سورہ لیل: آیت 12 - إن علينا للهدى... - اردو

آیت 12 کی تفسیر, سورہ لیل

إِنَّ عَلَيْنَا لَلْهُدَىٰ

اردو ترجمہ

بے شک راستہ بتانا ہمارے ذمہ ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna AAalayna lalhuda

آیت 12 کی تفسیر

ان علینا .................................... یرضی

اللہ نے محض اپنے فضل وکرم کی وجہ سے اپنے اوپر یہ بات فرض کردی کہ لوگوں کی اس فطرت کے سامنے اور لوگوں کو دی ہوئی قوت مدرکہ کے سامنے ہدایت کا راستہ واضح طور پر بیان فرمادیں۔ اسی طرح تمام رسولوں کا بھی یہ فرض قرار دیا گیا کہ وہ دعوت اسلامی کی تشریح کریں اور تمام دعوتی تحریکات اور تمام کتب سماوی اور معجزات بھی اس غرض کے لئے لائے گئے تاکہ کسی کے پاس کوئی بہانہ نہ رہے اور نہ کسی کے اوپر کوئی ظلم ہو۔

ان علینا للھدی (12:92) ” بیشک راستہ بتانا ہماری ذمہ داری ہے “۔ یہ تو تھی پہلی حقیقت۔

دوسری حقیقت یہ ہے کہ یہاں ایک قوت قاہرہ ہے ، جس نے تمام لوگوں کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے ۔ اس قوت کے مقابلے میں لوگوں کے لئے کوئی جائے پناہ نہیں ہے۔

آیت 12{ اِنَّ عَلَیْنَا لَلْہُدٰی۔ } ”دیکھو انسانو ! یقینا ہمارے ذمے ہے ہدایت پہنچا دینا۔“ اپنے مضمون کے اعتبار سے یہ بہت اہم آیت ہے۔ اس میں واضح طور پر بتادیا گیا ہے کہ انسان کو سیدھا راستہ دکھانا اور ”ہدایت“ اس تک پہنچانا اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے۔ اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کو جبلی ہدایت بھی عطا کی ہے ‘ اس کے نفس کے اندراخلاقی حس بھی الہام کردی ہے۔ اس کے اندر اپنی روح بھی پھونکی ہے جو اللہ تعالیٰ کی معرفت اور محبت کی امین ہے اور پھر اس ہدایت و معرفت کی تکمیل کے لیے اس نے دنیا میں پیغمبر بھی بھیجے اور کتابیں بھی نازل کیں۔ گویا اللہ تعالیٰ نے کئی ذرائع سے انسان کو راہ ہدایت دکھانے کا اہتمام فرما دیا ہے۔

مومن کی منزل اللہ تعالیٰ کی رضا :یعنی حلال و حرام کا ظاہر کردینا ہمارے ذمے ہے، یہ بھی معنی ہیں کہ جو ہدایت پر چلا وہ یقینا ہم تک پہنچ جائیگاجی سے فرمایا وعلی اللہ قصد السبیل آخرت اور دنیا کی ملکیت ہماری ہی ہے۔ میں نے بھڑکتی ہوئی آگ سے تمہیں ہوشیار کردیا ہے مسند احمد میں ہے کہ حضرت نعمان بن بشیر ؓ نے اپنے خطبہ میں فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ سے میں نے خطبہ کی حالت میں سنا ہے آپ بہت بلند آواز سے فرما رہے تھے یہاں تک کہ میری اس جگہ سے بازار تک آواز پہنچے اور بار بار فرماتے جاتے تھے لوگو ! میں تمہیں جہنم کی آگ سے ڈرا چکا۔ لوگو ! میں تمہیں جہنم کی آگ سے ڈرا رہا ہوں، بار بار یہ فرما رہے تھے یہاں تک کہ چادر مبارک کندھوں سے سرک کر پیروں میں گر پڑی صحیح بخاری شریف میں ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سب سے ہلکے عذاب والا جہنمی قیامت کے دن وہ ہوگا جس کے دونوں قدموں تلے دو انگارے رکھ دئیے جائیں جس سے اس کا دماغ ابل رہا ہو، مسلم شریف کی حدیث میں ہے ہلکے عذاب والا ہے جہنمی ہوگا جس کی دونوں جوتیاں اور دونوں تسمے آگ کے ہوں گے جن سے اس کا دماغ اس طرح ابل رہا وہ گا جس طرح ہنڈیا جوش کھا رہی ہو باوجود یہ کہ سب سے ہلکے عذاب والا یہی ہے لیکن اس کے خیال میں اس سے زیادہ عذاب والا اور کوئی نہ ہوگا، اس جہنم میں صرف وہی لوگ گھیر گھار کر بدترین عذاب کیے جائیں گے جو بدبخت تر ہوں جن کے دل میں کذب بعض ہو اور اسلام پر عمل نہ ہو، مسند احمد کی حدیث میں بھی ہے کہ جہنم میں صرف شقی لوگ جائیں گے لوگوں نے پوچھا وہ کون ہیں ؟ فرمایا جو اطاعت گذار نہ ہوں اور نہ اللہ کے خوف سے کوئی بدی چھوڑتا ہو مسند کی اور حدیث میں ہے میری ساری امت جنت میں جائیگی سوائے اس کے جو جنت میں جانے سے انکار کریں لوگوں نے پوچھا جنت میں جانے سے انکار کرنے والا کون ہے ؟ فرمایا جو میری اطاعت کرے وہ جنت میں گیا اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے گویا جنت میں جانے سے انکار کردیا اور فرمایا جہنم سے دوری اسے ہوگی جو تقویٰ شعار، پرہیزگار اور اللہ کے ڈر والا ہوگا جو اپنے مال کو اللہ کی راہ میں دے تاکہ خود بھی پاک ہوجائے اور اپنی چیزوں کو بھی پاک کرلے اور دین دنیا میں پاکیزگی حاصل کرلے کیونکہ یہ شخص اس کے لیے کسی کے ساتھ سلوک نہیں کرتا کہ اس کا کوئی احسان اس پر ہے بلکہ اس لیے کہ آخرت میں جنت ملے اور وہاں اللہ کا دیدار نصیب ہو پھر فرماتا ہے کہ بہت جلد بالیقین ایسی پاک صفتوں والا شخص راضی ہوجائیگا اکثر مفسرین کہتے ہیں یہ آیتیں حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے بارے میں اتری ہیں یہاں تک کہ بعض مفسرین نے تو اس پر اجماع نقل کیا ہے بیشک صدیق اکبر اس میں داخل ہیں اور اس کی عمومیت میں ساری امت سے پہلے ہیں گو الفاظ آیت کے عام ہیں لیکن آپ سے اول اس کے مصداق ہیں ان تمام اوصاف میں اور کل کی کل نیکیوں میں سب سے پہلے اور سب سے آگے اور سب سے بڑھے چڑھے ہوئے آپ ہی تھے آپصدیق تھے پرہیزگار تھے بزرگ تھے سخی تھے۔ آپ مالوں کو اپنے مولا کی اطاعت میں اور رسول اللہ ﷺ کی امداد میں دل کھول کر خرچ کرتے رہتے تھے ہر ایک کیساتھ احسان و سلوک کرتے اور کسی دنیوی فائدے کی چاہت پر نہیں کسی کے احسان کے بدلے نہیں بلکہ صرف اللہ کی مرضی کے لیے رسول ﷺ کی فرمانبرداری کے لیے جتنے لوگ تھے خواہ بڑے ہوں خواہ چھوٹے سب پر حضرت صدیق اکبر ؓ کے احسانات کے بار تھے یہاں تک کہ عروہ بن مسعود جو قبیلہ ثقیف کا سردار تھا صلح حدیبیہ کے موقعہ پر جبکہ حضرت صدیق نے اسے ڈانٹا ڈپٹا اور دو باتیں سنائیں تو اس نے کہا کہ اگر آپ کے احسان مجھ پر نہ ہوتے جس کا بدلہ میں نہیں دے سکا تو میں آپ کو ضرور جواب دیتا پس جبکہ عرب کے سردار اور قبائل عرب کے بادشاہ کے اوپر آپ کے اس قدر احسان تھے کہ وہ سر نہیں اٹھا سکتا تھا تو بھلا اور تو کہاں ؟ اسی لیے یہاں بھی فرمایا گیا کہ کسی پر احسان کا بدلہ انہیں دینا نہیں بلکہ صرف دیدار اللہ کی خواہش ہے بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے جو شخص جوڑا اللہ کی راہ میں خرچ کرے اسے جنت کے داروغے پکاریں گے کہ اے اللہ کے بندے ادھر سے آؤ یہ سب سے اچھا ہے تو حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا رسول اللہ ﷺ ! کوئی ضرورت تو ایسی نہیں لیکن فرمائیے تو کیا کوئی ایسا بھی ہے جو جنت کے تمام دروازوں سے بلایا جائے ؟ آپ نے فرمایا ہاں ہے اور مجھے اللہ سے امید ہے کہ تم ان میں سے ہو۔ الحمد اللہ سورة اللیل کی تفسیر ختم ہوئی۔ اللہ کا احسان ہے اور اس کا شکر ہے۔

آیت 12 - سورہ لیل: (إن علينا للهدى...) - اردو