سورہ لیل: آیت 8 - وأما من بخل واستغنى... - اردو

آیت 8 کی تفسیر, سورہ لیل

وَأَمَّا مَنۢ بَخِلَ وَٱسْتَغْنَىٰ

اردو ترجمہ

اور جس نے بخل کیا اور (اپنے خدا سے) بے نیازی برتی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waamma man bakhila waistaghna

آیت 8 کی تفسیر

واما من .................... اذاتردی (8:92 تا 11) ” اور جس نے بخل اختیار کیا اور اللہ سے بےنیازی اختیار کی اور بھلائی کو جھٹلایا ، اس کو ہم سخت راستے کی طرف سہولت دیں گے ، اور اس کا مال آخر اس کے کس کام آئے گا جبکہ وہ ہلاک ہوجائے “۔

وہ شخص جو اپنے نفس اور مال میں بخل اختیار کرتا ہے اور اللہ کریم سے بےنیازی اختیار کرتا ہے ، اور اس کی ہدایات سے غافل ہوتا ہے اور اللہ کے دین اور اس کی دعوت کی تکذیب کرتا ہے ، تو وہ اپنے نفس کو انتہائی شروفساد کے لئے تیار کرتا ہے ، اور پرلے درجے کے بگاڑ سے اس کو دوچار کرتا ہے ، تو وہ اس بات کے مستحق ہوتا ہے کہ اللہ اس کے لئے ہر چیز مشکل کردے اور اسے سخت راستوں کی سہولیات فراہم کی جائیں اور اسے توفیق دی جائے کہ وہ ہر قدم پر مشکلات سے دوچار ہو ، اس پر آسانیوں کا دروازہ بند کردیا جائے ، اور اسے قدم قدم پر مشکلات درپیش ہوں ، جو اسے راہ راست اور صراط مستقیم سے دور ہی لے جائیں۔ اور یہ شخص بدبختی کے راستے پر ہی آگے بڑھے۔ اگرچہ وہ بظاہر یہ محسوس کرے کہ وہ کامیابی کی راہ پر جارہا ہے۔ حالانکہ وہ تو ٹھوکر کھاتا جاتا ہے اور وہ اپنی ایک ٹھوکر سے بچنے کے لئے دوسری ٹھوکر کھاتا ہے ، جس کی وجہ سے وہ سیدھی راہ سے اور دور ہوجاتا ہے تاکہ وہ اللہ کی رضا سے محروم ہوجائے۔ اور جب وہ ٹھوکروں سے بھرے ہوئے اس منحرف راہ پر آگے بڑھتا ہے اور آخرکار ہلاکت کے گڑھے میں گرتا ہے تو اس وقت پھر اس کا مال اسے کوئی فائدہ نہیں دیتا ، حالانکہ یہ مال ہی تھا جس نے اسے اللہ سے بےنیاز کردیا تھا۔ اب یہ مفید نہیں ہے۔

وما یغنی ............................ تردی (11:92) ” اور اس کا مال اس کے کس کام آئے گا جبکہ وہ ہلاک ہوجائے “۔ کسی کو شر اور فساد کے لئے سہولیات فراہم کرنا اور اسے معصیت کی توفیق دینا دراصل اسے سخت کام اور سخت راستے کی طرف موڑنا ہے۔ اگرچہ ایسا شخص اس دنیا میں کامیاب نظر آئے۔ حقیقت یہ ہے کہ جہنم سے کوئی مشکل منزل اور مشکل جائے قیام نہیں ہے اور العسریٰ سے یہاں مراد جہنم ہی ہے۔

یوں اس سورت کا پہلا پیراگراف ختم ہوتا ہے اور اس میں تمام انسانی سوسائٹیوں کے لئے دوراستے ، دو طریقے اور دو نظام متعین کردیئے جاتے ہیں اور یہ دوراستے ہر زمان ومکان کے لئے ہیں۔ معلوم ہوا کہ دراصل یہ دوبادشاہ اور دو جھنڈے ہیں ، اگرچہ ان کی شکل اور رنگ مختلف ہوں۔ اور یہ کہ ہر انسان مختار ہے ، کہ اپنے لئے جو راستہ چاہے اختیار کرے اور جو طریقہ چاہے اپنائے۔ اللہ ہر کسی کو وہی سہولت دیتا ہے جو وہ چاہتا ہے ، یا سہولت کا راستہ اور یا سختی کا راستہ۔

رہا اگلا پیراگراف تو اس میں ان دونوں فریقوں میں سے ہر ایک کا انجام بنایا گیا ہے۔ یہ دکھایا گیا کہ وہ شخص دوڑتے بھاگتے کہاں تک پہنچ جائے گا۔ جس کو آسان راستوں کی سہولت دی گئی اور اس کی گاڑی کہاں جاکر رکے گی جس کو سخت راستوں پر چلایا گیا اور اس پیراگراف میں بتایا جاتا ہے کہ جس فریق کا جو انجام ہوگا وہ حق ہوگا اور نہایت منصفانہ ہوگا اور ایسا ہی ہوتا ہے اور یقینا ہوتا ہے۔ کیونکہ الہل نے لوگوں کو صحیح راستہ بھی بتلایا اور اگر وہ برے راستوں پر چلیں تو ان کو دہکتی ہوئی آگ سے بھی ڈرایا۔

آیت 8{ وَاَمَّا مَنْم بَخِلَ } ”اور جس نے بخل کیا“ پہلی تین خصوصیات کی ترتیب ذہن میں رکھیے اور نوٹ کیجیے کہ ”اِعطاء“ کے مقابلے میں یہاں بخل آگیا ہے۔ { وَاسْتَغْنٰی۔ } ”اور بےپروائی اختیار کی۔“ بھلائی اور خیر کے راستے کی تین خصوصیات میں اعطاء کے بعد تقویٰ یعنی پھونک پھونک کر قدم رکھنے اور ذمہ داری کے احساس کا بیان تھا۔ اس کے مقابلے یہاں لاابالی پن ‘ لاپرواہی اور بےنیازی استغناء کا تذکرہ ہے۔ گویا ایک شخص حلال و حرام کی تمیز سے ناآشنا اور نیکی و بدی کے تصور سے بیگانہ اپنی دھن میں مست چلا جا رہا ہے۔ کسی کے جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے تو اس کی بلا سے ‘ کسی کی عزت پر حرف آتا ہے تو آتا رہے ‘ کسی کے جان و مال کی حرمت پامال ہوتی ہے تو بھی پروا نہیں ! غرض اپنی سوچ ہے ‘ اپنی مرضی ہے اور اپنے کام سے کام ہے : ؎دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام کشتی کسی کی پار ہو یا درمیاں رہے !

آیت 8 - سورہ لیل: (وأما من بخل واستغنى...) - اردو