سورۃ الجمعہ: آیت 7 - ولا يتمنونه أبدا بما قدمت... - اردو

آیت 7 کی تفسیر, سورۃ الجمعہ

وَلَا يَتَمَنَّوْنَهُۥٓ أَبَدًۢا بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ ۚ وَٱللَّهُ عَلِيمٌۢ بِٱلظَّٰلِمِينَ

اردو ترجمہ

لیکن یہ ہرگز اس کی تمنا نہ کریں گے اپنے کرتوتوں کی وجہ سے جو یہ کر چکے ہیں، اور اللہ اِن ظالموں کو خوب جانتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wala yatamannawnahu abadan bima qaddamat aydeehim waAllahu AAaleemun bialththalimeena

آیت 7 کی تفسیر

ولا یتمنونہ ................ بالظلمین (26 : 7) ” لیکن یہ ہرگز اس کی تمنا نہ کریں گے اپنے ان کرتوتوں کی وجہ سے جو یہ کرچکے ہیں ، اور اللہ ان ظالموں کو خوب جانتا ہے “۔

اب آخری دور میں موت کی حقیقت ان کو بتادی جاتی ہے۔ یہ جو موت سے ڈرتے ہیں اس میں کوئی فائدہ نہیں ہے۔ موت تو ایک قطعی امر ہے اور اس سے کوئی ڈر نہیں ہے۔ کوئی مضر نہیں ہے ، موت کے بعد تو اللہ کی طرف جانا ہے ، اور پھر اللہ کے ہاں حساب و کتاب دینا ہے ، جس میں کوئی شک نہیں ہے۔

آیت 7{ وَلَا یَتَمَنَّوْنَہٗ اَبَدًام بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْہِمْ } ”اور حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ ہرگز کبھی موت کی تمنا نہیں کریں گے اپنے ان اعمال کے سبب جو ان کے ہاتھ آگے بھیج چکے ہیں۔“ { وَاللّٰہُ عَلِیْمٌم بِالظّٰلِمِیْنَ۔ } ”اور اللہ ان ظالموں سے خوب واقف ہے۔“ اللہ تعالیٰ کے فرمان : { بَلِ الْاِنْسَانُ عَلٰی نَفْسِہٖ بَصِیْرَۃٌ۔ } القیامۃ کے مصداق یہ لوگ اپنے کرتوتوں کو خوب جانتے ہیں۔ اس لیے یہ نہیں چاہتے کہ انہیں موت آئے اور وہ اپنی بداعمالیوں کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور جواب دہ ہوں۔ ہم مسلمانوں کے لیے بنی اسرائیل سے متعلق ان آیات کی حیثیت ایک آئینے کی سی ہے۔ اس آئینے میں اگر ہم اپنی تصویر دیکھیں تو ہمیں نظر آئے گا کہ یہ زعم صرف بنی اسرائیل میں ہی نہیں پایاجاتا تھا بلکہ آج ہم مسلمانوں کی اکثریت بھی اسی سوچ کی حامل ہے اور اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ جب اللہ کی کتاب سے ہمارا ذہنی و قلبی رشتہ نہ رہا تو اپنی تسلی کے لیے ہمیں خود ساختہ خوش فہمیوں wishful thinkings کا سہارالینا پڑا۔ ان میں سب سے بڑی اور سب سے موثر خوش فہمی تویہی ہے کہ ہمارے پاس اللہ کی کتاب ہے ‘ ہم اللہ کے محبوب ترین نبی حضرت محمد ﷺ کی امت ہیں اور اس رشتے سے اللہ کے بہت ہی لاڈلے اور چہیتے ہیں۔ چناچہ ہم جیسے بھی گناہگار سہی ‘ آخرت میں ہمارے نبی ﷺ یقینا ہماری شفاعت کریں گے اور دوزخ سے ہماری خلاصی کو یقینی بنائیں گے۔ اگر خدانخواستہ ہم میں سے کوئی فرد کسی بڑے جرم میں پکڑا بھی گیا تو اسے بھی بہت جلد دوزخ سے نکال کر جنت میں پہنچا دیا جائے گا۔ ہمارے ہاں یہ خوش فہمیاں پختہ ہو کر باقاعدہ عقائد کی شکل اختیار کرچکی ہیں۔ اب ایسی ضمانتوں کے ہوتے ہوئے بھلا کون احمق ہوگا جو نیک اعمال کے لیے مشقتیں اٹھائے اور رشوت ‘ چور بازاری اور دوسری حرام کاریوں سے اجتناب کرتا پھرے : ؎خبر نہیں کیا ہے نام اس کا ‘ خدا فریبی کہ خود فریبی ؟ عمل سے فارغ ہوا مسلماں بنا کے تقدیر کا بہانہ !اقبال کا یہ شعر اس حوالے سے آج ہم پر ہوبہو صادق آتا ہے۔ پہلے تو ”مسلمان“ کے پاس عمل سے بچنے کے لیے صرف تقدیر کا بہانہ تھا ‘ اب ہم نے مذکورہ بالا عقائد کی صورت میں بہت مضبوط سہارا بھی تلاش کرلیا ہے۔

آیت 7 - سورۃ الجمعہ: (ولا يتمنونه أبدا بما قدمت أيديهم ۚ والله عليم بالظالمين...) - اردو