سورۃ الجمعہ: آیت 1 - يسبح لله ما في السماوات... - اردو

آیت 1 کی تفسیر, سورۃ الجمعہ

يُسَبِّحُ لِلَّهِ مَا فِى ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَمَا فِى ٱلْأَرْضِ ٱلْمَلِكِ ٱلْقُدُّوسِ ٱلْعَزِيزِ ٱلْحَكِيمِ

اردو ترجمہ

اللہ کی تسبیح کر رہی ہے ہر وہ چیز جو آسمانوں میں ہے اور ہر وہ چیز جو زمین میں ہے بادشاہ ہے، قدوس ہے، زبردست اور حکیم ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Yusabbihu lillahi ma fee alssamawati wama fee alardi almaliki alquddoosi alAAazeezi alhakeemi

آیت 1 کی تفسیر

اس آغاز میں بتایا جاتا ہے کہ اس کائنات کی ہر چیز اللہ کی تسبیح کررہی ہے۔ لیکن یہ کائنات جو تسبیح کررہی ہے اس میں سے جن چیزوں کا انتخاب کیا گیا ہے وہ اس سورت کے موضوع اور محور کے ساتھ ہم آہنگ ہیں۔ اور اس کے ساتھ گہرا ربط رکھتی ہیں۔ سورت کا نام جمعہ ہے۔ اس میں یہ تعلیم ہے کہ جمعہ کی اہمیت کیا ہے ، اس دن تمام امور سے فارغ ہوکر اللہ کی طرف رجوع کرنا چاہئے اور جمعہ کی نماز کے وقت لہو ولعب اور محنت وتجارت چھوڑ کر ، اللہ کے ذکر کی طرف آنا چاہئے۔ لوگ جمعہ کو چھوڑ کر اور خطبہ جمعہ چھوڑ کر جس مال تجارت کی طرف بھاگے ہیں ، اس کا مالک تو اللہ ہے ، جو بادشاہ مطلق ہے۔ دنیا کا یہ مال اس کے اختیار میں ہے اور وہ ” القدوس “ ہے۔ وہ مقدس ہے اور پاک ہے اور پوری کائنات اس کی پاکی اور تقدیس بیان کررہی ہے۔ جبکہ یہ لوگ اس کی تقدیس چھوڑ کر لہو ولعب اور تجارت کی طرف بھاگ رہے ہیں۔ وہ ” العزیز “ ہے ، یہودیوں کو جو دعوت مباہلہ دے رہا ہے ، وہی غالب ہے ، وہ سب لوگوں کو اٹھا کر ان سے حساب و کتاب کا انتظام کرتا ہے۔ اور وہ ” الحکیم “ ہے۔ جس نے عربوں جیسی ناخواندہ قوم سے ایک رسول اٹھایا جو آیات پڑھ کر سناتا ہے ، علم و دانش سکھاتا ہے اور کتاب و حکمت کی تعلیم خطبہ جمعہ کا مقصود ہے۔ غرض جو صفات یہاں آغاز میں لائی گئی ہیں ، سورت کا مضمون بھی انہی کی سمت پر ہے۔

آیت 1{ یُسَبِّحُ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ الْمَلِکِ الْقُدُّوْسِ الْعَزِیْزِ الْحَکِیْمِ۔ } ”تسبیح کرتی ہے اللہ کی ہر وہ چیز جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے ‘ جو بادشاہ ہے ‘ ہر عیب سے پاک ہے ‘ بہت زبردست ہے ‘ بہت حکمت والا ہے۔“ یہ آیت گویا اس سورة مبارکہ کے لیے ایک نہایت ُ پرشکوہ اور پرجلال تمہید اور آغاز کلام ہے۔ سورة الصف کے آغاز میں تسبیح باری تعالیٰ کا ذکر صیغہ ماضی میں تھا ‘ جبکہ یہاں فعل مضارع آیا ہے۔ اس طرح تسبیح باری تعالیٰ کے ضمن میں گویا زمان و مکان کا احاطہ کرلیا گیا ہے۔ اس آیہ مبارکہ کے آخر میں اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنیٰ میں سے چار اسماء وارد ہوئے ہیں اور یہ ایک غیر معمولی بات ہے ‘ اس لیے کہ عام طور پر آیات کے اختتام پر اسمائِ باری تعالیٰ دو ‘ دو کے جوڑوں کی صورت میں آتے ہیں۔

قرآن حکیم آفاقی کتاب ہدایت ہے اور ہر جگہ بھی فرمایا ہے کہ کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کی تسبیح اس کی حمد کے ساتھ نہ کرتی ہو تمام مخلوق خاہ آسمان کی ہو، خواہ زمین کی، اس کی تعریفوں اور پاکیزگیوں کے بیان میں مصروف و مشغول ہے، وہ آسمان و زمین کا بادشاہ اور ان دونوں میں اپنا پورا تصرف اور اٹل حکم جاری کرنے والا ہے، وہ تمام نقصانات سے پاک اور بےعیب ہے، تمام صفات کمالیہ کے ساتھ موصوف ہے، وہ عزیز و حکیم ہے۔ اس کی تفسیر کئی بار گذر چکی ہے۔ امیون سیم راد عرب ہیں۔ جیسے اور جگہ فرمان باری ہے۔ الخ، یعنی تو اہل کتاب اور ان پڑھ لوگوں سے کہہ دے کہ کیا تم نے اسلام قبول کیا ؟ اور وہ مسلمان ہوجائیں تو وہ راہ راست پر ہیں اور اگر منہ پھیر لیں تو تجھ پر تو صرف پہنچا دینا ہے اور بندوں کی پوری دیکھ بھال کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے۔ یہاں عرب کا ذکر کرنا اس لئے نہیں کہ غیر عرب کی نفی ہو بلکہ صرف اس لئے کہ ان پر احسان و اکرام بہ نسبت دوسروں کے بہت زیادہ ہے۔ جیسے اور جگہ ہے وانہ لذکر لک ولقومک یعنی یہ تیرے لئے بھی نصیحت ہے اور تیری قوم کے لئے بھی، یہاں بھی قوم کی خصوصیت نہیں کیونکہ قرآن کریم سب جہان الوں کے لئے نصیحت ہے اسی طرح اور جگہ فرمان ہے (ترجمعہ) اپنے قرابت دار اور کنبہ والوں کو ڈرا دے، یہاں بھی یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپ کی تنبیہہ صرف اپنے گھر والوں کے ساتھ ہی مخصوص ہے بلکہ عام ہے، ارشاد باری ہے۔ (ترجمہ) لوگو میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں اور جگہ فرمان ہے (ترجمہ) یعنی اس کے ساتھ میں تمہیں خبردار کر دوں اور ہر اس شخص کو جسے یہ پہنچے، اسی طرح قرآن کی بات فرمایا (ترجمہ) تمام گروہ میں سے جو بھی اس کا انکار کرے وہ جہنمی ہے، اسی طرح کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں، جن سے صاف ثابت ہے کہ حضور ﷺ کی بعثت روئے زمین کی طرف تھی، کل مخلوق کے آپ پیغمبر تھے، ہر سرخ و سیاہ کی طرف آپ نبی بنا کر بھیجے گئے تھے۔ (ترجمہ) سورة انعام کی تفسیر میں اس کا پورا بیان ہم کرچکے ہیں اور بہت سی آیات و احادیث وہاں وارد کی ہیں فالحمد اللہ یہاں یہ فرمانا کہ ان پڑھوں یعنی عربوں میں اپنا رسول بھیجا اس لئے ہے کہ حضرت خلیل اللہ کی دعا کی قبولیت معلوم ہوجائے، آپ نے اہل مکہ کے لئے دعا ماگنی تھی کہ اللہ تعالیٰ ان میں ایک رسول ان ہی میں سے بھیجے جو انہیں اللہ کی آیتیں پڑھ کر سنائی، انہیں پاکیگی سکھائے اور کتاب و حکمت کی تعلیم دے، پس اللہ تعالیٰ نے آپ کی یہ دعا قبول فرمائی اور جبکہ مخلوق کو نبی اللہ کی سخت حاجت تھی سوائے چند اہل کتاب کے جو حضرت عیسیٰ کے سچے دین پر قائم تھے اور افراط تفریط سے الگ تھی باقی تمام دنیا دین حق کو بھلا بیٹھی تھی اور اللہ کی نامرضی کے کاموں میں مبتلا تھی اللہ تعالیٰ نے آپ کو مبعوث فرمایا، آپ نے ان ان پڑھ کو اللہ کے کلام کی آیتیں پڑھ سنائیں انہیں پاکیزگی سکھائی اور کتاب و حکمت کا معلم بنادیا حالانکہ اس سے پہلے وہ کھلی گمراہی میں تھے، سنئے عرب حضرت ابراہیم کے دین کے دعویدار تھے لیکن حالت یہ تھی کہ اصل دین کو خورد برد کرچکے تھے اس میں اس قدر تبدل تغیر کردیا تھا کہ توحید شرک سے اور یقین شک سے بدل چکا تھا ساتھ ہی بہت سی اپنی ایجاد کردہ بدعتیں دین اللہ میں شامل کردی تھیں، اسی طرح اہل کتاب نے بھی اپنی کتابوں کو بدل دیا تھا ان میں تحریف کرلی تھی اور متغیر کردیا تھا ساتھ ہی معنی میں بھی الٹ پھیر کرلیا تھا پس اللہ پاک نے حضرت محمد ﷺ کو عظیم الشان شریعت اور کامل مکمل دین دے کر دنیا والوں کی طرف بھیجا کہ اس فساد کی آپ اصلاح کریں، اہل دنیا کو اصل احکام الٰہی پہنچائیں اللہ کی مرضی اور نامرضی کے احکام لوگوں کو معلوم کرا دیں، جنت سے قریب کرنے والے عذاب سے نجات دلوانے والے تمام اعمال بتائیں، ساری مخلوق کے ہادی بنیں اصول و فروق سب سکھائیں، کوئی چھوٹی بڑی بات باقی نہ چھوڑیں۔ تمام تر شکوک و شبہات سب کے دور کردیں اور اس دین پر لوگوں کو ڈال دیں جن میں ہر بھلائی موجود ہو، اس بلند وبالا خدمت کے لئے آپ میں وہ برتریاں اور بزرگیاں جمع کردیں جمع کردیں جو نہ آپ سے پہلے کسی میں تھیں نہ آپ کے بعد کسی میں ہو سکیں، اللہ تعالیٰ آپ پر ہمیشہ ہمیشہ درود وسلام نازل فرماتا رہے آمین ! دوسری آیت کی تفسیر میں حضرت ابوہریرہ سے صحیح بخاری شریف میں مروی ہے کہ ہم آنحضرت ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ پر سورة جمعہ نازل ہوئی جب آپ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی تو لوگوں نے پوچھا کہ اخرین منھم سے کیا مراد ہے تین مرتبہ حضور ﷺ سے سوال ہوا تب آپ نے اپنا ہاتھ حضرت سلمان فارسی ؓ کے سر پر رکھا اور فرمایا اگر ایمان ثریا ستارے کے پاس ہوتا تو بھی ان لوگوں میں سے ایک یا کئی ایک پالیتے۔ اس روایت سے معلوم ہوا کہ یہ سورت مدنی ہے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ حضور ﷺ کی پیغمبری تمام دنیا والوں کی طرف ہے صرف عرب کے لئے مخصوص نہیں کیونکہ آپ نے اس آیت کی تفسیم میں فارس والوں کو فرمایا۔ اسی عام بعثت کی بناء پر آپ نے فارس و روم کے بادشاہوں کے نام اسلام قبول کرنے کے فرامین بھیجے۔ حضرت مجاہد وغیرہ بھی فرماتے ہیں اس سے مراد عجمی لوگ ہیں یعنی رب کے سوا کے جو لوگ حضور ﷺ پر ایمان لائیں اور آپ کی وحی کی تصدیق کریں۔ ابن ابی حاتم کی حدیث میں ہے کہ اب سے تین تین پشتوں کے بعد آنے والے میرے امتی بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے، پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت کی۔ وہ اللہ عزت و حکمت والا ہے، اپنی شریعت اور اپنی تقدیر میں غالب با حکمت ہے، پھر فرمان ہے یہ اللہ کا فضل ہے یعنی آنحضرت ﷺ کو ایسی زبردست عظیم الشان نبوت کے ساتھ سرفراز فرمانا اور اس امت کو اس فضل عظیم سے بہرہ ور کرنا، یہ خاص اللہ کا فضل ہے، اللہ اپنا فضل جسے چاہے دے، وہ بہت بڑے فضل و کرم والا ہے۔

آیت 1 - سورۃ الجمعہ: (يسبح لله ما في السماوات وما في الأرض الملك القدوس العزيز الحكيم...) - اردو