اذقاموا (81 : 31) یعنی وہ اٹھے اور انہوں نے ایمان کی تحریک برپا کردی اور وہ عزم و ثبات کا پیکر بن گئے۔
فقالوا ربنا رب السموت والارض (81 : 31) ” انہوں نے کہا ہمارا رب تو بس وہ ی ہے جو آسمانوں اور زمین کا رب ہے۔ “ وہ رب کائنات ہے۔ سب کی سب کا۔
لن دعوا من دونہ الھا (81 : 31) ” ہم اسے چھوڑ کر کسی دوسرے معبود کو نہ پکاریں گے۔ “
کیونکہ وہ واجد ہے اور بلا شریک ہے۔
لقد قلنا اذا شططا (81 : 31) ” اگر ہم ایسا کریں تو بالکل بےجا بات کریں گے۔ “ حق سے تجاوز کریں گے اور صحیح راستے سے ایک طرف ہوجائیں گے۔
اس کے بعد وہ اس امر کی طرف متوجہ ہوتے ہیں جس پر ان کی قوم عمل پیرا تھی ، وہ ان کے عقائد پر تنقید کرتے ہیں اور اس منہجا پر اعتراض کرتے ہیں جس کے مطابق ان کی قوم زندگی بسر کر رہی تھی ،
فَقَالُوْا رَبُّنَا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ لَنْ نَّدْعُوَا۟ مِنْ دُوْنِهٖٓ اِلٰـهًا لَّقَدْ قُلْنَآ اِذًا شَطَطًاجس طرح حضرت ابراہیم نے نمرود کے دربار میں ڈٹ کر حق بات کہی تھی ویسے ہی ان نوجوانوں نے بھی علی الاعلان کہا کہ ہم رب کائنات کو چھوڑ کر کسی دیوی یا دیوتا کو اپنا رب ماننے کو تیار نہیں ہیں۔