سورۃ الجن: آیت 7 - وأنهم ظنوا كما ظننتم أن... - اردو

آیت 7 کی تفسیر, سورۃ الجن

وَأَنَّهُمْ ظَنُّوا۟ كَمَا ظَنَنتُمْ أَن لَّن يَبْعَثَ ٱللَّهُ أَحَدًا

اردو ترجمہ

اور یہ کہ "انسانوں نے بھی وہی گمان کیا جیسا تمہارا گمان تھا کہ اللہ کسی کو رسول بنا کر نہ بھیجے گا"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waannahum thannoo kama thanantum an lan yabAAatha Allahu ahadan

آیت 7 کی تفسیر

وانھم ................ احدا (27 : 7) ” اور یہ کہ انسانوں نے بھی وہی گمان کیا جیسا تمہارا گمان تھا کہ اللہ کسی کو رسول بنا کر نہ بھیجے گا “۔ جن قوم سے گفتگو کرتے ہیں کہ جس طرح بعض انسان جنوں کی پناہ مانگتے تھے اسی طرح وہ بھی یہ گمان رکھتے تھے جس طرح تم گمان رکھتے ہو کہ اللہ رسول نہ بھیجے گا۔ لیکن دیکھ لو اللہ نے تو رسول بھیج دیا اور رسول کو یہ قرآن بھی دے دیا ہے جو رشد وہدایت کا سامان فراہم کررہا ہے یا مفہوم یہ ہے کہ ان کے عقائد یہ تھے جس طرح تمہارے ہیں کہ اللہ قیامت میں کسی کو نہ اٹھائے گا لہٰذا انہوں نے قیامت کے لئے کوئی تیاری نہ کی اور رسول خدا نے جس انجام سے ڈرایا تھا اس کی پرواہ نہ کی کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اللہ کسی کو نہیں اٹھائے گا۔

یہ دونوں ظن و گمان حقیقت کے مطابق نہ تھے۔ یہ جاہلانہ خیالات پر مبنی تھے۔ اور اس پوری کائنات کی حکمت و تخلیق سے بیخبر ی پر مبنی تھے۔ اللہ نے تمام مخلوق کو یوں پیدا کیا ہے کہ اس کے اندر خیر کی صلاحیت بھی تھی اور شر کی صلاحیت بھی تھی۔ (جس طرح اس سورت سے معلوم ہوتا ہے کہ جنوں کو بھی دوہری صلاحیت دی گئی ہے۔ خیر کی بھی اور شر کی بھی ، ہاں ان میں سے بعض نے اپنے آپ کو شر مجسم کرلیا مثلاً ابلیس ، جس نے اپنے آپ کو رحمت خداوندی سے محروم کرلیا اور خالص شرین گیا) اور اللہ تعالیٰ نے رسولوں کو بھیج کر خیر کی معاونت کی۔ رسولوں کا مشن قرار پایا کہ وہ انسانوں کے اندر پائی جانے والی خیر کی صلاحیت کو ابھاریں اور ان کی فطرت میں جو خیر کی استعداد ہے اسے جلا دیں ، لہٰذا یہ عقیدہ بالکل غلط ہے کہ اللہ تعالیٰ رسولوں کو نہ بھیجے گا۔

یہ تو اس صورت میں ہے جب ہم آیت میں بعث سے مراد ” رسولوں کا بھیجنا “ لیں۔ اگر بعث سے مراد آخرت میں اٹھانا ہے تو پھر بھی یہ بات حکمت تخلیق کے خلاف ہے کیونکہ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ انسانوں کی نیکی اور بدی کا حساب و کتاب اس دنیا میں پورا نہیں ہوجاتا۔ لہٰذا اللہ کی حکمت تخلیق اور عدل کے تقاضے کے مطابق بھی ضروری ہے کہ ایسا جہاں ہو جہاں مظلوموں کے ساتھ انصاف کیا جائے ، نیکوکاروں کو انعام اور بدکاروں کو سزا دی جائے اور حساب و کتاب بےباک ہو۔ اور جو جس مقام کا حیات دنیا کا مطابق ، اہل بنتا ہو ، اس میں جائے۔ لہٰذا اس بات کا کوئی موقعہ ومقام نہیں ہے کہ اللہ کسی کو دوبارہ نہیں اٹھائے گا۔ یہ اعتقاد حکمت الٰہیہ کے خلاف ہے۔ عدل و انصاف کے اصولوں کے خلاف ہے۔

چناچہ اس انداز میں جنوں نے اپنی قوم کے غلط خیالات کو درست کرنے کی سعی کی اور قرآن نے یہ بات مشرکین عرب کے غور کے لئے نقل کی کہ جن تو خود اپنے خیالات پر نظرثانی کررہے ہیں تم کیا کررہے ہو۔

اس آخری رسالت کے اثرات اس پوری کائنات پر مرتب ہوگئے ہیں ، کائنات کے اطراف میں قوائے طیبعیہ بھی بدل گئی ہیں۔ زمین و آسمان میں انتظامی تبدیلیاں آگئی ہیں تاکہ وہ اپنی وہ تمام کاروائیاں ترک کردیں جو اس آخری رسالت کے ساتھ متفق نہیں ہیں۔ ہر قسم کی غیب دانی کا دعویٰ ترک کردیں اور یہ کہ وہ اعلان کردیں کہ اس کائنات میں وہ کچھ قوت بھی نہیں رکھتے۔

آیت 7{ وَّاَنَّـہُمْ ظَنُّوْا کَمَا ظَنَنْتُمْ اَنْ لَّنْ یَّـبْعَثَ اللّٰہُ اَحَدًا۔ } ”اور یہ کہ انہوں نے بھی ایسا ہی سمجھا جیسا کہ تم نے سمجھا ہوا ہے کہ اللہ کسی کو ہرگز نہیں اٹھائے گا۔“ اس کا ایک مفہوم تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کو بھی مرنے کے بعد دوبارہ نہیں اٹھائے گا ‘ یعنی بعث بعد الموت کے عقیدے میں کوئی حقیقت نہیں۔ اور دوسرا مفہوم یہ ہے کہ اب اللہ تعالیٰ کسی کو بھی رسول بنا کر نہیں بھیجے گا۔ سورة الاحقاف میں جنات کے تذکرے کے حوالے سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ جنات تورات سے واقف تھے اور وہ اس حقیقت سے بھی آگاہ تھے کہ پچھلے چھ سو برس سے دنیا میں کوئی رسول نہیں آیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضور ﷺ کے درمیان تقریباً چھ سو برس کا زمانہ انسانی تاریخ میں سلسلہ رسالت کے انقطاع کا طویل ترین وقفہ ہے۔ چناچہ اپنی ان معلومات کی بنیاد پر جنات یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ رسالت کا دروازہ اب ہمیشہ کے لیے بند ہوچکا ہے اور یہ کہ اب دنیا میں کوئی رسول نہیں آئے گا۔

آیت 7 - سورۃ الجن: (وأنهم ظنوا كما ظننتم أن لن يبعث الله أحدا...) - اردو