سورہ لیل: آیت 5 - فأما من أعطى واتقى... - اردو

آیت 5 کی تفسیر, سورہ لیل

فَأَمَّا مَنْ أَعْطَىٰ وَٱتَّقَىٰ

اردو ترجمہ

تو جس نے (راہ خدا میں) مال دیا اور (خدا کی نافرمانی سے) پرہیز کیا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Faamma man aAAta waittaqa

آیت 5 کی تفسیر

آیت 5{ فَاَمَّا مَنْ اَعْطٰی وَاتَّقٰی۔ } ”تو جس نے عطا کیا اور تقویٰ اختیار کیا۔“ ظاہر ہے یہ خیر کا راستہ ہے اور اس راستے کا پہلا وصف یا پہلا سنگ میل ”اِعطاء“ یا انفاق فی سبیل اللہ ہے۔ سورة البلد میں اس عمل کو انسان کے لیے ایک بہت مشکل گھاٹی قرار دے کر اس کی وضاحت یوں فرمائی گئی : { فَکُّ رَقَـبَۃٍ - اَوْ اِطْعٰـمٌ فِیْ یَوْمٍ ذِیْ مَسْغَـبَۃٍ - یَّتِیْمًا ذَا مَقْرَبَۃٍ - اَوْ مِسْکِیْنًا ذَا مَتْرَبَۃٍ - ثُمَّ کَانَ مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا…} ”کسی گردن کا چھڑا دینا۔ یا کھانا کھلا دینا بھوک کے دن ‘ اس یتیم کو کہ جو قرابت دار بھی ہے ‘ یا اس محتاج کو جو مٹی میں رُل رہا ہے۔ پھر وہ شامل ہوا ان لوگوں میں جو ایمان لائے…“ یعنی جو انسان اس ”مشکل گھاٹی“ کو عبور کرنے کے بعد اہل ایمان کی صف میں شامل ہوگا وہ ان شاء اللہ ابوبکر صدیق ‘ عمر فاروق ‘ عثمان غنی اور علی مرتضیٰ - کا پیروکار بنے گا۔ لیکن جس نے یہ امتحان پاس کیے بغیر ہی کلمہ پڑھ لیا تو اس کے بارے میں خدشہ ہے کہ توحید و رسالت کی گواہی دینے کے بعد بھی اس کے ایمان کی بوباس عبداللہ بن ابی کے ایمان کی سی ہوگی۔ ظاہر ہے جو کلمہ حضرت ابوبکر ‘ حضرت عمر ‘ حضرت عثمان اور حضرت علی - نے پڑھا تھا وہی کلمہ عبداللہ بن ابی نے بھی پڑھا تھا۔ یعنی ایمان کا بیج تو دونوں طرف ایک سا تھا ‘ مگر یہ زمین اور تھی ‘ وہ زمین اور تھی۔ اس زمین میں انفاق فی سبیل اللہ کا ہل چل چکا تھا اور اس زمین میں ُ حب ِدنیا اور شکوک و تردّد کے جھاڑ جھنکاڑ نے قبضہ جما رکھا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ عبداللہ بن ابی کے دل کی زمین میں ایمان کے بیج کا جمائو ممکن ہی نہ ہوا۔ اس حوالے سے اگر سورة آل عمران کی آیت 92 کے اس جملے کو مدنظر رکھا جائے تو انفاق و اِعطاء کے اس فلسفے کو سمجھنا بہت آسان ہوجاتا ہے : { لَــنْ تَنَالُوْا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَط } یعنی جب تک تم لوگ اپنی عزیز ترین چیز کو اللہ کی راہ میں نہ دے ڈالو تم نیکی کی گردکو بھی نہیں پہنچ سکتے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا چاہیے تو مال کی قربانی دو اور قربانی بھی بہترین چیز کی۔ یہ نہیں کہ چھانٹ کر بےکار چیزیں کسی کو دے کر سمجھو کہ تم نے حاتم طائی کی قبر پر لات مار دی ہے۔ اس راستے کا دوسر اوصف یا سنگ میل تقویٰ وَاتَّقٰی ہے۔ یعنی انسان کا اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے ڈرتے رہنا۔ ہر لمحہ برائی کی خاردار جھاڑیوں سے اپنا دامن بچانے کی فکر میں رہنا اور مسلسل کوشش کرتے رہنا کہ میں کسی کا دل نہ دکھائوں اور کسی کا حق نہ ماروں۔ لیکن یہ تبھی ممکن ہے جب انسان کے اندر اللہ تعالیٰ کی ودیعت کردہ وہ اخلاقی حس زندہ و بیدار ہو جس کا ذکر سورة الشمس کی آیت { فَاَلْہَمَہَا فُجُوْرَہَا وَتَقْوٰٹہَا۔ } میں آیا ہے۔ اگر اس کی اخلاقی حس کی شمع ہوا و ہوس کے طوفان کی نذر ہوچکی ہو تو پھر ظاہر ہے کہاں کا تقویٰ اور کس کا ڈر !

آیت 5 - سورہ لیل: (فأما من أعطى واتقى...) - اردو