سورۃ الجمعہ: آیت 6 - قل يا أيها الذين هادوا... - اردو

آیت 6 کی تفسیر, سورۃ الجمعہ

قُلْ يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ هَادُوٓا۟ إِن زَعَمْتُمْ أَنَّكُمْ أَوْلِيَآءُ لِلَّهِ مِن دُونِ ٱلنَّاسِ فَتَمَنَّوُا۟ ٱلْمَوْتَ إِن كُنتُمْ صَٰدِقِينَ

اردو ترجمہ

اِن سے کہو، "اے لوگو جو یہودی بن گئے ہو، اگر تمہیں یہ گھمنڈ ہے کہ باقی سب لوگوں کو چھوڑ کر بس تم ہی اللہ کے چہیتے ہو تو موت کی تمنا کرو اگر تم اپنے اِس زعم میں سچے ہو"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qul ya ayyuha allatheena hadoo in zaAAamtum annakum awliyao lillahi min dooni alnnasi fatamannawoo almawta in kuntum sadiqeena

آیت 6 کی تفسیر

قل یایھا الذین .................... کنتم تعملون (8) (26 : 6 تا 8) ” ان سے کہو ، ” اے لوگو جو یہودی بن گئے ہو ، اگر تمہیں یہ گھمنڈ ہے کہ باقی سب لوگوں کو چھوڑ کر بس تم ہی اللہ کے چہیتے ہو تو موت کی تمناکرو۔ اگر تم اپنے اس زعم میں سچے ہو “۔ لیکن یہ ہرگز اس کی تمنا نہ کریں گے اپنے ان کرتوتوں کی وجہ سے جو یہ کرچکے ہیں ، اور اللہ ان ظالموں کو خوب جانتا ہے۔ ان سے کہو ” جس موت سے تم بھاگتے ہو ، وہ تو تمہیں آکر رہے گی۔ پھر تم اس کے سامنے پیش کیے جاﺅ گے جو پوشیدہ وظاہر کا جاننے والا ہے ، اور وہ تمہیں بتادے گا کہ تم کیا کچھ کرتے رہے ہو “۔

مباہلہ کے معنی یہ ہیں کہ فریقین آمنے سامنے کھڑے ہوجائیں اور دونوں مل کر دعا کریں کہ اے اللہ ہم دونوں میں سے جو برسرباطل ہے ، اسے ہلاک کردے۔ رسول اللہ ﷺ نے جن جن لوگوں کو مباہلہ کے لئے دعوت دی وہ ڈر کر سامنے نہیں آئے۔ کسی نے بھی حضور اکرم کی دعوت مباہلہ قبول نہیں کی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ اپنے دل ہی دل میں اسلام کی حقانیت کے قائل تھے۔ وہ جانتے تھے کہ رسول اللہ سچے ہیں اور یہ دین حقیقی دین ہے۔

امام احمد نے روایت کی ہے اسماعیل ابن یزید زرقی سے ، انہوں نے ابو یزید سے ، انہوں نے فرات سے ، انہوں نے عبدالکریم ابن مالک جزری سے ، انہوں نے عکرمہ سے ، انہوں نے ابن عباس ؓ سے کہ ابوجہل ملعون نے یہ کہا کہ اگر میں نے محمد کو خانہ کعبہ میں دیکھا تو میں اس پر حملہ کردوں گا یہاں تک کہ میں اس کی گردن دبادوں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر اس نے ایسا کیا ہوتا تو فرشتے اسے اعلانیہ پکڑ لیتے اور اگر یہودی موت کی تمنا کرتے تو وہ مرجاتے۔ اور اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتے کہ جہنم میں ان کے مقامات کیا ہیں اور جن لوگوں کو رسول اللہ ﷺ نے دعوت مباہلہ دی تھی اگر وہ نکلتے تو جب واپس آتے تو نہ ان کا مال ہوتا اور نہ ان کے اہل و عیال موجود ہوتے۔ (بخاری ، ترمذی)

یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ آیت ان کے لئے مباہلے کا چیلنج نہ ہو ، محض چیلنج ہو۔ کیونکہ ان کا زعم تھا کہ وہ دوسرے لوگوں کے مقابلے میں اللہ کے محبوب اور دوست ہیں تو کیوں نہیں جلدی کرتے کہ اللہ کے ہاں انعامات پائیں۔ دوست تو دوست کی ملاقات کے لئے بےتاب ہوتا ہے۔

اس کے بعد ان کے اس دعوے پر تبصرہ کیا گیا کہ یہ جھوٹے ہیں اور جو دعویٰ کر رے ہیں ان میں وہ سچے نہیں ہیں۔ ان کو یہ یقین نہیں ہے کہ انہوں نے دنیا میں آخرت کے لئے کوئی اچھا عمل کیا ہے ، جس پر ان کو اجروثواب ملنے والا ہے۔ انہوں نے تو برے کام ہی آگے بھیجے ہیں ، جن کی وجہ سے وہ موت سے بہت ڈرتے ہیں۔ اور جس شخص کے پاس زاد راہ نہ ہو ، وہ سفر پر نہیں نکلتا۔

آیت 6{ قُلْ یٰٓــاَ یُّہَا الَّذِیْنَ ہَادُوْآ اِنْ زَعَمْتُمْ اَنَّــکُمْ اَوْلِیَــآئُ لِلّٰہِ مِنْ دُوْنِ النَّاسِ } ”اے نبی ﷺ ! آپ کہہ دیجیے کہ اے وہ لوگو جو یہودی ہوگئے ہو ‘ اگر تمہیں واقعی یہ گمان ہے کہ بس تم ہی اللہ کے دوست ہو باقی سب لوگوں کو چھوڑ کر“ زعم کا لفظ ”خیال خام“ کے معنی میں ہم اردو میں بھی استعمال کرتے ہیں کہ فلاں شخص کو فلاں چیز کا بڑا زعم ہے۔ تو اگر تم لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے چہیتے اور محبوب ہونے کا ایسا ہی زعم ہے : { فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ۔ } ”تو تم موت کی تمنا کرو ‘ اگر تم واقعی سچے ہو۔“ اگر تم واقعی اللہ کے محبوب اور دوست ہو تو تمہیں اپنے دوست سے وصل کی تمنا ہونی چاہیے اور یہ تمنا چونکہ موت کے ذریعے پوری ہوسکتی ہے اس لیے تمہارے دلوں میں ہر وقت موت کی خواہش موجزن رہنی چاہیے۔ یہ مضمون اس سے پہلے سورة البقرۃ آیات 94 ‘ 95 ‘ 96 میں بھی آچکا ہے۔

آیت 6 - سورۃ الجمعہ: (قل يا أيها الذين هادوا إن زعمتم أنكم أولياء لله من دون الناس فتمنوا الموت إن كنتم صادقين...) - اردو