سورۃ الکوثر: آیت 1 - إنا أعطيناك الكوثر... - اردو

آیت 1 کی تفسیر, سورۃ الکوثر

إِنَّآ أَعْطَيْنَٰكَ ٱلْكَوْثَرَ

اردو ترجمہ

(اے نبیؐ) ہم نے تمہیں کوثر عطا کر دیا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna aAAtaynaka alkawthara

آیت 1 کی تفسیر

روایات میں آتا ہے کہ قریش کے اوباش رسول اللہ ﷺ کا ہر وقت پیچھا کرتے تھے۔ آپ کی دعوت کے خلاف سازشوں میں لگے رہتے تھے اور آپ کے ساتھ طنزومزاح کرتے رہتے تھے۔ اس طرح وہ بزعم خود عوام الناس کو آپ کی دعوت حق سننے سے باز رکھتے تھے جو آپ لے کر آئے تھے ۔ ان اوباشوں کے سرخیل عاص ابن وائل ، عقبہ ابن ابو معیط ، ابولہب ، ابوجہل وغیرہ تھے۔ یہ کہتے تھے کہ نبی ﷺ ” ابتر “ ہیں ، یعنی ان کی نرینہ اولاد نہیں ہے۔ ان میں بعض نے یہ مشورہ بھی دیا تھا کہ اسے چھوڑ دو ، اس کی کوئی اولاد نہیں ہے ، جب یہ مرجائے گا تو یہ تحریک خود بخودختم ہوگی۔

عرب معاشرے میں چونکہ نرینہ اولاد کی بہت بڑی اہمیت تھی ، اس لئے ان کے ہاں پروپیگنڈے کی اس سازش کا کافی اثر تھا۔ آپ کے مخالف اور دشمن اس گھٹیا پروپیگنڈے کی حوصلہ افزائی کرتے تھے اور آپ کے قلب مبارک پر اس کا بہرحال اثر ہوتا تھا۔ اس وجہ سے یہ سورت نازل ہوئی کہ آپ کا غبار خاطر چھٹ جائے۔ آپ خوشی اور تازگی محسوس کریں اور آپ کو جو خیر کثیر دے کر بھیجا گیا تھا ، اس کی حقیقت اچھی طرح دلوں میں بیٹھ جائے ، اور یہ سمجھا دیاجائے کہ دراصل ” ابتر “ تو آپ کے دشمن ہیں اور وہ اس انجام تک پہنچنے والے ہیں کہ ان کی جڑ کٹ جائے اور ان کا نام ونشان مٹ جائے۔

انا اعطینک الکوثر (1:108) ” ہم نے تمہیں کوثر عطا کردیا ہے “۔ کوثر کثرت سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں بےحدوحساب اور یہ مفہوم اس کے بالکل برعکس ہے جس کو ہر احمق آپ کی طرف منسوب کرتا تھا یعنی ہم نے آپ کو جو کچھ دیا ہے وہ ایک عظیم لامحدود فیض ہے۔ یہ مسلسل جاری رہے گا اور اس کا سلسلہ کٹنے والا نہیں ہے ۔ جو شخص بھی غور کرے کہ وہ فیض کثیر کیا ہے ، جو اللہ نے اپنے نبی کو دیا تو وہ اسے پاسکتا ہے جس طرف بھی وہ نگاہ کرے اسے موجود پائے گا۔

سب سے پہلے آپ کو جو منصب رسالت دیا گیا وہ خیر کثیر ہے ، آپ کا عظیم سچائی سے رابطہ قائم ہوا۔ اس عظیم وجود سے آپ کارابطہ ہوگیا جس کے سوا کوئی موجود نہیں ہے یعنی ذات باری سے اور جس شخص کا تعلق ذات باری سے قائم ہوجائے وہ سب کچھ پالیتا ہے۔

پھر یہ خیر کثیر اس قرآن کی شکل میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ پورا قرآن نہیں ، اس کی ایک ایک سورت خیر کثیر ہے اور ہر سورت ایک ایسا سرچشمہ ہے جس کے فیوض ختم نہیں ہوتے۔

پھر پورا عالم بالا آپ پر درود وسلام بھیجتا ہے اور ان لوگوں پر بھی درودو سلام بھیجتا ہے جو آپ پر درودوسلام بھیجتے ہیں۔ اس طرح آپ اسم مبارک اس پوری کائنات میں اللہ کے نام کے ساتھ جڑ جاتا ہے۔

پھر آپ کی سنت کی صورت میں بھی خیرکثیر موجود ہے اور یہ سنت اس جہاں کے اطراف واکناف میں زندہ جاوید ہے۔ لاکھوں کروڑوں لوگ آپ کی سنت پر چل رہے ہیں ، لاکھوں کروڑوں لوگ آپ کے پروانے ہیں اور قیامت تک کروڑوں انسان آپ پر درودوسلام بھیجتے رہیں گے۔

پھر یہ کوثر اس خیر کثیر کی شکل میں بھی موجود ہے جس سے یہ پوری دنیا فیض یاب ہوئی اور پوری انسانی تاریخ میں یہ فیوض جاری ہیں۔ چاہے ان کو اس کا شعور ہو یا نہ ہو ، چاہے وہ ایمان لائیں یا نہ لائیں۔ لیکن اس سرچشمے کے اثرات ان پر پڑے اور کسی نہ کسی طرح وہ فیض یاب ہوئے۔

غرض یہ کوثر وہ خیر کثیر اور عظیم ہے جس کا شمار ممکن نہیں ہے۔ اور ہم اپنی کم مائیگی کے ساتھ اگر اس کا شمار کریں تو ہم اس کی قدروقیمت کو کم ہی کردیں گے۔

یہ درحقیقت ایک کوثر ہے اور اس کے فیوض کی انتہا نہیں ہے۔ اس کے علوم ومعارف کے لئے حدود وقیود نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے اسے کوثر کہہ کر مجمل چھوڑ دیا اور ہر ” خیر “ اس کے دائرہ میں آجاتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ خیر۔

بعض روایات میں آتا ہے کہ کوثر ایک نہر ہے جو جنت میں ہے۔ اور یہ حضور ﷺ کو دی گئی ہے تو حضرت ابن عباس ؓ نے اس بارے میں کہا کہ وہ نہر بھی منجملہ اس خیر کثیر میں سے ہے جو آپ کو دی گئی ہے۔ گویا یہ کوثر الکوثر کا ایک حصہ ہے۔ یہ نہایت ہی مناسب تطبیق ہے جو اس بارے میں کی جاسکتی ہے۔

فصل لربک وانحر (2:108) ” پس تم اپنے رب ہی کے لئے نماز پڑھو اور قربانی کرو “۔ اس خیر کثیر کے موکد تذکرے کے بعد ، جو مکہ میں تحریک اسلامی کے خلاف گمراہ کن پروپیگنڈا کرنے والوں اور دعوت اسلام کے خلاف سازشیں کرنے والوں کے عل یالرغم نبی کریم ﷺ کو عطا کیا گیا۔ رسول اللہ ﷺ کو اس طرف متوجہ کیا جاتا ہے کہ آپ اس خیرکثیر کے عطا کیے جانے پر اللہ کا شکر ادا کریں اور اللہ کا پہلا شکر یہ ہے کہ انسان بندگی میں اور تمام تقربات میں صرف اللہ وحدہ لاشریک کی طرف متوجہ ہو ، اور صرف اسی کو یاد کرے۔ نماز میں بھی اور قربانی میں بھی۔ نماز بھی خالص اللہ کے لئے ہو اور قربانی بھی خالص اللہ کے لئے ہو۔

فصل لربک وانحر (2:108) ” یعنی اللہ ہی کے لئے نماز پڑھو اور اللہ ہی کے نام کی قربانی کرو “۔ اور شرک کرنے والوں کے شر کی کی کوئی پرواہ نہ کرو ، اور اللہ کی بندگی کرو اور ان کے ساتھ شریک ہوکر کسی اور کی بندگی نہ کرو ، اور اللہ کی قربانی میں اللہ کے سوا کسی اور کا نام نہ لو۔

قرآن کریم بار بار اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ تمام ذبیحوں پر صرف اللہ کا نام لو ، اور یہ کہ جن ذبیحوں پر اللہ کا نام لیا گیا ہو ، وہ حرام ہیں اور ان کا کھانا حرام ہے اور جن پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو ، ان کا کھانا بھی حرام ہے۔ یہ اس لئے کہ قرآن کریم انسانی زندگی کو ہر قسم کے شرک کے آثار اور شائبوں سے پاک کرنا چاہتا ہے۔ صرف عقیدے سے شرک کو پاک کرنا مقصود اسلام نہیں ہے بلکہ قرآن انسان کی پوری زندگی سے شرک کی نفی کرتا ہے شرک کے تمام معانی اور تمام مفاہیم کے اعتبار سے اس کی نفی کرتا ہے ، اس لئے کہ یہ دین وحدت اور توحید کا دین ہے۔ اور اسکی توحید کا نظریہ ہر پہلو سے مکمل ہے۔ اس لئے یہ دین آخر دم تک شرک کا پیچھا کرتا ہے اور اس کے تمام مظاہر سے اس کے نشان مٹاتا ہے۔ قرآن کریم اتنے دور تک شرک کا پیچھا کرتا ہے کہ اسے کسی کمین گاہ میں دم لینے نہیں دیتا۔ انسانی نفسیات ، انسانی ضمیر اور انسانی فکر سے اس کا صفایا کرتا ہے۔ اسلامی عبادات سے اسے مٹاتا ہے ۔ انسانی زندگی کے رسم و رواج سے اسے دور کرتا ہے اس لئے کہ زندگی ایک باہم پیوست کل (ایک نظام) ہے اور اس کے ٹکڑے ٹکڑے اور حصے بخرے نہیں کیے جاسکتے۔ اس لئے اسلام پوری انسانی زندگی کے شرک کے اثرات کو ختم کرتا ہے اور پوری زندگی کا رخ اللہ وحدہ کی طرف پھیردیتا ہے۔ اور اسے پوری طرح واضح ، صاف اور ستھرا بناتا ہے ، چاہے قربانیوں اور ذبیحوں کا مسئلہ ہو یا عبادات عقائد کا ہو یا رسول وتقالید کا۔

ان شانئک ................ الابتر (3:108) ” تمہارا دشمن ہی جڑ کٹا ہے “۔ پہلی آیت کا فیصلہ یہ تھا کہ آپ کی جڑ نہیں کٹی بلکہ آپ تو الکوثر کے مالک ہیں ، اور اس آیت میں شکاری اپنے جال میں پھنس جاتا ہے کہ حضرت محمد ﷺ ابتر نہیں بلکہ آپ کے دشمنوں کی جڑ کٹ چکی ہے اور جو لوگ آپ کو ناپسند کرتے ہیں ان کا نامونشان مٹ جانے والا ہے۔

اور اللہ کی یہ دھمکی سچی ثابت ہوئی ، ان لوگوں کا نام ونشان مٹ گیا۔ اس دنیا سے ان کا تذکرہ ہی ختم ہوگیا جبکہ حضرت محمد ﷺ کا نام بلند ہوا اور آپ کے مراتب پڑھتے ہی رہے۔ آج ڈیڑھ ہزار سال کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ اس آیت میں کی گئی پیشن گوئی سچی ثابت ہوچکی ہے۔ اور اس آیت کا مصداق آج ایک واضح شکل میں ہمارے سامنے ہے جو ان لوگوں کے سامنے اس قدر واضح نہ تھا جنہوں نے ان آیات کو پہلی مرتبہ سنا تھا۔

حقیقت یہ ہے کہ ایمان ، سچائی اور بھلائی کی جڑ کبھی نہیں کٹ سکتی۔ ان چیزوں کی جڑیں تو زمین میں گہری ہوتی ہیں۔ اور شاخیں آسمانوں کی فضا میں دور تک پھیلی ہوئی ہوتی ہیں بلکہ کفر ، باطل اور شر کی جڑکٹی ہوئی ہوتی ہے۔ اگرچہ وہ بظاہر تروتازہ اور پھلا پھولا نظر آئے۔

اصل بات یہ ہے کہ اللہ کا معیار انسانوں کے معیار سے مختلف ہے۔ انسانوں کی حایت یہ ہے کہ وہ دھوکہ کھاجاتے ہیں ۔ فریب میں آجاتے ہیں اور یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ ان کے معیار دراصل حقائق کا تعین کرتے ہیں۔ اس سورت میں جو مثال دی گئی ہے ، یہ ہمارے لئے ایک دائمی اور لازوال مثال ہے۔ ذرا سوچئے تو سہی ، وہ لوگ کہاں ہے جو حضرت محمد ﷺ کے بارے میں یہ گھٹیا زبان استعمال کرتے تھے اور یہ سمجھتے تھے کہ ہم نے عوام کو گمراہ کردیا ہے اور یہ کہ حضرت محمد ﷺ کا دین ختم ہوگیا ہے۔ اس کا راستہ روک لیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ لوگ کہاں ہیں۔ ان کا ذکر کہاں ہے ، ان کے آثار کہاں ہیں ، اس کے مقابلے میں حضرت محمد ﷺ جن کو وہ ابتر کہتے تھے ، ان کو تو ہر پہلو سے حظ وافر دیا گیا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ یہ بات ممکن نہیں ہے کہ دعوت الی اللہ ، سچائی اور بھلائی کی تحریک ختم ہوجائے اور اس کی جڑ کاٹ دی جائے۔ اور نہ اس تحریک کے داعی ابتر ہوسکتے ہیں اس لئے کہ اس تحریک کا محرک زندہ جاوید ، باقی ، لازوال اور ہمیشہ رہنے والا ہے۔ بلکہ کفر ، باطل اور شر ختم ہونے والے ہیں اور ان کے حاملین کا نشان بھی مٹنے والا ہے۔ اگرچہ کسی مختصر دور کے لئے یہ چیزیں مستحکم اور لازوال نظر آتی ہوں اور ان کی جڑیں دور تک پھیلی ہوئی نظر آتی ہوں۔ یہ ہے سچی بات جو اللہ فرماتا ہے ، اور سازشی اور مکار جو کچھ کہتے تھے وہ جھوٹ تھا اور جھوٹ ہے اور ہمیشہ جھوٹ رہے گا۔

٭٭٭٭٭

آیت 1 { اِنَّآاَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرَ۔ } ”اے نبی ﷺ ! ہم نے آپ کو خیر کثیر عطا کیا۔“ الکوثر : کثرت سے ماخوذ ہے ‘ اس کا وزن فَوْعَلْ ہے جو مبالغہ کا صیغہ ہے۔ اس کا معنی ہے کسی چیز کا اتنا کثیر ہونا کہ اس کا اندازہ نہ لگایا جاسکے۔ چناچہ اس کا ترجمہ ”خیر کثیر“ کیا گیا ہے۔ ”الکوثر“ کے بارے میں ایک رائے یہ بھی ہے کہ اس سے حوض کوثر مراد ہے ‘ جو میدانِ حشر میں ہوگا اور اس سے حضور ﷺ اپنی امت کے پیاسوں کو سیراب فرمائیں گے۔ لیکن درحقیقت وہ بھی ”خیر کثیر“ ہی میں شامل ہے۔ ”خیر کثیر“ کی وضاحت سے متعلق بھی تفاسیر میں لگ بھگ پچیس تیس اقوال ملتے ہیں۔ حضور ﷺ کو عطا ہونے والے خیرکثیر کی سب سے بڑی مثال خود قرآن مجید ہے۔ اسی طرح اس کی ایک مثال حکمت بھی ہے۔ ظاہر ہے آپ ﷺ کو اعلیٰ ترین درجے میں حکمت بھی عطا ہوئی تھی ‘ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : { یُّؤْتِی الْحِکْمَۃَ مَنْ یَّشَآئُج وَمَنْ یُّؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا کَثِیْرًاط } البقرۃ : 269 ”وہ جس کو چاہتا ہے حکمت عطا کرتا ہے ‘ اور جسے حکمت دے دی گئی اسے تو خیر ِکثیر عطا ہوگیا“۔ مزید برآں جنت کی نہر کوثر ‘ نبوت کے فیوض و برکات ‘ دین اسلام ‘ صحابہ کرام کی کثرت ‘ رفع ذکر اور مقام محمود کو ”کوثر“ کا مصداق سمجھا دیا گیا ہے۔ چناچہ اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اے نبی ﷺ ہم نے آپ کو وہ سب کچھ عطا کردیا اور کثرت کے ساتھ عطا کردیا جس کی انسانیت کو ضرورت ہے اور جو نوع انسانی کے لیے ُ طرئہ امتیاز بن سکتا ہے۔

شہد سے زیادہ میٹھی اور دودھ سے زیادہ سفید نہر :مسند احمد میں ہے کہ رسول مقبول ﷺ پر غنودگی سی طاری ہوگئی اور دفعتہ سر اٹھا کر مسکرائے پھر یا تو خود آپ نے فرمایا یا لوگوں کے اس سوال پر کہ حضور ﷺ کیسے مسکرائے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا مجھ پر اس وقت ایک سورت اتری پھر آپ نے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر اس پوری سورت کی تلاوت کی اور فرمایا جانتے ہو کہ کوثر کیا ہے ؟ لوگوں نے کہا اللہ اور اس کا رسول ﷺ ہی زیادہ جانتے ہیں فرمایا وہ ایک جنت کی نہر ہے جس پر بہت بھلائی ہے جو میرے رب نے مجھے عطا فرمائی ہے جس پر میری امت قیامت والے دن آئیگی اس کے برتن آسمان کے ستاروں کی گنتی کے برابر ہیں بعض لوگ اس سے ہٹائے جائیں گے تو میں کہوں گا اے میرے رب یہ بھی میرے امتی ہیں تو کہا جائیگا آپ کو نہیں معلوم کہ ان لوگوں نے آپ کے بعد کیا کیا بدعتیں نکالی تھیں اور حدیث میں وارد ہوا ہے کہ اس میں دو پرنالے آسمان سے گرتے ہوں گے نسائی کی حدیث میں ہے یہ واقعہ مسجد میں گذرا اسی سے اکثر قاریوں کا استدلال ہے کہ یہ سورت مدنی ہے اور اکثر فقہاء نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم ہر سورت میں اس کے ساتھ ہی نازل ہوئی تھی اور ہر سورت کی ایک مستقل آیت ہے مسند کی اور حدیث میں ہے کہ حضور ﷺ نے اس آیت کی تلاوت کر کے فرمایا کہ مجھے کوثر عنایت کی گئی ہے جو ایک جاری نہر ہے لیکن گڑھا نہیں ہے اس کے دونوں جانب موتی کے خیمے ہیں اس کی مٹی خالص مشک ہے اس کے کنکر بھی سچے موتی ہیں اور روایت میں ہے کہ معراج والی رات آپ نے آسمان پر جنت میں اس نہر کو دیکھا اور جبرائیل ؑ سے پوچھا کہ یہ کونسی نہر ہے تو حضرت جبرئیل ؑ نے فرمایا کہ یہ کوثر ہے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو دے رکھی ہے اور اس قسم کی بہت سی حدیثیں ہیں اور بہت سی ہم نے سورة اسراء کی تفسیر میں بیان بھی کردی ہیں ایک اور حدیث میں ہے کہ اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید ہے اور شہد سے زیادہ میٹھا ہے جس کے کنارے دراز گردن والے پرندے بیٹھے ہوئے ہیں۔ حضرت صدیق ؓ نے سن کر فرمایا وہ پرندے تو بہت ہی خوبصورت ہوں گے آپ نے فرمایا کھانے میں بھی وہ بہت ہی لذیذ ہیں (ابن جریر) اور روایت میں ہے کہ حضرت انس ؓ نے حضور ﷺ سے سوال کیا کہ کوثر کیا ہے اس پر آپ نے یہ حدیث بیان کی تو حضرت عمر ؓ نے ان پرندوں کی نسبت یہ فرمایا (مسند احمد) حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں یہ نہر جنت کے درمیان میں ہے ایک منقطع سند سے حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ کوثر کے پانی کے گرنے کی آواز جو سننا چاہے وہ اپنے دونوں کانوں میں اپنی دونوں انگلیاں ڈال لے اولاً تو اس کی سند ٹھیک نہیں دوسرے اس کے معنی یہ ہیں کہ اس جیسی آواز آتی ہے نہ کہ خاص اسی کی آواز ہو واللہ اعلم صحیح بخاری شریف میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے مروی ہے کہ کوثر سے مراد وہ بھلائی اور خیر ہے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمائی ہے ابو بشر کہتے ہیں کہ میں نے سعید بن جبیر ؒ سے یہ سن کر کہا کہ لوگ تو کہتے ہیں کہ یہ جنت کی ایک نہر ہے تو حضرت سعید نے فرمایا وہ بھی ان بھلائیوں اور خیر میں سے ہے جو آپ کو اللہ کی طرف سے عنایت ہوئی ہیں۔ اور بھی حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ اس سے مراد بہت سی خیر ہے تو یہ تفسیر شامل ہے حوض کوثر وغیرہ سب کو۔ کوثر ماخوذ ہے کثرت سے جس سے مراد خیر کثیر ہے اور اسی خیر کثیر میں حوض جنت بھی ہے جیسے کہ بہت سے مفسرین سے مروی ہے حضرت مجاہد ؒ فرماتے ہیں دنیا اور آخرت کی بہت بہت بھلائیاں مراد ہے عکرمہ فرماتے ہیں نبوت، قرآن، ثواب، آخرت کوثر ہے اور یہ بھی یاد رہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے کوثر کی تفسیر نہر کوثر سے بھی مروی ہے جیسے کہ ابن جریر میں سندا مروی ہے کہ آپ نے فرمایا کوثر جنت کی ایک نہر ہے جس کے دونوں کنارے سونا چاندی ہے جو یاقوت اور موتیوں پر بہہ رہی ہے جس کا پانی برف سے زیادہ سفید ہے اور شہد سے زیادہ میٹھا ہے حضرت ابن عمر ؓ سے بھی یہ تفسیر مروی ہے ابن جریر ترمذی اور ابن ماجہ وغیرہ میں یہ روایت مرفوع بھی آئی ہے امام ترمذی اسے حسن صحیح بتاتے ہیں ابن جریر میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک دن حضرت حمزہ بن عبدالمطلب ؓ کے گھر تشریف لے گئے آپ اس وقت گھر پر نہ تھے آپ کی بیوی صاحبہ جو قبیلہ بنو نجار سے تھیں انہوں نے کہا کہ یا نبی اللہ ﷺ وہ تو ابھی ابھی آپ ہی کی طرف گئے ہیں شاید بنو نجار میں رک گئے ہوں آپ تشریف لائے حضور ﷺ گھر میں گئے تو مائی صاحبہ نے آپ کے سامنے مالیدہ رکھا جو آپ نے تناول فرمایا مائی صاحبہ خوش ہو کر فرمانے لگیں اللہ تعالیٰ اسے جزو جسم بنائے اچھا ہوا خود تشریف لے آئے میں تو حاضر دربار ہونے کا ارادہ کرچکی تھی کہ آپ کو حوض کوثر ملنے کی مبارک باد دوں مجھ سے ابھی ابھی حضرت ابو عمارہ نے کہا تھا آپ نے فرمایا ہاں اس حوض کی زمین یاقوت مرجان زبرجد اور موتیوں کی ہے اس کے ایک راوی حرام بن عثمان ضعیف ہیں لیکن واقعہ حسن ہے اور اصل تو تواتر سے ثابت ہوچکی ہے بہت سے صحابہ اور تابعین وغیرہ سے ثابت ہے کہ کوثر نہر کا نام ہے پھر ارشاد ہے کہ جیسے ہم نے تمہیں خیر کثیر عنایت فرمائی اور ایسی پرشوکت نہر دی تو تم بھی صرف میری ہی عبادت کرو خصوصا نفل فرض نماز اور قربانی اسی وحدہ لا شریک لہ کے نام کی کرتے رہو جیسے فرمایا (قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ01602ۙ) 6۔ الانعام :162) مراد قربانی سے اونٹوں کا نحر کرنا وغیرہ ہے مشرکین سجدے اور قربانیاں اللہ کے سوا اوروں کے نام کی کرتے تھے تو یہاں حکم ہوا کہ تم صرف اللہ ہی کے نام کی مخلصانہ عبادتیں کیا کرو اور جگہ ہے (وَلَا تَاْكُلُوْا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِاسْمُ اللّٰهِ عَلَيْهِ وَاِنَّهٗ لَفِسْقٌ ۭوَاِنَّ الشَّيٰطِيْنَ لَيُوْحُوْنَ اِلٰٓي اَوْلِيٰۗـــِٕــهِمْ لِيُجَادِلُوْكُمْ ۚ وَاِنْ اَطَعْتُمُوْهُمْ اِنَّكُمْ لَمُشْرِكُوْنَ01201ۧ) 6۔ الانعام :121) جس جانور پر اللہ کا نام نہ لیا جائے اسے نہ کھاؤ یہ تو فسق ہے اور کہا گیا ہے کہ مراد وانحر سے دائیں ہاتھ کا بائیں ہاتھ پر نماز میں سینے پر رکھنا ہے یہی حضرت علی ؓ سے غیر صحیح سند کے ساتھ مروی ہے حضرت شعبی رحمۃ اللہ اس لفظ کی یہی تفسیر کرتے ہیں حضرت ابو جعفر باقر ؒ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد نماز کے شروع کے وقت رفع الیدین کرنا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ مطلب یہ ہے کہ اپنے سینے سے قبلہ کی طرف متوجہ ہو یہ تینوں قول ابن جریر میں منقول ہیں ابن ابی حاتم میں اس جگہ ایک بہت منکر حدیث مروی ہے جس میں ہے کہ جب یہ سورت نبی ﷺ پر اتری تو آپ نے فرمایا اے جبرئیل وانحر سے مراد کیا ہے جو مجھے میرے پروردگار کا حکم ہو رہا ہے تو حضرت جبرئیل نے فرمایا اس سے مراد قربانی نہیں بلکہ اللہ کا تمہیں حکم ہو رہا ہے کہ نماز کی تکبیر تحریمہ کے وقت رفع الیدین کرو اور رکوع کے وقت بھی اور جب رکوع سے سر اٹھاؤ تب اور جب سجدہ کرو یہی ہماری نماز ہے اور ان فرشتوں کی نماز ہے جو ساتوں آسمانوں میں ہیں ہر چیز کی زینت ہوتی ہے اور نماز کی زینت ہر تکبیر کے وقت رفع الیدین کرنا ہے یہ حدیث اسی طرح مستدرک حاکم میں بھی ہے حضرت عطاء خراسانی ؒ فرماتے ہیں وانحر سے مراد یہ ہے کہ اپنی پیٹھ رکوع سے اٹھاؤ تو اعتدال کرو اور سینے کو ظاہر کرو یعنی اطمینان حاصل کرو ابن ابی حاتم یہ سب اقوال غریب ہیں اور صحیح پہلا قول ہے کہ مراد نحر سے قربانیوں کا ذبح کرنا ہے اسی لیے رسول مقبول ﷺ نماز عید سے فارغ ہو کر اپنی قربانی ذبخ کرتے تھے اور فرماتے تھے جو شخص ہماری نماز پڑھے اور ہم جیسی قربانی کرے اس نے شرعی قربانی کی اور جس نے نماز سے پہلے ہی جانور ذبح کرلیا اس کی قربانی نہیں ہوئی ابو بردہ بن نیار ؓ نے کھڑے ہو کر کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ میں نے نماز عید سے پہلے ہی قربانی کرلی یہ سمجھ کر کہ آج کے دن گوشت کی چاہت ہوگی آپ نے فرمایا بس وہ تو کھانے کا گوشت ہوگیا صحابی نے کہا اچھا یارسول اللہ ﷺ اب میرے پاس ایک بکری کا بچہ ہے جو مجھے دو بکریوں سے بھی زیادہ محبوب ہے کیا یہ کافی ہوگا آپ نے فرمایا ہاں تجھے تو کافی ہے لیکن تیرے بعد چھ مہینے کا بکری کا بچہ کوئی اور قربانی نہیں دے سکتا امام ابو جعفر بن جریر ؒ فرماتے ہیں ٹھیک قول اس کا ہے جو کہتا ہے کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ اپنی تمام نمازیں خالص اللہ ہی کے لیے ادا کر اس کے سوا کسی اور کے لیے نہ کر اسی طرح اسی کی راہ میں خون بہا کسی اور کے نام پر قربانی نہ کر اس کا شکر بجا لا جس نے تجھے یہ بزرگی دی اور وہ نعمت دی جس جیسی کوئی اور نعمت نہیں تجھی کو اس کے ساتھ خاص کیا یہی قول بہت اچھا ہے محمد بن کعب قرظی اور عطا کا بھی یہی فرمان ہے پھر ارشاد ہوتا ہے کہ اے نبی ﷺ تجھ سے اور تیری طرف اتری ہوئی وحی سے دشمنی رکھنے والا ہی قلت و ذلت والا بےبرکتا اور دم بریدہ ہے یہ آیت عاص بن وائل کے بارے میں اتری ہے یہ پاجی جہاں حضور ﷺ کا ذکر سنتا تو کہتا اسے چھوڑو وہ دم کٹا ہے اس کے پیچھے اس کی نرینہ اولاد نہیں اس کے انتقال کرتے ہی اس کا نام دنیا سے اٹھ جائیگا اس پر یہ مبارک سورت نازل ہوئی ہے شمر بن عطیہ فرماتے ہیں کہ عقبہ بن ابو معیط کے حق میں یہ آیت اتری ہے ابن عباس وغیرہ فرماتے ہیں کعب بن اشرف اور جماعت قریش کے بارے میں یہ نازل ہوئی ہے بزار میں ہے کہ جب کعب بن اشرف مکہ میں آیا تو قریشیوں نے اس سے کہا کہ آپ تو ان کے سردار ہیں آپ اس بچہ کی طرف نہیں دیکھتے جو اپنی ساری قوم سے الگ تھلک ہے اور خیال کرتا ہے کہ وہ افضل ہے حالانکہ ہم حاجیوں کے اہل میں سے ہیں بیت اللہ ہمارے ہاتھوں میں ہے زمزم پر ہمارا قبضہ ہے تو یہ خبیث کہنے لگا بیشک تم اس سے بہتر ہو اس پر یہ آیت اتری اس کی سند صحیح ہے حضرت عطا فرماتے ہیں ابو لہب کے بارے میں یہ آیت اتری ہے جب رسول اللہ ﷺ کے صاحبزادے انتقال ہوا تو یہ یدنصیب مشرکین سے کہنے لگا کہ آج کی رات محمد ﷺ کی نسل کٹ گئی ﷺ وبارک) اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری ابن عباس سے بھی یہ منقول ہے آپ یہ بھی فرماتے ہیں کہ اس سے مراد حضور ﷺ کا ہر دشمن ہے جن جن کے نام لیے گئے وہ بھی اور جن کا ذکر نہیں ہوا وہ بھی ابتر کے معنی ہیں تنہا عرب کا یہ بھی محاورہ ہے کہ جب کسی کی نرینہ اولاد مرجاتے تو کہتے ہیں ابترحضور ﷺ کے صاحبزادہ کے انتقال پر بھی انہوں نے دشمنی کی وجہ سے یہی کہا جس پر یہ آیت اتری تو مطلب یہ ہوا کہ ابتر وہ ہے جس کے مرنے کے بعد اس کا نام مٹ جائے ان مشرکین نے حضور ﷺ کی نسبت بھی یہی خیال کیا تھا کہ ان کے لڑکے تو انتقال کر گئے وہ نہ رہے جن کی وجہ سے ان کے انتقال کے بعد بھی ان کا نام رہتا حاشاو کلا اللہ تعالیٰ آپ کا نام رہتی دنیا تک رکھے گا آپ کی شریعت ابدالاباد تک باقی رہے گی آپ کی اطاعت ہر ایک پر فرض کردی گئی ہے آپ کا پیار اور پاک نام ہر ایک مسلم کے دل و زبان پر ہے اور قیام تک فضائے آسمانی میں عروج و اقبال کے ساتھ گونجتا رہیگا بحر و بر میں ہر وقت اس کی منادی ہوتی رہیگی اللہ تعالیٰ آپ پر اور آپ کی آل و اولاد پر اور ازواج و اصحاب پر قیامت تک درود سلام بےحد و بکثرت بھیجتا رہے آمین الحمداللہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اس کے احسان و رحم سے سورة کوثر کی تفسیر بھی ختم ہوئی۔ وللہ الحمد والمنہ۔

آیت 1 - سورۃ الکوثر: (إنا أعطيناك الكوثر...) - اردو