سورۃ الجن: آیت 8 - وأنا لمسنا السماء فوجدناها ملئت... - اردو

آیت 8 کی تفسیر, سورۃ الجن

وَأَنَّا لَمَسْنَا ٱلسَّمَآءَ فَوَجَدْنَٰهَا مُلِئَتْ حَرَسًا شَدِيدًا وَشُهُبًا

اردو ترجمہ

اور یہ کہ "ہم نے آسمان کو ٹٹولا تو دیکھا کہ وہ پہرے داروں سے پٹا پڑا ہے اور شہابوں کی بارش ہو رہی ہے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waanna lamasna alssamaa fawajadnaha muliat harasan shadeedan washuhuban

آیت 8 کی تفسیر

وانا لمسنا ............................ ربھم رشدا

یہ واقعات جو جنوں کے ذریعہ قرآن نے نقل کیے ہیں ، بتاتے ہیں کہ اس آخری رسالت سے قبل کے زمانے میں ، جس میں رسول نہ تھا یعنی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بعد کے دور میں ، جنوں کا یہ مشغلہ تھا کہ وہ عالم بالا کی طرف جاتے تھے اور عالم بالا میں اس زمین اور کائنات کے بارے میں جو احکام صادر ہوئے تھے یا فرشتوں کے درمیان زیر بحث آتے تھے ، مثلاً اللہ تعالیٰ فرشتوں کو جو احکام برائے نفاذ صادر کرتا تھا ، یہ جن عالم بالا میں بعض مقامات تک پہنچ کر گن سن لے لیتے تھے اور پھر ان سچی معلومات کے ساتھ بہت سی غلط معلومات جمع کرکے ، یہ جن دنیا میں کاہنوں ، قیافہ دانوں اور دوسرے مذہبی رہنماﺅں کو دیتے اور یہ لوگ ان حقیقی معلومات کو شیطانوں کے آمیزے کے ساتھ مزید اپنے مفاد کی چیزیں ملا کر لوگوں میں پھیلاتے ، ان کو گمراہ کرتے اور اس طرح شیطانی منصوبہ چلتا رہتا۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بعد اور حضور ﷺ سے قبل یہ نظام کس طرح چلتا تھا ، اس کی تفصیلات قرآن نے نہیں دی ہیں اور نہ یہ تفصیلات جاننے کی کوئی ضرورت ہے۔

چناچہ جنوں کا یہ گروہ کہتا ہے کہ اب عالم بالا سے یہ گن سن ممکن نہیں رہی ہے۔ اب جب وہ یہ کوشش کرتے ہیں جسے وہ ” لمس سمائ “ سے تعبیر کرتے ہیں تو وہ دیکھتے ہیں کہ ہر طرف شدید پہرے لگے ہوئے ہیں اور جو جن بھی ایک حد سے اوپر جاتا ہے آگے سے شہاب ثاقب کی بمباری ہوتی ہے۔ جو بھی ایسی کوشش کرتا ہے شہاب گر کر اسے ختم کردیتا ہے۔ وہ اعلان کرتے ہیں کہ ہم تو غیب نہیں جانتے کہ ان نئے انتظامات کے مقاصد کیا ہیں اور اللہ تعالیٰ کیا چاہتا ہے :

آیت 8{ وَّاَنَّا لَمَسْنَا السَّمَآئَ } ”اور یہ کہ ہم نے ٹٹولا آسمان کو“ ہم نے غیب کی خبروں کی ٹوہ میں آسمان کی پہنائیوں میں حسب معمول بھاگ دوڑ کی۔ { فَوَجَدْنٰـہَا مُلِئَتْ حَرَسًا شَدِیْدًا وَّشُہُبًا۔ } ”تو ہم نے دیکھا کہ وہ سخت پہروں اور انگاروں سے بھرا ہوا ہے۔“ ہم نے دیکھا کہ آسمان میں اب جگہ جگہ پہرے مقرر کردیے گئے ہیں اور شہاب ثاقب کی قسم کے میزائل نصب کر کے حفاظتی انتظامات غیر معمولی طور پر سخت کردیے گئے ہیں۔ جیسا کہ قبل ازیں بھی کئی مرتبہ ذکر ہوچکا ہے ‘ آگ اور نور کی کچھ خصوصیات مشترک ہونے کے باعث جنات اور فرشتوں کے مابین تخلیقی اعتبار سے کچھ نہ کچھ قربت پائی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فرشتے جب عالم بالا سے احکام لے کر زمین کی طرف آتے ہیں تو شیاطین ِجن ان سے اللہ تعالیٰ کے فیصلوں اور احکام سے متعلق پیشگی خبریں حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسی خبریں وہ اپنے ان انسان ساتھیوں تک پہنچانے کے لیے حاصل کرنا چاہتے ہیں جو دنیا میں کاہنوں اور جادوگروں کے روپ میں شرک و ضلالت کی دکانیں کھولے بیٹھے ہیں۔ عام حالات میں تو اللہ تعالیٰ کی مشیت سے شاید ان جنات کو ایسی خبروں تک کسی نہ کسی حد تک رسائی ہوجاتی ہو مگر نزول وحی کے زمانے میں انہیں حساس حدود کے قریب بھی پھٹکنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔ آیات زیر مطالعہ میں اسی حوالے سے جنات کی چہ میگوئیوں کا ذکر ہورہا ہے۔

بعثت نبوی ﷺ سے پہلے جنات آنحضرت ﷺ کی بعثت سے پہلے جنات آسمانوں پر جاتے کسی جگہ بیٹھتے اور کان لگا کر فرشتوں کی باتیں سنتے اور پھر آ کر کاہنوں کو خبر دیتے تھے اور کاہن ان باتوں کو بہت کچھ نمک مرچ لگا کر اپنے ماننے والوں سے کہتے، اب جب حضور ﷺ کو پیغمبر بنا کر بھیجا گیا اور آپ پر قرآن نازل ہونا شروع ہوا تو آسمان پر زبردست پہرے بٹھا دیئے گئے اور ان شیاطین کو پہلے کی طرح وہاں جا بیٹھنے اور باتیں اڑا لانے کا موقعہ نہ رہا، تاکہ قرآن کریم اور کاہنوں کا کلام خلط ملط نہ ہوجائے اور حق کے متلاشی کو دقت واقع نہ ہو۔ یہ مسلمان جنات اپنی قوم سے کہتے ہیں کہ پہلے تو ہم آسمان پر جا بیٹھتے تھے مگر اب تو سخت پہرے لگے ہوئے ہیں اور آگ کے شعلے تاک لگائے ہوئے ہیں ایسے چھوٹ کر آتے ہیں کہ خطاہی نہیں کرتے جلا کر بھسم کردیتے ہیں، اب ہم نہیں کہہ سکتے کہ اس سے حقیقی مراد کیا ہے ؟ اہل زمین کی کوئی برائی چاہی گئی ہے یا ان کے ساتھ ان کے رب کا ارادہ نیکی اور بھلائی کا ہے، خیال کیجئے کہ یہ مسلمان جن کس قدر ادب داں تھے کہ برائی کی اسناد کے لئے کسی فاعل کا ذکر نہیں کیا اور بھلائی کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف کی اور کہا کہ دراصل آسمان کی اس نگرانی اس حفاظت سے کیا مطلب ہے، اسے ہم نہیں جانتے۔ اسی طرح حدیث شریف میں بھی آیا ہے کہ الٰہی تیری طرف سے شر اور برائی نہیں، ستارے اس سے پہلے بھی کبھی کبھی جھڑتے تھے لیکن اس طرح کثرت سے ان کا آگ برسانا قرآن کریم کی حفاظت و صیانت کے باعث ہوا تھا، چناچہ ایک حدیث میں ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ناگہاں ایک ستارہ ٹوٹا اور بڑی روشنی ہوگئی تو آپ نے ہم سے دریافت فرمایا کہ پہلے اسے جھڑتا دیکھ کر تم کیا کہا کرتے تھے ؟ ہم نے کہا حضور ﷺ ہمارا خیال تھا کہ یا تو یہ کسی برے آدمی کے تولد پر ٹوٹتا ہے یا کسی بڑے کی موت پر، آپ نے فرمایا نہیں نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ جب کبھی کسی کام کا آسمان پر فیصلہ کرتا ہے، الخ۔ یہ حدیث پورے طور پر سباء کی تفسیر میں گذر چکی ہے۔ دراصل ستاروں کا بکثرت گرنا، جنات کا ان سے ہلاک ہونا، آسمان کی حفاظت کا بڑھ جانا، ان کا آسمان کی خبروں سے محروم ہوجانا ہی اس امر کا باعث بنا کر یہ نکل کھڑے ہوئے اور انہوں نے چاروں طرف تلاش کردی کہ کیا وجہ ہوئی کہ ہمارا آسمانوں پر جانا موقوف ہوا چناچہ ان میں سے ایک جماعت کا گذر عرب میں ہوا اور یہاں رسول اللہ ﷺ کو صبح کی نماز میں قرآن شریف پڑھتے ہوئے سنا اور سمجھ گئے کہ اس نبی کی بعثت اور اس کلام کا نزول ہی ہماری بندش کا سبب ہے، پس خوش نصیب سمجھدار جن تو مسلمان ہوگئے، باقی جنات کو ایمان نصیب نہ ہوا، سورة احقاف کی آیت (وَاِذْ صَرَفْنَآ اِلَيْكَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ يَسْتَمِعُوْنَ الْقُرْاٰنَ ۚ فَلَمَّا حَضَرُوْهُ قَالُوْٓا اَنْصِتُوْا ۚ فَلَمَّا قُضِيَ وَلَّوْا اِلٰى قَوْمِهِمْ مُّنْذِرِيْنَ 29؀) 46۔ الأحقاف :29) میں اس کا پورا بیان گذر چکا ہے، ستاروں کا ٹوٹنا آسمان کا محفوظ ہوجانا جنات ہی کے لئے نہیں بلکہ انسانوں کے لئے بھی ایک خوفناک علامت تھی، وہ گھبرا رہے تھے اور منتظر تھے کہ دیکھئے نتیجہ کیا ہوتا ہے ؟ اور عموماً انبیاء کی تشریف آوری اور دین اللہ کے اظہار کے وقت ایسا ہوتا بھی تھا، حضرت سدی فرماتے ہیں کہ شیاطین اس سے پہلے آسمانی بیٹھوں میں بیٹھ کر فرشتوں کی آپس کی باتیں اڑا لایا کرتے تھے جب حضور ﷺ پیغمبر بنائے گئے تو ایک رات ان شیاطین پر بڑی شعلہ باری ہوئی جسے دیکھ کر اہل طائف گئے کہ شاید آسمان والے ہلاک ہوگئے انہوں نے دیکھا کہ تابڑ توڑ ستارے ٹوٹ رہے ہیں، شعلے اڑ رہے ہیں اور دور دور تک تیزی کے ساتھ جا رہے ہیں انہوں نے اپنے غلام آزاد کرنے، اپنے جانور راہ اللہ چھوڑنے شروع کردیئے آخر عبد یا لیل بن عمرہ بن عمیر نے ان سے کہا کہ اے طائف والو تم کیوں اپنے مال برباد کر رہے ہو ؟ تم نجوم دیکھو اگر ستاروں کو اپنی اپنی جگہ پاؤ تو سمجھ لو کہ آسمان والے تباہ نہیں ہوئے بلکہ یہ سب کچھ انتظامات صرف ابن ابی کبشہ کے لئے ہو رہے ہیں (یعنی رسول اللہ ﷺ کے لئے) اور اگر تم دیکھو کہ فی الحقیقت ستارے اپنی مقررہ جگہ پر نہیں تو بیشک اہل آسمان کو ہلاک شدہ مان لو، انہوں نے سونگھی اور سونگھ کر بتایا کہ اس کا انقلاب سبب مکہ میں ہے، سات جنات نصیبین کے رہنے والے مکہ پہنچے یہاںحضور ﷺ مسجد حرام میں نماز پڑھا رہے تھے اور قرآن کریم کی تلاوت کر رہے تھے جس سن کر ان کے دل نرم ہوگئے بہت ہی قریب ہو کر قرآن سنا پھر اس کے اثر سے مسلمان ہوگئے اور اپنی قوم کو بھی دعوت اسلام دی، الحمد اللہ ہم نے اس تمام واقعہ کو پورا پورا اپنی کتاب السیرت میں حضور ﷺ کی نبوت کے آغاز کے بیان میں لکھا ہے واللہ اعلم۔

آیت 8 - سورۃ الجن: (وأنا لمسنا السماء فوجدناها ملئت حرسا شديدا وشهبا...) - اردو