سورہ لیل: آیت 4 - إن سعيكم لشتى... - اردو

آیت 4 کی تفسیر, سورہ لیل

إِنَّ سَعْيَكُمْ لَشَتَّىٰ

اردو ترجمہ

درحقیقت تم لوگوں کی کوششیں مختلف قسم کی ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna saAAyakum lashatta

آیت 4 کی تفسیر

ان سعیکم .................................... تردی

تمہاری مساعی مختلف ہیں ، اپنی حقیقت کے اعتبار سے بھی تمہاری مساعی مختلف ہیں ، اپنے اسباب اور محرکات کے اعتبار سے بھی مختلف ہیں ، اپنے رخ اور سمت کے اعتبار سے بھی مختلف ہیں اور نتائج کے اعتبار سے بھی مختلف ہیں۔ اس زمین پر بسنے والے انسانوں کے مزاج بھی مختلف ہیں۔ ان کے تصورات و افکار بھی مختلف ہیں ، ان کے ذوق اور مشرب بھی مختلف ہیں ، اس کی ترجیحات بھی مختلف ہیں۔ اور لوگوں کی حالت یوں لگتی ہے کہ گویا ان میں سے ہر شخص شاید ایک علیحدہ سیارے کا باشندہ ہے۔

یہ تو ہے ایک حقیقت ، لیکن ایک دوسری حقیقت بھی اپنی جگہ موجود ہے ، وہ یہ کہ ان تمام افراد بشریت کے درمیان ایک قدر مشرک بھی ہے جو انہیں باہم جوڑے ہوئے ہے۔ اور ان تمام اختلافات کے درمیان مابہ الاشتراک بھی ہے۔ یہ اشتراک انہیں دوگروہوں میں رکھتا ہے۔ دوصفوں میں اور دو جھنڈوں کے تلے قائم رکھتا ہے جو ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہیں۔ وہ کیا ہے ۔

فاما ............................ بالحسنی (6:82) ” تو جس نے دیا اور تقویٰ اختیار کیا اور بھلائی کو سچ مانا “۔ ایک تو یہ صف ہے اور دوسری صف۔

من بخل ............................ بالحسنی (9:92) ” جس نے بخل کیا اور بےنیازی برتی اور بھلائی کو جھٹلایا “۔

ایک گروہ ہے جو جان بھی کھپاتا ہے ، مال بھی کھپاتا ہے۔ اللہ کے عذاب اور اللہ کے غضب سے ڈرتا ہے اور سچائی کو مانتا ہے اور سچائی کا نام کیا ہے الحسنیٰ ، اس کا علم کیا ہے الحسنیٰ ۔ یہ دو قسم کے لوگ ہیں جو دو صفوں میں کھڑے ہیں ، مختلف المزاج لوگ ، مختلف قسم کی مساعی ، مختلف قسم کے طریقہ ہائے کار ، مختلف قسم کے مقاصد۔ ان دوصفوں میں صف آرا ہوکر ایک دوسرے کے ساتھ ملتے ہیں ، ہر ایک کا اپنا نظام اور منہاج کار ہے اور ہر ایک کو الگ الگ توفیق بخشی گئی ہے اور طریقہ دیا گیا ہے۔

فاما ........................................ للیسری (5:95 تا 7) ” تو جس نے دیا ، اور پرہیزگاری اختیار کی اور بھلائی کو سچ مانا اس کہ ہم آسان راستے کے لئے سہولت دیں گے “۔ اس لئے کہ جو شخص مال دے ، تقویٰ اختیار کرے اور سچائی کی تصدیق کردے تو گویا اس کے پاس جو کچھ تھا اس نے حاضر کردیا اور اپنے نفس کو پاک کرنے اور راہ راست پر لگانے کے لئے حتیٰ المقدور سعی کرلی۔ اب وہ اس بات کا مستحق ہے کہ اللہ کی نصرت اس کی دستگیری کرے۔ اور اس کو بھلائی کی توفیق دے کیونکہ اللہ نے اپنے اوپر لازم کردیا ہے کہ جس شخص نے اچھا ارادہ کیا ، اسے سہولیات فراہم کرے کیونکہ اللہ کی توفیق اور مشیت کے بغیر تو کچھ بھی نہیں ہوسکتا۔ اور اس کے بغیر انسان کچھ بھی نہیں کرسکتا۔

اور جس کو اللہ نیکی کی سہولیات فراہم کردے تو گویا وہ منزل مقصود تک پہنچ گیا۔ نہایت آسانی اور سکون و اطمینان کے ساتھ وہ پہنچ گیا۔ وہ زمین پر ہوتے ہوئے بھی عالم بالا تک پہنچ گیا ، وہ نہایت آسانی سے اس جہاں میں رہتا ہے ، اس کا ماحول ، اور اس کے ارد گرد رہنے والے سب اس کے لئے سازگار ہوجاتے ہیں ، ان کے قدم سہولت سے اٹھتے ہیں ، اس کی راہ آسان ہوجاتی ہے ، وہ بڑی آسانی کے ساتھ معاملات سے نمٹ لیتا ہے ، غرض تمام کلیات وجزئیات میں اسے سہولیات حاصل ہوجاتی ہیں۔ یہ ایک ایسا مقام و مرتبہ ہے جس کے دائرے میں سب کچھ آجاتا ہے۔ اور اس مرتبہ ومقام کو پانے والا رسول اللہ کے ساتھ حسب وعدہ رہی بڑی سہولیات پاتا ہے۔

فسنیسرہ للیسری (7:92) ” ہم اسے آسان راستے کی طرف سہولت دیں گے “۔

آیت 4{ اِنَّ سَعْیَکُمْ لَشَتّٰی۔ } ”بیشک تمہاری کوشش الگ الگ ہے۔“ یعنی جس طرح کائنات کی باقی چیزوں میں اختلاف و تضاد پایا جاتا ہے اسی طرح تمہارے مختلف افراد کی کوششوں اور محنتوں کی نوعیت بھی مختلف ہے۔ ظاہر ہے زندگی کے شب و روز میں محنت ‘ مشقت اور بھاگ دوڑ کرنا تو انسان کا مقدر ہے : { لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ کَبَدٍ۔ } البلد ”بیشک ہم نے انسان کو پیدا ہی محنت اور مشقت میں کیا ہے“۔ ہر انسان اپنا اور اپنے اہل و عیال کا پیٹ پالنے کے لیے بھی مشقت کرتا ہے۔ پھر اگر وہ کسی نظریے کا پیروکار ہے تو اس نظریے کی اشاعت اور سربلندی کے لیے بھی تگ و دو کرتا ہے اور اس نظریے کے تحت ایک نظام کے قیام کے لیے بھی جدوجہد کرتا ہے۔ غرض اپنے اپنے ماحول اور حالات کے مطابق محنت اور مشقت تو سب انسان ہی کرتے ہیں لیکن ان کی مشقتوں کے نتائج مختلف ہوتے ہیں۔ ایک شخص اپنی محنت کے نتیجے میں جنت خرید لیتا ہے اور دوسرا اپنی محنت و مشقت کی پاداش میں خود کو دوزخ کا مستحق بنالیتا ہے۔ انسانی محنت میں اس فرق کی وضاحت حضور ﷺ کی اس حدیث میں ملتی ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا : کُلُّ النَّاسِ یَغْدُوْ فَبَائِِعٌ نَفْسَہٗ فَمُعْتِقُھَا اَوْ مُوْبِقُھَا 1 ”ہر شخص روزانہ اس حال میں صبح کرتا ہے کہ اپنی جان کا سودا کرتا ہے ‘ پھر یا تو وہ اسے آزاد کرا لیتا ہے یا اسے تباہ کر بیٹھتا ہے“۔ کوئی اپنی جسمانی قوت کا سودا کرتا ہے ‘ کوئی ذہنی صلاحیت بیچتا ہے ‘ کوئی اپنی مہارت نیلام کرتا ہے ‘ کوئی اپنا وقت فروخت کرتا ہے۔ غرض اپنے اپنے طریقے اور اپنے اپنے انداز میں ہر شخص دن بھر خود کو بیچتا ہے۔ اب ان میں سے ایک شخص وہ ہے جس نے خود کو بیچتے ہوئے حلال کو مدنظر رکھا ‘ اس نے جھوٹ نہیں بولا ‘ کسی کو دھوکہ نہیں دیا ‘ کم معاوضہ قبول کرلیا لیکن حرام سے اجتناب کیا۔ ایسا شخص شام کو لوٹے گا تو اللہ تعالیٰ کی رحمت اس کے شامل حال ہوگی۔ اس کے مقابلے میں ایک دوسرے شخص نے بھی دن بھر مشقت کی ‘ مگر حلال و حرام کی تمیز سے بےنیاز ہو کر ‘ معاوضہ اس نے بھی لیامگر غلط بیانی کرکے اور دوسروں کو فریب دے کر ‘ ناپ تول میں کمی کر کے اور گھٹیا چیز کو بڑھیا چیز کے دام پر بیچ کر۔ اب یہ شخص جب شام کو گھر آئے گا تو جہنم کے انگاروں کی گٹھڑی اٹھائے ہوئے آئے گا۔ اب آئندہ آیات میں انسانی زندگی کے دو راستوں میں سے ہر راستے کے تین اوصاف یا تین سنگ ہائے میل کی نشاندہی کردی گئی ہے ‘ تاکہ ہر شخص کو معلوم ہوجائے کہ اس نے کون سا راستہ اختیار کیا ہے ‘ اس راستے پر اب وہ کس مقام پر ہے اور اگر وہ مزید آگے بڑھے گا تو آگے کون سی منزل اس کی منتظر ہوگی۔ اس مضمون کے اعتبار سے میں سمجھتا ہوں کہ یہ قرآن مجید کی اہم ترین سورت ہے۔ اب ملاحظہ ہوں ان میں سے پہلے راستے کے تین اوصاف :

آیت 4 - سورہ لیل: (إن سعيكم لشتى...) - اردو