سورۃ الجن: آیت 4 - وأنه كان يقول سفيهنا على... - اردو

آیت 4 کی تفسیر, سورۃ الجن

وَأَنَّهُۥ كَانَ يَقُولُ سَفِيهُنَا عَلَى ٱللَّهِ شَطَطًا

اردو ترجمہ

اور یہ کہ "ہمارے نادان لوگ اللہ کے بارے میں بہت خلاف حق باتیں کہتے رہے ہیں"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waannahu kana yaqoolu safeehuna AAala Allahi shatatan

آیت 4 کی تفسیر

وانہ کان ........................ کذبا (27 : 5) ” اور یہ کہ ہمارے نادان لوگ اللہ کے بارے میں بہت خلاف حق باتیں کہتے رہتے ہیں “ اور یہ کہ ” ہم نے سمجھا تھا کہ انسان اور جن کبھی خدا کے بارے میں جھوٹ نہیں بول سکتے “۔ جن اس بات کو دہرا رہے کہ ہمارے بعض بیوقوف خدا کے بارے میں خلاف حق تصورات رکھتے تھے اور اللہ کے لئے بیوی اور اولاد کا اعتقاد رکھتے تھے۔ اور قرآن کریم سننے کے بعد ان پر یہ بات واضح ہوگئی کہ ان کے یہ عقائد درست نہ تھے اور جنوں میں سے جو لوگ اس بات کے قائل تھے وہ بڑے جاہل اور احمق تھے۔ اس قدر جاہل کہ وہ یہ تصور کرتے تھے کہ انسانوں اور جنوں میں سے کوئی شخص اللہ پر جھوٹ کیسے باندھ سکتا ہے ؟ وہ یہ سمجھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ پر کوئی جھوٹ نہیں باندھ سکتا تھا۔ اس لئے جب بعض احمقوں نے یہ عقیدہ اختیار کرلیا کہ اللہ کی بیوی اور اولاد ہے تو انہوں نے بھی اس بات کو مان لیا ، کیونکہ وہ یہ سمجھتے تھے اللہ پر کوئی افتراء کیسے باندھ سکتا ہے ۔ لیکن یہی شعور ان کے لئے موجب ایمان بن گیا کیونکہ ان کے دل میں یہ پاک خیات تھا۔ ادھر کسی نے اللہ پر جھوٹ باندھا نہیں ادھر اللہ نے اس کی گردن دبوچی نہیں۔ ان جنوں پر گمراہی کا یہ غبار ان کی جہالت کی وجہ سے آگیا تھا۔ جونہی ان کو حق ملا انہوں نے گمراہی کے غبار کو جھاڑ دیا۔ حقیقت کو پالیا۔ اصل حقیقت کو چکھ لیا اور وہ بول اٹھے :

انا سمعنا ........................ ولدا (27 : 1 تا 3) ” ہم نے ایک بڑا عجیب قرآن سنا ہے جو راہ راست کی طرف راہنمائی کرتا ہے اس لئے ہم اس پر ایمان لے آئے ہیں اور اب ہم ہرگز اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے “۔ ” اور یہ کہ ہمارے رب کی شان بہت اعلیٰ وارفع ہے اس نے کسی کو بیوی یا بیٹا نہیں بنایا ہے “۔

اور یہ جھاڑ اور صفائی اس وجہ سے ان کو نصیب ہوئی کہ وہ حق تک پہنچ گئے اور یہ حقیقت اس قابل تھی جس پر کبرائے قریش کے اکثر بر خود غلط دماغ اس پر غور کرتے ، جو یہ گمان کرتے تھے کہ اللہ کی بیوی ہے اور بیٹیاں ہیں اور اس حقیقت سے ان کے دلوں میں خدا خوفی اور احتیاط پیدا ہوجاتی اور وہ اس پیغام کو سمجھنے کی کوشش کرتے جو حضرت محمد ﷺ ان کے سامنے پیش کررہے تھے۔ اور کبرائے قریش کے جو احمقانہ عقائد تھے ، ان کی صداقت میں شک وشبہ پیدا ہوجاتا ، لیکن افسوس کہ ایسا نہ ہوا۔ اس قصے کو یہاں لانے کا مقصد بھی یہ تھا کہ کبرائے قریش کے عقائد کی تردید کی جائے۔ قرآن کریم اور کبرائے قریش کے درمیان جو نظریاتی جنگ برپا تھی ، یہ سورت اس کی ایک جھڑپ کا نمونہ تھی۔ اور یہ سورت دراصل ان بیماریوں کا ایک دیرپا علاج کررہی تھی جو زمانہ جاہلیت سے باقی رہ گئی تھیں۔ اور ابھی تک لوگوں کے دلوں پر چھارہی تھیں۔ لوگ سادہ لوح تھے اور وہ ان عقائد سے بری الذمہ تھے ، لیکن گمراہ اور برخود غلط قیادت کی طرف سے ان کو اسی راہ پر چلایا جارہا تھا اور زمانہ جاہلیت کے خرافات کو دین بنا کر ان کے سامنے پیش کیا جاتا تھا۔

آیت 4{ وَّاَنَّـہٗ کَانَ یَـقُوْلُ سَفِیْہُنَا عَلَی اللّٰہِ شَطَطًا۔ } ”اور یقینا ہمارا بیوقوف سردار اللہ کے بارے میں خلافِ حقیقت باتیں کہتا رہا ہے۔“ اپنے ”بیوقوف“ سے ان کا اشارہ اپنے سب سے بڑے جن عزازیل ابلیس کی طرف ہے۔

آیت 4 - سورۃ الجن: (وأنه كان يقول سفيهنا على الله شططا...) - اردو