہے۔ اور اس تصویر میں ایک غیر مومن انسان کے خدوخال اور فیچرز کس قدر نمایاں ہیں۔ ان تمام خدوخال سے انسان تب ہی محفوظ ہوتا ہے ، جب وہ مومن ہوتا ہی۔ ایک مومن پر اگر کوئی مصیبت آجائے تو وہ صبر جمیل کا پیکر ہوتا ہے اور مطمئن ہوتا ہے۔ جزع وفزع سے دور ، اور اگر اسے خوشحالی نصیب ہو تو وہ نہ بخل کرتا ہے نہ اتراتا ہے۔

ان الانسان .................... منوعا (12) (07 : 91 تا 12) ”” انسان تھرڈلاپیدا کیا گیا ہے ، جب اس پر مصیبت آتی ہے تو گھبرا اٹھتا ہے اور جب اسے خوشحالی نصیب ہوتی ہے تو بخل کرنے لگتا ہے “۔ یوں نظر آتا ہے کہ ایک ایک لفظ مصور قدرت کا ایک رنگ ہے اور وہ انسان کے چہرے اور اس کی خصوصیات کو صاف بتارہا ہے۔ یہاں تک کہ جب انسان یہ نہایت ہی مختصر سی تین آیات پڑھتا ہے اور دیکھتا ہے کہ ان میں چند ہی کلمات استعمال ہوئے ہیں ، تو اسے ایمان سے خالی انسان کی ایک نہایت چمکدار اور واضح تصویر نظر آتی ہے۔ اس کے تمام فیچرز نمایاں ہیں۔ ھلوع ، جزوع اور منوع اس انسان کو اگر کوئی مصیبت پیش آجائے یا حقائق حیات کا کوئی ڈنگ لگ جائے تو یہ آہ وفغاں کرنے لگتا ہے۔ یہ سمجھتا ہے کہ بس وہ اب اسی حالت میں رہے گا۔ وہ سمجھتا ہے کہ اب تو وہ ہمیشہ کے لئے اس مصیبت میں پھنس گیا ہے ، اور کوئی نہیں ہے جو اس کو اس مصیبت سے نکال دے۔ وہ یہ سمجھنے لگتا ہے کہ گویا مصیبت کی یہ گھڑی دائمی ہے۔ اس وقت یہ شخص اوہام میں بندھ جاتا ہے اور مصیبت اور مشقت بڑھ جاتی ہے۔ اس کے تصور میں بھی یہ بات نہیں ہوتی کہ اس مشکل کے بعد کوئی آسانی بھی آسکتی ہے۔ وہ اللہ سے کسی قسم کی رحمت اور مہربانی کا مامیدوار نہیں ہوتا۔ چناچہ یہ جزع فزع اس کو کھا جاتی ہے۔ اس کی شخصیت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتی ہے۔ اور اس صورت کی اصل وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ ایک قوی ذات کی پناہ میں نہیں ہوتا۔ اس کا کوئی مضبوط سہارا نہیں ہوتا ، جس سے اس کو کوئی امید ہے۔ اور اس کے برعکس اگر وہ خوشحال ہو ، عافیت میں ہو ، تو وہ نیکی کا کوئی کام کرنے سے رکنے والا ہوتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ یہ سہولیات اس کو اس کی محنت اور مشقت کی وجہ سے حاصل ہیں ، اس لئے یہ ان کو اپنے لئے مخصوص کرلیتا ہے ، اپنی ذات کے لئے چھپا لیتا ہے اور بلکہ یہ اپنی مملوکات کا غلام ہوجاتا ہے۔ اور اپنی جائیداد اور مال پر مرمٹنے کے لئے تیار ہوتا ہے۔ یہ اس لئے کہ اسے معلوم نہیں ہے کہ رزق کی حقیقت کیا ہے اور یہ کہ رزق کے ملنے میں خود انسان کا کردار کیا ہے۔ یہ شخص یہ امید نہیں رکھتا کہ اگر ہے ، دونوں حالتوں میں تھرڈلا ہے۔ حالت خیر میں بھی اور حالت شر میں بھی۔ یہ ایک انسان کی بہت ہی بری تصویر ہے۔ لیکن اس انسان کی جس کا دل نور ایمانی سے خالی ہو۔

لہٰذا اللہ پر ایمان لانا دراصل بڑا اہم مسئلہ ہے۔ یہ محض ایک لفظ نہیں ہے جو زبان سے ادا کردیا جائے۔ اور نہ ہی یہ چند مذہبی رسومات عبادات سے متعلق ہے۔

یہ دراصل ایک نفسیاتی حالت ہے اور یہ ایک مکمل نظام حیات ہے اور حالات وواقعات کے لئے یہ ایک معیار ہے۔ اور انسان کا دل اگر ایمان سے خالی ہوجائے تو وہ اس قدر ہلکا ہوجاتا ہے جس طرح پرندوں کا ایک پر جسے ہوا کے جھونکے ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر اڑا کر گھماتے ہیں اس کا کوئی وزن اور پیمانہ نہیں ہوتا۔ اس قسم کا انسان ہمیشہ قلق اور خوف کا شکار رہتا ہے۔ اگ را سے کسی مصیبت سے دو چار ہونا پڑے تو وہ جزع فزع کرتا ہے۔ اگر اسے کوئی بھلائی نصیب ہو تو بخیل ہوتا ہے۔ لیکن اگر اس کا ظرف ایمان سے بھر اہوا ہو ، تو وہ نہایت اطمینان ، عافیت میں ہوتا ہے ، اس لئے کہ اس کا ربط ایک حقیقی سرچشمے سے ہوتا ہے۔ جہاں سے تمام واقعات و حالات کنٹرول ہوتے ہیں۔ وہ اللہ کی تقدیر پر مطمئن ہوتا ہے ، چاہے خیر ہو یا شر ہو۔ اگر خیر ہو تو وہ مطمئن ہوتا ہے۔ اللہ کی رحمت کا شعور رکھتا ہے۔ اللہ کی آزمائشوں میں وہ ہمیشہ شمع امید روشن رکھتا ہے۔ کہ مشکل کے بعد آسانی آتی ہے۔ وہ امید رکھتا ہے کہ ہر مشکل کے بعد آسانی آتی ہے۔ اسے اگر خیر ملتی ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے کچھ فرائض ہیں۔ اس کے لئے خرچ کرتا ہے اور اسے اس کی جزاء آخرت میں ملے گی۔ بلکہ دنیا وآخرت دونوں میں اسے جزاء ملے گی۔ لہٰذا ایمان دنیا میں ایک ایسی کمائی ہے جس کی جزاء آخرت میں ملے گی اور اس کی وجہ سے انسان کو راحت ، اطمینان اور ثبات وقرار ملتا ہے۔ اور پوری زندگی میں وہ ایسا ہی ہوتا ہے۔ اہل ایمان کو اس صورت حال سے مستثنیٰ کیا گیا ہے۔

آیت 19{ اِنَّ الْاِنْسَانَ خُلِقَ ہَلُوْعًا۔ } ”یقینا انسان پیدا کیا گیا ہے تھڑدلا۔“ یہ انسان کی فطری اور جبلی کمزوری ہے کہ وہ تھڑدلا اور بےصبرا ہے۔ قرآن مجید میں انسان کی کئی اور کمزوریوں کا ذکر بھی آیا ہے ‘ مثلاً : { وَخُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیْفًا۔ } النساء کہ انسان فطری طور پر کمزور پیدا کیا گیا ہے۔ سورة الاحزاب کی آیت 72 میں انسان کو ظَلُوْمًا جَھُوْلًا قرار دیا گیا ہے ‘ جبکہ سورة الانبیاء کی آیت 37 میں انسان کی طبعی عجلت پسندی کا ذکر آیا ہے : { خُلِقَ الْاِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍط }۔ ظاہر ہے ایک انسان جسم اور روح سے مرکب ہے۔ انسان کے جسم کا تعلق عالم خلق سے ہے ‘ جبکہ انسانی روح کا تعلق عالم امر سے ہے : { وَیَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الرُّوْحِط قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ } بنی اسراء یل : 85 ”اور اے نبی ﷺ ! یہ لوگ آپ سے پوچھتے ہیں روح کے بارے میں۔ آپ فرما دیجیے کہ روح میرے رب کے امر میں سے ہے“۔ چناچہ مذکورہ سب کمزوریوں کا تعلق انسان کی جسمانی خلقت سے ہے۔ جہاں تک انسانی وجود کے اصل حصے یعنی اس کی روح کا تعلق ہے ‘ بنیادی طور پر اس کا مقام بہت بلند ہے اور اس میں ایسی کوئی کمزوری نہیں ہے۔ انسان کی تخلیق کے اس پہلو کا ذکر سورة التین کی اس آیت میں آیا ہے : { لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ۔ } ”بیشک ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا“۔ لیکن افسوس کہ ہم انسانوں کی اکثریت اپنی روح سے بیگانہ ہوچکی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ اللہ کی یاد سے غفلت ہے۔ جو انسان اللہ تعالیٰ سے غافل ہوجاتا ہے اللہ تعالیٰ سزا کے طور پر اسے خود اپنی ذات روح سے غافل کردیتا ہے۔ سورة الحشر کی آیت 19 میں اہل ایمان کو اس حوالے سے یوں متنبہ کیا گیا ہے : { وَلَا تَـکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ نَسُوا اللّٰہَ فَاَنْسٰٹہُمْ اَنْفُسَہُمْط } ”اے مسلمانو دیکھنا ! تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنہوں نے اللہ کو بھلا دیا تو اللہ نے انہیں اپنے آپ سے غافل کردیا۔“

انسان بےصبرا، بخیل اور کنجوس بھی ہے یہاں انسانی جبلت کی کمزوری بیان ہو رہی ہے کہ یہ بڑا ہی بےصبرا ہے، مصیبت کے وقت تو مارے گھبراہٹ اور پریشانی کے باؤلا سا ہوجاتا ہے، گویا دل اڑ گیا اور گویا اب کوئی آس باقی نہیں رہی، اور راحت کے وقت بخیل کنجوس بن جاتا ہے اللہ تعالیٰ کا حق بھی ڈکار جاتا ہے، رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں بدترین چیز انسان میں بیحد بخیلی اور اعلیٰ درجہ کی نامردی ہے (ابو داؤد) پھر فرمایا کہ ہاں اس مذموم خصلت سے وہ لوگ دور ہیں جن پر خاص فضل الٰہی ہے اور جنہیں توفیق خیر ازل سے مل چکی ہے، جن کی صفتیں یہ ہیں کہ وہ پورے نمازی ہیں وقتوں کی نگہبانی کرنے واجبات نماز کو اچھی طرح بجا لانے سکون اطمینان اور خشوع خضوع سے پابندی کے ساتھ نماز ادا کرنے والے۔ جیسے فرمایا آیت (قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ ۙ) 23۔ المؤمنون :1) ، ان ایمان داروں نے نجات پالی جو اپنی نماز خوف اللہ سے ادا کرتے ہیں، ٹھہرے ہوئے بےحرکت کے پانی کو بھی عرب ماء دائم کہتے ہیں اس سے ثابت ہوا کہ نماز میں اطمینان واجب ہے، جو شخص اپنے رکوع سجدے پوری طرح ٹھہر کر بااطمینان ادا نہیں کرتا وہ اپنی نماز پر دائم نہیں کیونکہ نہ وہ سکون کرتا ہے نہ اطمینان بلکہ کوئے کی طرح ٹھونگیں مار لیتا ہے اس کی نماز اسے نجات نہیں دلوائے گی، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد ہر نیک عمل پر مداوت اور ہمیشگی کرنا ہے جیسے کہ نبی علیہ صلوات اللہ کا فرمان ہے کہ اللہ کو سب سے زیادہ پسند وہ عمل ہے جس پر مداوت میں جائے گو کم ہو، خودحضور ﷺ کی عادت مبارک بھی یہی تھی کہ جس کام کو کرتے اس پر ہمیشگی کرتے، حضرت قتادہ ؒ فرماتے ہیں ہم سے ذکر کیا گیا کہ حضرت دانیال پیغمبر نے امت محمد ﷺ کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ ایسی نماز پڑھے گی کہ اگر قوم نوح ایسی نماز پڑھتی تو ڈوبتی نہیں اور قوم عاد کی اگر ایسی نماز ہوتی تو ان پر بےبرکتی کی ہوائیں نہ بھیجی جاتیں اور اگر قوم ثمود کی نماز ایسی ہوتی تو انہیں چیخ سے ہلاک نہ کیا جاتا، پس اے لوگو ! نماز کو اچھی طرح پابندی سے پڑھا کرو مومن کا یہ زیور اور اس کا بہترین خلق ہے، پھر فرماتا ہے ان کے مالوں میں حاجت مندوں کا بھی مقررہ حصہ ہے سائل اور محروم کی پوری تفسیر سورة ذاریات میں گذر چکی ہے۔ یہ لوگ حساب اور جزا کے دن پر بھی یقین کامل اور پورا ایمان رکھتے ہیں اسی وجہ سے وہ اعمال کرتے ہیں جن سے ثواب پائیں اور عذاب سے چھوٹیں، پھر ان کی صفت بیان ہوتی ہے کہ وہ اپنے رب کے عذاب سے ڈرتے اور خوف کھانے والے ہیں، جس عذاب سے کوئی عقل مند انسان بےخوف نہیں رہ سکتا ہاں جسے اللہ امن دے اور یہ لوگ اپنی شرمگاہوں کو حرام کاری سے روکتے ہیں جہاں اللہ کی اجازت نہیں اس جگہ سے بچاتے ہیں، ہاں اپنی بیویوں اور اپنی ملکیت کی لونڈیوں سے اپنی خواہش پوری کرتے ہیں سو اس میں ان پر کوئی ملامت نہیں، لیکن جو شخص ان کے علاوہ اور جگہ یا اور طرح اپنی شہوت رانی کرلے وہ یقیناً حدود اللہ سے تجاوز کرنے والا ہے، ان دونوں آیتوں کی پوری تفسیر (قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ ۙ) 23۔ المؤمنون :1) میں گذر چکی ہے یہاں دوبارہ لانے کی ضرورت نہیں۔ یہ لوگ امانت کے ادا کرنے والے وعدوں اور وعیدوں قول اور قرار کو پورا کرنے والے اور اچھی طرح نباہنے والے ہیں، نہ خیانت کریں نہ بد عہدی اور وعدہ شکنی کریں۔ یہ کل صفتیں مومنوں کی ہیں اور ان کا خلاف کرنے والا منافق ہے، جیسے کہ صحیح حدیث میں ہے منافق کی تین خصلتیں ہیں جب کبھی بات کرے جھوٹ بولے، جب کبھی جھگڑے گالیاں بولے۔ یہ اپنی شہادتوں کی بھی حفاظت کرنے والے ہیں یعنی نہ اس میں کمی کریں نہ زیادتی نہ شہادت دینے سے بھاگیں نہ اسے چھپائیں، جو چھپالے وہ گنہگار دل والا ہے۔ پھر فرمایا وہ اپنی نماز کی پوری چوکسی کرتے ہیں یعنی وقت پر ارکان اور واجبات اور مستجات کو پوری طرح بجا لا کر نماز پڑھتے ہیں، یہاں یہ بات خاص توجہ کے لائق ہے کہ ان جنتیوں کے اوصاف بیان کرتے ہوئے شروع وصف میں بھی نماز کی ادائیگی کا بیان کیا اور ختم بھی اسی پر کیا پس معلوم ہوا کہ نماز امر دین میں عظیم الشان کام ہے اور سب سے زیادہ شرافت اور فضیلت والی چیز بھی یہی ہے اس کا ادا کرنا سخت ضروری ہے اور اس کا بندوبست نہایت ہی تاکید والا ہے۔ سورة (قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ ۙ) 23۔ المؤمنون :1) میں بھی ٹھیک اسی طرح بیان ہوا ہے اور وہاں ان اوصاف کے بعد بیان فرمایا ہے کہ یہی لوگ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے وارث فردوس ہیں اور یہاں فرمایا یہی لوگ جنتی ہیں اور قسم قسم کی لذتوں اور خوشبوؤں سے عزت و اقبال کے ساتھ مسرور و محفوظ ہیں۔

آیت 19 - سورۃ المعارج: (۞ إن الإنسان خلق هلوعا...) - اردو