سورۃ الجمعہ: آیت 5 - مثل الذين حملوا التوراة ثم... - اردو

آیت 5 کی تفسیر, سورۃ الجمعہ

مَثَلُ ٱلَّذِينَ حُمِّلُوا۟ ٱلتَّوْرَىٰةَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوهَا كَمَثَلِ ٱلْحِمَارِ يَحْمِلُ أَسْفَارًۢا ۚ بِئْسَ مَثَلُ ٱلْقَوْمِ ٱلَّذِينَ كَذَّبُوا۟ بِـَٔايَٰتِ ٱللَّهِ ۚ وَٱللَّهُ لَا يَهْدِى ٱلْقَوْمَ ٱلظَّٰلِمِينَ

اردو ترجمہ

جن لوگوں کو توراۃ کا حامل بنایا گیا تھا مگر انہوں نے اس کا بار نہ اٹھا یا، اُن کی مثال اُس گدھے کی سی ہے جس پر کتابیں لدی ہوئی ہوں اِس سے بھی زیادہ بری مثال ہے اُن لوگوں کی جنہوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلا دیا ہے ایسے ظالموں کو اللہ ہدایت نہیں دیا کرتا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Mathalu allatheena hummiloo alttawrata thumma lam yahmilooha kamathali alhimari yahmilu asfaran bisa mathalu alqawmi allatheena kaththaboo biayati Allahi waAllahu la yahdee alqawma alththalimeena

آیت 5 کی تفسیر

مثل الذین ............ القوم الظلمین (26 : 5) ” جن لوگوں کو تورات کا حامل بنایا گیا تھا مگر انہوں نے اس کا بار نہ اٹھایا ، ان کی مثال اس گدھے کی سی ہے جس پر کتابیں لدی ہوئی ہیں۔ اس سے بھی زیادہ بری مثال ہے ان لوگوں کی جنہوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلا دیا ہے۔ ایسے ظالموں کو اللہ ہدایت نہیں دیا کرتا “۔

بنی اسرائیل کو توریت دی گئی اور وہ نظریہ اور شریعت کی امانت کے حامل بنے۔ لیکن انہوں نے۔

لم یحملوھا (26 : 5) ” انہوں نے اس کا بار نہ اٹھایا “۔ کیونکہ اس امانت کو ادراک تفقہ اور فہم و فراست اور حکمت و دانائی کے ساتھ اٹھایا جاسکتا ہے۔ انہوں نے ضمیر کی دنیا میں اور عمل کی دنیا میں اس ذمہ داری کو قبول کرنا چھوڑ دیا تھا اور قرآن نے جس طرح بنی اسرائیل کی سیرت کا ریکارڈ پیش کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اس امانت کی کوئی قدر نہ کی۔ وہ صرف ایک بوجھ اٹھا رہے تھے۔ اسامانت اور دین کے مقاصد پورے نہ کررہے تھے۔

یہ نہایت ہی حقیر تصویر ہے ، ان کو جو یہاں قرآن کریم نے کھینچی ہے ، لیکن یہ تصویر ان کی حقیقت کا اظہار نہایت ہی عمدہ طریقے سے کرتی ہے۔

بئس مثل .................... الظلمین (26 : 5) ” اس سے بھی زیادہ بری مثال ہے ان لوگوں کی جنہوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلایا ، ایسے ظالموں کو اللہ ہدایت نہی دیتا “۔

اور جن لوگوں کو یہ آخری امانت دی گئی ہے ، وہ اگر یہی رویہ اختیار کرتے ہیں تو ان کی مثال بھی ایسی ہی ہے وہ سب لوگ جن کو دینی امانت دی گئی اور وہ اس کا حق ادا نہیں کرتے۔ ان کا بھی یہی حکم ہے کہ وہ مسلمان جن پر صدیاں گزر گئیں اور وہ مسلمانوں کے صرف نام اٹھائے ہوئے ہیں ، ان کے اندر مسلمانوں کے اعمال نہیں ہیں ، خصوصاً وہ لوگ جو قرآن اور کتب اسلامی کو پڑھتے ہیں اور وہ فرائض ادا نہیں کرتے جو ان میں ہیں۔ یہ سب لوگ ایسے ہی ہیں جس طرح گدھے پر کتابیں لدی ہوئی ہوں۔ ہمارے دور میں ایسے لوگ بہت ہیں۔ مسئلہ کتابوں اور تدریس وتعلیم کا نہیں ہے بلکہ مسئلہ عمل اور ذمہ داریاں اٹھانے کا ہے۔

یہودیوں کا زعم یہ تھا اور اب بھی ان کے اندر یہ زعم موجود ہے کہ وہ اللہ کی مختار قوم ہیں ، پسندیدہ اور برگزیدہ ! اور یہ کہ وہ اللہ کے محبوب ہیں بمقابلہ تمام دوسری اقوام کے۔ جبکہ دوسری اقوام گویم ہیں یا امی ہیں یا اممی ہیں۔ لہٰذا ان پر اپنے دن کے احکام پر عمل کرنا لازمی نہیں ہے۔ یہ گویم کے لئے ہے۔

وقالوا لیس ................ سبیل اگر ہم دوسری اقوام کے لوگوں پر کوئی زیادتی کریں تو ہم پر مواخذے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ یہ اور اس قسم کے دوسرے دعوے وہ کرتے تھے۔ جن پر کوئی دلیل نہ تھی۔ یہاں اللہ ان کو دعوت مباہلہ دیتا ہے۔ دعوت مباہلہ ان کو بھی دی گئی اور نصاریٰ کو بھی۔

اب اگلی چار آیات میں بنی اسرائیل کی مثال کا آئینہ دکھا کر ہمیں ہمارے مجموعی طرزعمل سے آگاہ کیا جارہا ہے :آیت 5{ مَثَلُ الَّذِیْنَ حُمِّلُوا التَّـوْرٰٹۃَ ثُمَّ لَمْ یَحْمِلُوْہَا کَمَثَلِ الْحِمَارِ یَحْمِلُ اَسْفَارًاط } ”مثال ان لوگوں کی جو حامل تورات بنائے گئے ‘ پھر وہ اس کے حامل ثابت نہ ہوئے ‘ اس گدھے کی سی مثال ہے جو اٹھائے ہوئے ہو کتابوں کا بوجھ۔“ جب وہ لوگ حامل تورات ہو کر بھی تورات سے بےگانہ رہے تو ان میں اور اس گدھے میں کیا فرق رہ گیا جو اپنی پیٹھ پر کتابوں کا بوجھ اٹھائے پھر رہا ہے۔ ظاہر ہے ایک گدھے پر آپ مکالماتِ افلاطون لاد دیں یا انسائیکلوپیڈیا آف برٹانیکا کی تمام جلدیں رکھ دیں ‘ اس سے اس کے اندر نہ تو کوئی فلسفیانہ بصیرت پیدا ہوگی اور نہ ہی اس کے دماغ میں کوئی معلومات منتقل ہو سکیں گی۔۔۔۔ آیت کے اس حصے میں لفظ حمل مختلف صیغوں میں تین مرتبہ آیا ہے۔ حمل ایسے بوجھ کو کہا جاتا ہے جسے آدمی اٹھا کر چل سکے۔ اسی معنی میں حمّال قلی اس شخص کو کہا جاتا ہے جو بوجھ وغیرہ ایک جگہ سے اٹھا کر دوسری جگہ لے جائے اور یہی مفہوم عورت کے حمل کا بھی ہے : { حَمَلَتْہُ اُمُّہٗ وَہْنًا عَلٰی وَہْنٍ } لقمن : 14 ”اس کو اٹھائے رکھا اس کی ماں نے اپنے پیٹ میں کمزوری پر کمزوری جھیل کر“۔ عورت کو یہ حمل اٹھانے میں مشقت اور تکلیف کا سامنا تو کرنا پڑتا ہے ‘ لیکن اس کے لیے اس بوجھ کو اٹھائے پھرنا ممکن ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے میں اِصْر البقرۃ : 286 ‘ الاعراف : 157 ایسا بوجھ ہے جس کا اٹھانا انسان کے لیے ممکن نہ ہو اور وہ اس کے نیچے دب کر رہ جائے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ جس قوم کو اپنی کتاب عطا کرتا ہے اس قوم پر اس کتاب کے حقوق کا بوجھ بھی ڈالتا ہے۔ ان حقوق میں کتاب پر ایمان لانے ‘ اس کے احکام پر عمل کرنے اور اس کی تعلیمات کی تبلیغ و اشاعت کی ذمہ داری کا بوجھ بھی شامل ہے : { وَاِذْ اَخَذَ اللّٰہُ مِیْثَاقَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْـکِتٰبَ لَتُبَـیِّنُـنَّـہٗ لِلنَّاسِ وَلاَ تَـکْتُمُوْنَـہٗز } آل عمران : 187 ”اور یاد کرو جبکہ اللہ نے ان لوگوں سے ایک قول وقرار لیا تھا جن کو کتاب دی گئی تھی کہ تم لازماً اسے لوگوں کے سامنے واضح کرو گے اور اسے چھپائو گے نہیں“۔ یہ میثاق اہل تورات سے لیا گیا تھا جبکہ قرآن مجید میں اہل کتاب سے متعلق ایسے واقعات اور ایسی مثالوں کا ذکر ہمیں خبردار کرنے کے لیے آیا ہے ‘ کہ اے اہل قرآن تمہیں بھی اپنی کتاب کے حقوق کماحقہ ادا کرنے ہیں اور اس کی تعلیمات کو لوگوں کے لیے عام کرنا ہے۔ ورنہ کتابوں کا بوجھ اٹھا نے والے گدھے کی مثال کا اطلاق تم پر بھی ہوگا۔ اس حوالے سے حضرت عبیدہ الملیکی رض کا روایت کردہ حضور ﷺ کا یہ فرمان بہت اہم ہے : یَا اَھْلَ الْقُرْآنِ لَا تَتَوَسَّدُوا الْقُرْآنَ ‘ وَاتْلُوْہُ حَقَّ تِلَاوَتِہٖ مِنْ آنَائِ اللَّیْلِ وَالنَّھَارِ ‘ وَافْشُوْہُ وَتَغَنَّوْہُ وَتَدَبَّرُوْا فِیْہِ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ 1”اے قرآن والو ! تم قرآن کو تکیہ ذہنی سہارا نہ بنا لینا ‘ بلکہ تمہیں چاہیے کہ رات اور دن کے اوقات میں اس کی تلاوت کیا کروجیسا کہ اس کی تلاوت کا حق ہے ‘ اور اس کو پھیلائو ‘ اور اس کو خوش الحانی سے پڑھو ‘ اور اس میں تدبر کرو ‘ تاکہ تم فلاح پاجائو۔“ مقامِ عبرت ہے ! آج ہم قرآن مجید کے حقوق ادا کرنے کے لیے تو غور کرنے کو بھی تیار نہیں ‘ لیکن اس کو تکیہ بنانے کے نت نئے طریقے ایجاد کرنے میں ہم بڑی مہارت رکھتے ہیں۔ اس کی زندہ مثال ایوبی دور کی یادگار ‘ سونے کی تاروں سے لکھا ہوا چالیس من وزنی قرآن مجید کا وہ نسخہ ہے جسے ہم نے پچھلے پچاس سال سے لاہور میں نمائش کے لیے رکھا ہوا ہے۔ { بِئْسَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِ اللّٰہِ } ”بہت بری مثال ہے اس قوم کی جنہوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلایا۔“ یہ یہودیوں کی طرف سے کلام اللہ کی عملی یا حالی تکذیب کا ذکر ہے۔ قبل ازیں سورة الواقعہ کی آیت 82 کے حوالے سے وضاحت کی جا چکی ہے کہ بالکل اسی طور سے ہم بھی قرآن مجید کو جھٹلا رہے ہیں۔ ظاہر ہے اپنی زبان سے نہ تو یہودی تورات کی تکذیب کرتے تھے اور نہ ہی ہم قرآن کے بارے میں ایسا سوچ سکتے ہیں۔ لیکن کیا ہم واقعی قرآن مجید کی عملی یا حالی تکذیب کے مرتکب ہو رہے ہیں ؟ اس سوال کا جواب جاننے کے لیے ایک ایسے تعلیم یافتہ نوجوان کا تصور کریں جو مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے پاکستان سے امریکہ گیا ہے۔ اس نوجوان سے اگر پوچھا جائے کہ کیا قرآن مجید اللہ کا کلام ہے تو وہ کہے گا کیوں نہیں ! میں مانتا ہوں کہ یہ اللہ کا کلام ہے۔ لیکن اگر اس سے دوسرا سوال یہ کیا جائے کہ آپ نے اس کو کتنا پڑھا ہے اور اس کی تعلیمات کو جاننے اور سمجھنے کے لیے آپ نے کس قدر محنت کی ہے تو وہ اِلا ماشاء اللہ یہی جواب دے گا کہ مجھے اس کا موقع نہیں ملا۔ تو کیا اس نوجوان کا یہ عمل قرآن مجید کی تکذیب نہیں کر رہا ہے ؟ کیا اس کا حال چیخ چیخ کر گواہی نہیں دے رہا کہ اس کے نزدیک اس کی وہ ڈگری قرآن مجید سے زیادہ اہم ہے ‘ جس کے لیے وہ سات سمندر پار آکر دیار غیر کی خاک چھان رہا ہے ‘ لیکن قرآن مجید کو سمجھنے کی کبھی اس نے ہلکی سی کوشش بھی نہیں کی۔ { وَاللّٰہُ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ۔ } ”اور اللہ ایسے ظالموں کو زبردستی ہدایت نہیں دیتا۔“ اللہ تعالیٰ کی ہدایت معاذ اللہ کوئی ایسی حقیر شے نہیں جسے ہر شخص کی جھولی میں زبردستی ڈال دیا جائے۔ یہ تو صرف اسی شخص کو ملے گی جس کے دل میں اس کے حصول کی تمنا ہوگی اور جو اس کے حصول کے لیے تگ و دو کرے گا۔

کتابوں کا بوجھ لادا گدھا اور بےعمل عالم ان آیتوں میں یہودیوں کی مذمت بیان ہو رہی ہے کہ انہیں تورات دی کتابوں کا بوجھ لاد دیا جائے تو اسے یہ تو معلوم ہے کہ اس پر کوئی بوجھ ہے لیکن یہ نہیں جانتا کہ اس میں کیا ہے ؟ اسی طرح یہود ہیں کہ ظاہری الفاظ تو خوب رٹے ہوئے ہیں لیکن نہ تو یہ معلوم ہے کہ مطلب کیا ہے ؟ نہ اس پر ان کا عمل ہے بلکہ اور تبدیل و تحریف کرتے رہتے ہیں، پس درصال یہ اس بےسمجھ جانور سے بھی بدترین، کیونکہ اسے تو قدرت نے سمجھ ہی نہیں دی لیکن یہ سمجھ رکھتے ہوئے پھر بھی اس کا استعمال نہیں کرتے۔ اسی لئے دوسری آیت میں فرمایا گیا ہے۔ (ترجمہ) یہ لوگ مثل چوپایوں کے ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ بہکے ہوئے، یہ غافل لوگ ہیں۔ یہاں فرمایا اللہ کیا آیتوں کے جھٹلانے الوں کی بری مثال ہے، ایسے ظالم اللہ کی رہنمائی سے محروم رہتے ہیں۔ مسند احمد میں ہے جو شخص جمعہ کے دن امام کے خطبہ کی حالت میں بات کرے، وہ مثل گدھے کے ہے جو کتابیں اٹھائے ہوئے ہو اور جو اسے کہے کہ چپ رہ اس کا بھی جمعہ جاتا رہا۔ پھر فرماتا ہے اے یہود ! اگر تمہارا دعویٰ ہے کہ تم حق پر ہو اور آنحضرت ﷺ اور آپ کے اصحاب ناحق پر ہیں تو آؤ اور دعا مانگو کہ ہم دونوں میں سے جو حق پر نہ ہو اللہ اسے موت دے، پھر فرماتا ہے کہ انہوں نے جو اعمال آگے بھیج رکھے ہیں وہ ان کے سامنے ہیں مثلاً کفر فجور ظلم نافرمانی وغیرہ اس وجہ سے ہماری پیشین گوئی ہے کہ وہ اس پر آمادگی نہیں کریں گے، ان ظالموں کو اللہ بخوبی جانتا ہے۔ سورة بقرہ کی آیت قل ان کانت الخ، کی تفسیر میں یہودیوں کے اس مباہلے کا پورا ذکر ہم کرچکے ہیں اور وہیں یہ بھی بیان کردیا ہے کہ مراد یہ ہے کہ اپنے اوپر اگر خود گمراہ ہوں تو ان پر تو یا اپنے مقابل پر اگر وہ گمراہ ہوں موت کی بد دعا کریں، جیسے کہ نصرانیوں کے مباہلہ کا ذکر سورة آل عمران میں گذر چکا ہے، ملاحظہ ہو تفسیر آیت فمن حاجک الخ، مشرکین سے بھی مباہلہ کا اعلان کیا گیا ملاحظہ ہو تفسیر سورة مریم آیت (قُلْ مَنْ كَانَ فِي الضَّلٰلَةِ فَلْيَمْدُدْ لَهُ الرَّحْمٰنُ مَدًّا 75؀) 19۔ مریم :75) ، یعنی اے نبی ﷺ ان سے کہہ دے کہ جو گمراہی میں ہو رحمٰن اسے اور بڑھا دے۔ مسند احمد میں حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ ابو جہل لعنتہ اللہ علیہ نے کہا کہ اگر میں محمد ﷺ کو کعبہ کے پاس دیکھوں گا تو اس کی گردن ناپوں گا جب یہ خبر حضور ﷺ کو پہنچی تو آپ نے فرمایا اگر یہ ایسا کرتا تو سب کے دیکھتے فرشتے اسے پکڑ لیتے اور اگر یہود میرے مقابلہ پر آ کر موت طلب کرتے تو یقینا وہ مرجاتے اور اپنی جگہ جہنم میں دیکھ لیتے اور اگر مباہلہ کے لئے لوگ نکلتے تو وہ لوٹ کر اپنے اہل و مال کو ہرگز نہ پاتے۔ یہ حدیث بخاری ترمذی اور نسائی میں بھی موجود ہے، پھر فرماتا ہے موت سے تو کوئی بچہی نہیں سکتا، جیسے سورة نساء میں ہے (ترجمہ) یعنی تم جہاں کہیں بھی ہو وہاں تمہیں موت پا ہی لے گی گو مضبوط محلوں میں ہو، معجم طبرانی کی ایک مرفوع حدیث میں ہے موت سے بھاگنے والے کی مثال ایسی ہے جیسے ایک لومڑی ہو جس پر زمین کا کچھ قرض ہو وہ اس خوف سے کہ کہیں یہ مجھ سے مانگ نہ بیٹھے، بھاگے، بھاگتے بھاگتے جب تھک جائے تب اپنے بھٹ میں گھس جائے جہاں گھسی اور زمین نے پھر اس سے تقاضا کیا کہ لومڑی میرا قرض ادا کردو پھر وہاں سے دم دبائے ہوئے تیزی سے بھاگی آخر یونہی بھاگتے بھاگتے ہلاک ہوگئی۔

آیت 5 - سورۃ الجمعہ: (مثل الذين حملوا التوراة ثم لم يحملوها كمثل الحمار يحمل أسفارا ۚ بئس مثل القوم الذين كذبوا بآيات الله ۚ...) - اردو