سورہ کافرون: آیت 1 - قل يا أيها الكافرون... - اردو

آیت 1 کی تفسیر, سورہ کافرون

قُلْ يَٰٓأَيُّهَا ٱلْكَٰفِرُونَ

اردو ترجمہ

کہہ دو کہ اے کافرو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qul ya ayyuha alkafiroona

آیت 1 کی تفسیر

انکار کے بعد انکار ، تاکید کے بعد تاکید اور قطعیت کے بعد قطعیت۔ نفی ، قطعیت اور تاکید کے تمام صیغے اور اسالیب اس سورت میں جمع کردیئے گئے ہیں۔

قل ” کہہ دو “۔ یہ دو ٹوک خدائی حکم ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ عقیدہ اور یہ نظریہ مامور من اللہ ہے۔ یہ اللہ وحدہ کا حکم ہے اور اس میں حضرت محمد ﷺ کا کوئی ذاتی فیصلہ نہیں ہے۔ یہ اللہ کا حکم ہے اور اس حکم سے سرتابی نہیں کی جاسکتی ۔ اور نہ کوئی ایسا وجود ہے جو اللہ کے حکم کو رد کرسکے۔

قل ............ الکفرون (1:109) ” کہہ دو اے کافرو “۔ اللہ نے ان کو اس لفظ سے پکارا جس کا اطلاق ان پر حقیقی معنوں میں ہوتا ہے۔ ایک ایسی صفت سے ان کو بلایا گیا جو ان کے اندرونی الواقعہ موجود ہے۔ درحقیقت وہ کسی دین کے پیرونہ تھے اور درحقیقت وہ مومن نہ تھے ، وہ کافر تھے۔ لہٰذا تمہارے اور ان کے درمیان کوئی نکتہ اشتراک نہیں ہے۔

اس طرح سورت کے آغاز ہی سے یہ اشارہ دے دیا جتا ا ہے اور چھوٹتے ہی یہ بات واضح کردی جاتی ہے کہ ایک مسلم مومن اور کافر کے درمیان کبھی بھی اتحاد نہیں ہوسکتا۔

لااعبدما تعبدون (2:109) ” میں ان کی عبادت نہیں کرتا جن کی عبادت تم کرتے ہو “۔ میری عبادت تمہاری عبادت سے مختلف ہے اور میرا معبود تمہارے معبود سے مختلف ہے۔

ولا انتم .................... اعبد (3:109) ” نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو ، جس کی عبادت میں کرتا ہوں “۔ اس لئے کہ تمہاری عبادت میری عبادت سے مختلف ہے اور تمہارا معبود میرے معبود سوا ہے۔

ولا انا .................... ماعبدتم (4:109) ” اور نہ میں ان کی عبادت کرنے والا ہوں جس کی تم نے عبادت کی ہے “۔ پہ پہلے فقرے کی تاقید ہے لیکن یہ جملہ اسمیہ منفیہ کے ذریعے نفی ہے۔ جملہ اسمیہ منفیہ نہایت مضبوطی ، دوام اور تسلسل کے مفہوم میں کسی امر کی نفی کرتا ہے۔

ولا انتم .................... اعبد (5:109) ” اور نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی عبادت میں کرتا ہوں “۔ یہ دوسرے فقرے کی تاکید ہے تاکہ اس معاملے میں کوئی شک وشبہ نہ رہے۔ ظاہر ہے کہ اس قدر مکرر تاکیدات کے بعد شک و شبہ کی کوئی گنجائش بھی نہیں رہتی۔

اس کے بعد نہایت اجمالی طور پر ایک ہی فقرے میں دونوں گروہوں کے درمیان ایسی تفریق کردی جاتی ہے جس میں کوئی اتحاد نہیں رہتا۔ اس قدر اختلاف پیدا ہوجاتا ہے کہ اس کے بعد کوئی اتصال نہیں رہتا ، دونوں کے درمیان اس قدر جدائی ہوجاتی ہے کہ جس کے بعد کوئی ملاپ متصور نہیں رہتا۔

لکم دینکم ولی دین (6:109) ” تمہارے لئے تمہارا دین ہے اور میرے لئے میرا دین ہے “۔ میں یہاں اپنے موقف پر ڈٹا ہوں اور تم اپنے موقف پر ڈٹے ہو ، دونوں کے درمیان کوئی پل نہیں ہے جس پر یہ فریق مل سکیں۔ دونوں کے درمیان مکمل جدائی ہے۔ ایک واضح امتیاز اور گہری جدائی۔

یہ مکمل جدائی ضروری بھی تھی ، تاکہ کفر واسلام کے درمیان پائے جانے والے جوہری تضاد کے خدوخال واضح تر ہوجائیں ، جن کو دیکھتے ہوئے ہر کوئی سمجھ لے کہ دونوں کے درمیان مصالحت اور کچھ لو اور کچھ دو کی پالیسی اختیار کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ کیونکہ اختلاف بنیادی نظریات میں ہے۔ اصل تصور اور منہاج زندگی ، دونوں میں مختلف ہے اور طرززندگی بھی بالکل جدا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ توحید ایک مکمل نظام ہے۔ شرک ایک متضاد نظام ہے۔ ان کا باہم ملاپ ممکن ہی نہیں ۔ توحید ایک ایسا نظام اور تصور ہے جو انسان کو اس پوری کائنات کے ساتھ اللہ وحدہ لاشریک کی طرف متوجہ کرتا ہے اور اس جہت اور سمت کا تعین کردیتا ہے جہاں سے انسان نے اپنی پوری زندگی کے لئے ہدایات لینی ہے ، عقائد بھی اور قانون بھی۔ اقدار حیات اور پیمانے بھی۔ آداب اور اخلاق بھی ، غرض اس زندگی اور اس کائنات کے بارے میں مکمل فلسفہ انسان اسی جہت سے لیتا ہے اور یہ جہت جہاں سے مومن یہ سب کچھ لیتا ہے ذات باری تعالیٰ کی جہت ہے جس کے ساتھ کوئی بھی شریک نہیں ہے۔ اس لئے اسلامی نظام زندگی میں زندگی کے تمام معاملات اسی اصول پر قائم ہوتے ہیں اور اس نظام میں اللہ کی ذات کے ساتھ کوئی شرک نہیں ہوتا۔ اسی طرز پر زندگی چلتی ہے۔ یہ فیصلہ کن جدائی اسلامی نقطہ نظر سے داعی کے لئے بھی ضروری ہے اور جن کو دعوت دی جارہی ہے ۔ ان کے لئے بھی ضروری ہے۔

بعض اوقات یوں ہوتا ہے کہ یہ خالص اسلامی تصور حیات اور جاہلی تصور حیات آپس میں مل جاتے ہیں خصوصاً ان سوسائٹیوں میں جنہوں نے پہلے خالص اسلامی تصور کو قبول کرلیا ہوتا ہے لیکن مرور زمانہ کے ساتھ ان کے اندر انحراف پیدا ہوجاتا ہے ، اس قسم کی سوسائٹیوں کے سامنے جب خالص ایمانی دعوت پیش کی جاتی ہے اور ان کے سامنے اسلامی نظام کو سیدھے سادھے طریقے سے بغیر کسی ملاوٹ کے پیش کیا جاتا ہے تو یہ لوگ اس دعوت پر بہت سختی کرتے ہیں۔ ان لوگوں کے مقابلے میں ان لوگوں کا رویہ زیادہ معقول ہوتا ہے جن تک کبھی اسلامی دعوت پہنچی ہی نہیں ہوتی۔ اس لئے کہ جن سوسائٹیوں نے اسلام قبول کیا ہوتا ہے اور بعد کے ادوار میں وہ منحرف ہوچکی ہوتی ہیں ، وہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہوتی ہیں کہ وہ بھی تو ہدایت پر ہیں حالانکہ ان کے عقائد و اعمال میں صالح کے ساتھ فاسد کی ملاوٹ ہوچکی ہوتی ہے۔ ایی سوسائٹیوں میں کام کرنے والے ان داعیوں کو بھی بعض اوقات دھوکہ لگ جاتا ہے جو ایسی سوسائٹیوں کے صالح جانب کو برقرار رکھتے ہوئے اس کے برے پہلو بدلنا چاہتے ہیں اور خود ایسی سوسائٹیوں کے برے پہلو سے دھوکہ کھاجاتے ہیں اور یہ ھو کہ نہایت خطرناک ہوتا ہے۔

اصل بات یہ ہے کہ اسلام ، اسلام ہے اور جاہلیت جاہلیت ہے۔ ان کے درمیان بہت بڑا فرق ہے۔ اصل طریق کار یہ ہے کہ لوگ جاہلیت سے پوری طرح نکل آئیں اور جاہلیت کے ہر رنگ سے پوری طرح نکل کر اسلام کی طرف ہجرت کرآئیں۔

اس سلسلے میں پہلا قدم یہ ہوتا ہے کہ داعی مکمل شعور کے ساتھ جاہلیت سے نکل کر اسلام کی طرف آجائے۔ اپنے تصورات اور نظریات کے لحاظ سے ، اپنے اعمال اور طریق کار کے لحاظ سے اور یہ جدائی ایسی ہو کہ ان دونوں کے درمیان کوئی مصالحت نہ ہو ، کوئی تہذیبی مصالحت نہ ہو اور جب کوئی پوری طرح جاہلیت سے نکل کر اسلام میں آجائے تو اس کے بعد پھر دونوں کے درمیان کوئی تعاون باقی نہیں رہتا۔ پھر یہ نہیں ہوتا کہ اسلام کی گدڑی میں کسی دوسرے کلچر کے پارچے اور پیوند لگیں ، نہ کچھ لو اور کچھ دو کا اصول چلتا ہے۔ نہ ادھر سے جھکاﺅ اور ادھر سے جھکاﺅ ہوتا ہے۔ اگرچہ جاہلیت اسلام کے روپ میں آئے اور اسلام کے عنوان سے بات کرے۔

حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی داعی کے لئے سب سے پہلے یہ بات ضروری ہے کہ اس زاویہ سے اس کا ذہن صاف ہو ، یہ بنیادی بات ہے۔ وہ مکمل شعور رکھتا ہو کہ وہ اس سوسائٹی سے ایک بیگانہ شخص ہے ، اس کا اپنا دین ہے اور میرا اپنا دین ہے۔ ان کا اپنا طریقہ ہے۔ میرا اپنا طریقہ ہے۔ اور وہ ایک قدم بھی ایسے لوگوں کی راہ پر نہیں چل سکتا۔ لہٰذا اس کا فرض یہ ہے کہ وہ اپنے ہی راستے پر چلے اور بغیر کسی مداہنت کے وہ اپنے راستے میں اس طرح ڈٹا ہوا ہو کہ اس کا ایک قدم بھی اپنی جگہ سے نہ ہے۔ غرض مکمل برات کا اعلان ضروری ہے ، مکمل جدائی ضروری ہے اور صریح اور فیصلہ کن بات ضروری ہے۔

لکم دینکم ولی دین (6:109) ” تمہارا اپنا دین ہے اور میرا اپنا دین ہے “۔

آج کے داعیان حق اس بات کے محتاج ہیں اور ان کے لئے یہ بات نہایت ضروری ہے کہ وہ جاہلیت جدید کے مقابلے میں اپنی مکمل برات کا اعلان کریں اور دو ٹوی اور فیصلہ کن جائی کا اعلان کردیں۔ آج کے داعی اس شعور کے محتاج ہیں کہ وہ اچھی طرح جان لیں کہ دراصل وہ مکمل جاہلانہ اور کافرانہ معاشرے میں ازسرنو اسلام کا اجراء واحیا چاہتے ہیں اور ان کو ایسے معاشروں سے سابقہ درپیش ہے جو پہلے صحیح مسلمان تھے ۔ ان پر ایک طویل عرصہ گزر گیا۔

فقست ........................ فسقون ” ان پر بہت مدت گزر گئی اور ان کے دل سخت ہوگئے اور ان میں سے اکثر فاسق ہوگئے ہیں “۔ اس کے علاوہ کوئی درمیانی صورت نہیں ہے۔ نہ کچھ لو اور کچھ دو کا معاملہ ہوسکتا ہے ، نہ یہ بات ہے کہ سوسائٹی تو اسلامی ہے ، چند عیوب کی اصلاح چاہئے ، کملی تو درست ہے ایک پارچہ لگنا درکار ہے ، اصل طریقہ یہ ہے کہ اسلام کی طرف اسی طرح مکمل دعوت دی جائے جس طرح آغاز اسلام میں داعی حق نے مکمل دعوت دی تھی ، جبکہ وہ ایک جاہلی سوسائٹی کو بدل رہے تھے۔ اسلام اور جاہلیت کے درمیان مکمل جدائی اور تفریق ضروری ہے۔ یہ ہے میرا دین ، خالص اپنے عقائد ونظریات میں ، اپنی شریعت اور قانون میں ، اپنے تصورات و افکار ہیں یہ سب اللہ سے ماخوذ ہیں۔ اس میں شرک کا کوئی شائبہ اور آمیزہ نہیں ہے اور انسانی زندگی کے ہر پہلو ، انسانی طرز عمل کے ہر رخ پر۔

اس فیصلہ کن جدائی کے سوا کوئی چارہ نہیں ورنہ جاہلیت کے ساتھ التباس رہے گا۔ اسلامی کلچر میں دوسرے کلچروں کی پیوند کاری ہوگی اور جو بھی تحریک چلے گی وہ کمزور اور ضعیف بنیادوں پر ہوگی۔ اسلامی دعوت وتحریک کے لئے ضروری ہے کہ وہ جرات مندی کے ساتھ دو ٹوک اور فیصلہ کن انداز میں دی جائے اور یہی طریق کار تھا داعی اول کا۔ وہ صاف صاف کہتے تھے۔

لکم دینکم ولی دین (6:109) ” تمہارے لئے تمہارا دین ہے ۔ اور میرے لئے میرا دین ہے “۔

آیت 1{ قُلْ یٰٓــاَیُّہَا الْکٰفِرُوْنَ۔ } ”اے نبی ﷺ آپ کہہ دیجیے کہ اے کافرو !“ نوٹ کیجیے ! یہ داعیانہ طرز تخاطب نہیں ہے ‘ بلکہ لاتعلق اور علیحدہ ہونے کا انداز ہے۔ ظاہر ہے ایک داعی تو اپنے مخاطبین کو یٰٓــاَیُّہَا النَّاسُکہہ کر پکارتا ہے ‘ کہ اے اللہ کے بندو ! میری بات سنو ! گویا کلمہ تخاطب میں ہی مفہوم واضح کردیا گیا کہ اگر میری تمامتر ناصحانہ کوششوں کے باوجود بھی تم لوگوں نے کفر و انکار پر ڈٹے رہنے کا فیصلہ کرلیا ہے تو تمہارا یہ فیصلہ اور طرزعمل تمہیں مبارک ہو۔ لیکن تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اس کے بعد اب میری اور تمہاری راہیں جدا ہوچکی ہیں۔

مشرکین الگ اور موحدین الگ :اس سورة مبارکہ میں مشرکین کے عمل سے بیزاری کا اعلان ہے اور اللہ کی عبادت کے اخلاص کا حکم ہے گو یہاں خطاب مکہ کے کفار قریش سے ہے لیکن دراصل روئے زمین کے تمام کافر مراد ہیں اس کی شان نزول یہ ہے کہ ان کافروں نے حضور ﷺ سے سے کہا تھا کہ ایک سال آپ ہمارے معبودوں کی عبادت کریں تو اگلے سال ہم بھی اللہ کی عبادت کریں گے اس پر یہ سورت نازل ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی برحق ﷺ کو حکم دیا کہ ان کے دین سے اپنی پوری بیزاری کا اعلان فرما دیں کہ میں تمہارے ان بتوں کو اور جن جن کو تم اللہ کا شریک مان رہے ہو ہرگز نہ پوجوں گا گو تم بھی میرے معبود برحق اللہ وحدہ لا شریک لہ کو نہ پوجو پس ما یہاں پر معنی میں من کے ہے پھر دوبارہ یہی فرمایا کہ میں تم جیسی عبادت نہ کروں گا تمہارے مذہب پر میں کاربند نہیں ہوسکتا نہ میں تمہارے پیچھے لگ سکتا ہوں بلکہ میں تو صرف اپنے رب کی عبادت کروں گا اور وہ بھی اس طریقے پر جو اسے پسند ہو اور جیسے وہ چاہے اسی لیے فرمایا کہ نہ تم میرے رب کے احکام کے آگے سر جھکاؤ گے نہ اس کی عبادت اس کے فرمان کے مطابق بجا لاؤ گے بلکہ تم نے تو اپنی طرف سے طریقے مقرر کرلیے ہیں جیسے اور جگہ ہے ان یتبعون الا الظن الخ یہ لوگ صرف وہم و گمان اور خواہش نفسانی کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں حالانکہ ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے ہدایت پہنچ چکی ہے پس جناب نبی اللہ احم دمجتبیٰ ﷺ نے ہر طرح اپنا دامن ان سے چھڑا لیا اور صاف طور پر ان کے معبودوں سے اور ان کی عبادت کے طریقوں سے علیحدگی اور ناپسندیدگی کا اعلان فرما دیا ظاہر ہے کہ ہر عابد کا معبود ہوگا اور طریقہ عبادت ہوگا پس رسول اللہ ﷺ اور آپ کی امت صر فاللہ ہی کی عبادت کرتے ہیں اور طریقہ عبادت ان کا وہ ہے جو سرور رسل ﷺ نے تعلیم فرمایا ہے اسی لیے کلمہ اخلاص لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہے یعنی اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اس کا راستہ وہی ہے جس کے بتانے والے محمد ﷺ ہویں جو اللہ کے پیغمبر ہیں ﷺ اور مشرکین کے معبود بھی اللہ کے سوا غیر ہیں اور طریقہ عبادت بھی اللہ کا بتلایا ہوا نہیں اسی لیے فرمایا کہ متہارا دین تمہارے لیے میرا میرے لیے جیسے اور جگہ ہے وان کذبوک فقل لی عملی ولکم عملکم انتم بریون مما اعمل وانا بری مما تعملون یعنی اگر یہ تجھے جھٹلائیں تو تو کہہ دے کہ میرے لیے میرا عمل اور تمہارے لیے متہارا عمل ہے تم میرے اعمال سے الگ ہو اور میں تمہارے کاموں سے بیزار ہوں اور جگرہ فرمایا لنا اعمالنا ولکم اعمالکم ہمارے عمل ہمارے ساتھ اور تمہارے تمہارے ساتھ صحیح بخاری شریف میں اس آیت کی تفسیر میں ہے تمہارے لیے متہارا دین ہے یعنی کفر اور میرے لیے میرا دن ہے یعنی اسلام یہ لفظ اصل میں دینی تھا لیکن چونکہ اور آیتوں کا وقف نون پر ہے اس لیے اس میں بھی " یا " کو حذف کردیا جیسے فھوا یھدین میں اور یسقین میں بعض مفسرین نے کہا ہے مطلب یہ ہے کہ میں اب تو تمہارے معبودوں کی پرستش کرتا نہیں اور آگے کے لیے بھی تمہیں ناامید کردیتا ہوں کہ عمر بھر میں کبھی بھی یہ کفر مجھ سے نہ ہو سکے گا اسی طرح نہ تم اب میرے اللہ کو پوجتے ہو نہ آئندہ اس کی عبادت کرو گے اس سے مراد وہ کفار ہیں جن کا ایمان نہ لانا اللہ کو معلوم تھا جیسے قرآن میں اور جگہ ہے ولیزیدن کثیرا منھم ما انزل الیک من ربک طغیانا وکفرا یعنی تیری طرف جو اترتا ہے اس سے ان میں سے اکثر تو سرکشی اور کفر میں بڑھ جاتے ہیں ابن جرری نے بعض عربی دان حضرات سے نقل کیا ہے کہ وہ مرتبہ اس جملے کا لانا صرف تاکید کے لیے ہے جیسے فان مع العسر یسرا ان معالعسر یسرا میں اور جیسے لترون الجحیم ثم لترونھا عین الیقین پس ان دونوں جملوں کو دو مرتبہ لانے کی حکمت میں یہ تین قول ہوئے ایک تو یہ کہ پہلے جملے سے مراد معبود دوسرے سے مراد طریق عبادت دوسرے یہ کہ پہلے جملے سے مراد حال دوسرے سے مراد استقبال یعنی آئندہ تیسرے یہ کہ پہلے جملے کی تاکید دوسرے جملے سے ہے لیکن یہ یاد رہے کہ یہاں ایک چوتھی توجیہ بھی ہے جسے حضرت امام ابن تیمیہ اپنی بعض تصنیفات میں قوت دیتے ہیں وہ یہ کہ پہلے تو جملہ فعلیہ ہے اور دوبارہ جملہ اسمیہ ہے تو مراد یہ ہوئی کہ نہ تو میں غیر اللہ کی عبادت کرتا ہو نہ مجھ سے کبھی بھی کوئی امید رکھ سکتا ہے یعنی واقعہ کی بھی نفی ہے اور شرعی طور پر ممکن ہونے کا بھی انکار ہے یہ قول بھی ہت اچھا ہے واللہ اعلم حضرت امام ابو عبداللہ شافعی کر ؒ نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ کفر ایک ہی ملت ہے اس لیے یہود نصرانی کا اور نصرانی یہود کا وارث ہوسکتا ہے جبکہ ان دونوں میں سنب یا سبب ورثے کا پایا جائے اس لیے کہ اسلام کے سوا کفر کی جتنی راہیں ہیں وہ سب باطل ہونے میں ایک ہی ہیں حضرت امام احمد ؒ اور ان کے موافقین کا مذہب اس کے برخلاف ہے کہ نہ یہودی نصرانی کا وارث ہوسکتا ہے نہ نصرانی یہود کا کیونکہ حدیث ہے دو مختلف مذہب والے آپس میں ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوسکتے سورة کافرون کی تفسیر ختم ہوئی فالحمد اللہ احسانہ۔

آیت 1 - سورہ کافرون: (قل يا أيها الكافرون...) - اردو